بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1446ھ 27 اپریل 2025 ء

بینات

 
 

سرزمینِ فلسطین (اہمیت وفضیلت) قرآن و حدیث کی روشنی میں (پہلی قسط)

سرزمینِ فلسطین (اہمیت وفضیلت)

قرآن و حدیث کی روشنی میں

(پہلی قسط)


سرزمینِ فلسطین کو اللہ تعالیٰ نے خاص مقام و اہمیت سے نوازا ہے، حضرات انبیاء کرام  علیہم السلام  کی وہاں بعثت و تشریف آوری نے اس سرزمین کو مزید جاذبِ نظر، خوش نما اور پر کشش بنادیا اور ان کی توجہات نے اس کی رفعت کو چار چاند لگادیے، کیونکہ حضرات انبیاء  علیہم السلام  کی شخصیت مخزنِ خیر اور منبعِ برکات ہوتی ہے، اگر وہ کسی بنجر زمین میں بھی پہنچ جائیں تو وہ اُن کی برکت سے سبزہ زار ہوجائے، سنگلاخ علاقے سے گزریں تو اسے سرسبز و شاداب بنادیں، خارستان میں اپنے قدم میمنت لزوم رکھیں تو اسے گلستان بنادیں:

بر زمینے کہ نشان کفے پائے تو بود
تا ابد سجدہ گہ اہلِ نظر خواہد بود

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ’’حسن المکان بالمکین‘‘ یعنی مکان کا حسن مکین سے ہے، نیز اگر مکین صاحبِ کمالات ہو تو مکان بھی دیگر مکانات میں ممتاز اور نمایاں ہوجاتا ہے، جیسے حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنا دار الہجرت مدینہ منورہ کو بنایا تو حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  چونکہ ساری انسانیت پر نہ صرف فائز بلکہ سببِ تخلیقِ کائنات تھے، تو مدینہ منورہ کو جو فضیلت حاصل ہوئی تو وہ اہلِ علم پر آفتاب نیم روز سے زیادہ واضح اور روشن ہے، حتیٰ کہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی آخری آرام گاہ جس میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  موجود ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا بدن مبارک روضۂ اطہر کی جس زمین مبارک سے مس ہے وہ حصہ ساری کائنات حتیٰ کہ بیت اللہ اور عرش و کرسی سے بھی افضل ہے۔ مولانا خلیل احمد صاحب انبیٹھوی  رحمۃ اللہ علیہ  ’’المہند‘‘ میں فرماتے ہیں کہ: 
’’فإنّ البقعۃ الشريفۃ والرحبۃ المنيفۃ التي ضمت أعضاءہٗ أفضل مطلقاً، حتی من الکعبۃ ومن العرش والکرسي کما صرح بہ فقہاؤنا رضي اللہ عنہم۔‘‘  (المہند علی المفند، ت: مفتی محمد بن آدم الکوثري، ص:۴۷، وکذا قالہ علي القاري، انظر إلٰی إرشاد الساري إلی مناسک علي القاري، ص: ۷۴۷)
خلاصہ یہ کہ حضرات انبیاء  علیہم السلام  کی سرزمینِ فلسطین میں سکونت اور قربت نے اسے انوار و برکات کا جامع اور نہایت ہی مقدس بنادیا۔
سرزمینِ فلسطین کو یہ شرف بھی حاصل ہوا کہ مسجد اقصیٰ کے قیام کے لیے جگہ کا انتخاب بھی اسی سرزمین کا ہوا، جوکہ تمام سابقہ انبیاء  علیہم السلام  کا قبلہ رہا اور اوائلِ اسلام میں مسلمانوں کا بھی وہی قبلہ تھا، پھر بحکمِ خداوندی ہمیشہ کے لیے بیت اللہ کو قبلہ مقرر کردیا گیا۔
نیز سرزمینِ فلسطین ایک تاریخی خطہ رہا ہے، اس سے نہ صرف جغرافیائی تاریخ وابستہ ہے، بلکہ دینی و اسلامی تاریخ کا ایک بڑا حصہ بھی اس کے دامن سے وابستہ ہے۔ بعض تفسیری روایات میں ہے کہ صخرۂ بیت المقدس(اس سے وہ پتھر مراد ہے کہ سفرِ معراج میں جب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  بیت المقدس تشریف لے گئے تھے تو حضرت جبریل  علیہ السلام  نے براق کی رسی اسی پتھر سے باندھی تھی) سے ہی دنیا میں میٹھے پانی کا سلسلہ قائم ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ۳۵۳/۵)
قرآن کریم میں ارضِ مقدسہ اور اس کی برکات کا ذکر، حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اس سے متعلق پیش گوئیاں، بشارتیں اور دعائیں اس کی اہمیت اور عظمت کو آشکارا کرتی ہیں، لہٰذا فلسطین کی عظمت و اہمیت کو قرآن و حدیث سے آشکارا کرنا اور اسے منصہ شہود پر لانا یہ اہلِ علم کا وظیفہ ہے، راقم الحروف ذیل میں چند سطریں لکھنے کی کاوش کررہا ہے۔ اولاً تمہید کے طور پر ذیل میں چند باتیں ملاحظہ فرمائیں:

عہدِ نبوی کا شام و فلسطین

واضح رہے کہ فلسطین عہدِ نبوی میں جغرافیائی لحاظ سے ملک شام کا ایک مستحکم حصہ تھا، بعد میں اس میں تبدیلی آتی گئی، خلافتِ عثمانیہ کے دور میں سن ۱۶۰۰ء تک فلسطین شام میں داخل تھا، پھر ۱۶۱۴ء میں دو حصوں میں منقسم ہوگیا، نصف بیروت اور نصف شام کا حصہ بن گیا، بعد ازاں جب ۱۸۶۵ء میں سوریہ کا وجود عمل میں آیا تو قدس وغيرہ کو سوریہ میں داخل کردیا گیا اور اب فلسطین کا بیشتر حصہ اسرائیل کے ناجائز قبضے میں ہے۔
’’معجم البلدان‘‘ مترجم میں ہے: ’’فلسطین: یہ کبھی شام کا ایک صوبہ تھا، لیکن آج کل یہ ایک الگ ملک ہے، جس کا بیشتر حصہ اسرائیل کے تحت ہے اور کچھ اردن کا حصہ ہے۔ اس کی حدود یہ ہیں : شمالاً جنوباً : اندازاً دو سو میل، شرقاً غرباً : زیادہ سے زیادہ نوے میل، مشرق میں : اردن، مغرب میں : بحیرہ روم، شمال میں : لبنان، جنوب میں: صحرائے سینا۔ اس کے بڑے بڑے شہر یہ ہیں : بیت المقدس، طبریہ، رملہ، غزہ، عسقلان، جافہ، تل ابیب، عکہ، خلیل، نابلس۔‘‘(معجم البلدان مترجم: ۲۶۲)
سرزمینِ شام میں ہے کہ: 
’’اسلامی دور میں شام کی حدود جنوبی ترکی سے شمالی سعودی عرب تک وسیع تھی اور اس میں موجودہ شام کے علاوہ ترکی کے جنوبی شہر (مصیصہ، حران، الرہا، دیار بکر، طرسوس، اضنہ اور انطاکیہ )، لبنان، اردن اور فلسطین شامل تھے۔ تبوک تک کا سعودی علاقہ بھی شام کا حصہ شمار ہوتا تھا۔‘‘  (فضائل الشام مترجم، ص:۱۱)
’’تحفۃ الألمعي‘‘ میں ہے کہ: 
’’ملک شام کے اب چار ملک بن گئے ہیں :۱- سوریہ: جس میں دمشق، حمص، حمات اور حلب واقع ہیں، ۲- لبنان، ۳- اردن جس میں عمان اور خلیج عقبہ ہیں، ۴- فلسطین جس میں قدس اور غزہ ہیں۔‘‘  (تحفۃ الالمعی: ۵/۵۷۰)
آمدم بر سر مطلب: لہٰذا کتاب و سنت میں فلسطین کے جو فضائل و مناقب بیان ہوئے ہیں وہ تو بالکل بجا اور بر محل ہیں، البتہ جو فضائل شام کے ساتھ خاص ہیں وہ بھی بلاتردد فلسطین کو شامل ہیں، لہٰذا فلسطین کے حوالے سے ذیل میں جو فضائل نقل کیے جائیں گے وہ یا تو بلاواسطہ ہوں گے یا بالواسطہ۔
صاحبِ ’’أربعون‘‘ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: 
’’وقد يتساءل البعض أن جملۃ من الأحاديث في ہٰذا الکتاب جاءت بذکر الشام وليس فلسطين وہنا تجدر الإشارۃ إلی أن فلسطين کلہا جزء طبيعي أصيل داخل في بلاد الشام ۔‘‘  (الأربعون، ص: ۹) 
اب ذیل میں فلسطین کے فضائل اور بابرکت تذکرہ پر قرآن و حدیث کی ضیاء پاشی ملاحظہ فرمائیں:

ذکرِ فلسطین در  کلامِ رب العالمین

1:سفرِ معراج اور سرزمینِ فلسطین

سورۂ اسراء میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’سُبْحٰنَ الَّذِيْ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْأَقْصَا الَّذِي بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ  ‘‘      (الاسراء : ۱)
ترجمہ: ’’ وہ پاک ذات ہے جو اپنے بندہ(محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شب کے وقت مسجد حرام (یعنی مسجد کعبہ) سے مسجد اقصیٰ (یعنی بیت المقدس) تک جس کے گرداگرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیا۔‘‘   (ترجمہ بیان القرآن از حضرت تھانویؒ)
حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  قبل ہجرت جب سفرِ معراج پر تشریف لے گئے تو سفر کے آغاز اور سفر کی انتہا میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو بیت المقدس فلسطین سے گزارا گیا، آپ نے وہاں حضرات انبیاء  علیہم السلام  کی امامت بھی فرمائی(عند البعض حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے معراج پر تشریف لے جاتے وقت اور واپسی میں دونوں موقع پر امامت فرمائی۔) (۱) بیت المقدس چونکہ حضرات انبیاء  علیہم السلام  کا مسکن و مرکز اور ان کے فیوض و برکات کا سرچشمہ رہا ہے تو حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کو وہاں پہنچا کر وہاں کے سارے انوار و برکات کا جامع و حامل بنادیا گیا۔ (۲) لہٰذا معراج جیسے عظیم الشان اور فقید المثال سفر میں حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا بیت المقدس فلسطین تشریف لے جانا اس کی اہمیت و عظمت کو آشکارا کرتا ہے۔
’’شرح مشکل الآثار‘‘ میں ہے:
’’عن أنس بن مالک أن رسول اللہ ﷺ لما جاء بيت المقدس في الليلۃ التي أسري بہٖ إليہ فيہا، بُعِثَ لہٗ آدم، ومَنْ دُونَہٗ من الأنبياء، وأمَّہُمْ رسولُ اللہ۔‘‘ (شرح مشکل الآثار: ۵۳۸/۱۲ رقم الحدیث: ۵۰۰۹)
ترجمہ: ’’رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  جب بیت المقدس میں تشریف لائے، اس رات جبکہ آپ کو اُس کی طرف سیر کرائی گئی تھی، تو حضرت آدم (k) اور ان سے نیچے کے انبیاء ( علیہم السلام ) کو آپ کے لیے بھیجا گیا، اور ان کی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے امامت فرمائی۔‘‘

2:بنی اسرائیل اور سرزمینِ فلسطین

سورۂ مائدہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’یٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِيْ کَتَبَ اللہُ لَکُمْ‘‘    (المائدۃ : ۲۱)
ترجمہ: ’’ اے میری قوم! اس متبرک ملک میں داخل ہو کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے حصہ میں لکھ دیا ہے ۔‘‘  (ترجمہ بیان القرآن از حضرت تھانویؒ)
مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو قوم عمالقہ سے جہاد کرکے ان سے انبیاء  علیہم السلام  کی مقدس سرزمین لینے کے لیے ہدایت دی، تاہم انہوں نے قومِ عمالقہ سے خوف زدہ ہوکر جہاد سے پہلو تہی اختیار کر لی، لہٰذا اس آیت سے بھی انبیاء  علیہم السلام  کی مقدس سرزمین شام و فلسطین کا تقدس واضح ہوتا ہے۔
’’مدارک التنزیل مع الاکلیل‘‘ میں ہے:
’’يٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ‘‘ أي المطہرۃ أو المبارکۃ وہي أرض بيت المقدس أو الشام۔‘‘  (تفسیر المدارک مع الاکلیل: ۳/۲۸)

3:حضرت ابراہیم و لوط صلی اللہ علیہ وسلم  اور سرزمینِ فلسطین

حضرت ابراہیم  علیہ السلام  پر ان کی قوم میں سے صرف حضرت لوط  علیہ السلام   ایمان لائے تھے، جو کہ حضرت کے بھتیجے تھے، نیز تفسیری روایات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب آتشِ نمرود نے حضرت کو متاثر نہ کیا تو نمرود نے مرعوب و مبہوت ہوکر حضرت سے کچھ تعرض نہ کیا، پھر بحکمِ خداوندی حضرت ابراہیم  علیہ السلام  اپنے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام  کے ہمراہ عراق سے شام کے علاقے کی طرف تشریف لے گئے بعض روایات میں ہے کہ حضرت ابراہیم  علیہ السلام  فلسطین اور حضرت لوط  علیہ السلام  موتفکہ( فلسطین سے ایک دن کی دوری پر واقع تھا)کی طرف تشریف لے گئے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ نَجَّيْنٰہُ وَلُوْطًا إِلَی الْأَرْضِ الَّتِيْ بٰرَکْنَا فِيْہَا لِلْعٰلَمِيْنَ‘‘     (الانبیاء: ۷۱)
ترجمہ: ’’ اور ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اور (ان کے برادر زادے) لوط (علیہ السلام) کو ایسے ملک (یعنی شام) کی طرف بھیج کر بچا لیا جس میں ہم نے دنیا جہاں والوں کے واسطے (خیر و) برکت رکھی ۔‘‘    (ترجمہ بیان القرآن از حضرت تھانویؒ)
تفسیر ابی سعودمیں ہے:
’’(وَ نَجَّيْنٰہُ وَلُوْطًا إِلَی الْأَرْضِ الَّتِيْ بٰرَکْنَا فِيْہَا لِلْعٰلَمِيْنَ) أي من العراق إلی الشام وبرکاتہ العامۃ أن أکثر الأنبياء بعثوا فيہ فانتشرت في العالمين شرائعہم التي ہي مبادی الکمالات والخيرات الدينيۃ والدنيويۃ وقيل: کثرۃ النعم والخصب الغالب۔ روي أنہ عليہ السلام نزل بفلسطين ولوط عليہ السلام بالمؤتفکۃ وبينہما مسيرۃ يوم وليلۃ۔‘‘ (تفسیر أبي سعود: ۶/۷۷)

4: حضرت سلیمان  علیہ السلام  اور سرزمینِ فلسطین

جس طرح حضرات انبیاء  علیہم السلام  کو حسبِ ضرورت معجزات دیے گئے، اسی طرح حضرت سیدنا سلیمان  علیہ السلام  کو اللہ تعالیٰ نے منطقِ طیر، تسخیرِ جن و حیوانات اور تسخیرِ ریاح کا عظیم الشان محیر العقول معجزہ عطا فرمایا تھا، جب حضرت سلیمان  علیہ السلام  اپنے مسکن فلسطین سے کہیں دور نکلتے تو ہوا آپ کو آپ کے حکم سے آپ کے مسکن فلسطین میں دوبارہ پہنچا دیتی تھی۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَلِسُلَيْمٰنَ الرِّيْحَ عَاصِفَۃً تَجْرِیْ بِأَمْرِہٖ إِلَی الْأَرْضِ الَّتِيْ بٰرَکْنَا فِيْہَا وَ کُنَّا بِکُلِّ شَیْئٍ عٰلِمِیْنَ‘‘  (الانبیاء: ۸۱)
ترجمہ: ’’ اور ہم نے سلیمان (علیہ السلام) کا زور کی ہوا کو تابع بنادیا تھا کہ وہ ان کے حکم سے اس سرزمین کی طرف چلتی جس میں ہم نے برکت رکھی ہے (مراد ملک شام ہے) اور ہم ہر چیز کو جانتے ہیں۔‘‘  (ترجمہ بیان القرآن از حضرت تھانویؒ)
’’تفسیر السعدي‘‘ میں ہے:
’’إِلَی الْأَرْضِ الَّتِيْ بٰرَکْنَا فِيْہَا‘‘ وہي أرض الشام، حيث کان مقرہٗ فيذہب علی الريح شرقا وغربا، ويکون مأواہا ورجوعہا إلی الأرض المبارکۃ۔‘‘ (تفسیر السعدي:۶۱۶)
’’صفوۃ التفاسیر‘‘ میں ہے:
’’تَجْرِیْ بِأَمْرِہٖ إِلَی الْأَرْضِ الَّتِيْ بٰرَکْنَا فِيْہَا‘‘ أي تسير بمشيئتہٖ وإرادتہٖ إلی أرض الشام المبارکۃ بکثرۃ الأشجار والأنہار والثمار، وکانت مسکنہ ومقر ملکہ۔‘‘  (صفوۃ التفاسیر للصابوني:۲۷۰/۲)

5: حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم  صلی اللہ علیہ وسلم  سرزمینِ فلسطین میں

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: 
’’وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَاُمَّہٗٓ اٰيَۃً وَّاٰوَيْنٰہُمَا إِلٰی رَبْوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِيْنٍ‘‘   (سورۃ المؤمنون: ۵۰)
ترجمہ: ’’ اور ہم نے مریم کے بیٹے کو اور ان کی ماں کو بڑی نشانی بنایا اور ہم نے ان دونوں کو ایک ایسی بلند زمین پر لے جا کر پناہ دی جو (بوجہ غلات اور میوہ جات ہونے کے) ٹھہرنے کے قابل اور شاداب جگہ تھی۔‘‘   (ترجمہ بیان القرآن از حضرت تھانویؒ)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی قدرت کی ایک نشانی کے طور پر جب بغیر پدر کے پیدا ہوئے تو اس بات کا چرچا ہونے کے بعد بیت اللحم کا بادشاہ آپ اور آپ کی والدہ کا دشمن ہوگیا، لہٰذا آپ کی والدہ آپ کو لے کر ایک اونچے ٹیلہ میں روپوش ہوگئیں، جسے قرآن نے ایک ایسا مقام قرار دیا ہے جو پرسکون بھی تھا اور وہاں چشمہ بھی جاری تھا، جس کے بارے میں اکثر مفسرین نے بیت المقدس، دمشق یا فلسطین کا مقام مراد لیا ہے۔ نیز تفسیری روایات میں آتا ہے کہ تقریباً بارہ سال آپ اور آپ کی والدہ وہاں مقیم رہے، جب بیت اللحم کا بادشاہ انتقال کرگیا تو آپ حضرات باہر تشریف لائے۔تفسیر البیضاوی میں ہے: 
’’(وَاٰوَيْنٰہُمَا إِلٰی رَبْوَۃٍ) أرض بيت المقدس، فإنہا مرتفعۃ أو دمشق أو رملۃ فلسطين أو مصر۔‘‘  (تفسیر البیضاوي: ۴/۸۹)

6: سورہ التین اور سرزمینِ فلسطین

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَالتِّيْنِ وَالزَّيْتُوْنِ وَطُوْرِ سِيْنِيْنَ وَہٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِيْنِ۔‘‘  (سورۃ التین ۱-۳)
ترجمہ: ’’ قسم ہے انجیر ( کے درخت) کی اور زیتون (کے درخت) کی اور طور سینین کی اور اس امن والے شہر (یعنی مکہ معظمہ) کی۔‘‘   (ترجمہ بیان القرآن از حضرت تھانویؒ)
اللہ تعالیٰ نے تاکیدا ً’’تین و زیتون‘‘ کی قسم کھا کر انسان کی تخلیق باحسنِ تقویم کو بیان فرمایا ہے، بیشتر مفسرین کے نزدیک تین و زیتون سے فلسطین و بیت المقدس کی طرف اشارہ ہے اور مراد اس سے وہ جگہ ہے جہاں حضرت عیسیٰ  علیہ السلام  کو مبعوث کیا گیا اور انہیں وہاں انجیل دی گئی۔ ’’طور سینا‘‘ سے مراد وہ مقام ہے جہاں حضرت موسیٰ  علیہ السلام  کو رب جل مجدہٗ سے شرفِ کلامی حاصل ہوا اور آپ کو تورات دی گئی، ’’بلد أمین‘‘ سے مراد مکہ مکرمہ ہے، جہاں حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کو مبعوث کیا گیا اور آپ پر قرآن کریم نازل ہوا اور یہ بات تورات میں بھی موجود ہے۔’’صفوۃ التفاسیر‘‘ میں ہے:
’’ذہب بعض الأئمۃ إلی أن ہٰذہ محال ثلاث، بعث اللہ في کل منہا نبياً مرسلاً من أولي العزم أصحاب الشرائع الکبار، فالأول : محلۃ التين والزيتون وہي بيت المقدس التي بعث اللہ فيہا عيسی عليہ السلام۔ والثاني : طور سينين وہو طور سيناء الذي کلم اللہ عليہ موسی بن عمران۔ والثالث : البلد الأمين الذي من دخلہٗ کان آمناً، وہو الذي أرسل اللہ فيہ محمداً، وقد ذکر في آخر التوراۃ ہٰذہ الأماکن الثلاثۃ، جاء اللہ من طور سيناء - الجبل الذي کلم اللہ عليہ موسی ـ وأشرق من ساعير - يعني جبل بيت المقدس الذي بعث اللہ منہ عيسی - واستعلن من جبال فاران - يعني جبال مکۃ التي أرسل اللہ منہا محمداً۔‘‘  (صفوۃ التفاسیر: ۳/۵۷۸)

ذکرِ فلسطین در کلامِ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم 

1:بیت المقدس اور قبلۂ مسلمین

شروع اسلام میں ہجرت سے کچھ دنوں قبل حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بحکمِ الٰہی بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا شروع کی اور وہ سلسلہ بعد ہجرت تقریباً سولہ یا سترہ ماہ تک جاری رہا، پھر آیتِ تحویل نازل ہوئی اور مکہ مکرمہ کو ہمیشہ کے لیے قبلۂ مسلمین بنادیا گیا۔(۳)
بخاری شریف میں ہے:
’’عن البراء بن عازبؓ عنہ قال : صلينا مع رسول اللہ ﷺ نَحوَ بيت المقدس سِتَّۃ عَشَرَ أو سَبْعَۃَ عَشَرَ شہرًا، ثم صُرِفْنَا نحو الکعبۃ۔‘‘(بخاری شریف، ت: تقی الدین ندوی: ۱۷/۴، رقم الحدیث: ۴۴۹۲)
ترجمہ:’’ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ ہم نے حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ سولہ یا سترہ مہینوں تک بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کی، پھر ہمیں بیت اللہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا۔‘‘

2:روئے زمین پر دوسری مسجد بیت المقدس تعمیر ہوئی

بیت اللہ شریف کی تعمیر کے چالیس سالوں بعد بیت المقدس کی تعمیر وجود میں آئی اور بیت المقدس باعتبار تعمیر کے روئے زمین کی دوسری مسجد قرار پائی۔بخاری شریف میں ہے :
’’سَمِعْتُ اَبَا ذَرِّ قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اللہِ! اَيُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ فِي الأرْضِ اَوَّلُ؟ قَالَ: الْمَـسْجِدُ الْحَرَامُ . قُلْتُ : ثُمَّ اَيُّ؟ قَالَ: الْمَـسْجِدُ الْاَقْصٰی . قُلْتُ : کَمْ کَانَ بَيْنَہُمَا؟ قَالَ: اَرْبَعُوْنَ سَنَۃً، ثُمَّ اَيْنَمَا اَدْرَکَتْکَ الصَّلَاۃُ بَعْدُ فَصَلَّہٖ، فَإِنَّ الْفَضْلَ فِيہِ۔‘‘  (بخاری شریف، ت: تقی الدین ندوی: ۳/۱۴۵، رقم الحدیث: ۳۳۶۶)
فائدہ: اگر چالیس سال سے تحدید یعنی حقیقی چالیس سال مراد لیا جائے تو اس تعمیر کی نسبت حضرت آدم علیہ السلام  کی طرف کی جائے گی کہ آپ نے دونوں کی بنیاد رکھی اور دونوں کے درمیان چالیس سالوں کا وقفہ ہوا، یا یہ کہ ملائکہ نے ان دونوں کو چالیس سال کے وقفے کے ساتھ تعمیر کیا۔
اور اگر حدیث کی مراد حضرت ابراہیم و سلیمان nہیں تو چونکہ دونوں کے درمیان سیکڑوں سالوں کا فاصلہ رہا ہے، لہٰذا حدیث میں چالیس سال سے مراد تکثیر ہوگی، تحدید نہیں۔ (مستفاد من نجاح القاری شرح البخاری: ۱۷۶/۱۸۔ انعام الباری: ۱۸۶/۸، ہامش البخاری، ت: تقی الدین ندوی: ۱۴۵/۳)

3:بیت المقدس میں نماز کی گراں قدر فضیلت

بیت المقدس میں ایک نماز کا ثواب پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔ ابن ماجہ میں ہے: 
’’عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ صَلَاۃُ الرَّجُلِ فِي بَيْتِہٖ بِصَلَاۃٍ وَصَلَاتُہٗ فِيْ مَسْجِدِ الْقَبَائِلِ بِخَمْسٍ وَّعِشْرِيْنَ صَلَاۃً وَصَلَاتُہٗ فِي الْمَـسْجِدِ الَّذِيْ يُجَمَّعُ فِيْہِ بِخَمْسِ مِائَۃِ صَلَاۃٍ وَصَلَاتُہٗ فِي الْمَـسْجِدِ الْاَقْصٰی بِخَمْسِيْنَ اَلْفَ صَلَاۃٍ وَصَلَاتُہٗ فِيْ مَسْجِدِيْ بِخَمْسِيْنَ اَلْفَ صَلَاۃٍ وَصَلَاۃٌ فِي الْمَـسْجِدِ الْحَرَامِ بِمِائَۃِ اَلْفِ صَلَاۃٍ۔‘‘  (ابن ماجہ قدیم، ص: ۱۰۲)

4:حصولِ ثواب کے لیے بیت المقدس کا سفر

حصولِ ثواب کی نیت سے صرف تین مساجد کی طرف سفر کی اجازت ہے اور باقی ساری مسجدیں چونکہ نفسِ ثواب میں یکساں ہیں، لہٰذا ان کی طرف حصولِ ثواب کے لیے سفر کرنا بے سود ہے، لہٰذا احادیث میں صرف تین مساجد کی طرف سفر کی اجازت دی گئی ہے، اس میں سے ایک مسجد بیت المقدس بھی ہے۔ بخاری شریف میں ہے: 
’’عَنْ أبِيْ ہُرَيْرَۃَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلٰی ثَلَاثَۃِ مَسَاجِدَ: الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَمَسْجِدِ الرَّسُولِ، وَمَسْجِدِ الْأقْصٰی۔‘‘  (بخاری شریف، ت: تقی الدین ندوی: ۱/۵۷۱، رقم الحدیث: ۱۱۸۹)

(جاری ہے)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین