بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

بینات

 
 

اِک نامبارک مقدمے پر نظر ثانی کا غیرمتوازن فیصلہ ۔۔۔ تجزیہ اور تبصرہ

اِک نامبارک مقدمے پر نظر ثانی کا غیرمتوازن فیصلہ

تجزیہ اور تبصرہ

الحمد للہ وسلامٌ علٰی عبادہ الذین اصطفٰی

 

مؤرخہ ۶؍ دسمبر ۲۰۲۲ء کو قادیانی ملزم مبارک احمد ثانی کے خلاف ملکی آئین کی دفعہ295-B اور295-C  اور قرآن ایکٹ 2011 ء کے تحت مقدمہ درج ہوا، جو ماتحت عدالتوں کی چھلنی میں چھنتے چھنتے تمام تر قانونی تقاضوں کے تحت سپریم کورٹ آف پاکستان تک پہنچا۔ سپریم کورٹ میں ملزم کے خلاف مقدمہ کی سابقہ کارروائی میں بے بنیاد طور پر قانونی سقم تراشتے ہوئے ملزم کے لیے ضمانت پررہائی کی استدعا کی گئی، معزز عدالت کے سینئر ججز نے یہ کیس سنا اور مؤرخہ ۶؍فروری ۲۰۲۴ء کو خلافِ توقع ملزم کے حق میں ایسا فیصلہ دیا جو ان واقعات وحقائق سے ہم آہنگ نہیں تھا، جو ایف ۔آئی ۔آر سے لے کر اس نوعیت کے جرم کی معروف دفعہ 295-C  میں بالکل واضح نہیں تھے۔ اس بنیاد پر سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کو انتہائی، نامناسب، غیرمتوازن اور حقائق کے برعکس ہونے کی بنا پر نظرثانی کے قابل سمجھاگیا اور خیر کی توقع کی جانے لگی کہ شاید معزز جج صاحب اپنی سابقہ غلطی کی ہر فورم پر ہر پہلو سے نشان دہی ہونے پر اپنی غلطی کا ازالہ فرمائیں، مگر افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ معزز جج صاحب نے ۲۴  ؍جولائی ۲۰۲۴ ء کو نظرثانی کا جو فیصلہ فرمایا، یہ سابقہ فیصلے سے زیادہ غیرمتوازن بلکہ متنازع ثابت ہوا۔ اس فیصلے میں جس تدبر، دوراندیشی اور حقائق کے اِدراک کی توقع تھی، یہ فیصلہ ان توقعات سے عاری محسوس ہوا، بلکہ سابقہ فیصلہ کے مقابلے میں یہاں پر عجلت، لاعلمی اور غیرمرئی اثرات کا برا تأثر بری طرح نمایاں طور پر محسوس ہورہا ہے۔ فیصلہ پچاس پیراگرافس پر مشتمل ہے، جن میں سے اکثر پر ہمارا تجزیہ اور تبصرہ ہے۔ اس فیصلے کے غیرواقعاتی پہلو اور جلدبازی کا اندازہ لگانے کے لیے یہ بھی کافی ہے کہ اس فیصلے کے شروع میں مفتی محمد حنیف قریشی کو جامعہ نعیمیہ کراچی کا نمائندہ لکھا گیا ، حالانکہ وہ اس کے نمائندے نہیں ، اور جناب حبیب الحق شاہ کو جامعہ دار العلوم کراچی کا نمائندہ لکھا گیا، حالانکہ وہ جامعہ نعیمیہ کراچی کے نمائندے ہیں ۔
 

تازہ حکم نامے کے پیرا گراف 

(۱) میں مسلمان کی تعریف لکھی گئی ہے کہ : ’’ مسلمان وہ ہے جو قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ کی آخری نازل کی ہوئی کتاب اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا آخری نبی مانتا ہو ۔ ‘‘ اور لکھا ہے کہ ختمِ نبوت کا عقیدہ قرآن کریم کی متعدد آیات سے ثابت ہے ، ان میں سے سورۃ الاحزاب کی آیت : ۴۰ لکھی گئی ہے ۔ 
(۲) میں عقیدہ ختمِ نبوت پر ۴ ؍ احادیث نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اسلام کی عمارت کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی نے ہر لحاظ سے مکمل کیا ہے۔
( ۳) میں لکھا ہے کہ قرآن و سنت نے یہ واضح کر دیا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر نبوت کے ختم ہونے پر ایمان کے بغیرکوئی شخص مسلمان نہیں ہوتا، اس پر امام غزالیؒ کے حوالے سے امت کا اجماع نقل کیا ہے ۔ 
(۴) میں واضح کیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین ۱۹۷۳ ء کی رو سے بھی ’’ مسلمان ‘‘ کی تعریف میں ختم نبوت پر ایمان ضروری ہے ۔
( ۵) میں واضح کیا گیا ہے کہ ملک کا نام ’’ اسلامی جمہوریہ پاکستان ‘‘ ہے ، صدراور وزیر اعظم کے لیے مسلمان ہونا آئین کی رو سے ضروری ہے ۔ ان پانچوں نمبرات میں عدالت نے جو کچھ لکھا ، اس پر ہم عدالتِ عظمیٰ کے جج صاحبان کی تحسین و توصیف اور اس پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔ لیکن 
(۶) میں عدالت نے اس کیس کا جو پس منظر لکھا ہے ، وہ مدعی کے وکیل کے بقول ایف ۔آئی ۔آر کے جملہ مندرجات کا احاطہ نہیں کرتا، اس لیے کہ مدعیِ مقدمہ ایف ۔آئی ۔آر میں لکھواتا ہے کہ مدعی چار سال سے تحریف شدہ ترجمہ قرآن پاک کی روک تھام کے لیے کوشش کر رہا ہے اور اس نے ہر فورم: وزیر اعظم ، وزیر اعلیٰ ، ہوم سیکریٹری اور تمام ذمہ داران کو اس بارہ میں درخواستیں دیں ، لیکن کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ سائل نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی ، لاہور ہائی کورٹ نے ۵ ؍مارچ ۲۰۱۹ ء کو تمام اداروں کو حکم دیا کہ تحریف شدہ ترجمہ قرآن پاک چھاپنے والے ملزمان کے خلاف کارروائی کی جائے ۔ جس دن ہائی کورٹ کا یہ حکم آیا اس کے اگلے ہی دن یعنی ۶ ؍مارچ ۲۰۱۹ ء کو قادیانیوں نے اعلان کر دیا کہ ۷ ؍مارچ ۲۰۱۹ ء کو چناب نگر میں تفسیر ِ صغیر تقسیم کی جائے گی، مدعی نے پھر تھانے میں درخواست دی، لیکن کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ ۷ ؍مارچ ۲۰۱۹ ء کو قادیانیوں نے اپنے طے شدہ منصوبے کے تحت نصرت جہاں کالج کے گراؤنڈ میں کھلے عام تحریف شدہ تفسیر صغیر تقسیم کی ، قادیانیوں کی اس جسارت کے تمام ثبوت تھانے میں دیے گئے، لیکن پولیس نے ٹال مٹول سے کام لیا اور کوئی کارروائی نہ کی ، اس پر عوامی احتجاج ہوا ، پولیس نے عوامی دباؤ کے نتیجے میں جے آئی ٹی بنائی، جس نے ہر زاویے سے اس کی تحقیق کی ، قادیانیوں کا جرم واضح ہونے کے بعد ان کے خلاف کارروائی کی بجائے ساڑھے تین سال بعد ۲۰۲۲ ء میں معاملہ ’’ پنجاب قرآن بورڈ ‘‘ کو بھیج دیا گیا۔
دسمبر ۲۰۲۲ ء میں پنجاب قرآن بورڈ نے اس معاملے کے متعلق تمام دستاویزی ثبوت کا جائزہ لینے کے بعدضلعی انتظامیہ کو ایف ۔آئی ۔آر کاٹنے کا کہا ، ایک ماہ بعد تمام ملزمان میں سے صرف ایک ملزم مبارک احمد کو گرفتار کیا گیا جو مدرسۃ الحفظ کا پرنسپل اور اس تحریف شدہ قرآن کریم چھاپنے ، اس کی تبلیغ و تعلیم ، قرآن کریم کو غیر قانونی مقاصد کے لیے استعمال کرنے ، مرزا بشیر الدین محمود کے لیے ’’ رضی اللہ عنہ ‘‘ لکھنے ، اپنےآپ کو مسلمان ظاہر کرنے، اور اہلِ اسلام کے جذبات مجروح کرنے جیسے قبیح اور غیر قانونی جرائم کے ارتکاب میں شریکِ کار ہے۔ گویا ملزم آئین و قانون کی رو سے پانچ جرائم کا مرتکب ہوا :-۱ : قادیانی ہونے کے باوجود اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنا ۔ ۲ : ’’ رضی اللہ عنہ ‘‘ کو مرزا کے بیٹے کے لیے استعمال کرنا ۔ ۳:مسلمانوں کے اجماعی عقیدے کے خلاف قرآن کریم کا ترجمہ شائع کرنا ۔ ۴ : قرآن پاک کی غلط تفسیر شائع کر کے اہلِ اسلام کے جذبات مجروح کرنا۔ ۵ : قرآن پاک کو غیر قانونی مقاصد کے لیے استعمال کرنا ۔
ایف۔آئی ۔آر میں موجود ہے کہ مدعی نے تمام ملزمان کے نام دینے کے ساتھ استدعا کی کہ تحریف شدہ قرآن کریم چھاپنے سے لے کر تقسیم ہونے تک تمام معلوم و نامعلوم ملزمان ؛ پرنٹر ، پبلشر ، اوتھر (مصنف)، کمپوزر ، پروف ریڈر ، اور دیگر معاونین کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے ۔ اس بناپر ایف۔ آئی ۔آر میں دفعہ : ۲۹۵سی، ۲۹۵بی ، پنجاب قرآن ایکٹ ۲۰۱۱ ء کی دفعہ : ۷ اور ۹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ،جس پر سیشن کورٹ ، ہائی کورٹ نے اس کو سزا دی اور اس کی درخواست ِ ضمانت کو مسترد کیا ۔ لیکن ہماری سپریم کورٹ کے اس فیصلے میں ملزم مبارک ثانی قادیانی جو قانونی طور پر ناقابلِ اشاعت تفسیر ِ صغیر چھاپنے سے لے کر اس کی غیر آئینی و غیر قانونی تقسیم تک تمام شریک ملزمان کی فہرست میں شامل رہا ، وہ صرف تقسیم کنندہ ظاہر ہو رہا ہے ۔ اس پر ۲۹۵سی اور ۲۹۵بی ختم کر کے صرف پنجاب قرآن ایکٹ ۲۰۱۱ ء کے تحت رکھا گیا ، چونکہ یہ ایکٹ ۲۰۱۱ ء مصنف ، طابع ، ناشر ، اور پروف ریڈر کے متعلق ہے اور اسی ایکٹ کے تحت تقسیم کنندہ کا نام ۲۰۲۱ ء میں شامل کیا گیا ، اور چونکہ یہ وقوعہ ۲۰۱۹ ء میں ہوا ہے ، گویا جرم پہلے ہوا اور قانون بعد میں بنا ، اس لیے عدالت نے کہا کہ اس کو ضمانت دی جاتی ہے ۔ حالانکہ اسی فیصلے میں بھی تقسیم ، اشاعت ساتھ ساتھ دونوں لکھے ہوئے ہیں ، اور اشاعت کا معنی اُردو کی معتبر ویب سائٹ ’’ ریختہ ‘‘ کے مطابق:’’ ۱:کسی عقیدے یا خیال وغیرہ کی ترویج و تبلیغ ۔ ۲ : اخبار یا کتاب چھپنے کے بعد منظر عام پر لائے جانے کا عمل ‘‘ لکھا ہے ۔ اسی طرح ’’ نور اللغات ‘‘جلد اوّل میں لکھا ہے : ’’ اشاعت : (ع) مؤنث : شائع کرنا/ مشہور کرنا/ شہرت ‘‘ اور آگے لکھا ہے : ’’ اخبار اور کتابوں کے ساتھ زیادہ مستعمل ہے ۔ ‘‘ اس اعتبار سے بھی یہ ملزم مبارک ثانی اس قانونی طور پر ناقابلِ اشاعت اور تحریف شدہ تفسیر ِ صغیر کی تقسیم کی بنا پر بھی اس کی ترویج وتبلیغ ، اس کو منظر عام پر لائے جانے ، اس کو مشہور کرنے جیسے قبیح اعمال میں ملوث ہے ، تو اس لحاظ سے بھی اس کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔
اسی طرح یہ بات بھی دیکھی جائے کہ مصنف ، طابع ، ناشر ، کمپوزر ، ریکارڈ جمع کرنے والا ؛ ان سب کے خلاف کارروائی کی استدعا کی گئی ، لیکن ان کے بارے میں بھی سپریم کورٹ نے کوئی وضاحت نہیں مانگی کہ آیا یہ لوگ گرفتار ہوئے کہ نہیں ؟ اگر ہوئے تو کیا کارروائی ہوئی ؟ اور اگر نہیں ہوئے تو کیوں نہیں ہوئے ؟ اور مزید اس بابت بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جب قانونی طور پر ناقابلِ اشاعت اور تحریف شدہ تفسیر ِ صغیر تقسیم کے مرحلے تک پہنچی ہے تو کیا مصنف ، طابع ، ناشر ، کمپوزر ، ریکارڈ جمع کرنے جیسے مراحل سے گزرے بغیر یہ تحریف شدہ اور قانونی طور پر ناقابلِ اشاعت تفسیر وجود میں آگئی ہے ؟ اس معاملے میں یہ فیصلہ خاموش ہے ۔  
(۷) میں لکھا ہے کہ : ’’ ایف ۔آئی ۔آر میں ملزم پر مجموعۂ تعزیرات کی دفعہ ۲۹۵ بی کا ذکر تو کیا گیا ہے، لیکن ایف ۔آئی ۔آرکے مندرجات میں توہینِ قرآن کا الزام نہ تو بلا واسطہ اور نہ ہی بالواسطہ لگایا گیا تھا ۔ ‘‘ 
اس بارے میں عرض ہے کہ: ایف ۔آئی ۔آر میں ۲۹۵ -بی ، ۲۹۵ -سی اور آخر میں ۲۹۸ -سی؛ تینوں دفعات کا ذکر ہے، اور تفسیر ِ صغیر میں کئی مقامات پر تحریف کر کے گویا قرآن کریم اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کی گئی ہے ۔ قانون کی نظر میں جس طرح کسی کو دھماکا خیز مواد دینا جرم ہے ، اسی طرح بم پکڑانا بھی جرم ہی کہلاتا ہے۔ جب ایف ۔آئی ۔آر میں بتایا گیا کہ تفسیر ِ صغیر (جس میں جا بجا تحریف کر کے قرآن کریم کی توہین کی گئی ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی توہین کی گئی ، اس کے علاوہ قرآن کریم کو غیر قانونی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیااس کی) تعلیم و تبلیغ کی جا رہی ہے ، جس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں اور اس سے نقصِ امن کا اندیشہ ہے ، تو ان سب کے باوجود فیصلے میں یہ کہہ دینا کہ : ’’ اس میں دفعات کا تو ذکر ہے، لیکن اس میں توہینِ قرآن کا الزام نہ تو بالواسطہ اور نہ ہی بلا واسطہ لگایا گیا ۔ ‘‘ سمجھ سے بالاتر معلوم ہوتا ہے، کیونکہ تحریف شدہ اور قانونی طور پر ناقابلِ اشاعت تفسیرِ صغیر کی اشاعت و تقسیم بذاتِ خود قرآن کریم کی توہین ہے ۔ مزید یہ کہ ایک قادیانی کا اپنے ہاتھ میں تحریف شدہ تفسیر ِ صغیر رکھنا ؛ کیا اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنے کے واسطے نہیں ؟ اس تفسیر کی تقسیم کرنا تعلیم اور تبلیغ کے زمرے میں نہیں آتا ؟ اس تفسیر ِ صغیر میں تحریف کر کے اس کو چھاپنا قرآن کو غیر قانونی مقاصد کے لیے استعمال کرنا لازم نہیں آتا ؟ اس تحریف شدہ تفسیر ِ صغیر میں ’’ رضی اللہ عنہ ‘‘ کا مرزا بشیر الدین محمود کے لیے لکھے ہوئےہونے سے اس لفظ کو غیرِصحابی کے لیے استعمال کرنا لازم نہیں آتا ؟ 
اور یہ کہنا کہ : ــ’’ چونکہ مذکورہ ادارہ جہاں ایف ۔آئی ۔آرکے مطابق ممنوعہ کتاب تقسیم کی گئی تھی، احمدیوں کا ادارہ تھا ، اس لیے اس فعل پر مجموعۂ تعزیرات کی دفعہ ۲۹۸ -سی کا اطلاق نہیں ہوسکتا ۔ ‘‘ راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ مجموعۂ تعزیرات کی دفعہ ۲۹۸ -سی کو ایک بار پھر پڑھ لیا جائے ، جو کہ درج ذیل ہے :
’’ دفعہ ۲۹۸ سی ۔ قادیانی گروپ وغیرہ کا شخص جو خود کو مسلمان کہے یا اپنے عقیدے کی تبلیغ یا پرچار کرے : 
قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ کا (جو خود کو احمدی یا کسی اور نام سے موسوم کرتے ہیں) کا کوئی شخص جو بلا واسطہ یا بالواسطہ خود کو مسلمان ظاہر کرے ، یا اپنے مذہب کو اسلام کے نام سے موسوم کرے ، یا موسوم کرتا ہو ، یا الفاظ ، خواہ زبانی ہوں یا تحریری یا دیکھے جا سکنے والے نقوش ، کے ذریعےاپنے مذہب کی تبلیغ یا پرچار کرے ، یا دوسروں کو اپنا مذہب قبول کرنے کی دعوت دے ، یا کسی بھی طریقے سے مسلمانوں کےمذہبی جذبات مجروح کرے ، اسے کسی ایک قسم کی سزائے قید اتنی مدت کے لیے دی جائے گی جو تین سال تک کی ہو سکتی ہے اور وہ جرمانے کی سزا کا بھی مستوجب ہوگا۔ ‘‘
اب تحریف شدہ اور  قانونی طور پر ناقابلِ اشاعت تفسیرِ صغیر جو عَلانیہ کالج کے بڑے گراؤنڈ میں کئی اداروں کے جمع شدہ طلبہ و طالبات میں تقسیم کی گئی ؛ اس سے یہ لازم نہیں آیا کہ :
1 : تفسیر ِ صغیر ہاتھ میں ہو تو کیا ایک سادہ لوح آدمی یہ نہیں سمجھے گا کہ یہ آدمی مسلمان ہے ، اسی لیے تو اس کے ہاتھ میں تفسیر ہے ؟ جب کہ واضح ہے کہ تفسیر کی اصطلاح بھی صرف مسلمانوں کے قرآن کریم کے ساتھ خاص ہے ، تو کیا اس عمل سے ایسے لوگوں نے بالواسطہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر نہیں کیا ؟ 
2 : کیا انھوں نے اس عمل سے اپنے عقیدے کا بطور اسلام حوالہ نہیں دیا ؟ اور موسوم نہیں کیا ؟ 
3 : کیا اس عمل سے انہوں نے (زبانی ، تحریری ، ظاہری حرکات سے) دوسروں کو اپنا عقیدہ قبول کرنے کی دعوت نہیں دی ؟ 
4 : کھلے عام کالج کے گراؤنڈ میں تحریف شدہ اور  قانونی طور پر ناقابلِ اشاعت تفسیرِ صغیر تقسیم کرکے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچائی ؟ 
5 : ان تمام اعمال کے ہونے کے باوجود فیصلے میں لکھنا کہ: ’’ چونکہ مذکورہ ادارہ جہاں ایف۔ آئی۔ آر کے مطابق ممنوعہ کتاب تقسیم کی گئی تھی ؛ احمدیوں کا ادارہ تھا، اس لیے اس فعل پر مجموعۂ تعزیرات کی دفعہ ۲۹۸ -سی کا اطلاق نہیں ہو سکتا ۔ ‘‘ سمجھ سے بالاتر ہے ۔ گویا عدالت بھی مانتی ہے کہ دفعہ ۲۹۸- سی کی خلاف ورزی تو کی گئی، لیکن وہ قادیانیوں کا ادارہ تھا ، اس لیے اس دفعہ کا اطلاق نہیں ہوتا ۔ 
معزز عدالت کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک آدمی استفسار کرسکتا ہے کہ کیا کسی قانون کے تحت یہ لکھا ہے کہ قادیانی یا لاہوری اپنے ادارے میں تحریف شدہ قرآن کریم یا قانونی طور پر ناقابلِ اشاعت کوئی کتاب تقسیم کر سکتے ہیں ؟ یا اس کی تعلیم اور تبلیغ کر سکتے ہیں ؟ اس کی بھی وضاحت کر دی جاتی تو یہ اُلجھن اور مشکل پیش نہ آتی ۔ مزید یہ کہ ایف ۔آئی ۔آر میں بھی لکھا ہے کہ جن طلبہ اور طالبات میں یہ تحریف شدہ اور  قانونی طور پر ناقابلِ اشاعت تفسیر صغیر تقسیم کی گئی ؛ وہ کئی اداروں مثلاً : مدرسۃ الحفظ ، عائشہ اکیڈمی ، مدرسۃ البنات ، تین اداروں کے بچوں کو لایا گیا ، اور نصرت جہاں کالج کے گراؤنڈ میں کھلے عام یہ تقریب رکھی گئی ، اور کہیں نہیں لکھاکہ اس کالج میں صرف قادیانی آسکتے ہیں اور دوسرے سادہ لوح مسلمان نہیں آسکتے۔ جب ایسا نہیں ہے تو کیسے کہا جا سکتا ہے کہ یہ تقریب ان کے ادارے میں ہوئی ؟
 اسی طرح کیا گورنمنٹ سے کالج کا اجازت نامہ لیتے وقت یہ صراحت کی گئی تھی کہ اس میں صرف قادیانی تعلیم حاصل کر سکیں گے اور دوسرے نہیں؟ راقم الحروف کے علم کے مطابق سرکاری تعلیم گاہیں ہوں یا پرائیوٹ ادارے ؛ ان کو اجازت نامہ دیتے وقت ایسی کوئی قید نہیں لگائی جاتی کہ فلاں عقیدہ اور مذہب کا آدمی پڑھ سکتا ہے اور فلاں کا نہیں ۔ مزید یہ کہ ہمارے معزز جج صاحبان اس تحریف شدہ اور  قانونی طور پر ناقابلِ اشاعت تفسیرِ صغیر کی تقسیم کی ٹائمنگ اور وقت کو بھی مدِّنظر رکھتے تو ان کو صحیح نتائج تک پہنچنے میں دِقّت پیش نہ آتی کہ ۵ ؍مارچ ۲۰۱۹ ء کو ہائی کورٹ کے معزز جج صاحب نے تمام اداروں کو تحریف شدہ ترجمۂ قرآن پاک چھاپنے والے ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے کا حکم صادر فرمایا اور اگلے ہی دن ۶ ؍مارچ ۲۰۱۹ ء کو قادیانیوں نے اعلان کیا کہ کل تفسیرِ صغیر تقسیم کی جائے گی ۔ کیا اس سے یہ باور نہیں ہوتا کہ یہ تمام تر کارروائی معزز جج کے حکم کی خلاف ورزی اور توہینِ عدالت تھی اور یہ تمام تر کارروائی صرف اور صرف جان بوجھ کر اور تمام اداروں کے منہ پر طمانچہ تھا کہ تم نے جو کچھ کرنا ہے، کر لو ! ہم تمہاری عدالتوں کے فیصلوں کو یوں ردّی کی ٹوکری میں پھینکتے ہیں ؟ 
اور یہ کہنا کہ : ’’ عدالت ہذا کے علم میں یہ بات لائی گئی کہ ملزم قید میں ۱۳ ؍مہینے گزار چکا ہے ، جب کہ ممنوعہ کتاب کی تقسیم کا جرم ثابت ہونے پر اسے جس قانون کے تحت سزا سنائی جا سکتی ہے ؛ وہ فوجداری ترمیمی قانون ۱۹۳۲ ء کی دفعہ : ۵ ہے ، جس کے تحت زیادہ سے زیادہ ۶ مہینے تک کی سزائے قید دی جا سکتی ہے ۔ ‘‘
اس کے بارہ میں وکلاء کا کہنا یہ ہے کہ یہ قانون بنیادی طور پر پریس اینڈ ایمرجنسی پاور ایکٹ ۱۹۳۱ ء کا حصہ ہے ، مگر یہ قانون تو آج سے ۶۴ سال قبل پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈی نینس ۱۹۶۰ ء کے ذریعے ختم کر دیا گیا ، جس کے ثبوت میں پی ایل جے ۲۰۲۱ ، سی آر سی ۱۷۷۲ اور ۲۰۲۲ ایس سی ایم آر ۵۱ اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے دیکھ لیے جائیں ۔ 
 مزید یہ کہ معزز عدالت تفسیرِ صغیر کو کالعدم کتاب تسلیم کرتی ہے ۔ درحقیقت یہ مصحف قرآن پاک ہے، جسے ٹریزن ایبل اور سیڈیشن ترجمہ اور تشریح موجود ہونے پر حکومت ِ پنجاب نے  ۲۰۱۶ ء سے قانونی طور پر ناقابلِ اشاعت قرار دے رکھا ہے ۔ قانونی طور پر ناقابلِ اشاعت مواد رکھنا دہشت گردی ایکٹ ۱۹۹۷ ء کی دفعہ ۸ اور ۱۱ ڈبلیو کے تحت جرم ہے ، جس کی بابت یہ حکم نامہ خاموش ہے ۔ 
(۸) میں پنجاب حکومت کی درخواست کا ذکر ہے ، جس میں مذہبی آزادی کے حق کو معترضہ حکم نامہ ’’قانون، امن عامّہ ، اور اخلاق کی قیود ‘‘ کے بغیر ذکر کیا گیا ۔ اس کا عدالت نے آگے جا کرجواب دیا ہے ۔ 
(۹) میں عدالت عظمیٰ کی جانب سے معترضہ حکم نامے پر تنقید کو غلط فہمی پر مبنی قرار دیا اور آگے خود ہی غلطی کے امکان کو مانتے ہوئے کہا کہ اسی لیے نظرِ ثانی کی اپیل کا حق دیا جاتا ہے ۔ 
(۱۰) میں اسلامی تاریخ میں فقہاء کرام کی جانب سے قاضیوں کے فیصلوں پر علمی تنقید اور اس کی مثالیں پیش کی گئیں ۔ 
(۱۱) میں دس اداروں کے نام اور عدالت کی جانب سے انھیں نوٹس دیے جانے کا ذکر ہے ۔ 
(۱۲) میں عدالت کی صراحت کہ فوجداری مقدمے میں نظر ِ ثانی کے موقع پر مقدمے کے اصل فریقوں کے سوا کسی کو فریق نہیں بنایا جا سکتا ، سوائے اس شخص کے جو مقدمے کے فیصلے سے براہ ِ راست متأثر ہو ۔ 
(۱۳ ) میں فاضل ایڈیشنل پروسیکیوٹر جنرل پنجاب کا کہنا تھا کہ معترضہ حکم نامے میں آئین کی دفعہ ۲۰ کا حوالہ دیا گیا ،لیکن یہ حوالہ ادھورا ہے ، کیونکہ اس میں مذکورہ دفعہ کے ابتدائی الفاظ : ’’ قانون ، امن عامّہ ، اور اخلاق کے تابع ‘‘ نقل نہیں کیے گئے ۔ انہوں نے اس بات پر بھی دلائل دیے کہ ایف ۔آئی ۔آرمیں مذکورہ حقائق کی بنیاد پر مسؤل الیہ نمبر : ۱ کے خلاف مجموعۂ تعزیرات کی دفعہ ۲۹۵ -بی کی فردِ جرم عائد کی جاسکتی تھی ۔ شکایت کنندہ کےوکیل نے بھی یہ دلیل دی ۔ 
عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے اس پیراگراف میں پہلی بات کہ :’’ دفعہ ۲۰ کا حوالہ ادھورا ہے ۔ ‘‘ کا جواب یہاں نہیں دیا گیا ، آگے جا کر دیا ہے ۔ دوسری بات کا جواب یہ دیا گیا کہ مسؤل علیہ نمبر : ۱ کے وکیل نے اعتراض کیا کہ نظر ثانی میں حکومتِ پنجاب کی جانب سے صرف ایک استدعا کی گئی ہے (کہ دفعہ : ۲۰ کا حوالہ ادھورا ہے ۔) اب وہ اس پر اضافہ نہیں کر سکتے ۔ گویا عدالت بھی مانتی ہے کہ دفعہ : ۲۹۵ -بی کا اطلاق ہو سکتا تھا ، جس کا  پہلے فیصلے میں اطلاق نہیں کیا گیا ۔ عوامی اُمنگوں کے مطابق جب نظر ثانی کا فیصلہ کیا گیا اور نظر ثانی کی استدعا میں چونکہ پنجاب حکومت نے صرف ایک ہی استدعا کی تھی ، اس لیے ۲۹۵ -بی کی فردِ جرم عائد نہیں کی جا سکتی ۔ 
گویا بظاہر قانونی پیچیدگیوں کا سہارا لے کر اور جواز بنا کر ملزم کو ضمانت دی گئی، حالانکہ پاکستانی عوام کا تو مطالبہ ہی یہ تھا کہ قانون کے مطابق اور ایف ۔آئی ۔آر کے مطابق اس مقدمے کا صحیح فیصلہ سنایا جائے ، اس فیصلے میں جو جو سقم اور کمزوریاں ہیں ‘ ان کو دور کیا جائے، لیکن نظر ثانی میں بھی ان کا تدارک نہیں کیا گیا۔ عدالتِ عظمیٰ کی اس بات سے تو یہ مترشح ہوتا ہے کہ پنجاب حکومت کے فاضل ایڈیشنل پروسیکیوٹر جنرل پنجاب نے اس مقدمے کو سنجیدگی اور بیدار مغزی سے پیش نہیں کیا ۔ اگر ایسا صحیح بھی ہو تو عدالت عظمیٰ سے یہ درخواست تو کی جاسکتی ہے کہ وہ مسؤل علیہ نمبر : ۱ کے فاضل وکیل سے کہہ سکتی تھی کہ جب  ایف ۔آئی۔ آر میں دفعہ : ۲۹۵ -بی کا ذکر ہے اور اس پر دلائل بھی دیے گئے ہیں تو ان دلائل کی روشنی میں دفعہ : ۲۹۵ -بی کا اطلاق ہوتا ہے ۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس میں کوئی قانونی رکاوٹ تھی ، یا اس پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ۔ اور یہ بھی کہا کہ : ’’ ایف ۔آئی۔آر وُقوعے کے تقریباً تین سال بعد درج کی گئی ہے اور اس کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکا ۔ ‘‘
تو گزارش یہ ہے کہ مذہبی معاملات میں ایف ۔آئی ۔آر کا ایسا پیچیدہ اور مشکل نظام بنایا گیا ہے کہ اس میں وفاقی سطح کا افسر جب تک محلِ وقوع کا معائنہ نہ کر لے یا جب تک وہ اجازت نہ دے تو ایف ۔آئی۔ آر نہیں کاٹی جا سکتی۔ اس مقدمے میں بھی مدعی وقوعے کے دن سے مسلسل افسرانِ بالا کو درخواستیں دیتا رہا، لیکن شنوائی نہ ہوئی ، حتیٰ کہ ہائی کورٹ کے حکم کے بعد پولیس جے آئی ٹی بنی اور پھر پنجاب تحفظ ِ قرآن بورڈ کی طرف سے اس کو بھیجا جانا اور ان کی طرف سے انتظامیہ کو حکم دیا جانا، اس میں اتنی تاخیر ہوئی، گویا تاخیر کی وجوہات مقدمے کی فائل میں درخواستوں کی صورت میں موجود ہیں، لیکن شاید اُن کو قابلِ اعتنا نہیں سمجھا گیا ۔ 
(۱۴) میں ناشر کے مفہوم میں تقسیم کنندہ شامل ہے یا نہیں ؛ اس پر بحث کی گئی ہے ۔
(۱۵) میں شکایت کنندہ کی جانب سے تفسیرِ صغیر تقسیم کیے جانے کی بنا پر اس پر غیر قانونی مقصد کا اطلاق ہونے کا ذکر ۔ مسؤل علیہ نمبر: ۱ کے وکیل کی جانب سے ’’ طاہر نقاش بنام ریاست ‘‘ مقدمے کا حوالہ دیا گیا، حالانکہ پیرا گراف : ۴۱ میں عدالت نے لکھا ہے کہ اس مقدمے میں احمدی ملزم پر الزام یہ تھا کہ اس نے اپنی عبادت گاہ کے اندر کلمہ طیبہ لکھا ہوا تھا اور قرآن مجید کے نسخے رکھے تھے ۔۔۔الخ۔ لیکن سوچنا چاہیے کہ اس مبارک ثانی مقدمے میں اس ملزم پر تحریف شدہ تفسیرِ صغیر تحریر کرنے ، چھاپنے سے لے کر تقسیم کرنے تک کے الزامات ہیں ۔ ’’ طاہر نقاش بنام ریاست ‘‘ مقدمے پر اس کو قیاس کرنا صحیح نہیں ۔ 
(۱۶) میں دس اداروں کو نوٹس دیے گئے ، ان کے نام اور ’’ المورد ‘‘ کا بحیثیت ِ ادارہ کوئی موقف نہ ہونے کا ذکر ۔ 
(۱۷) میں لکھا ہے کہ : ’’ اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ : عدالت نے اسلامی عقیدے کو محض ’’ قرآن ‘‘ پر مبنی قرار دیا ہے ، یہ ناقص بات ہے ۔ اسلامی عقائد ’’ قرآن اور سنت ‘‘ دونوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ ‘‘ اس پر عدالت نے کہا کہ : ہم نے ایسا نہیں کہا ۔ کونسل نے معترضہ فیصلے میں آیات کو بے محل قرار دیا اور کہا کہ :’’ اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ جہاں غلط کام ہو رہا ہو تو مسلمان اس کو شرعی وقانونی طریقوں سے نہ روکیں۔ ‘‘ اس پر عدالت نے کہا کہ : کسی کو شرعی و قانونی طریقہ اختیار کرنے سے روکا نہیں تھا اور نہ ہی ایسا حکم دے سکتے ہیں ۔ عدالت نے لکھا کہ کونسل نے دین کے معاملے میں جبر کی ممانعت کو تو تسلیم کیا، مگر اسے اس حد تک محدود کر دیا کہ کسی کو اس کی مرضی کے بغیر اسلام قبول کرنے پر مجبور نہ کیا جائے ۔ 
راقم الحروف اس پر عرض کرتا ہے کہ اس کا دائرہ محدود کونسل نے نہیں کیا، بلکہ مفسرین نے اس آیت کا اپنی تفاسیر میں محدود دائرہ ہی ذکر کیا ہے ، اور اس کو عدالت عظمیٰ نے ’’ مجیب الرحمٰن بنام ریاست‘‘ میں بھی واضح کیا ہے ، جیسا کہ فیصلے کےنمبر : ۲۰ میں ’’ مجیب الرحمٰن بنام ریاست ‘‘ فیصلے کے تحت چند اقتباسات بطور حوالہ نقل کیے جائیں گے۔
(۱۸) پانچ اداروں کا موقف جناب مفتی حبیب الحق نے پڑھا اور اس میں کہا گیا کہ عدالت نے معترضہ حکم نامے میں قرآن کریم کی آیات سے غلط استدلال کیا اور مقدمہ بعنوان : ’’ مجیب الرحمٰن بنام حکومت ِ پاکستان‘‘ میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے اور مقدمہ بعنوان : ’’ ظہیر الدین بنام ریاست ‘‘ میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے انحراف کیا ہے ۔ 
عدالت نے کہا کہ ہم نے مقدمہ ظہیر الدین بنام ریاست کے فیصلے سے انحراف نہیں کیا ، نہ ہی کر سکتے ہیں ، کیونکہ یہ فیصلہ بڑے بنچ کا تھا جو پانچ فاضل ججوں پر مشتمل تھا ۔ 
(۱۹) جامعہ محمدیہ غوثیہ بھیرہ کے مفتی شیر محمد خان نے قرآن کریم کےحوالے سے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اس نام نہاد عبادت گاہ کو ڈھا دینے کا حکم دیا تھا ؛ جہاں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف سازشیں ہو رہی تھیں ، اور اسے مسجد ضرّار کا نام دیا تھا ۔ جناب ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی نے بھی اپنی انفرادی رائے میں یہ دلیل دی تھی ۔ اس پر عدالت نے کہا کہ یہ عبادت گاہ جن لوگوں نے بنائی تھی ؛ انہوں نے ا سے نام مسجد کا دیا تھا ، جس سے بعض مسلمان دھوکے میں پڑسکتے تھے ، جب کہ پاکستان کے قانون میں پہلے ہی سے پابندی ہے کہ احمدی اپنی عبادت گاہ کو مسجد نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی خود کو مسلمان کے طور پر پیش کر سکتے ہیں ۔۔۔۔الخ۔
راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ مفتی صاحب اور ڈاکٹر عمیر صدیقی نے یہ حوالہ محض مسجد نام رکھنے پر نہیں دیا تھا کہ جسےیہ کہہ کر خاموش کرا دیا جائے کہ پاکستان کے قانون میں پہلے ہی سے پابندی ہے کہ قادیانی اپنی عبادت گاہ کو مسجد نہیں کہہ سکتے ، بلکہ ان حضرات کا کہنا یہ تھا کہ اس جگہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہو رہی تھیں ، اور یہ سازشیں بھی ادارے میں ہو رہی تھیں ، جس کی بنا پر اسے منہدم کیا گیا ۔ مطلب یہ کہ کوئی اسلام یا مسلمانوں کے خلاف عَلانیہ سازش کرے ، تب بھی مجرم ہے، یا نجی طور پر کرے ، تب بھی وہ مجرم ہے ۔ اسلامی ریاست کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اسلام، مسلمانوں اور ریاست کے خلاف کہیں بھی کوئی سازش نہ ہونے دے ۔ اور یہ واقعہ خود دلیل ہے اس بات کی کہ قادیانیوں کو چاہے ان کے گھر ، عبادت خانے یا مخصوص نجی ادارے ہوں ؛ کہیں بھی اسلام، ریاست اور مسلمانوں کے خلاف کسی فعل اور عمل کی اجازت نہیں ۔ 
(۲۰) میںلکھا ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کے سامنے مجیب الرحمٰن مقدمے میں یہ معاملہ اُٹھایا گیا کہ پاکستان میں احمدیوں کو اپنے مذہب اورعقیدے پر عمل سے روکا جا رہا ہے تو عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کو اپنے مذہب پر عمل کی اجازت ہوتی ہے اور اس ضمن میں عدالت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   کے غیر مسلموں کے ساتھ معاہدات کا حوالہ دینے کے علاوہ عہدِ صحابہؓ اور بعد کی اسلامی تاریخ سے کئی مثالوں کا ذکر کیا ۔ 
اس کے جواب میں راقم الحروف مقدمہ : مجیب الرحمٰن بنام ریاست ’’قادیانیت کے خلاف اعلیٰ عدالتوں کے تاریخی فیصلے ‘‘ (مؤلفہٗ : محمد متین خالد) نامی کتاب سے یہ اقتباس نقل کرنا چاہتا ہے : 
’’ کسی غیر مسلم کے اس حق پر ایسی کوئی آئینی ، قانونی یا شرعی پابندی نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی توحید کا اعلان کرے ، پیغمبر  صلی اللہ علیہ وسلم  کو اپنے دعوے میں سچا تسلیم کرے، قرآن کریم کو اچھے دستورِ حیات کا حامل تسلیم کرے اور اس کے احکام پر عمل پیرا ہو ۔۔۔۔ چھٹے سوال کا واضح جواب یہ ہے کہ ایسے غیر مسلم سے قرآن و سنّت کی عائد کردہ شرائط ؛ جن کا تذکرہ مناسب موقع پر آئے گا ، کے تحت دوسری اقلیتوں جیسا سلوک کیا جائے ۔۔۔۔ ‘‘
آگے لکھا کہ : 
’’ مسٹر مجیب الرحمٰن نے ’’ اکراہ ‘‘ کے بارہ میں جو چار اصول بنائے ہیں ، وہ بھی قطعی ہیں ۔ لیکن تیسرے اصول کا اطلاق جیسا کہ مسٹرمجیب الرحمٰن نے کیا ہے ، درست نہیں ہے ۔ تیسرا اصول یہ ہے کہ کسی شخص کو طاقت کے استعمال سے ، اس کے دین سے نہیں نکالا جا سکتا ۔ اپنے تحریری دلائل میں وہ اس پر یہ اضافہ کرتے ہیں : ـ’’جیسا کہ ہمیں نکالا گیا ہے ۔ ‘‘ زیر ِ بحث آرڈی نینس میں ایسی کوئی بات نہیں کہ انہیں اپنے مذہب سے نکال دیا گیا ہے ۔ 
یہ استدلال کیا گیا تھا کہ احمدیوں پر اپنے آپ کو مسلمان کہنے یا ایسا ظاہر کرنے پر پابندی عائد کرنا ، انہیں اپنے دین سے جو ان کے مطابق اسلام ہے ، نکالنے کے مترادف ہے ۔ اس سوال پر ہم پہلے غور کرچکے ہیں اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہر دو عقیدوں کے قادیانی مسلمان نہیں ہیں ، بلکہ غیر مسلم ہیں ۔ لہٰذا آرڈی نینس انہیں اپنے آپ کو ایسا کہنے سے روکتا ہے ، جو وہ نہیں ہیں ۔ کیونکہ انہیں اپنے آپ کو جھوٹ موٹ مسلمان ظاہر کر کے کسی شخص خصوصاً امتِ مسلمہ کو دھوکا دینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔ یہ امر پہلے واضح ہو چکا ہےکہ مرزا صاحب اور لاہوری گروہ کے سوا دیگر قادیانیوں نے اپنے آپ کو ایسی جماعت کی جگہ جس میں قرآن کریم کی محبت اور عقیدت سب سے بلند ہے ، مسلم جماعت قرار دے لیا ہے ۔ یہ برداشت نہیں کیا جا سکتا اور غیر مسلموں کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ امت کا شیرازہ بکھیر کر مسلمانوںکے حقوق اور مراعات پر قبضہ کر لیں ۔ پھر یہ امر قادیانیوں کے مرزا صاحب کو خواہ نبی یا مجدد یا مہدی معہود یا مسیح موعود ماننے کے حقوق پر بھی اثر انداز نہیں ہو تا اور نہ ہی اس سےا ن کے اس حق میں مداخلت ہوتی ہے کہ وہ اپنے مذہب پر عمل کریں اور اس کے اصولوں کے مطابق اپنی عبادت گاہوں میں عبادت کریں ۔ ۔۔۔ شریعتِ اسلامیہ غیر مسلموں کو اپنے دین کو ماننے، نیز اس پر عمل کرنے کا پورا تحفظ دیتی ہے۔‘‘          (۲۱۶  تا ۲۱۸) 
اس فیصلے میں آگے چل کر لکھا کہ : 
’’ متوکل علی اللہ کے زمانے میں ذمیوں پر کچھ زیادتیوں کی مثالیں مل سکتی ہیں ، لیکن ان کے پس پردہ ایک عنصر یہ تھا کہ اس وقت خود غیر مسلم ‘ قائم حکومت کے خلاف سازشیں کرنے لگے تھے اور ایسی سازشیں ان کی عبادت گاہوں میں تیار ہوتی تھیں ۔ بدیں وجہ حکومت کو ان کا لباس مقرر کرنے اور ان کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کی ضرورت پیش آئی ۔ ‘‘                (۲۲۴) 
آگے لکھا کہ: 
’’ تاہم یہ تمام دلائل غیر متعلق ہیں ، کیونکہ زیر ِ بحث قانون قادیانیوں کو اپنا عقیدہ بدلنے اور اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کرتا ۔ ۔۔۔ لیکن نہ وہ مسلمان ہیں اور نہ ہی یہ امور اکراہ ، جبر یا دھمکی کے ان اصولوں کے تحت آتے ہیں جن پر آیات کا اطلاق ہوتا ہے۔ ان آیات کا اطلاق کسی اور دین کو چھوڑ کر اسلام قبول کرنے پر ہوتا ہے ۔ ‘‘                            (۲۲۷) 
راقم الحروف یہ عرض کرتا ہے کہ آئین میں بھی ان کو قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ لکھا گیا ہے ، یہ ایک گروپ اور گروہ تو ہے، لیکن کوئی مذہب نہیں ۔ قادیانیت کوئی مذہب نہیں ۔ مسلمانوں کا یہ مطالبہ ہے کہ قادیانی ‘مسلمانوں کے شعار کے علاوہ اپنے شعار بنائیں اور حکومتِ پاکستان کے تحت اپنے آپ کو رجسٹرڈ کرائیں ، ان سے کوئی جھگڑا نہیں اور غیر مسلموں کے تحت اپنی مذہبی آزادی حاصل کریں ۔ 
جب قادیانیت کسی مذہب کا نام نہیں اور نہ ہی گورنمنٹ کے تحت یہ رجسٹرڈ ہے ، بلکہ یہ صرف ایک جعل ساز گروہ ہے جو مسلمانوں کے شعار کو استعمال کر کے دوسرے انسانوں کو دھوکا دیتا ہے تو ظاہر ہے کہ ہر سوسائٹی یا دستور و قانون میں کسی جعل ساز کے کوئی حقوق نہیں ہوتے ۔ 
(۲۱) ’’ پانچ اداروں کے مشترکہ موقف میں یہ نکتہ بھی اُٹھایا گیا کہ جس تقریب میں مسؤل علیہ پر کتب کی تقسیم کا الزام تھا ، وہ ’’ مدرسۃ الحفظ ، عائشہ اکیڈمی ومدرسۃ البنات ‘‘ کی تقریب تھی اور ان ناموں سے عام مسلمان دھوکے میں پڑسکتے ہیں۔ کیا احمدیوں کے ادارے کے لیے ایسا نام رکھنے پر مجموعۂ تعزیرات کی دفعہ : ۲۹۸ -سی کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں؟ عدالت نے اس پر کہا کہ : یہ سوال اس مقدمے میں عدالت کے سامنے نہیں ہے ، نہ ہی ایف ۔آئی ۔آرمیں مسؤل علیہ پر یہ الزام ہےکہ یہ نام اس نے رکھے تھے ۔ ‘‘
گویا عدالت عظمیٰ مانتی ہے کہ ’’ مدرسۃ الحفظ ، عائشہ اکیڈمی ، مدرسۃ البنات ‘‘نام رکھنا ، اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنا ، قرآن کریم کو اپنی کتاب کہنا ، اور مدرسہ کے لفظ سے دھوکا دینا پایا تو جاتا ہے ؛ لیکن چونکہ مدعی نے یہ الزام نہیں لگایا تو اس لیے دفعہ : ۲۹۸ -سی کا اطلاق نہیں کیا گیا ۔‘‘ اس سے گویا قادیانیوں کی آئین شکنی کے باوجود انہیں صاف بچا لیا گیا ہے ، ورنہ اتنے دوسرے امور عدالت از خود زیرِ بحث لے آئی ہے ۔ 
بہرحال ! آگے پیرا گراف ۲۵ تا ۳۹ میں اس قانون کے بننے کے حالات ، واقعات ، مراحل ، مقصد ، اور اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کا ذکر ہے ، جو بہت ہی عمدہ انداز اور پیرائے میں بیان کیے گئے ہیں ۔ اس پر ہم عدالت کے شکر گزار ہیں ۔
 البتہ قادیانیوں اور لاہوریوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیے جانے ، ان کی طرف سے قانون کی خلاف ورزیوں کی بنا پر ۲۶ ؍اپریل ۱۹۸۴ ء کا امتناعِ قادیانیت آرڈی نینس کا جاری ہونا اور اس قانون کا حصہ بن جانا ، پھر اس کی خلاف ورزیوں پر مقدمات بننا اور اس قانون کو عدالتوں میں چیلنج کیا جانا اور اس پر اعلیٰ عدالتوں کے تاریخی فیصلوں کے صادر ہونے کے اتنا عرصہ بعد عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے ایک بار پھر ۱۹۷۴ ء میں پارلیمنٹ میں کی گئی اراکینِ اسمبلی کی تقاریر کا حوالہ دینا کہ وہ بھی چاہتے تھے کہ ان کو مذہبی آزادی دی جائے؛ یہ کچھ صحیح نہیں لگتا، کیونکہ قانون بن جانے کے بعد قانون ہی ان تمام وضاحتوں کے لیے کافی اور شافی ہوتا ہے ، جیسا کہ اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں میں اس قانون کی تمام تشریحات آگئی ہیں۔
(۴۰) ’’فیصلے میں یہ بھی قرار دیا گیا کہ جن انتظامی احکامات کو اس مقدمے میں چیلنج کیا گیا تھا، ان کا اطلاق احمدیوں کے صرف ان افعال پر ہوتا ہے جو وہ عوامی سطح پر انجام دیں، نہ کہ ان افعال پر جووہ اپنے گھروں یا عبادت گاہوں میں کریں۔‘‘ 
اس پر اتنا عرض کریں گے کہ یہ عدالتی فیصلے اس وقت ظہور میں آئے جب قادیانیوں نے سو سالہ جشن منانے کا فیصلہ کیا ،اور روڈوں پر چراغاں کیا ، جھنڈیاں لگائیں، بینر وغیرہ لگائے، اور کہا کہ ہم شکرانے کے نوافل ادا کریں گے ، غریبوں میں کھانا تقسیم کریں گے۔اس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہونا اور امنِ عامہ کا مسئلہ پیدا ہونا یقینی تھا ، تو اس پر انتظامیہ نے پابندی لگا دی اور پھر قادیانی عدالتوں میں اپیلیں لے کر گئے، تو اس پر عدالتوں میں یہ فیصلہ دیا گیا کہ یہ مذکورہ بالا کام اپنے گھروں اور عبادت گاہوں میں کریں ۔ اس میں کہیں نہیں لکھا کہ اپنے گھروں میں بیٹھ کر اپنے مذہب کی تبلیغ کریں ، قرآن کریم میں تحریف کریں، اپنے آپ کو مسلمان کہیں ، یا مسلمانوں کی اصطلاحات اور شعائر کا مذاق اُڑائیں ۔
(۴۱) میں مقدمہ بعنوان ’’’ طاہر نقاش بنام ریاست ‘‘ کا تذکرہ کیا ہے، لیکن اس کا حوالہ اس مقدمے میں بنتا نہیں ، اس لیے کہ اس میں تین باتیں ہیں : ثابت کرے کہ قرآن کریم کے کس نسخے یا کسی اقتباس کی قصداً توہین کی گئی ہے یا اسے نقصان پہنچایا گیا یا اس کی بے حرمتی کی گئی ہے اور یہ غیر قانونی مقصد کے تحت کی گئی ہے ۔ یہ تو عدالت نے کام آسان کر دیا، کیونکہ ہم نے یہ ثابت کرنا ہے کہ صرف ایک توہین ہوئی ہے ، تفسیرِ صغیر میں قرآن کریم کی توہین کی گئی ہے ۔ تو طاہر نقاش کے فیصلے کا حوالہ دینا یہاں درست نہیں ہوگا ۔ سورۃ التحریم میں حضرت مریم علیہا السلام کے تذکرے میں تفسیر صغیر کے اندر جو حاشیہ ہے ، اس میں لکھا ہے کہ :’’آئندہ زمانے میں خدا کی طرف سے ایک آدمی ظاہر ہوگا ۔۔۔ الخ۔‘‘ (ص : ۷۸۵) اور مرزا غلام قادیانی کی کتاب کشتیٔ نوح مندرجہ روحانی خزائن ، ج : ۱۹ ، ص : ۵۰ میں لکھا ہے کہ : ’’مجھے مریم سے عیسیٰ بنایا گیا ۔۔۔ الخ۔‘‘ اس طرح سورۃ التحریم کی آیت کو مرزا پر چسپاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ محترمہ کی توہین ہے ، اور مسلمانوں اور عیسائیوں کی دل آزاری کا باعث ہے ۔ اس کے علاوہ بھی پوری تفسیر اس طرح کی تحریفات سے بھری پڑی ہے ۔ 
(۴۲) میں عدالت نے کہا : ’’ آئینی و قانونی دفعات اور عدالتی نظائر کی اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ احمدیوں کے دونوں گروہوں کو غیر مسلم قرار دینے کے بعد انہیں آئین اور قانون کے مطابق اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے اور اس کے اظہار اور اس کی تبلیغ کا حق اس شرط کے ساتھ حاصل ہے کہ وہ عوامی سطح پر مسلمانوں کی دینی اصطلاحات استعمال نہیں کریں گے ، نہ ہی عوامی سطح پر خود کو مسلمانوں کے طور پر پیش کریں گے ۔ تاہم اپنے گھروں ، عبادت گاہوں اور اپنے نجی مخصوص اداروں کے اندر انہیں قانون کے تحت مقرر کردہ ’’ معقول قیود ‘‘ کے اندر ’’ گھر کی خلوت‘‘ کا حق حاصل ہے ۔ ‘‘
راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ یہ بات تو ٹھیک ہے کہ قادیانیوں اور لاہوریوں کو غیر مسلم قرار دینے کے بعد انہیں آئین اور قانون کے مطابق اپنے مذہب پر عمل کرنے کا حق ہے ، لیکن ان آئینی و قانونی دفعات اور عدالتی نظائر سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ وہ اپنے مذہب کے اظہار اور اس کی تبلیغ کا حق اپنے گھروں ، عبادت گاہوں اور اپنے نجی مخصوص اداروں کے اندر کر سکیں گے ؟
معزز عدالت کے جج صاحبان سے بڑے ادب کے ساتھ عرض ہے کہ آپ کے اسی فیصلے کے پیراگراف نمبر : ۴۰ میں درج ہے کہ : ’’ فیصلے میں یہ بھی قرار دیا گیا کہ جن انتظامی احکامات کو اس مقدمے میں چیلنج کیا گیا تھا ، ان کا اطلاق احمدیوں کے صرف ان افعال پر ہوتا ہے جو وہ عوامی سطح پر انجام دیں ، نہ کہ ان افعال پر جووہ اپنے گھروں یا عبادت گاہوں میں کریں۔‘‘ 
عرض ہے کہ اس میں اپنے عقیدے کا اظہار ، تبلیغ ، دعوت ، یا اسلامی شعار اور اصطلاحات کا استعمال اپنے گھروں اور عبادت گاہوں اور نجی اداروں میں کر سکتے ہیں ۔ ‘‘ کہاں سے ثابت ہوا ؟ اسی طرح مقدمہ  (بعنوان : طاہر نقاش بنام ریاست) سے گھروں ، عبادت گاہوں اور اپنے مخصوص نجی اداروں میں عقیدے کا اظہار یا تبلیغ یا اسلامی شعار کے اظہار اور استعمال کی اجازت کیسے ثابت ہوتی ہے ؟ اس لیے کہ اس مقدمے میں بھی لکھا ہے کہ وہاں کلمہ طیبہ لکھا ہوا تھا اور قرآن مجید رکھے ہوئے تھے ۔ اس سے زیادہ کچھ ثابت نہیں ہوتا ۔  
(۴۸) میں لکھا ہے کہ : ’’ مسلمانوں کو سوچنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کس کام میں ہے اور کیا ان اعمال سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  خوش ہوں گے ؟  ‘‘
اس بارہ میں اتنا عرض ہے کہ قادیانی مسلمانوں کے مخالف نہیں ، بلکہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم   کے موہن ، انبیاکرامؑ کے موہن ، اہل بیت ؓ کے مخالف ، اور تمام امتِ مسلمہ کو کافر کہنے والے، اور اپنے آپ کو کافر ہونے کے باوجود مسلمان کہنے والا گروہ ہے ، اس لیے عدالت ان کو مسلمانوں کا مخالف کہہ کر ان کے جرم کو ہلکا نہ کرے ۔ خلاصہ یہ کہ بظاہر اس مقدمے میں درج کی گئی ایف ۔آئی ۔آر کے مطابق فیصلہ سامنے نہیں آیا ۔ 
۲- اس فیصلے کے پیرا گراف نمبر ۶ اور ۷ میں کافی ابہامات ہیں ۔
۳ - پیراگراف نمبر ۳۸ میں ظہیر الدین بنام سرکار مقدمے کا حوالہ دیا گیا ہے ۔ جسٹس سلیم اختر نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ قادیانی اپنی حدود کے اندر بھی وہ کام نہیں کر سکتے جو مسلمانوں کے ساتھ مخصوص ہیں ، ہاں جو مخصوص نہ ہوں ؛ وہ کر سکتے ہیں ۔  
۴- پیراگراف نمبر ۴۲ سب سے افسوس ناک ہے ، جس کے تحت انہیں گھر کی خلوت کاحق دیا گیا ہے ، حالانکہ آئین و قانون میں ایسا کہیں نہیں لکھا ہوا ۔ عدالتی نظائر ’’ ظہیر الدین بنام سرکار ‘‘ و ’’ طاہر نقاش بنام ریاست ‘‘ میں بھی گزر چکا ہے کہ گھر کے اندر بھی توہین نہیں کر سکتے ۔ محض قرآن رکھنا جرم نہیں، بلکہ اس کے اندر تحریف شدہ مواد جرم ہے جو کہ تفسیر صغیر میں ہے ۔ کیا ذاتی اداروں کے اندر کوکین ، حشیش وغیرہ رکھنا جائز ہے ؟ 
۵- اب آگے یہ مسائل کھڑے ہوں گے کہ نجی ادارے کی تعریف کیا ہے ؟ کیونکہ بہت سے ادارے نجی و عوامی دونوں ہوتے ہیں ۔ اب کیسے فرق کیا جائے گا؟ کیا کسی شخص کو گھر کے اندر بائبل یا ہندوؤں کی مقدس کتاب کی توہین کی اجازت ہوگی ؟ آگے عید ، قربانی وغیرہ عبادات کےاندر بھی مسائل پیدا ہوں گے۔ 
نیز یہ کہ پیراگراف نمبر : ۴۲ نے پچھلی باتوں مثلاً ایف ۔آئی ۔آر ۳ سال بعد درج کی گئی وغیرہ پر پانی پھیر دیا ہے ، کیونکہ جب نجی اداروں میں سب کرنے کی اجازت ہے تو ایف ۔آئی ۔آر درج کرانے کی ضرورت کیا رہ گئی ؟ اس کے علاوہ نمبرات میں کوئی ایسی بات نہیں ، جس پر کوئی وضاحت کی جائے ۔ 
اللہ تبارک و تعالیٰ اُمتِ مسلمہ کی حفاظت فرمائے ، ہمارے ملک و قوم اور اداروں کی عزت و توقیر میں اضافہ فرمائے ، ملک کو امن و امان کی نعمت سے مالامال فرمائے اور آخرت میں ہمیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی شفاعت نصیب فرمائے ، آمین بجاہ سید المرسلین !
الغرض نظرثانی کی اپیل پر حالیہ فیصلے کے بارے میںتجزیہ یا تبصرہ کا ایک رُخ یہ ہے، ماہرینِ قانون اس پر مزید روشنی ڈال سکتے ہیں۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین