کوئی شخص کسی کے ساتھ کتنا ہی مخلص کیوں نہ ہو، مگر جب تک دوسرا شخص بھی اپنی زندگی کو سنجیدگی سے نہ لے تب تک تنہا پہلے کا احساس وفکرپوری طرح فائدہ نہیں دے سکتا، یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمارے لیے بےشمار آنسو بہانےاور سفارش کرنے کے باوجود پھر بھی ہمیں اس سہارے زندگی گزارنا کہ بس ہم جو مرضی کرلیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں بچالیں گےبالکل درست نہیں، بلکہ ضرورت اس کی ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام تعلیمات کو عمل میں لایا جائے، بالخصوص جن چیزوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اُمت کی بربادی کا خوف واندیشہ تھا، اُن سے بچا جائے، تا کہ امتی کی جانب سے عشقِ حقیقی کا حق ادا ہو، جن میں سے چند یہ ہیں:
رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ کی قسم! میں تمہارے (تھوڑے سے نہ کہ حد سے زیادہ) فقرو افلاس سے نہیں ڈرتا، بلکہ اس سے ڈرتا ہوں کہ تم پر تم سے پہلے لوگوں کی طرح دنیا کشادہ کردی جائے، پھر تم پہلے لوگوں کی طرح دنیا کی محبت و رغبت میں گرفتار ہوجاؤ گے اور یہ دنیا پھر تم کو پہلے لوگوں کی طرح ہلاک کردے گی۔‘‘ (بخاری، مسلم)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میں اپنے دنیا سے جانےکے بعد تمہارے بارے میں جن چیزوں سے ڈرتا ہوں،ان میں دنیا کی تروتازگی اور زینت بھی ہے (جو فتوحات حاصل ہونے کے بعد )تمہارے سامنے آئے گی۔‘‘ (بخاری، مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ : ’’میں اپنی اُمت پر مخفی (چھپے ہوئے) شرک اور مخفی خواہشات سے ڈرتا ہوں۔ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ ! کیا آپ کے بعد آپ کی امت شرک کرے گی؟ فرمایا: ہاں، خبردار! میری اُمت سورج، چاند اور پتھر کی عبادت تو نہ کرے گی اور نہ بتوں کے آگے سجدہ کرے گی، البتہ اپنے اچھے کام لوگوں کو دکھائے گی۔ اور مخفی خواہشات یہ ہیں کہ ان میں سے کوئی شخص صبح روزہ دار اُٹھے گا، پھر نفسانی خواہشات میں سے کوئی خواہش (کھانا پینایا صحبت ) پیش آجائے گی تو وہ روزہ توڑ دے گا۔‘‘ (مسنداحمد)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک مجھے تمہارے بارے میں جس چیز کا ڈرہے وہ ایک ایسے آدمی کا ہے جس نے قرآن پڑھا، یہاں تک کہ اس پر قرآن کا جمال بھی دکھائی دیااور جب تک اللہ نے چاہا، وہ غیروں کے مقابلے میں اسلام کا پشت پناہ بھی رہا (مگر)پھر وہ قرآن سے دور ہوگیااور اسے اپنی پشت کےپیچھے پھینک دیا اور اپنے پڑوسی پر تلوار لے کر چڑھ دوڑا اور اس پر شرک کا الزام لگادیا۔ پوچھا گیا: اے اللہ کے نبی !ان دونوں میں سے شرک کے زیادہ قریب کون ہوگا؟ الزام لگانے والا یا جس پرالزام لگایا گیا؟ فرمایا: الزام لگانے والا۔‘‘ (ابن حبان)
سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تم سے متعلق چھ چیزوں کےبارے میں ڈرتا ہوں: ۱-نااہلوں کے حکمران بننے سے، ۲-(ناحق) خون بہانے سے، ۳-(قاضیوں کے) فیصلے بیچنے سے، ۴-رشتہ داریوں کے توڑنے سے، ۵-نوجوانو ں کے گانےکے انداز پر قرآن پڑھنے سے، ۶-مشیروں وزیروں کے بڑھ جانے سے (جس سے ظلم بڑھ جائے گا)۔ ‘‘ (الجامع الصغیر)
شفیع اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں اپنی امت پر گمراہ کرنے والے اماموں (حکمرانوں) سے ڈرتا ہوں۔‘‘ (ترمذی) یعنی جب ایسا ہوگا تو امت میں بہت فساد پھیلے گا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے اپنی امت کے متعلق سب سے زیادہ ڈر خواہشِ نفس اور لمبی آرزو کا ہے۔ خواہشِ نفس حق سے روک لیتی ہے، جبکہ لمبی آرزو آخرت بھلا دیتی ہے۔‘‘ (بیہقی)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے اپنی اُمت کے بارے میں سب سے زیادہ جس چیز کا ڈر ہےوہ قومِ لوط کے عمل (ہم جنس پرستی) کا ہے۔‘‘ (ترمذی، ابنِ ماجہ)
رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک اس امت کے حوالے سے سب سے زیادہ مجھے جس چیز کا ڈر ہے، وہ ہر اس منافق کا ہے جو زبان کی تیز طراری کا ماہر ہو۔‘‘ (مسند احمد)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے اپنی امت پر ۳ چیزوں کا ڈر ہے:۱-عالم کے پھسلنے کا(دین کے معاملے میں)، ۲-منافق کے قرآن کے بارے میں جھگڑا کرنے کا، ۳-تقدیر کے جھٹلانے کا۔‘‘ (طبرانی کبیر)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے اپنی امت کے بارے میں تین چیزوں کا ڈر ہے: ۱-انتہائی کنجوسی کا، ۲-خواہشِ نفس کا جس کی پیروی کی جائے، ۳-گمراہ حکمران کا۔‘‘ (مسند بزار)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے تمہارے بارے میں جس چیز کا ڈر ہےوہ تمہارے پیٹوں اور تمہاری شرمگاہوں کی گمراہ کرنے والی خواہشات ہیں۔‘‘ (مسند احمد)
فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’بے شک مجھے تمہارے بارے میں جس چیز کا سب سے زیادہ ڈر ہے، وہ زنا اور چھپی ہوئی شہوت(دل میں برے خیالات پالنا) ہے۔‘‘ (صحیح الترغیب، طبرانی)
ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے : ’’مجھے اپنے بعد اُمت کے بارے میں تقدیر کو جھٹلانے اور ستاروں کی تصدیق (ان کو مؤثر ِحقیقی سمجھنے) کا ڈر ہے۔‘‘ (مسنداحمد)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے تم پر دجال کے سوا اور باتوں (فتنوں، آپس کی لڑائیوں ) کا ڈر زیادہ ہے۔‘‘ (مسلم، ترمذی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے تمہارے سود میں مبتلا ہونے کا ڈر ہے۔‘‘ (مسند احمد)
سفیان بن عبد اللہ ثقفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ’’میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسول اللہ ! میرے بارے میں آپ کو کس چیز کا زیادہ ڈر ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان پکڑ کر فرمایا: ’’اسی کا خوف زیادہ ہے۔‘‘ (ترمذی)