بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1446ھ 27 اپریل 2025 ء

بینات

 
 

انسان کے فکری اِرتقا میں اسلامی عقائد کی کارفرمائی

انسان کے فکری اِرتقا میں اسلامی عقائد کی کارفرمائی

 

1 -  ایمان وعمل صالح

دینداری کا جذبہ انسان کی ایک طبعی تحریک ہے، جس طرح انسان اپنے جسم کی تربیت اور اس کے دوام وبقا کے متعلق طبیعی طور پر چند ’’ضرورتوں‘‘ کا احساس کرتا ہے، اسی طرح یہ بھی اس کا طبیعی وجدان ہے کہ اس کائنات سے بالاتر ایک قوت موجود ہے، جس کی قدرت وطاقت کے سامنے کائنات کی تمام قوتیں سرنگوں ہیں۔ گردو پیش کی موجودات، ان کے باہمی ربط، اور خاصیتوں کو دیکھ کر اپنے اپنے علم وشعور کے مطابق انسانوں کو یہ بھی اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ طاقت محض ایک بے علم بے ارادہ قوت ہی نہیں ہے، بلکہ علم وحکمت، ارادہ واختیار اور تصرف کی صفات کی بھی مالک ہے، جس نے اشیاء اور ان کی خاصیتوں کے درمیان، اسباب اور ان کے نتائج کے درمیان ربط قائم کیا ہے اور ایک ایسے حکیمانہ طریقہ پر موجودات کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط کیا ہے جو انسانی عقل وشعور کے لیے ہمیشہ حیرت اور تعجب کا سبب رہا ہے۔

تدیُّن کے محرکات

ایک علیم وحکیم، قادر وتوانا، صاحبِ ارادہ اور فاعلِ مختار ہستی کے متعلق انسان کے اس شعور ووِجدان ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ جب بھی وہ کائنات کی قوتوں کے سامنے اپنی بے بسی کو محسوس کرتا ہے یا سلسلۂ اسباب وروابط کے مقابلہ میں خود کو عاجز ومجبور پاتا ہے اور خود اس کی اپنی ہستی خطرات میں گھرجاتی ہے تو اس کی غفلتوں کے وہ تمام پردے اُٹھ جاتے ہیں جو نفسانی خواہشات اور جسمانی ضرورتوں کے تقاضوں نے اس کے اس فطری وجدان پر ڈال دیئے تھے، وہ ان خوفناک قوتوں کے مقابلہ میں اپنے وجود وبقا کے لیے اُسی قادر وتوانا ذات کی طرف متوجہ ہوجاتاہے، اُس کے سامنے اپنی مجبوری وعاجزی کا اظہار کرتاہے اور اسی کو اپنی مدد کے لیے پکارتا ہے۔ قرآن حکیم نے اسی فطرتِ انسانی کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایاہے:
’’جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو اور وہ خوشگوار ہوا کے جھونکوں کےساتھ لوگوں کو لے کر چلتی ہیں اور وہ اس پر خوش ہوجاتے ہیں تو اچانک تیز وتند ہوائیں ان کشتیوں کو گھیر لیتی ہیں۔ اسی کے ساتھ ہر طرف سے سمندر کی موجیں بھی اُن کو گھیر لیتی ہیں اور وہ یقین کرنے لگتے ہیں کہ اب وہ گھر گئے تو ’’اللہ‘‘ کو پکارتے ہیں، اسی کے لیے دین کو خالص کرتے ہوئے کہ اے اللہ! اگر اس مصیبت سے آپ نے نجات دے دی تو ہم ضرور شکر گزار بندوں میں شامل ہوجائیں گے۔‘‘         (سورۂ یونس)
دینداری کی اس طبعی تحریک نے ایک طرف کبھی انسان کو نہروں، پہاڑوں، دریاؤں اور درختوں کے سامنے سرجھکانے کی طرف مائل کیا اور کبھی حیوانات کی طرف اور کبھی غیر معمولی طاقتوں کے مالک انسانوں اور ارواح میں اس قدرتِ مطلق کی جستجو کے لیے اُبھارا جس کو وہ اپنا اور اپنے گرد وپیش کی چیزوں کا خالق ومربی سمجھتا تھا۔ دوسری طرف مذاہب اس کو خدا، رسول، آسمانی کتابوں پر ایمان لانے کی دعوت دیتے رہے، روزِ حساب، جزا وسزا اور موت کے بعد کی زندگی کا یقین دلاتے رہے، لیکن انسانیت اپنے تاریک دوروں میں عقل وتجربہ کی انہی متضاد راہوں میں بھٹکتی رہی جو ہر دور میں اپنی سمت بدل لیتی تھیں۔
ایک طرف انسان تجربہ اور مشاہدہ کے تحت بدلتے ہوئے نظریات اور نتائج کے درمیان اپنے علم وعمل کی راہ بنانے کی کوشش کررہا تھا اور دوسری طرف نام نہاد مذہبی نمائندوں نے اس کے گرد خود ساختہ آہنی دیواریں قائم کردی تھیں۔ جسمانی ضروریات اور خواہشات کی تنظیم کے نام پر صرف حکومت اور سیاست ہی نے اس کی مادی زندگی کی آزادیوں کو نہیں چھینا، بلکہ مذہب کے جھوٹے دعویداروں نے بھی انسان اور اس کی وِجدانی حقیقت یعنی بندے اور اس کے معبود کے درمیان مداخلت جاری رکھی۔ وہ خالق اور مخلوق کے درمیان ایسے واسطہ بن بیٹھے، جو چاہتے تو لوگوں کے لیے خدا کی طرف لوٹنے کا دروازہ کھولتے اور چاہتے تو اس وقت تک اس دروازہ کو بند رکھتے جب تک وہ خدا تک پہنچانے کی قیمت وصول نہ کرلیں۔

دینی وفکری آزادی

اسلام نے انسان کی اس کھوئی ہوئی آزادی کو واپس دلایا۔ بدلتے ہوئے نظریات اور غیر یقینی نتیجوں کی بھول بھلیاں سے اُسے نکالا۔ مذہبی توہمات اور مذہبی اجارہ داروں کی خودساختہ اِجارہ داری کو ختم کیا۔ خدا اور بندوں کے درمیان اِن جھوٹے واسطوں کو رد کیا، اس نے انسانیت کو ایک صاف ستھرے اور روشن علم ویقین کا سرمایہ دیا، اس نے صاف صاف اس حقیقت کا اعلان کیا:خدا اپنے بندوں سے قریب ہے، وہ پکارنے والوں کی پکار سنتا ہے، اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتاہے، اور ان کی لغزشوں سے درگزر کرتاہے۔ گناہوں سے توبہ اور عبادت کی قبولیت کے لیے کسی واسطہ کی ضرورت نہیں ہے۔
اس عقیدہ ویقین نے انسان کی عزت وشرف کی حفاظت کی اور اس کو غیر اللہ کے سامنے بندگی وعاجزی سے بچایا، اس کی عقل وفکر کو بلند اور روشن کیا، اور عمل کے لیے علم ویقین کی مضبوط بنیادیں قائم کیں۔ اس کے مستقبل کے لیے امید وآرزو کے دروازے کھلے۔ اسلام نے بتلایا کہ آخری اور واقعی حقیقت پر ایمان اور اس کے صحیح علم ویقین ہی پر صحیح عمل کی بنیادیں قائم ہوتی ہیں اور صحیح عمل ہی پر انسان کی عظمت وکرامت اور اس کی زندگی کی کامیابی اور اس کے مستقبل کی فلاح موقوف ہے۔ یہ ایمان یا علمِ صحیح ‘عقل وشعور کی تجربہ گاہوں کی پیداوار نہیں، اس کا سرچشمہ اس خالقِ کائنات کی آسمانی تعلیم ہے جس نے کائنات کو لامحدود اَسرار کا خزانہ بنایا ہے۔ تجربات ومشاہداتِ عقل کا وہ طویل سفر جو انسان نے زمانہ کےساتھ طے کیا ہے اور ان تجربوں کے ناپائیدار نتیجے، نورِ یقین سے محروم، عقل وفکر کی نامرادی کا سب سے زیادہ روشن ثبوت ہیں۔ قرآن کہتا ہے:
’’زمانہ کی قسم! انسان خسارہ ہی میں رہا ہے، بجز ان لوگوں کے جنہوں نے ایمان قبول کیا اور (ایمانی تقاضے کے مطابق) نیک کام کیے۔‘‘   (سورۂ عصر)
ایمان وعمل کے متعلق اسلام کے ان عقیدوں نے صرف مسلمانوں ہی کو متاثر نہیں کیا، مجموعی طور پر پورا انسانی ذہن وفکر ان سے متاثر ہوا۔ دوسرے مذاہب کے لوگوں نے بھی اپنے بہت سے مذہبی توہمات، مذہبی اجارہ داروں کی گرفت، راہبوں، پاپاؤں اور اوتاروں کی غلامی سے آزادی حاصل کی، اس طرح علم اور یقینِ محکم کی روشنی میں انسانی فکر وعمل کی ترقی کے لیے نئی اور کشادہ راہیں پیدا ہوئیں۔

2 -توحید ومساوات

عمل کا مدار اور مرکزیت

انسانی افراد اور جماعتوں کی نفسیات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی اعمال کے صدور کا مدار قوتِ اِرادی پر ہوتاہے اور اِرادہ بہت بڑی حد تک عقل کے تابع ہے۔ جب عقل کسی چیز کو قبول کر لیتی ہے اور اس کو یقین حاصل ہوجاتاہے تو انسان کا ارادہ اس چیز کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ اس طرح یہ یقین ہی دراصل وہ تحریکِ عمل ہے جس کی وجہ سے عمل ظہور میں آتا ہے اور کسی چیز کو موجود یا باقی رکھتاہے۔
عمل کے مفید اور نتیجہ بخش ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ یقین میں مرکزیت اور اس کے نتیجہ میں اعمال کے اندر یکسانیت موجود ہو، یقین کی لامرکزیت اور اعمال کے انتشار کی صورت میں زندگی کے اندر تنظیم ہرگز پیدا نہیں ہوتی، نہ اعمال کے پائیدار اور مؤثر نتائج مرتب ہوتے ہیں اور نہ زندگی کی آسائشوں سے پورا پورا فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے۔ طبیعت اور اس کے تقاضے چونکہ وقت، جگہ اور حالات کے لحاظ سے بدلتے رہتے ہیں، اس لیے طبیعی تقاضے نہ انفرادی عمل میں مرکزیت اور یکسانیت پیدا کرسکتے ہیں اور نہ اجتماعی اعمال میں تنظیم پیدا کرسکتے ہیں۔فرد اور جماعتوں کے اعمال میں اسی مرکزیت کو پیدا کرنے کے لیے اسلام نے انسان کو توحید کا عقیدہ دیا ہے۔ توحید سے ایمان ویقین میں مرکزیت پیدا ہوتی ہے اور یہ مرکزیت ہی اس کے اعمال میں تنظیم، یک جہتی اور یکسانیت کا سبب بنتی ہے۔

توحید

توحید کا عقیدہ اگرچہ آسمانی مذاہب کا ایک مشترک عقیدہ تھا، لیکن ان مذاہب کی پیروی کرنے والوں کے ذہن میں اس عقیدہ نے عجیب وغریب اور متضاد شکلیں اختیار کرلی تھیں۔ توحید کی تفسیر وتشریح کرتے ہوئے کبھی اُس ایک ذات کو تمام صفات سے خالی اور معرا ومعطل بتایاگیا اور کبھی اس کی صفات کو یا اُن صفات کی صورتِ ظہور کو مستقل آلہہ (معبود) بنادیا گیا۔ کبھی اس ایک ذات کو متعدد اجزاء وحصص میں تقسیم کردیاگیا اور کبھی متعدد حصص واجزاء کو ملا کر ایک مرکب ذات تیار کی گئی جو کبھی باپ، ماں اور بیٹا قرار دی گئی اور کبھی باپ، بیٹا اور روح القدس۔ خاتمِ انبیاء  صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے اسلام نے ’’عقیدۂ توحید‘‘ کو توحید کی ان پریشان تعبیروں سے یکسر پاک کیا اور انسانی ذہن سے وہ تمام توہمات دور کیے جو اہلِ مذاہب کے روحانی علماء اور مذہبی پیشواؤں نے پیدا کر دیئے تھے، قرآن نے اعلان کیا کہ:
’’اللہ کی جامع الصفات ذات ایک (اور اکیلی) ہے، اللہ کی ذات ہر چیز سے بے نیاز ہے، نہ اس سے کوئی پیدا ہوا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوئی، اور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر ہے۔‘‘ (سورۂ اِخلاص)
یہی توحیدِ خالص‘ درحقیقت انسانی اعمال کی بنیاد بن سکتی ہے اور یہی اس کی موت اور زندگی کا نصب العین۔ قرآن حکیم کا ارشاد ہے:
’’آپ اعلان کر دیجئے کہ میری نماز اور میری عبادت، میرا جینا اور میرا مرنا صرف اللہ ہی کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا مالک اور پروردگار ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کا حکم مجھے دیاگیا ہے اور میں سب سے پہلا سرجھکانے والا یعنی مسلمان ہوں۔‘‘
اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اعلان کرتے ہوئے قرآن کریم کا فرمان ہے: 
’’میں نے اپنا رخ ٹھیک ٹھیک اس ذات کی طرف پھیر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، میں کسی طرح بھی مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘
اسلامی عقیدۂ توحید کا مفہوم صرف یہی نہیں ہے کہ اللہ کی ایک اور اکیلی ذات کے سوا کوئی مستحقِ عبادت نہیں، بلکہ اس عقیدہ کا مقصد یہ بھی ہے کہ اللہ کے سوا ئے نفع اور نقصان پہنچانے کی طاقت بھی کسی کو حاصل نہیں ہے۔ عزت وعظمت، دولت وحکومت، موت وزندگی اور نفع وضرر کی مالک بھی وہی ایک ذات ہے۔

مساوات

نوعِ انسانی کے درمیان اعتقادی وحدت اور مرکزیت پیدا کرنے کے ساتھ ہی اسلام نے ان میں حقوق کی یکسانیت اور مساوات کے اعلان کے ذریعہ جماعتی تنظیم اور یک جہتی کی بنیاد بھی قائم کی، تاکہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ہم آہنگی پیدا ہو۔ مذہبی رہنماؤں اور حکمرانوں نے جو مادی قوت واختیار کے مالک ہوتے تھے، نوعِ انسانی کو مختلف طبقات اور گروہوں میں تقسیم کردیا تھا۔ رنگ، نسل اور خون کے فرق پر اُن کے حقوق تقسیم کر دیئے تھے۔ ان میں سے ایک گروہ رنگ ونسل کی وجہ سے خود کو خدا کی طرف سے قوت وحکومت کا مالک سمجھتا تھا اور دوسرے لوگ اس کی غلامی و محکومی کی مبارک میراث کے نسلی طور پر وارث چلے آتے تھے۔ مذہبی رہنما مذہبی احکام کے مالک سمجھے جاتے تھے، اپنی خواہش سے جس چیز کو چاہتے حلال کرتے اور جس کو چاہتے حرام قرار دے دیتے، اور اپنی مرضی سے خدا کے غضب اور رضامندی کو تقسیم کرتے رہتے تھے۔ اسلام نے اس فکری اور عملی شرک کا خاتمہ کیا، اس نے انسانوں کے درمیان مساوات کا اعلان کرتے ہوئے ہدایت کی کہ:
’’اے انسانو! ہم نے تم کو مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تم کو صرف اس لیے قبیلہ اور گروہوں میں بنایاہے، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو، تم میں سے زیادہ شریف اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں زیادہ متقی ہے۔‘‘   (قرآن)
رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا:
’’لوگو! تمہارا پروردگار بھی ایک ہے اور تمہارا (پہلا) باپ بھی ایک ہے۔ تم سب آدم کی نسل سے ہو اور آدم مٹی سے بنا ہے۔ کسی بھی عربی کو عجمی پر فضیلت نہیں ہے، ہاں! پرہیزگاری کی وجہ سے فضیلت ہے، (جو جتنا زیادہ پرہیزگار ہے اتنا ہی افضل ہے)۔‘‘
ایک اور موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’انسان کنگھی کے دانتوں کی طرح سب برابر ہیں۔‘‘
انسانی حقوق کی اس مساوات نے جو ’’ایک پروردگار‘‘ کی مخلوق اور ’’ایک باپ کی‘‘ نسل ہونے کے عقیدہ کا نتیجہ تھی‘ انسانوں کے درمیان ربط اور تعلق کو زیادہ مستحکم اور مساوی بنیادوں پر قائم کیا اور ان کے فرائض وواجبات میں یکسانیت پیدا کرکے ان میں ایک محکم وحدت ومرکزیت اور تنظیم قائم کی۔

مساواتِ حقوق کے نتائج

عقیدۂ توحید اور فرائض وحقوق کی تحدید ومساوات نے انسانی عظمت ورفعت تک پہنچنے کے لیے راہ ہموار کردی۔ نسلی اور طبقاتی تقسیموں کو مٹاکر روحانی اور عملی قدروں کو عزت وشرف کا معیار ٹھہرایا، اور کسی امتیاز کے بغیر ہر فرد کے دل میں اس کمالِ انسانی کو حاصل کرنے کی تحریک اور عزم وولولہ پیدا کردیا جو انسانی زندگی اور اس کی جد وجہد کا حقیقی نصب العین ہے۔ اسلام کے اعلان کیے ہوئے اس عقیدہ نے کہ: ’’حکم خدا کے سوا کسی کا نہیں ہے،اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی پرستش نہ کرو۔‘‘ ایک طرف حکومت اور قانون پر انسانوں کے غیر مسئول اختیار کو محدود کیا اور دوسری طرف مذہبی علماء سے حلال وحرام کے اختیار کو چھین کر ان کو اللہ اور رسول( صلی اللہ علیہ وسلم  ) کے احکام کا محض مبلغ اور شارح قراردیا۔اسی کا نتیجہ تھا کہ اسلام کے سب سے پہلے خلیفہ نے حکومت کا اختیار سنبھالنے کے بعد ہی اعلان کیاکہ:
’’مجھے تم پر والی بنایاگیا ہے، مگر میں تم میں سب سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر میں اچھے کام کروں تو تم میری مدد کرو اور اگر برے کام کروں تو مجھے راہِ راست پر لاؤ۔‘‘
اور اسی کا نتیجہ تھا کہ اللہ کی کتاب اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم  ) کے ارشادات سے احکام کی تشریح کرنے والوں نے مذہبی احکام کی تعبیر وتشریح کے سلسلہ میں اپنے کسی شخصی اختیار کا کبھی دعویٰ نہیں کیا۔ علمِ کتاب وسنت اور استخراجِ احکام واجتہاد کے باوجود ان کا یہ عقیدہ تھا کہ احکام کی تفصیل وتشریح میں غلطی ناممکن نہیں ہے۔ جہاں تک ان کے علم اور جد وجہد کا تعلق ہے وہ صحیح نتائج تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ان اجتہادی وتشریحی مسائل کو کتاب وسنت کے صریح احکام کی سی قطعیت حاصل نہیں ہے۔سلامی توحید ومساوات کی یہ واضح شاہراہ تھی جس نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ روئے زمین کے انسانوں کو اس تنگ دائرہ سے نجات دی، جو مذہب وحکومت کی جابر قوتوں نے ان کے گرد قائم کردیا تھا۔ اس شاہراہ پر چل کر نہ صرف مسلمانوں نے دنیا کی نئی اور ترقی پذیر تنظیم قائم کی، بلکہ دنیا کی تمام قوموں اور آنے والی نسلوں کے لیے کمال اور ترقی تک پہنچنے کی راہیں کھول دیں۔ کیا یہ وحدتِ یقین اور عملی مساوات کی مرکزیت آج بھی نوعِ انسانی کے لیے مشعلِ راہ نہیں ہے؟ قوموں کے باہمی تعاون اور بقائے باہمی کے لیے کیا اس سے زیادہ بہتر اور پائیدار کوئی اور بنیاد ہوسکتی ہے؟

3 -حریت واستقلال

انسانی آزادی اور اس کی حدود

حریت واستقلال یعنی انسانی آزادی اور اس کے مستقل ہونے پر دو حیثیتوں سے بحث کی جاتی ہے: ایک انسان کے ارادہ اور فعل کی آزادی، یعنی یہ کہ انسان اپنی اصل فطرت کے لحاظ سے آزاد اور مختار پیدا کیا گیا ہے یا وہ کسی بالا تر طاقت اور اس کی قدرت کے تحت اپنے ارادہ وافعال میں مسلوب الاختیار اور مجبورِ محض ہے۔ علوم وفنون کی اصطلاح میں یہ بحث مسئلہ ’’تقدیر‘‘ یا ’’جبر واختیار‘‘ کی بحث کہی جاتی ہے اور علمِ عقائد وکلام کی مشکل ترین بحثوں میں شمار کی جاتی ہے۔ اس مسئلہ میں اسلام کا نقطۂ نظر بالکل واضح ہے۔ قرآنِ حکیم اور احادیثِ نبویہ میں صاف طور پر اعلان کیاگیاہے: اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ومختارِ مطلق ہے، انسانی ارادہ اور افعال بھی اسی کی قدرت کے تحت داخل اور اسی کی مشیت کے تابع ہیں۔ کوئی چیز اللہ کی مشیت کے بغیر حرکت نہیں کرسکتی، لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ انسان بھی نباتات وجمادات اور دوسری بے جان چیزوں کی طرح بے اختیار ومجبورِ محض ہے، بلکہ ایک محدود دائرہ میں جو ’’اختیار‘‘ اس کو دیاگیاہے اس میں اور جتنی قوتیں اس کو دی گئی ہیں ان کے استعمال میں کوئی مداخلت عموماً نہیں ہوتی۔ خیر وشر اور طاعت ومعصیت کی دوراہوں میں سے جب وہ کسی ایک راہ کو-خواہ خیر ہو خواہ شر- اپنی خواہش وارادہ کے تحت اختیار کرلیتاہے تو اس کی قدرت اس کو دے دی جاتی ہے اور اسباب اس کے ارادہ کے موافق کر دیئے جاتے ہیں اور اس کے مطابق افعال اس سے سرزد ہوتے ہیں اور اسی اختیار پر دنیوی واُخروی جزا وسزا کا مدار ہے۔
غرض انسان کی اسی محدود آزادی اور دیئے ہوئے اختیار پر اس کی تمام ذمہ داریاں موقوف ہیں۔ اسی دائرہ میں اس کی آزمائش ہوتی ہے، اس پر ذمہ داریاں عائد کی جاتی ہیں، مکلف بنایاجاتاہے اور اس سے مطالبات کیے جاتے ہیں۔ اسی محدود اختیار وارادہ کی وجہ سے اس کی ہدایت ورہنمائی کے لیے دین وشریعت، کتابیں اور پیغمبر بھیجے گئے ہیں۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ:
’’اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ نَّبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنٰہُ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا اِنَّا ہَدَیْنٰہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا‘‘
’’ہم نے انسان کو ایک مخلوط (اور مرد وعورت کے مرکب) پانی سے پیدا کیا، تاکہ ہم اس کو آزمائیں (اسی لیے) ہم نے اس کو سننے اور دیکھنے (سوچنے اور سمجھنے) والا بنایا، ہم ہی نے اس کو راستہ دکھایا، اب وہ شکر گزار بنے چاہے ناشکرا۔‘‘
اور فرمایا: 
’’اَلَمْ نَجْعَلْ لَّہٗ عَیْنَیْنِ  وَلِسَانًا وَّشَفَتَیْنِ  وَہَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ ۔‘‘
’’کیا ہم نے اس کے دو آنکھیں (ایک) زبان اور دو ہونٹ نہیں بنائے؟ اور ہم نے اس کو دونوں کھلے ہوئے راستے (اچھائی اور برائی) بتلادیئے۔‘‘
ایک اور جگہ ارشاد ہے: 
’’وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىہَا فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰىہَا‘‘
’’ نفس انسانی کی قسم اور اس کو ٹھیک ٹھیک (موزوں) بنانے کی قسم! پھر اس کو اس کی بدکاری اور پرہیزگاری سمجھادی۔‘‘
غرض اپنی فطری قوتوں کے لحاظ سے انسان کی اسی محدود آزادی اور اختیار پر دین، شریعت اور قانون کی ذمہ داری اور جزا وسزا کا مدار ہے۔ اس کی ارادی اور اختیاری زندگی کا تمام ڈھانچہ ’’اسی حریت‘‘ اور ’’استقلال‘‘ کی بنیادوں پر قائم ہے۔ حریت اور استقلال کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ فرد کی شہری یا جماعتی آزادی کی حدیں کیا ہیں؟ جماعت کو افراد پر کس حد تک اختیار حاصل ہے؟ اور افراد اپنے افعال میں کس حد تک آزاد ومختار ہیں؟ اس لحاظ سے سوال علم الاجتماع اور علم السیاست کا ایک علمی وعملی مسئلہ بن جاتاہے اور نئے دور کے تمام نزاعی مسائل پر اس کا بڑا گہرا اثر ہے۔ 

تاریخی سوال

انسان کی مجلس اور سیاسی آزادی کی یہ بحث کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ اتناہی پرانا سوال ہے جتنی کہ انسان کی تمدنی اور اجتماعی تاریخ قدیم ہے۔ انسان اپنی نفسیاتی اور طبعی ساخت اور ضروریات کی وجہ سے اپنی نوع کے بہت سے افراد کے ساتھ مل کر رہنے پر مجبور ہے۔ یہ ’’ضرورت‘‘ ایک ایسے نظام کی محتاج ہے جس میں افراد کی عملی حدیں مقرر ہوں اور ایک ایسی قوت بھی موجود ہو جو افراد کو ان مقررہ حدوں سے نہ گزرنے دے۔ آزادی اور اقتدار کی یہ کش مکش ہی دراصل اس اہم سوال کا منشا ہے کہ فرد اور جماعت کے باہمی تعلقات کن خطوط پر قائم ہوں۔ افراد کے حقوق اور جماعتی اختیار کی حدیں کیا مقرر کی جائیں؟ انسانی تمدن واجتماع کی تاریخ قدیم ترین زمانہ سے انہیں منصفانہ حدود کو تلاش کررہی ہے۔ کبھی حکمراں قوت کو اختیارات کا سرچشمہ سمجھ کر افرادکو اس کے ظلم اور زیادتی سے بچانے کے لیے افراد کے حقوق مقرر کیے جاتے ہیں اور کبھی افراد یعنی جمہور کو اختیارات کا مالک بناکر حکمراں طاقت کی نوعیت، تنظیم اور ساخت اوراس کے اختیارات کی صورتیں اور حدیں مقرر کی جاتی ہیں۔ انہیں تجربات نے انسان کو ’’حکومتِ خود اختیاری‘‘ کے نظریہ تک پہنچایا ہے، یعنی افراد کی اپنی مرضی سے خود اپنے اوپر حکومت۔

حدود وحقوق کا تحفظ

اس نظریہ کے تحت افراد اور حکومت یا جماعت کے درمیان حد بندی کے مسئلہ کو ختم ہوجانا چاہیے تھا، لیکن یہ تجربہ بھی اس مشکل کا حل تلاش نہ کرسکا۔ اختیارات کو استعمال کرنے والے ادارے اور زیرِ اختیار افراد کے مفاد چونکہ ہمیشہ متصادم ہوتے ہیں، اس لیے افراد کی آزادی اور حقوق کا مسئلہ پھر کھڑا ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ حکمراں اکثریت اور اقلیت کا سوال بھی سامنے آتاہے۔ اکثریت کی صرف عملی زیادتیوں کے خلاف ہی نہیں، اس کے ذہنی اور فکری استبداد کے خلاف بھی تحفظ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، جیساکہ دنیا کے متعدد حصوں میں آج یہ ضرورت بڑی شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ آج بھی یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ انفرادی آزادی اور جماعت کے اختیارات کے درمیان کس طرح مطابقت پیدا کی جائے؟ اور کہاں ان کی حدیں مقرر کی جائیں؟ اور کمزور لوگوں کو کس طرح طاقتور لوگوں کے سیاسی اور فکری استبداد سے محفوظ رکھا جائے؟
ان مشکلات کے حل کے لیے ’’نئے مفکرین‘‘ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ لوگوں کے افعال پر چند قواعد وضوابط کے ذریعہ پابندیاں عائد کرنا ضروری ہے۔ یہ قواعد وضوابط قانون کے تحت اور رائے عامہ کے ذریعہ بنائے جائیں۔ بالفاظِ دیگر چند نبیادی اصول کے ذریعہ افراد کے فکر اور عمل کو ایک خاص رخ پر موڑنا اور قانون یا رائے عامہ کے ذریعہ ان پر پابندیاں عائد کرنا اجتماع اور نظم کی بنیادی ضرورت ہے اور افراد کی آزادی اور جماعت یا حکومت کے اختیارات کے درمیان حدیں قائم کرنے کے لیے یہی رہنما اصول ہے۔
یہ بنیادی اصول کیونکر وضع کیے جائیں؟ ان کی نوعیت کیا ہو؟ شخصی اور طبقاتی رائے، جذبات وخواہشات، پسندناپسند اور ان مقامی رسم ورواج سے بلند ہوکر (جو لوگوں کی فطرتِ ثانیہ بن جاتے ہیں) محض عادلانہ انسانی منافع اور منصفانہ مصالح کو ان اصول میں کس طرح پیش نظر رکھا جائے؟ کون ان کو وضع کرے؟ اور ’’حکمراں ادارہ‘‘ کی تشکیل سے پہلے کونسی قوت ان کو عمل میں لائے؟ ان سوالات کاکوئی محفوظ اور قابلِ اطمینان حل ابھی تک دریافت نہیں کیا جاسکا۔

اسلامی حل

اسلام نے اجتماعِ انسانی کی اس مشکل کو نہایت حکیمانہ انداز میں حل کیا ہے۔ اس نے افراد کے اس حق کو تسلیم نہیں کیا کہ وہ خود اپنی پسند سے اپنی فکری اور عملی رہنمائی کے لیے بنیادی اصول مقرر کریں یا خود اپنی آزاد مرضی سے جس طرح چاہیں اپنے اوپر حکومت قائم کریں اور جہاں چاہیں فرد اور جماعت کے باہمی تعلق کی حدیں قائم کریں، اس لیے کہ انسان اپنی ذاتیات سے الگ نہیں ہوسکتا۔ اپنی پسند، اپنی شخصیت اور گردوپیش کے اثرات سے آزاد نہیں ہوسکتا۔ اپنی اصل فطرت کے تنوع کے لحاظ سے بھی اور شخصی خواہشات ومفادات کے اختلاف وتضاد کی بنا پر بھی وہ ایسے اصول وضع کرنے کے لیے نہ صرف یہ کہ موزوں نہیں ہے جو پوری انسانی وحدت کے لیے یکساں فائدہ مندہوں، بلکہ یہ اس کے لیے ممکن ہی نہیں ہے، اس لیے کہ اپنی شخصیت سے کبھی الگ نہیں ہوسکتا۔اسلام نے انسانی اجتماع کے لیے چند بنیادی اصول ’’مالک الملک‘‘ اور ’’احکم الحاکمین‘‘ کے بتلائے ہوئے مقرر کیے جو ان تمام نقائص سے پاک وبرتر ہے۔ اسی خالقِ کائنات کی رہنمائی سے افراد کے فکر وعمل کی سمتیں مقرر کیں۔ ایمان ویقین کی قوت کو ان اصول اور پابندیوں کا نگران بنایا۔ افراد کے حقوق اور فرد وجماعت کے باہمی تعلق کی حد بندی کی اور اس کے بعد اعلان کردیا کہ:
’’جو کوئی اللہ کی مقرر کی ہوئی ان حدوں سے تجاوز کرتاہے وہ ظالم ہے۔‘‘
’’بنیادی اصول‘‘ کی اس ایک بالادستی کو تسلیم کرانے کے بعد اسلام نے نہ کسی نبی کو یہ حق دیا کہ وہ اللہ کے علاوہ اپنی خواہش اور مرضی کا لوگوں کو پابند بنائے، نہ کسی حکمراں قوت کو۔ اس نے افراد کی اس آزادی کا صاف صاف اعلان کیا کہ : ’’اللہ کی نافرمانی کرنے کے لیے کسی مخلوق کی فرمانبرداری نہیں کی جاسکتی۔‘‘ حکومت اور جماعت کی فکری اور عملی زبردستی سے کمزوروں کو محفوظ رکھنے کے لیے اس نے ضمانت دی کہ: ’’دین میں زبردستی نہیں ہے۔‘‘ اس نے جماعت کو متنبہ کیا کہ: ’’کسی قوم کی دشمنی تمہیں ناانصافی کا مجرم نہ بنادے۔‘‘ اسلام کی دی ہوئی انفرادی آزادی کی ایک شاندار مثال ہی ہے، جس نے نہ صرف حکومت اور فرد یا جماعت اور فرد کے باہمی تعلق کی راہ میں سنگِ میل نصب کیا ہے، بلکہ جمہوری اور عوامی تصورِ زندگی کے لیے بھی وہ ایک نشانِ منزل کی حیثیت رکھتی ہے، جبکہ مصر کے ایک مسلمان ’’گورنر‘‘ کے خلاف محکوم اور کمزور قبطی کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے حضرت عمر  رضی اللہ عنہ نے اعلان فرمایا تھاکہ:
’’متٰی استعبدتم عبادَ اللہ؟ وقد ولدتہم أمہاتُہم أحرارا؟‘‘
’’ تم نے اللہ کے بندوں کو کب سے اپنا غلام سمجھ لیا ہے؟ ان کی ماؤں نے تو انہیں آزاد پیدا کیا تھا۔‘‘
یہ ہے حریت واستقلال کا وہ اسلامی تصور جس نے موجودہ دور کے تصورِ آزادی کی رہنمائی کی ہے، اور جس کو آج بھی انسانی آزادی کی راہ میں ایک مثال اور نصب العین کی حیثیت حاصل ہے۔

تحفظ کے وسائل

انسانی آزادی اور حدود وحقوق کی ان حد بندیوں کے درمیان کسی نظام کو قائم کرنے اور باقی رکھنے کے لیے عموماً طاقت کے مادی سہارے یعنی ’’حکومت‘‘ کو کافی سمجھاجاتاہے اور اس حکمراں طاقت کو حاصل کرنے کے اسباب اور ذرائع اختیار کیے جاتے ہیں اور جب یہ طاقت حاصل ہوجاتی ہے تو ایک نظام یا اصول قائم اور جاری کردیا جاتا ہے، خواہ لوگوں کے ذہن اس انتظام کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوں یا نہ ہوئے ہوں۔ اس طاقت کے سہارے قائم ہونے والے نظام کا انجام عموماً یہ ہوتا ہے کہ اس کی جڑیں قوم کے دلوں میں جگہ نہیں پکڑتیں اور جیسے ہی قوت کا سہارا کمزور ہوتا ہے، اس نظام کا شیرازہ بکھر جاتا ہے اور زندگی کی ساری تعمیر زمین پر آرہتی ہے۔
اسلام نے اپنے نظام کو قائم کرنے کے لیے محض مادی قوت اور حکمراں طاقت کے سہارے کو ہی استعمال نہیں کیا، بلکہ اس نے اپنے جامع نظام کو قائم اور دیرپا رکھنے کے لیے ایک جامع اور محکم روحانی اسکیم تیار کی۔ اس نے قوت کے ظاہری اسباب سے زیادہ داخلی قوتوں کی تنظیم پر زور دیا اور مادی طاقت کو دوسرے درجہ کی اہمیت دی، اس نے سب سے پہلے چند حقیقتوں پر ایمان ویقین کی دعوت دی۔ ان حقیقتوں پر ایمان کے ذریعہ خود انسان کے ضمیر میں اپنے اعمال کی ’’جوابدہی‘‘ کا احساس پیدا کیا اور اس احساسِ ذمہ داری کے ساتھ ساتھ ’’ایمان ویقین‘‘ کے پیدا کیے ہوئے ’’عمل‘‘ کو انسانی شرف اور بندگی کا معیار قرار دیا۔ اسی ’’عمل‘‘ پر ان کریمانہ اخلاق کی بنیاد قائم ہوئی جو کسی نظام کو بر قرار رکھنے کے لیے ایک اہم معنوی قوت ثابت ہوتی ہے۔
عقیدہ وعمل میں مرکزیت قائم کرنے کے لیے اسلام نے توحید کا عقیدہ دیا جو انسانوں میں ذہنی یک جہتی اور وحدت قائم کرنے کی ایک داخلی اور ذہنی قوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی ’’انسانی مساوات ‘‘ کا اصول پیش کیا جو عملی مرکزیت باقی رکھنے کے لیے ذہنی اور اعتقادی قوت ہونے کے علاوہ مشترک ’’عمل‘‘ اور مشترک ’’فائدہ‘‘ حاصل کرنے کے لیے ایک پرکشش عملی تحریک بھی ہے جو ’’اجتماعی عمل‘‘ کے لیے اُبھارتی ہے۔
زندگی کے لیے یقین وعمل کی بنیادیں، توحید ومساوات کے زریں اصول اور اعتقادی وعملی تحریکیں استوار کرنے کے بعد اجتماعی جد وجہد اور تعاون کو منظم کرنے کے لیے اسلام نے فرائض اور ذمہ داریوں کا ایک اور سلسلہ قائم کیا ہے جو اپنے نتائج اور اثرات کے لحاظ سے ایک خارجی تنظیم اور قوت پیدا کرتاہے اور کسی نظام کو قائم کرنے اور اس کو باقی رکھنے میں ایک اہم ’’مؤثر‘‘ کی حیثیت رکھتاہے۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر

ان فرائض میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ایک اہم فریضہ ہے۔
امر بالمعروف کا مقصد یہ ہے کہ اللہ نے جن امور کو انسانی زندگی کی خیر وخوبی اور نیکی قرار دیا ہے ان کی ترغیب دی جائے۔ نہی عن المنکر کے معنی یہ ہیں کہ جن چیزوں کو انسانی زندگی کے لیے ناپسندیدہ، ضرررساں اور ’’برائی‘‘ بتایا گیا ہے، اس سے روکا جائے۔ قرآن کا حکم ہے کہ:
’’اللہ انسانوں کو عدل وانصاف قائم کرنے، احسان کرنے اور قرابت داروں کو ان کے حقوق دینے کا امر فرماتا ہے، فحش اور ناپسندیدہ باتوں سے روکتاہے۔‘‘
قرآن کی تعلیم کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا مقصد اللہ تعالیٰ کے اُنہیں احکام کو پہنچانا اور جاری کرناہے۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ: ’’جو لوگ اُس رسول اور نبی امی کی پیروی کرتے ہیں جس کے آنے کی بشارت ان کے پاس توریت اور انجیل میں لکھی ہوئی موجود ہے اور جو ان لوگوں کو اچھے کاموں کاحکم دیتا ہے اور برائیوں سے ان کو روکتا ہے۔ پاک چیزوں کو ان کے لیے حلال کرتاہے اور گندی چیزوں کو ان پر حرام کرتا ہے۔ ان کے سروں سے وہ ’’بوجھ‘‘ (اور ظلم واستبداد کی ان بیڑیوں کو) دور کرتا ہے جو ظالم اور جابر طاقتوں نے ان پر لگا دی تھیں۔ اب جو لوگ اس رسول پر ایمان لے آئے اور اس کی نصرت وحمایت کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے اور اس نورِ ہدایت یعنی قرآن کی پیروی کرنے لگے جو اس رسول کے ساتھ بھیجا گیا تھا، وہی لوگ در حقیقت فلاح اور کامیابی پانے والے ہیں۔‘‘ پھر یہ امر بالمعروف، امرِ الٰہی اور مقصدِ رسالت ہی نہیں، یعنی صرف اللہ اور اس کے رسول کا کام ہی نہیں ہے، بلکہ مومنوں کا بھی ایک ’’فرضِ عام‘‘ ہے جو اسلام کے نظامِ اخلاق ومعاشرت قائم کرنے میں اللہ اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم  ) کے قائم مقام اور ان کے سامنے جوابدہ ہیں۔ اس فرضِ عام کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے قرآن نے فرمایاکہ:
’’اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوْا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ ۔‘‘
’’مسلمان وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو زمین میں صاحبِ اقتدار واختیار بنادیں تو وہ نماز کو قائم کریں، مال کی زکوٰۃ دیں اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فرض انجام دیں۔‘‘
ایک اور موقع پر مومنین کی امتیازی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:
’’مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کی ساتھی ہیں۔ لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں، نماز کو قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا۔‘‘
قرآن حکیم کی ان ہدایات سے واضح ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر مسلمانوں کا ایک اہم اور عام فرض ہے اور صرف ایسی حالت ہی کے لیے مخصوص نہیں، جبکہ مسلمانوں کو بحیثیت جماعت کسی حصۂ زمین میں قوت اور طاقت حاصل ہو، بلکہ ایسا فرض ہے جو ہر زمانہ میں اور ہر حالت میں ہر فرد پر عائد ہوتا ہے۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے کہ:
’’تم میں سے ہرشخص راعی اور نگراں ہے اور اپنی زیرِ نگرانی رعیت کے متعلق جوابدہ ہے۔‘‘
یہ فریضہ اسلام کی حقیقی روح اُخوت ومساوات کا تقاضا ہے اور اسلامی نظام کی اُس عظیم الشان رحمت وبرکت کا براہِ راست نتیجہ ہے جو انسانی اور اسلامی برادری کے لیے عام کی گئی ہے۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ’’دین خیر خواہی اور ہمدردی کا نام ہے۔‘‘

اہلیتِ امر ونہی

دوسرے فرائض کی طرح امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے بھی صرف انفرادی صلاحیت ہی ضروری شرط ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ:
’’تم میں سے کوئی شخص اگر کسی برائی کو دیکھے تو اس کو اپنے ہاتھوں سے (یعنی طاقت کے ذریعہ)بدل دے۔ جس کو ہاتھوں سے بدلنے کی طاقت نہ ہو وہ اپنی زبان سے اس کو بدل دے، یعنی قوتِ بیان اور افہام تفہیم کے ذریعہ اور اگر اس کی بھی قدرت نہ ہو تو اپنے دل سے تو اس کو ضرور برا سمجھے (یعنی اپنے طرزِ عمل سے اپنی بیزاری کا اظہار کرے) اور یہ تو ایمان کا کمزور سے کمزور درجہ ہے۔‘‘
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے اس اہم اصول نے (جو اسلامی عقائد کا نتیجہ اور مسلمانوں کاایک عملی فریضہ ہے) نہ صرف اسلامی نظام کے قائم کرنے اور اس کے باقی رکھنے میں اہم حصہ لیا ہے اور سیاسی طاقت (حکومت) کی کمزوری کی حالت میں اس نظام کو اور معاشرہ کو اندرونی اور بیرونی تخریبی قوتوں اور برائیوں سے بچایا ہے، بلکہ اس نے پرانی دنیا کو جو محض ایک اندھی اور بے رحم مادی طاقت پر یقین رکھتی تھی ترقی کی ایک نئی راہ دکھائی ہے، اس اصول نے انسانی معاشرہ کی تعمیر میں طاقت اور قوت پر اعتماد کرنے کی بجائے عوام کو اپنے اعتماد میں لینے اور ان کے علم ویقین کو تعمیر کرنے اور کار فرما بنانے کی طرف رہنمائی کی ہے اور اس طرح انسان کے روحانی اور مادی ارتقا میں ایک اہم اور نمایاں خدمت انجام دی ہے۔ مخلوق کو نیکی اور بھلائی کی طرف بلانے اور برائیوں سے روکنے کے فرض سے غفلت ہی نے ہماری معاشرتی تنظیم میں تمام تر رخنے ڈالے ہیں اور اس کو تباہ کیا ہے اور اندرونی وبیرونی تخریبی قوتوں کو سَر اُبھارنے کا موقع فراہم کیا ہے۔

تعلیم وتبلیغ

اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا تو علم ہی کےذریعہ اس کو اپنی دوسری مخلوق پر حتیٰ کہ فرشتوں پر بھی فضیلت اور برتری عطا فرمائی اور فرشتوں کی مقدس مخلوق کے سامنے اس کی اس فضیلت کا اظہار فرمایا اور اسی فضیلتِ علم کی وجہ سے اس کو خلافتِ الٰہیہ کا مستحق ٹھہرایا اور تمام کائنات پر اقتدار اور تصرف کی قوت سے سرفراز فرمایا، اس لیے علم ہی درحقیقت انسانی فضل وشرف کی بنیاد ہے۔
علم کی وجہ سے اس کو خلافتِ الٰہیہ کا مستحق ٹھہرایا اور تمام کائنات پر اقتدار اور تصرف کی قوت سے سرفراز فرمایا، اس لیے علم ہی درحقیقت انسانی فضل وشرف کی بنیاد ہے۔
انسانی طبیعت میں علم ومعرفت اور حقائقِ اشیاء کے معلوم کرنے کی تڑپ پیدا کرنے کے بعد اللہ نے اس کو زندگی کی راہوں میں بھٹکنے کے لیے تنہا اور بے سہارا نہیں چھوڑا، بلکہ اس کی رہنمائی کے لیے انہیں میں سے کچھ ایسے افراد بھیجنے کا سلسلہ قائم کیا، جو اپنی اصل فطرت کے لحاظ سے کمالِ انسانی کے درجات پر فائز ہوتے اور اللہ کے دیے ہوئے علم ومعرفت اور حکمت وہدایت کو عام انسانوں تک پہنچاتے تھے اور ان کی رہنمائی کی خدمت انجام دیتے تھے۔ کمالِ انسانی حاصل کرنے کے لیے لوگوں کو تعلیم دینا اور اللہ کے احکام کو اس کے بندوں تک پہنچانا ان مقدس افراد کا فریضہ تھا جودینی اور مذہبی اصطلاح میں ’’پیغمبر‘‘ کہلاتے ہیں۔
نوعِ انسانی کے قافلے نبیوں اور رسولوں کی رہنمائی میں اپنی اپنی منزلوں تک سفر کرتے رہے اور قوموں اور گروہوں کی صورت میں اس آخری سفر کے لیے تیار ہوتے رہے جو انہیں اجتماعی طور پر ایک ’’نبی کامل‘‘ کی رہنمائی میں تکمیلِ انسانیت کے لیے کرنا تھا ۔ جب انسانیت کا وہ آخری رہنما آیا جس کے بعد کوئی نبی اور رسول آنے والا نہ تھا تو اس نے اعلان کیا کہ:
’’میں معلمِ انسانیت بناکر بھیجا گیا ہوں اور میرے آنے کا مقصد یہ ہے کہ اخلاقی بزرگیوں کی تکمیل کروں۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ نے اس کے اس دعوے کی شہادت دیتے ہوئے بندوں پر اپنے اس مخصوص کرم واحسان کا اظہار فرمایا۔ اللہ وہ ہے جس نے بے پڑھے لکھے (علم ومعرفت سے ناآشنا) لوگوں میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں کتاب وحکمت اور شریعتِ الٰہیہ کی تعلیم دیتاہے اوران میں پاکیزگی پیدا کرتاہے۔ سچائی کی تعلیم اس نبیِ کامل کی سب سے نمایاں خصوصیت تھی اور اس سچائی کو دوسروں تک پہنچانا اس کے منصب کا سب سے اہم فریضہ تھا۔ اللہ نے اس فرض کی ادائیگی کا مطالبہ کرتے ہوئے ہدایت کی کہ:
’’اے نبی! تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر جو کچھ اُتاراگیا ہے اس کو دوسروں تک پہنچادو، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا (یعنی رسول کی حیثیت سے فرضِ تبلیغ انجام نہیں دیا)۔‘‘
تعلیم وتبلیغ کی اسی اہمیت کی وجہ سے اسلام نے اپنی تعلیمات میں علم حاصل کرنے اور اس علم کو دوسروں تک پہنچانے پر خاص طور پر زور دیا ہے۔ قرآن نے اولین خطاب میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کو علم کی طرف متوجہ کیا اور انسان کے سامنے سب سے پہلے اللہ کی اس نعمتِ عظیم کا اظہارفرمایاکہ:
’’(اے نبی!) اپنے اس پروردگار کا نام لے کر (خدا کا کلام) پڑھو، جس نے (تمام کائنات کو) پیدا کیا ہے۔ (خاص کر) جس نے انسان کو گوشت کے ایک ٹکڑے سے پیدا کردیا۔ (اس کا کلام) پڑھو! اور تمہارا بزرگ ترین پروردگار تو وہ ہے جس نے قلم کے ذریعہ (لکھنے پڑھنے کی) تعلیم دی اور انسان کو وہ کچھ سکھایا جس کو وہ نہیں جانتا تھا۔‘‘
پھر یہ صرف رسول ہی کا فریضہ نہیں تھا کہ وہ حق وصداقت کے اس الہامی علم کے پھیلانے کی جدوجہد کریں جو اُن کو دیاگیا تھا اور جس کو عام کرنا اُن کی رسالت کا مقصد قرار دیا گیا تھا، بلکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں کے لیے بھی علم حاصل کرنا اور اس علم کو دوسروں تک پہنچانا فرض قرار دیا گیا ہے۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
’’علم کی طلب ہر مسلمان پر فرض ہے، علم حاصل کرو چاہے وہ چین (ماچین) میں ہو۔ جو علم کی طلب میں نکلا وہ اللہ کی راہ کا مجاہد ہے۔‘‘
اسی طرح اور بہت سی احادیث میں آپ نے علم اور علماء کی فضیلت بیان فرماکر مسلمانوں کو ’’پیغمبروں کی میراث‘‘ یعنی علم حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے۔ اور علم حاصل کرنے کے بعد اس کو دوسروں تک منتقل کرنے کی ہدایت فرمائی ہے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:
’’مجھ سے (سنی ہوئی آیات واحادیث) دوسروں کو پہنچاؤ، چاہے ایک ہی آیت (یا حدیث) ہو۔‘‘
ان لوگوں کے لیے آپ نے خاص طور پر دعا فرمائی ہے، جو علومِ نبوی کو دوسروں تک پہنچائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: 
’’خدا اس کو سرسبز رکھے جس نے ہم سے جو کچھ سنا اس کو جیسا سنا ویساہی دوسروں تک پہنچادیا۔‘‘
رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اور اُمت کے اس فرضِ ’’تعلیم وتبلیغ‘‘ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حجۃ الوداع کے آخری خطبۂ نبوت میں اپنا فرضِ تعلیم وتبلیغ انجام دینے پر اُمت کو گواہ بنایا اور ان کو اس فریضہ کے انجام دینے کی تاکید فرمائی کہ: 
’’جو لوگ موجود ہیں وہ ان لوگوں تک (دینِ الٰہی) پہنچادیں جو موجود نہیں ہیں (یعنی ہرنسل دوسری نسل کو اور اگلے پچھلوں کو قیامت تک اسی طرح دینِ الٰہی پہنچاتے رہیں)۔‘‘

اسلامی علوم

اسلام نے جن علوم کو حاصل کرنے اور ان کو دوسروں تک پہنچانے پر زور دیا ہے، ان میں قرآن وحدیث اور ان کے مددگار علوم کے ساتھ ساتھ وہ تمام علوم بھی شامل ہیں جن کو حاصل کرنے کی اور ان میں غور وفکر کرنے کی قرآن وحدیث مین دعوت دی گئی ہے۔ بعض علماء نے ایسے علوم کی ایک طویل فہرست مرتب کی ہے جن کا سرچشمہ خود قرآنی آیات ہیں اور بعض اہلِ تحقیق کا خیال ہے کہ دنیا کا کوئی علم بھی قرآن کے اس وسیع دائرۂ علم سے باہر نہیں ہے۔ ان میں سے بعض علم ضروری ہیں اور بعض زائد از ضرورت۔ ضروری علوم کے متعلق رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: علم تین ہیں: آیت محکم یعنی قرآن حکیم سے متعلق علوم۔سنتِ قائمہ یعنی صحیح احادیث سے متعلق علوم اور فریضۂ عادلہ یعنی زندگی کے صحیح فرائض سے متعلق علوم، جن کی مدد سے انسانی زندگی کے لیے صحیح راہ متعین کی جاسکے۔ اس آخری قسم میں تمام اِفادی علوم شامل ہیں۔ علوم کی ان تین صنفوں کے علاوہ تمام علوم کو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’فضل‘‘ یعنی زائد از ضرورت قرار دیا ہے اور ان میں وہ تمام فنون شامل ہیں جو انسان کو اپنے مقصدِ زندگی سے غافل کردیں۔
اسلام نے اپنے اصولِ دعوت میں ’’تعلیم وتبلیغ‘‘ کو جو اہمیت دی تھی، اسی کا نتیجہ تھا کہ مسلمان بحیثیت ایک قوم کے دنیا کی تمام قوموں میں تعلیم اور تبلیغ کے علمبردار بنے، یہی قرآن حکیم کا منشا تھا، ارشاد ہے: 
’’تم بہترین امت ہو جس کو لوگوں (یعنی دنیا کی قوموں کی رہنمائی) کے لیے پیدا کیاگیاہے، تمہارا کام (خدا رسول کے نزدیک) معروف اچھے امور کا حکم دینا اور منکر (برے کاموں) سے منع کرنا۔‘‘
مسلمانوں نے نہ صرف دینی علوم کی نشر واشاعت کی، بلکہ ان ’’روایتی‘‘ علوم کے ساتھ ’’عقلی‘‘ علوم کو بھی کافی اہمیت دی۔ انسانیت کے لیے مفید اور کار آمد نئے نئے علوم ایجاد کیے اور دنیا کو ان علوم کی روشنی سے فائدہ پہنچایا۔ نوعِ انسانی اپنے علم اور تجربہ کے محدود سرمایہ کو گمراہ کن خواہشوں کے انبار میں چھپائے ہوئے بھٹک رہی تھی۔ مسلمانوں نے انسانیت کے اس سرمایہ کو قوموں اور گروہوں کی اجارہ داری سے نکالا اور پوری انسانیت کے لیے عام کردیا۔ وہ علم جو طبقات اور گروہوں کی میراث بن چکا تھا اور جس کو نسل ومقام کی قیدوں میں محصور رکھاگیا تھا، اب وہ تمام انسانوں کے لیے عام ہوگیا اور اسلامی درس گاہیں دنیا کی قوموں کو تحصیلِ علوم وفنون کی صلائے عام دینے لگیں۔ مسلمان ہی تھے جو اس عالم گیر علمی تحریک کے بانی بنے، جس نے موجودہ دنیا کو علم وتحقیق اور ایجاد واختراع کا ذوق بخشا اور علمی ترقیات کی طرف رہنمائی کی۔
افسوس! آج علم پھر جغرافیائی حدود میں محصور کیا جارہاہے۔ تجربات اور ایجادات چھپائے جارہے ہیں، تاکہ وہ خاص نسلوں اور مخصوص قوموں کی محفوظ اور مخصوص میراث بن جائیں، اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ آج علم نوعِ انسانی کے لیے زندگی کی مستقیم شاہراہ متعین کرنے کی بجائے نسلی اور قومی برتری قائم کرنے کا ایک ذریعہ بنالیا گیاہے، اور اس لیے اب وہ روشنی اور سکون واطمینان پیدا کرنے کی بجائے عام دنیا کے لیے تاریکی اور خوف وہراس پیدا کرنے کا سبب اور عالمگیر بدامنی اور سرد وگرم لڑائیوں کا ذریعہ بن گیا ہے۔
خوف اور دہشت کی اس دنیا میں اپنی تعلیمی اور تبلیغی جد وجہد کے ذریعہ کیا مسلمان ایک مرتبہ پھر علم ومعرفت کا چراغ روشن کریںگے؟ اور نوعِ انسانی کو امن واطمینان کی دولت فراہم کریں گے؟
خدا کرے مسلمانوں کو اپنا بھولا ہوا سبق اور چھوڑا ہوا فرض یاد آجائے اور وہ اس کو انجام دینے کے لیے کمربستہ ہوجائیں!! ’’لن یصلح آخرُ ہٰذہ الأمۃ إلا بما صلح أولہا۔‘‘ اس امت کے آخر کو سدھارنے والی صرف وہی چیزیں وتدبیریں ہوں گی جنہوں نے اس کے اول کو سدھارا ہے۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین