بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

بینات

 
 

اُمّ المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا   کا علمی مقام


اُمّ المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا   کا علمی مقام


اُمّ المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  تمام ازواجِ مطہرات میں ایک خاص مقام رکھتی تھیں، آپ کو مجتہد صحابہؓ میں شمار کیا جاتا ہے، بلکہ اصحابِ رسول کو جب کسی مسئلہ میں مشکل پیش آتی تو آپ کے درِ اقدس پہ حاضر ہوتے اور اپنے مسائل پیش کرتے، آپ ان کا تشفی بخش جواب عنایت فرماتیں۔ ایک کثیر جماعتِ صحابہؓ و تابعینؒ کو آپ سے شرفِ تلمذ حاصل ہے۔ کبار صحابہ کرام وصحابیات علیہم الرضوان کو آپ پر حد درجہ اعتماد تھا۔ مختلف علوم پر آپ کو مکمل دسترس تھی۔ آپ ؓ کے مایہ ناز شاگرد، بھانجے اور تربیت یافتہ حضرت عروہؒ بن زبیرؓ کا قول ہے‎:
’’مَارَاَیْتُ اَحَدًا اَعْلَمَ بِالْقُرْآنِ وَلَا بِفَرِیْضَۃٍ وَلَا بِحَلَالٍ وَلَا بِفِقْہٍ وَلَا بِشِعْرٍ وَلَا بِطِبٍّ وَلَا بِحَدِیْثِ الْعَرَبِ وَلَا نَسبٍ مِّنْ عَائِشَۃؓ ۔‘‘  (تذکرۃ الحفاظ‎)
ترجمہ: ’’میں نے قرآن،فرائض ،حلال و حرام، فقہ، شاعری، طب، عرب کی تاریخ اور نسب کا عالم سیدہ عائشہ ( رضی اللہ عنہا ) سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘
طبقاتِ ابن سعد میں ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن سے مروی ہے کہ ’’میں نے سیدہ عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  سے زیادہ نہ کسی کو سنتِ رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا عالم دیکھا، نہ کسی ایسے معاملے میں جس میں رائے کی حاجت ہو، ان سے زیادہ کسی کو فقیہ دیکھا، اور نہ کسی آیت کے شانِ نزول میں ان سے زیادہ عالم دیکھا اور نہ فرائض میں کسی کو آپ سے بڑھ کر پایا۔‘‘
 اسی طرح عطا بن ابی رباح  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں: 
’’کَانَتْ عَائِشَۃُ اَفْقَہَ النَّاسِ وَاَعْلَمَ النَّاسِ وَاَحْسَنَ النَّاسِ رَاْیاً فِی الْعَامَّۃِ۔‘‘
یعنی ’’عام معاملات میں حضرت عائشہ( رضی اللہ عنہا ) سب سے بڑھ کر فقیہہ، سب سے بڑی عالمہ اور رائے ومشورہ میں سب سے بڑھ کر تھیں۔‘‘
امام زہری  رحمۃ اللہ علیہ  ان تمام باتوں کا احاطہ کرتے ہوئے آپ کے بارے میں فرماتے ہیں: 
’’لَو جُمِع عِلْمُ النَّاسِ کُلّھم ثُمّ عِلمُ اَزْوَاج النَّبی ﷺ فَکَانَت عائشۃُ وُسْعٰھم عِلماً۔‘‘  (طبقات ابن سعد ، الإصابۃ في تمییز الصحابۃؓ) 
’’اگر تمام مردوں اور اُمّہات المومنین کا علم ایک جگہ جمع کیا جائے تو حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  کا علم سب سے وسیع تر ہوگا۔‘‘
امام زہری  رحمۃ اللہ علیہ کا مقام اور مرتبہ کسی سے مخفی نہیں، ان کا قول سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا کے بارے میں ایک حجت کا درجہ رکھتا ہے۔
علامہ ذہبی  رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سیدہ صدیقہؓ علم کا بحرِ بے کنار تھیں۔ ( تذکرۃ الحفاظ‎)

فقیہۂ امت‎

ابن سعدؒ نے محمود بن لبیدؒ سے روایت کیا ہے کہ:’’ ازواجِ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے کثیر احادیث حفظ کیں، مگر نہ عائشہؓ ، اُم سلمہؓ کے برابر۔ ‘‘
سیدہ عائشہ، حضرت عمر اور حضرت عثمان  رضی اللہ عنہم  کے عہد میں اپنی وفات تک برابر فتویٰ دیتی رہیں، ان پر اللہ کی رحمت ہو، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد آپ کے پاس اکابر صحابہؓ حضرت عثمان، حضرت عمر  رضی اللہ عنہما آدمی بھیج کر احادیث دریافت کیا کرتے تھے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آپ ؓ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دورِخلافت میں بھی فتویٰ دیتی تھیں۔ (طبقاتِ ابن سعد‎)
آپ ؓ کے تبحرِ علمی کے سبھی اصحابِ پاکؓ ناصرف معترف تھے، بلکہ اکابر صحابہ کرام ؓ کو آپ سے شرفِ تلمذ حاصل ہے اور مشکل مسئلہ میں آپ ہی کی طرف رجوع کیا جاتا، گویا کہ وصالِ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد آپؓ نے اُمت کی ہمیشہ رہنمائی فرمائی ہے۔
حضرت مولانا قاضی اطہر مبارک پوری  رحمۃ اللہ علیہ  رقم طراز ہیں: 
’’حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  سے اکابر صحابہؓ کی ایک جماعت نے تفقہ حاصل کیا ہے اور روایت کی ہے۔ ان میں عمرو بن عاصؓ، ابو موسیٰ اشعریؓ، زید بن خالد جہنیؓ، ابو ہریرہؓ، ابن عباسؓ، ربیعہ بن عمرو جوشیؓ، سائب بن یزیدؓ، حارث بن عبداللہ ابن نوفلؓ وغیرہ زیادہ مشہور ہیں۔اور اکابر تابعین میں سعید ابن مسیب ؒ،علقمہ بن قیسؒ، عمرو بن میمونؒ، مطرف بن عبداللہ بن شخیرؒ، مسروق بن اجدع  ؒ، اسود بن یزید نخعیؒ کے علاوہ بہت بڑی جماعت ہے۔‘‘          (خیر القرون کی درسگاہیں، صفحہ نمبر: ۱۲۵‎)

کثیر الروایہ‎

علامہ ذہبی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ: آپ کو آٹھ برس اور پانچ ماہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی صحبت و رفاقت میں رہنے کا شرف حاصل ہے۔ (تذکرۃ الحفاظ‎)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  کا شمار کثیر الروایہ صحابہؓ میں ہوتا ہے۔ مسند احمد بن حنبل میں آپ کی مرویات کی تعداد ۲۴۳۴ درج ہے، اس میں تکرار کو شمار کیا گیا ہے۔ بغیر تکرار کے محدثین نے آپ کی مرویات کی تعداد ۲۲۱۰ نقل کی ہے، جن میں ۷۴ احادیث متفق علیہ، ۵۴ احادیث میں امام بخاریؒ منفرد ہیں اور ۶۸ احادیث میں امام مسلمؒ    منفرد ہیں۔
بعض علماء نے آپ کو کثیر الروایہ صحابہؓ میں چوتھے، بعض نے چھٹے اور بعض نے ساتویں نمبر پر شمار کیا ہے۔
حضرت مولانا سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ  آپ کا علمی مقام ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: 
’’روایات کی کثرت کے ساتھ ساتھ تفقُّہ اور قوتِ استنباط کے علاوہ سیدہ عائشہؓ کی روایتوں کی ایک خاص خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ جن احکام اور واقعات کو نقل کرتی ہیں، ان کے علل و اسباب بھی بیان کرتی ہیں۔وہ خاص حکم جن مصلحتوں پر مبنی ہوتا ہے، ان کی تشریح کرتی ہیں۔‘‘ (سیرتِ عائشہؓ‎) ‎

علم الفرائض‎

علم الفرائض کو نصف علم قرار دیا جاتا ہے، قدرت نے آپؓ کو اس سے بھی حظِّ وافر عطا فرمایا تھا۔ آپ نے صحبت و رفاقتِ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  سے خوب خوب استفادہ کیا، پھر اسے اُمت کو منتقل کرنے میں حق ادا کردیا۔ ابن سعدؒ مسروقؒ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ:
’’ان سے کہا گیا کہ کیا حضرت عائشہؓ فرائض اچھی طرح جانتی تھیں؟ انہوں نے کہا: کیا خوب! قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں نے انہیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اصحاب کی اُستانی دیکھا ہے کہ اکابر صحابہ کرامؓ ان سے فرائض پوچھتے تھے۔‘‘      (طبقات ابن سعد، الاستیعاب‎ )

دیگر علوم‎

علم الانساب تو گویا آپ کو وراثت میں ملا تھا، کیونکہ سیدنا ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ  علم الانساب میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے، علمِ کلام کے بارے میں آپ کو خاص ملکہ حاصل تھا، جن میں رؤیتِ باری تعالیٰ، عصمتِ انبیاء کرام  علیہم السلام  اور سماعِ موتی پر آپ کے نظریات و خیالات سے متکلمین کو راہنمائی ملتی ہے۔ علمِ تاریخ میں ہشام نے اپنے والد عروہ کا جو قول نقل کیا ہے وہ کافی ہے، جس میں وہ فرماتے ہیں کہ :’’تاریخ و انساب میں آپ  رضی اللہ عنہ  سے بڑھ کر جاننے والا کوئی نہ تھا۔‘‘
حضرت عروہؒ کہتے ہیں کہ: ’’ میں نے فقہ،طب اور شعر میں حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  سے زیادہ علم والا نہیں دیکھا۔‘‘
 اشعار کے بارے میں حضرت عروہؒ ہی کے بارے میں ابن عبدالبرؒ نے الاستیعاب میں لکھا ہے کہ: ’’ابو زناد کہتے ہیں کہ میں نے اشعار کے حفظ کے بارے میں حضرت عروہؒ جیسا کسی کو نہیں دیکھا، ان سے پوچھا گیا: اے ابوعبداللہ! یہ اشعار آپ کو کس نے یاد کروائے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ مجھے صرف وہی اشعار آتے ہیں جو میں نے حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  سے سنے ہیں، وہ بر موقع شعر سنایا کرتی تھیں۔‘‘ (الاستیعاب لابن عبدالبر‎)
آپ کو فصاحت و بلاغت میں نمایاں مقام حاصل تھا، اس میں سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  اور سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  کے بعد آپ کا درجہ ہے، آپ کے خطبات اس کی عکاسی کرتے ہیں جن میں جوشِ خطابت، فصاحت و بلاغت، اسرار و اشعار کی آمیزش ہوتی، جیسا کہ ترمذی میں موسیٰ بن طلحہ کا یہ قول نقل ہے: ’’مَارَاَیْتُ اَفْصَحَ مِن عَائِشَۃ۔‘‘ ۔۔۔۔ ’’میں نے عائشہؓ سے زیادہ کسی کو فصیح اللسان نہیں دیکھا۔‘‘
تاہم آپ اشعار نہیں کہتی تھیں، البتہ شاعرانہ صلاحیت آپ میں خوب تھی، علاوہ ازیں اللہ نے آپ کو مختلف علوم میں مہارتِ تامہ عطا فرمائی تھی، جن میں سے چند ہم نے اختصار سے پیش کیے ہیں۔ اسلامی تاریخ، غزوات، سیر، نزولِ قرآن کی ترتیب و مقامات، وحی کی کیفیت اور دیگر واقعات آپ ہی کے ذریعے امت تک پہنچے، آپ کی روایت کردہ احادیث، آپ کے فتاویٰ اور اقوال آج بھی امت کے لیے رشد و ہدایت کا ذریعہ ہیں اور تا قیامت آپ کا یہ فیض جاری و ساری رہے گا۔ 
استاذالمحدثین نامور سیرت نگار حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ لکھتے ہیں: ’’احکامِ شرعیہ کا چوتھائی حضرت عائشہؓ سے منقول ہے۔‘‘ (سیرت المصطفیٰ  صلی اللہ علیہ وسلم ، جلد سوم‎) 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین