بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

بینات

 
 

اسلامی نام رکھنے کی اہمیت اور غیرمسلموں کی سازش ۔۔۔ غیرمسلم ممالک، بالخصوص ہندوستان کے تناظر میں

اسلامی نام رکھنے کی اہمیت اور غیرمسلموں کی سازش

غیرمسلم ممالک، بالخصوص ہندوستان کے تناظر میں


عالمِ کفر‘ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہر محاذ پر برسرِ پیکار ہے، مسلمانوں کے خلاف ہر طرح کی سازشوں میں مصروفِ عمل ہے۔ ہمیشہ سے اسلام دشمن طاقتیں نت نئے طریقوں سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں کے جال بُنتی چلی آرہی ہیں۔ اب ایک عرصہ سے عسکری ہتھیاروں سے زیادہ فکری اور تہذیبی جنگ چھیڑکر نئے انداز سے مسلمانوں کی نفسیات کو زیر کرنے کی پالیسی اپنائی گئی ہے، چنانچہ بعض غیر مسلم ممالک میں یہ قانون بنایا گیا ہے کہ غیر مسلم معاشرے میں رہنے والا مسلمان کسی اور ملک میں شادی نہیں کر سکتا۔ اس ملک میں رہنے کےلیے وہیں سے شادی کرنا ضروری ہے، تاکہ ان کے رشتے مسلمانوں سے نہ ہوں یا کم از کم کمزور ایمان والے مسلمانوں سے ان کا رشتہ ہو، تاکہ آگے آنے والی نسل کسی بھی طرح سے مسلمان نہ رہے۔ مختلف انداز کی اس یلغار سے مسلمانوں کا ایک طبقہ اپنی اقدار و روایات سے ہاتھ دھو کر فکری ارتداد کا شکار ہو چکا ہے۔ پچھلی چند دہائیوں سے عالمِ کفر کی طرف سے اسلام دشمنی کے اقدامات اور طریقۂ واردات میں نمایاں تبدیلیاں آچکی ہیں۔
کچھ عرصہ قبل امریکی تھنک ٹینکس (rund corporation) نامی ادارہ کی طرف سے شائع ہونے والی رپورٹ میں نئی اسڑیجٹی کا سراغ ملتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب عالمِ کفر براہ راست امتِ مسلمہ کی اسلامی شناخت، نظریاتی اور فکری تشخُّص پر تیشہ چلاکر اس کو مجروح کرنے پرتل گیا ہے، لہٰذا ان حالات میں امت کو اپنی فکری و عملی تشخص کے خلاف دشمن کی ریشہ دوانیوں سے واقف ہونا ضروری ہے اور اس کے سدِ باب کے لیے انفرادی اور اجتماعی سطح پر حتی الوسع کوشش وقت کی اہم ضرورت اور تقاضا ہے۔ ان سازشوں میں سے ایک سازش یہ بھی ہے کہ مسلمانوں سے اس اسلامی تشخص اور تہذیب کو ختم کرنے کے لیے دنیا سے اسلامی ناموں کا خاتمہ کر دو۔
چنانچہ کچھ عرصہ قبل ہندوستان میں آرـایس ـایس ـکی جانب سے مسلمانوں کو یہ مشورہ دیا گیا کہ اگر وہ اسلامی ناموں کو ترک کر کے غیر اسلامی ناموں کو اپنا لیں تو ہمارا اُن سے جھگڑا ختم ہو جائے گا۔ 
مولانا شمشادعلی قاسمی صاحب لکھتے ہیں : 
’’اسلام دشمن تنظیمیں وقتاً فوقتاً جو شر انگیز شوشے چھوڑتی رہتی ہیں، اسی ضمن میں پچھلے دنوں آرـ ایس ـ ایس کی طرف سے ایک تحریک چلائی گئی تھی، جس میں مسلمانوں کو یہ مشورہ یا ہدایت دی گئی تھی کہ وہ عبد اللہ، عبدالرحمٰن اور قاسم وغیرہ، غیر ملکی ناموں کو چھوڑکر اپنے پرکھوں (آباء و اجداد) کے نام رام داس اور کرشن پال وغیرہ نام رکھیں، پھر ہمارا ان سے کوئی جھگڑا نہیں، پھر ہم سب بھائی بھائی کی طرح مل جل کر رہیں گے اور مسلمانوں کو ہم سے کبھی کوئی شکایت نہیں ہوگی۔ ان کا یہ شیطانی حربہ تو کبھی کامیاب نہیں ہوگا اور مسلمان اپنی ایمانی غیرت اور دینی حمیت سے ہر ایسی سازش اور منصوبے کو ناکا م بناتے رہیں گے، جس کے ذریعے اسلام دشمن طاقتیں اس ملک میں اندلس کی بدبختانہ تاریخ دہرانا چاہتی ہے، لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کے صرف نام بدل دینے سے کتنے بڑے مذہبی و تہذیبی انقلاب کا اندازہ کرلیا، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ نام صرف مسمیٰ کو پکارنے کی صوتی پہچان نہیں، بلکہ ان ناموں میں ان کے ایمان و عقائد کی جڑیں پیوستہ ہیں، اس لیے اگر یہ نام ختم ہو گئے تو مسلمانوں کے عقائد کی جڑیں اُکھڑ جائیں گی، جس کے بعد مذہب کا تصورخود بخود ختم ہوتا چلا جائے گا۔‘‘           (مسلمانوں کے نام اور ان کے احکام، ص:۱۶)
اسی طرح بعض غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں پر قانوناً یہ پابندی عائد کی گئی ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق اسلامی نام نہیں رکھ سکتے۔ مسلمانوں کو اس بات پر مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ ان کی مرضی کے مطابق عیسائی نام رکھیں، اس کا اندازہ اس سوال سے بخوبی کیا جا سکتا ہے جو وہاں کے رہنے والے مسلمانوں نے کیا ہے:
’’سوال: بعض عیسائی حکومتوں نے خصوصاً جنوبی امریکہ کی حکومت نے عوام پر لازم قرار دیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے لیے عیسائی نام کے علاوہ دوسرے نام نہ رکھیں۔ اس کے لیے حکومت نے ناموں کی لسٹیں تیار کی ہیں اور یہ لازم قرار دیا ہے کہ اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کے نام اسی لسٹ سے منتخب کر کے رکھیں اور کوئی شخص بھی اس لسٹ کے علاہ کوئی دوسرا نام حکومت کے پاس رجسٹرڈ نہیں کرا سکتا۔ کیا مسلمانوں کو ایسے نام رکھنا جائز ہے؟ اگرجائز نہیں تواس مشکل کے حل کی کیا صورت ہے؟‘‘ 
حسبِ ضرورت یہاں صرف سوال نقل کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے ۔سوال سے ہی معاملہ کی نزاکت واضح ہورہی ہے ۔
ہندوستان کے معروف عالم دین حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب حفظہ اللہ اپنی کتاب ’’عصرِ حاضر کے سماجی مسائل‘‘ میں لکھتے ہیں: 
’’ہمارے ملک میں ایک تنظیم ’’راشٹریہ سیوک سنگھ‘‘ ہے، جس کا مخفف ’’آرـ ایس ـ ایس‘‘ ہے۔ معنی کے اعتبار سے یہ لفظ بہت پرکشش ہے، گویا یہ قومی خدمت گاروں کا ایک گروہ ہے، لیکن اس کے عزائم اتنے ہی خطرناک اور انسانیت کے دشمن ہیں، یعنی اس تنظیم کا بنیادی مقصد ملک کی اقلیتوں پرجبر و دباؤ قائم رکھنا اور ان میں عدمِ تحفظ کے احساس کو برقرار رکھنا ہے۔ گزشتہ نصف صدی سے زیادہ عرصے سے وہ اپنے ان مقاصد کے لیے سرگرمِ عمل ہیں اور ان کے نامۂ اعمال کے حرف حرف سے مظلوموں کے خون و لہو کی سرخی نمایاں ہے۔
کچھ عرصہ قبل جناب کے سدرشن آرـایس ـ ایس کے ذمہ دار منتخب ہوئے ہیں، وہ اس منصب پر فائز ہونے کے بعد ہی سے ایسے گرم بیانات دے رہے ہیں جو اقلیتوں کو اشتعال میں لے آئیں اور اس طرح فرقہ پرست عناصر کو اپنے مذموم عزائم کے رو بہ عمل لانے کا بہانہ ہاتھ آ جائے۔ ہفتہ، عشرہ پہلے انہوں نے اپنے ایک بیان میں مسلمانوں کو تلقین کی ہے کہ وہ اپنے نام میں اسلام کے ساتھ ہندو ناموں کو بھی جوڑا کریں، جیسے نعوذ باللہ ’’محمد رام‘‘ وغیرہ نام رکھا کریں۔
انہوں نے اس بات پر غور نہ کیا کہ مسلمانوں نے اس ملک پر آٹھ سو سال حکومت کی، ان میں بہت سے مسلم حکمران وہ تھے، جنہوں نے اپنے سیاسی مسائل میں مسلمانوں کے مقابلے میں ہندوؤں کو قریب رکھا تھا، اور جن مسلمان فرماں رواؤں کو آج یہ متعصب اور تنگ نظر کہتے ہیں، جیسے اورنگ زیب عالمگیرؒ، بابر وغیرہ، ان کا حال بھی یہ تھا کہ بڑے بڑے سیاسی اور فوجی عہدوں پر انہوں نے ہندو کو رکھا تھا۔ اگر اتنا طویل عرصہ میں مسلمان دوسری قوموں کو بالجبر مسلمان بنانے کی کوشش کرتے یا کم سے کم مسلمانوں کے سے نام رکھنے کی ان سے خواہش کی جاتی، انہیں مجبور نہیں کرتے صرف ان کو ترغیب دیئے ہوتے تو اس میں کیا شبہ ہے کہ اس ملک میں غالب ترین اکثریت مسلمانوں کی ہوتی۔ 
ایک ایسی قوم جسے درختوں اور پتھروں یہاں تک کہ کیڑے مکوڑوں کو بھی پوجنے میں عار نہیں اور بےجان مظاہرِ قدرت کے سامنے سر ٹیکنے میں بھی کوئی حجاب نہیں، اس کے لیے انسانوں کا مطیع و فرمان بردار ہو جانا اور فرمان رواؤں کے سامنے سر جھکانا کیا دشوار ہوتا؟
لیکن مسلمانوں نے کبھی ایسا نہیں کیا اور اپنے پیغمبر کی تعلیم کے مطابق مذہب کے معاملہ میں جبر ودباؤ کی راہ اختیار کرنے سے ہمیشہ اجتناب برتا۔ اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو جناب سدرشن آج عبداللہ یا عبدالرحمٰن ہوتے۔ یہ ہے مسلمانوں کی رواداری! اور دوسری طرف ہمارے یہ کوتاہ ذہن، تنگ نظر اور شدت پسند قائدین ہیں کہ جو صرف نصف صدی میں دوسری قوموں کو اپنے وجودمیں جذب کرنے کے درپے ہیں۔ مسلمانوں کو بتاتے ہیں کہ ان کی رگوں میں رام اور کرشن کا خون ہے اور تلقین کرتے ہیں کہ انہیں اپنے نام ہندوؤں کے سے رکھنے چاہئیں، کیا اس سے بڑھ کر بھی شدت پسندی اور دہشت گردی کی مثال ہو سکتی ہے؟؟
اسلام میں ایک خاص قانون ’’موالات‘‘ کا ہے۔ اس قانون کے تحت اگر کوئی عجمی شخص کسی عرب مسلمان قبیلہ کے ہاتھ پر ایمان لاتا تو وہ اسی قبیلہ کی طرف منسوب کیا جاتا۔ امام بخاریؒ ایرانی النسل تھے، لیکن اسی نسبت سے جعفی، یمانی کہلائے۔ 
غور کیا جائے تو فقہاء کرامؒ کے استنباط کیے ہوئے اس قانون میں بہت ہی عمیق اور دوررس فکر کار فرما ہے۔ اور وہ فکر یہ ہےکہ انسان طبعی طور پر اپنے آباءواجداد سے محبت رکھتا ہے اور ان کی نسبت کو باعثِ افتخار جانتا ہے، اس لیے اگر مسلمان ہونے کے بعد بھی زمانۂ کفر کی خاندانی نسبت اس کے ساتھ لگی رہے تو اسی سماج سے وہ پوری طرح اپنے آپ کو الگ نہیں کر سکے گا۔اور اگر کر بھی لے تو یہ اندیشہ باقی رہے گا کہ کل جب حالات بدل جائیں تو اس کی اگلی پشتیں پھر اپنے ماضی سے فکری رشتہ استوار کرنے کی کوشش کریں، لیکن جب وہ ایک مسلمان خاندان سے منسوب ہو جائے گا تو اس کا سرمایۂ افتخار ایک ایسی خاندانی نسبت ہوگی جو شروع سے مسلمان ہے اور اس کا اندیشہ باقی نہیں رہے گا کہ وہ اپنے ماضی کی طرف لوٹ جائے، چنانچہ ایران، عراق، مصرو شام وغیرہ کا بہت بڑا علاقہ جب اسلام کے زیر نگین آیا، وہ اس طرح اسلام سے وابستہ ہو گیا کہ ان کی تہذیب و ثقافت پر کفر کی کوئی چھاپ باقی نہ رہ سکی، یہاں تک کہ ان کی زبان تک بدل گئی۔ 
ہندوستان کے بعض علاقوں خاص کر راجستھان اور گجرات کے کچھ حصوں میں بہت سے ہندو خاندان صوفیاء کی کوششوں سے مشرف بہ اسلام ہوئے، لیکن انہوں نے اپنے نام کے ساتھ اپنی سابقہ خاندانی نسبتوں کو بھی قائم رکھا اور ٹھاکر، چودھری، ریسائی وغیرہ کہلائے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب ان کی اگلی نسلیں دین سے دور اور علمِ دین سے محروم ہوئیں اور لوگوں نےتحریک اور ترہیب کے ہتھیار استعمال کیے اور ان کو آبائی نسبت یاد دلائی تو بعض علاقوں میں ارتداد کا فتنہ پھوٹ پڑا اور ان نسبتوں نے اس مذموم مہم کو تقویت پہنچائی۔ انڈونیشیا اور اسی علاقے کے بعض ممالک میں ایسے نام رکھے جاتے ہیں جن میں ہندوانہ اور عیسائی ناموں کی آمیزش ہوتی ہے، جس کا اثر وہاں ارتداد کی شکل میں ظاہر ہوا، ہندوستان میں بودھسٹ، جین اور بہت سکھ بھی ہندو ثقافت میں جذب ہوتے جا رہے ہیں، کیونکہ ان کے نام برادرانِ وطن کے سے ہیں، اس لیے خود ان کے ذہن میں ان کی شناخت باقی نہیں رہی۔ 
اس لیے نام کے مسئلے کو انتہائی اہم مسئلہ سمجھنا چاہیے، اس سے اعتقادی، فکری، تہذہبی و ثقافتی اور لسانی شناخت متعلق ہے۔ جو قوم اپنے نام کی بھی حفاظت نہ کر سکے، اس کے لیے اپنی فکر اور اپنی تہذیب کی حفاظت تو اور بھی دشوار ہے۔ اور جس قوم کی اپنی کوئی فکر اور تہذیب نہیں ہوتی، اس کو دوسری قوم کے ساتھ جذب ہونے سے کوئی چیز روک نہیں سکتی، اس لیے ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ محض نام رکھنے کی دعوت نہیں ہے، بلکہ اپنےدور رس اثرات کے اعتبار سے فکری و تہذیبی ارتداد اور اپنے وجود کو گم کردینے کی دعوت ہے۔‘‘(عصرِ حاضر کے سماجی مسائل،ج: ۴، ص:۲۱۹) 
ایسی صورتِ حال میں جبکہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ناموں کے سلسلے میں غفلت کا شکار ہو کر اسلامی ناموں سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں اور دوسری طرف اسلام دشمن قوتوں کی ناموں کے متعلق بھر پور محنت جاری ہے، جوکہ انتہائی افسوس ناک صورتِ حال ہے۔ 
ایسے میں ائمہ، خطباء، علماء کرام اور خدامِ دین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں جو غیر اسلامی ناموں کامرض بڑھتا جا رہا ہے، بقدرِ استطاعت اس کے سدِ باب میں اپنا کردار ادا کریں اور ہمارے مسلمان بھائیوں کو اسلامی ناموں اور ان کے احکام سے آگاہ کرائیں، تاکہ ہمارے معاشرے میں حضرات انبیاء کرام(B)، صحابہ عظام( رضی اللہ عنہم ) ، تابعین کرام(رحمۃ اللہ علیہم) اور اہلِ علم و فضل کے ناموں، نیز بامعنی اور اچھے ناموں کا سلسلہ بڑھے۔ 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین