جامعہ علومِ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے فاضل اجل، محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری ؒ کے تلمیذ رشید، حضرت مولانا عبد الغفور عباسی نقشبندی ؒ کے نواسے، حضرت مولانا شمس الرحمٰن عباسی دامت برکاتہم العالیہ کے برادرِ خورد، جامع مسجد قبا سولجر بازار کے امام و خطیب، جامعہ علومِ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے استاذ مولانامحمد یحییٰ لدھیانوی مدظلہ کے خسرِ محترم حضرت مولانا مستفیض الرحمٰن عباسیؒ ۲۴ ؍ذوالحجہ ۱۴۴۵ ھ مطابق یکم جولائی ۲۰۲۴ ءبروز پیر کچھ عرصہ علیل رہنے کے بعد رحلت فرمائے عالمِ آخرت ہوگئے، إنا للہ وإنا إلیہ راجعون، إن للہ ما أخذ و لہٗ ما أعطیٰ و کل شیئ عندہٗ بأجل مسمّٰی!
آپ ۱۹۵۶ء میں مانسہرہ کے علاقہ جدباء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم حفظِ قرآن کریم سے درسِ نظامی تک جامعہ علومِ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں حاصل کی، ۱۹۷۷ ء میں محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری ؒسے دورۂ حدیث کے اسباق پڑھ کر فاتحۂ فراغ پڑھا۔ پھر حضرت بنوریؒ کے حکم پر جامع مسجد قبا سولجر بازار کی امامت و خطابت کا منصب سنبھالا۔ آپ کی مسجد قبا ایسی جگہ پر ہے، جہاں ایک خاص مکتب فکر کے لوگ بڑی تعداد میں آباد ہیں، لیکن مجال ہے کہ کبھی کوئی مسئلہ یا بدمزگی ہوئی ہو، بلکہ تمام اہلِ علاقہ آپ کا بے حد احترام کرتے تھے۔ عاشورائے محرم اور چہلم صفر کے دنوں میں آپ کی مسجد میں تمام مکاتبِ فکر کے لوگ وضو اور نماز کے لیےآتے اور پُر امن رہتے ہوئے اپنے اپنے معاملات میں مصروف رہتے تھے۔ آپ کی حکمت و بصیرت نے کبھی کسی فتنہ اور شرارت کو سر اُٹھانے کا موقع نہیں دیا۔
آپ اپنے گھرانے کے ایسے فردِ فرید تھے جو سب کی خوشی و غمی، مرض وصحت، تعلیم و تربیت، شادی بیاہ، غرض ہر شعبہ ہائے زندگی اور تمام امور میں اپنی برادری اور متعلقین کے لیے ہر اول دستہ کا کردار اداکرتے ہوئے خدمت کے لیے پیش پیش رہتے، تکلف و تصنع سے کوسوں دور تھے۔ خوش اخلاق، ملنسار، اور عاجزی و سادگی کے پیکر تھے، ہر کسی سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملتے۔ ایسے مرجعِ خلائق تھے کہ لوگ ہر قسم کے دینی و علمی، معاشی و خانگی معاملات میں آپ سے رہنمائی لیتے، اصابتِ رائے ایسی رکھتے تھے کہ کوئی انجان شخص بھی آپ سے بلا جھجک ملتا اور مطمئن ہو کر جاتا۔ ثابت قدم اور مستقل مزاج ایسے تھے کہ ۱۹۷۷ ء میں اپنے استاذ محترم حضرت بنوری ؒ کے حکم پر جامع مسجد قبا کی امامت و خطابت سنبھالی تو استاذ کے حکم کا ایسا پاس رکھا کہ ۴۷ برس میں بے شمار بڑی بڑی پیشکشوں کو ٹھکرا کر اپنے محبوب استاذ سے وفاداری نبھاتے ہوئے تا دمِ آخر یہیں جمے رہے۔ آپ چاق و چوبند، قابلِ رشک صحت اور چھریرے و پھرتیلے بدن کے مالک تھے، روزانہ فجر کی نماز کے بعد اپنی مسجد سے مزارِ قائد تک چہل قدمی کرنے کا معمول تا دمِ صحت رہا۔
آپ قرآن کریم کے بہترین قاری تھے، لوگ آپ کے پیچھے نماز پڑھنے کے لیے مستقل سفر کرکے دور دور سے آتے تھے۔ ساری زندگی نہایت جرأت و غیرت کے ساتھ علاقے میں دین کی بھرپور خدمت کی، درسِ قرآن اور درسِ حدیث کے حلقے آباد کیے۔ آپ اپنے عام فہم، سادہ اور دل نشیں اندازِ بیان کی وجہ سے جہاں عوام میں مقبول تھے، وہیں اپنی مضبوط علمی استعداد، وسیع مطالعہ، حیران کن فقہی استحضار اور بصیرت افروز نکات کے سبب اہلِ علم میں بھی معروف تھے۔
پسماندگان میں بیوہ، دو صاحبزادے مولانا فضل الرحمٰن عباسی، مولانا محمود عباسی اور تین بیٹیاں شامل ہیں۔ اسی روز بعد نمازِ عصر مسجد قبا میں سیکڑوں علماء و طلبہ، اہلِ محلہ اور عوام نے حضرت مولانا شمس الرحمٰن عباسی دامت برکاتہم کی امامت میں نمازِ جنازہ اد اکی، پاپوش نگر قبرستان میں آپ کی تدفین عمل میں لائی گئی۔