بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1446ھ 28 اپریل 2025 ء

بینات

 
 

اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا کے نقصانات


اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا کے نقصانات

 

یونیورسٹی آف ٹورنٹو، کینیڈا کے الیکٹریکل انجینئرنگ کے پروفیسر جارج سینکلئیر ‎ George Sinclair ‎ اپنے ۱۹۸۰ء کے مقالے میں لکھتے ہیں کہ شاید ’’ٹیکنالوجی‘‘ کی اتنی ہی تعریفیں ہوں کہ جتنے اس کے استعمال کرنے والے ہیں، یعنی ٹیکنالوجی کی تعریف کا انحصار ٹیکنالوجی کے استعمال کرنے والے پر ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ: ’’ٹیکنالوجی‘‘ کی تعریف کرنے کے لیے پروفیسر کارل مٹچیم ‎ Carl Mitcham ‎ کو پینسٹھ صفحات درکار ہوئے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مؤرخین اور فلسفی جس طریقے سے ٹیکنالوجی کی تعریف پیش کرتے ہیں، وہ اس ٹیکنالوجی کو ایجاد کرنے والے انجینئروں، سائنسدانوں اور محققین کے یہاں سے قدرے مختلف ہوتی ہے۔ ٹیکنالوجی کی فلسفیانہ، تاریخی اور عملی تعریف کی بحث میں پڑے بغیر ہم اپنے قارئین کے لیے ٹیکنالوجی کی آسان تعریف پیش کرتے ہیں۔ برٹانیکا انسائیکلیوپیڈیا کے مطابق ’’سائنسی علم کا انسانی زندگی کے عملی مقاصد کے لیے استعمال کو ٹیکنالوجی کہا جاتا ہے۔‘‘ کیمبرج ڈکشنری کے مطابق ’’سائنسی علم کا کاروبار، صنعت یا مینوفیکچرنگ میں استعمال کو ٹیکنالوجی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔‘‘ یا مزید آسان الفاظ میں: ’’سائنسی دریافتوں کے عملی، خاص طور پر صنعتی استعمال کو ٹیکنالوجی کہا جاتا ہے۔‘‘
ٹیکنالوجی کے استعمال سے جہاں انسانیت نے بے تحاشا فوائد اُٹھائے ہیں، مثلاً آمدورفت میں آسانی سے لے کر علاج معالجہ وغیرہ، وہیں ٹیکنالوجی کے استعمال میں جب اِفْراط و تَفْرِیط کا رویہ برتا گیا تو اسی ٹیکنالوجی نے نسلیں تباہ کردیں۔ ایک اہم بات کہ عمومی طور پر سائنسدان اور محققین اپنی سائنسی تحقیقات، ایجادات اور ٹیکنالوجیز انسانیت کے فائدے کے لیے پیش کررہے ہوتے ہیں، مگر اُن کی ایجادات اور سائنسی تحقیقات و ٹیکنالوجی کو بڑے بڑے سرمایہ دار اُچک لیتے ہیں اور اس ٹیکنالوجی سے پیسے بنانے لگ جاتے ہیں۔ ہمیں یہ کہتے ہوئے کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہورہی کہ اس وقت عالمی سطح پر کون سی سائنسی تحقیقات ہونی چاہئیں یا کون سی ٹیکنالوجی کے متعلق قوانین اور اس کو فروغ دینا چاہیے یا حکومتوں یا فنڈنگ ایجنسیز کو کس سائنسی شعبے میں زیادہ سرمایہ لگانا ہے، اس میں بھی دراصل عالمی معاشی سرمایہ دارانہ نظام کو چلانے والوں کا کافی کردار ہوتا ہے۔ گو کہ سائنسدانوں اور محققین کی ایک بڑی تعداد اپنی تحقیقات میں اخلاص سے لگی رہتی ہے، مگر انہی تحقیقات کو زیادہ تر فروغ ملتا ہے جو کہ عالمی سرمایہ درانہ نظام کو تقویت دیتی ہیں، جن سے عالمی سرمایہ دارانہ نظام کو چلانے والوں کے مفاد وابستہ ہوتے ہیں، جو اُن کے نظریات کی تائید میں ہوتی ہیں اور ان کے ایجنڈے کو فروغ دیتی ہیں۔ 
سرمایہ دارانہ نظام کو چلانے والے ہی دراصل پوری دنیا کی ٹیکنالوجی کو آگے فروغ دیتے ہیں اور پورے عالمی معاشی نظام کو اپنے قبضے میں لے کر ’’قدر‘‘ اور ’’اقدار‘‘ کی نئی تعریف بھی خود ہی کرتے ہیں، یعنی یہ جب چاہتے ہیں فرضی، تخیلاتی چیزوں کو قابلِ قدر بنا کر خریدوفروخت شروع کروادیتے ہیں، اور یہ جب چاہتے ہیں ’’اقدار‘‘ کی تعریف بھی متعین کردیتے ہیں کہ معاشرے میں موجود سب سے بری چیز بھی لوگوں کو معزز لگنا شروع ہوجاتی ہے۔ چونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں سرکاری قانون، اخلاقیات اور مذہبی پابندیوں کو مدِنظر نہیں رکھا جاتا اور اصل مقصد پیسہ کمانا ہی ہوتا ہے، لہٰذا اس کا عملی نتیجہ جو سامنے آتا ہے، اس سے معاشرے میں صرف اور صرف معاشی اَبتری اور اخلاقی گراوٹ ہی ہوتی ہے۔ 
قارئین! اب ہم انہیں ٹیکنالوجیز میں سے ایک ٹیکنالوجی کی شکل یعنی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا ذکر کرتے ہیں۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں سوشل میڈیا، کمپیوٹر، اسمارٹ فون، اسمارٹ ٹی وی، آئن لائن گیمز وغیرہ آتے ہیں۔ آن لائن اعداد و شمار جمع کرنے والی ویب سائٹ اسٹیٹاسٹا‎ ‎Statista.com ‎کے مطابق پوری دنیا میں صرف سوشل میڈیا کے استعمال کرنے والوں کی تعداد سوا پانچ ارب سے تجاوز کرچکی ہے۔ ان میں فیس بُک( میٹا)، یوٹیوب، انسٹاگرام، واٹس اپ، ٹک ٹاک، وی چیٹ، ٹیلی گرام، اسنیپ چیٹ، ٹیوٹر (ایکس) وغیرہ سب سے زیادہ استعمال ہونے والے پلیٹ فارمز اور ایپلیکیشنز ہیں۔ سوشل میڈیا تک رسائی حاصل کرنے کے لیے عمومی طور پر کمپیوٹر اور موبائل فون کو استعمال کیا جاتا ہے۔ 
جہاں تک موبائل فون کا تعلق ہے تو موبائل فون کی ایجاد نے جہاں آپس کے رابطے میں سہولت پیدا کی تھی، وہیں ایمرجنسی کی صورت میں فوری رابطہ کرنے کے ذرائع بھی عوام کو میسر آئے، مگر جوں جوں کمپیوٹر سائنس اور ٹیلی کمیونیکشن انجینئرنگ میں ترقی ہوئی، اس موبائل فون نے بھی ترقی کے مراحل طے کیے اور اب ہمارے سامنے موبائل فون کی جدید شکل اسمارٹ فون کی صورت میں موجود ہے، لہٰذا عمومی طور پر جب ہم موبائل فون کہتے ہیں تو اس سے یہی اسمارٹ فون مراد ہوتا ہے، لہٰذا ہم اپنے اس مضمون میں موبائل فون اور اسمارٹ فون کو مترادف الفاظ کے طور پر استعمال کریں گے۔ اس اسمارٹ فون کو اب بلامبالغہ دسیوں قسم کے کاموں میں استعمال کیا جارہا ہے، جن میں ای میل، فیکس، اسکینگ سے لے کر گیمنگ، ٹریڈنگ، کیلکولیٹر، کیمرہ، اور ویڈیوز دیکھنے تک شامل ہیں۔ اب سے بیس پچیس سال پہلے گھروں میں جو ٹی وی ہوا کرتا تھا، اس میں وہی ٹی وی چینلز اور پروگرام دیکھے جاسکتے تھے جو کہ حکومتی اجازت سے ٹی وی چینلز نشر کرتے تھے۔ اگر کسی کو اپنی پسند کی فلم یا کوئی پروگرام دیکھنا ہوتا تو اس کے لیے وہ علیحدہ سے وی سی آر لے کر آتا اور پھر اس کے ذریعے سے اپنے من پسند پروگرامز کو دیکھتا۔ اسمارٹ فون نے انسانوں کو ان مختلف الیکٹرانک آلات کی قید سے بھی نجات دے دی اور اب اسی اسمارٹ فون پر وہ جب چاہے، جہاں چاہے، اور جس طرح کے پروگرامز چاہے دیکھ سکتا ہے۔ نیز بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں نے جس طرح سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو فروغ دیا ہے، اس کے نتیجے میں بچے اور نوجوان بے حیائی، عریانی، فحاشی، گیمنگ، چیٹنگ، جوا، سٹہ اور سود جیسی مخربِ اخلاق اسکیموں کے عادی ہوچکے ہیں اور اخلاقی گراوٹ کی پستیوں میں گرِ چکے ہیں، الاماشاءاللہ۔ 
 یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ موبائل فون اور سوشل میڈیا کے استعمال سے دماغی صحت پر انتہائی بُرا اثر پڑتا ہے اور سائنسدانوں کی تحقیق کے مطابق بالخصوص بچوں اور نوجوانوں کے لیے تو اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا بہت نقصان دہ ہے۔ اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا کے تباہ کن اثرات اب کسی سے مخفی نہیں۔ انہی تباہ کن اثرات کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک میں ایسے قوانین بننا شروع ہوچکے ہیں، جن میں واضح طور پر موبائل فون اور سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ میں ایک چھوٹے سے یورپی ملک آئرلینڈ کی مثال پیش کرنا چاہوں گا کہ جہاں پر پرائمری اسکولوں میں بچوں کے سوشل میڈیا کے استعمال اور موبائل فون لانے پر پابندی ہے اور اگر کوئی طالبِ علم موبائل فون اسکول لے کر آئے گا تو اسکول ٹیچر اس کا موبائل فون ضبط کرلیتے ہیں۔ 
آئرلینڈ کی وزارتِ تعلیم کی وزیر نورما فولے‎ Norma Foley ‎ سیکنڈری اسکولوں میں بھی اسمارٹ فون لانے پر پابندی لگانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں، ان کا بیان ہے کہ: 
 ’’وزارتِ تعلیم کی وزیر موبائل فون کو تمام سیکنڈری اسکولوں میں لانے پر پابندی لگانے کی منصوبہ بندی کررہی ہیں، اس تحقیق کے نتیجے میں جو کہ طالب علموں کے آلات (موبائل فون) کے استعمال کرنے کو ان میں انتشار پیدا ہونے (یعنی ان کی توجہ تعلیمی کاموں سے ہٹنے ) اور سائبر ہراسانی کا شکار ہونے سے جوڑتی ہے، جبکہ زیادہ تر سیکنڈری اسکول موبائل فون پر پابندی لگاتے ہیں یا طلباء کو موبائل فون لاکرز میں رکھنے پر مجبور کرتے ہیں، نورمافولے اس بات پر قائل ہیں کہ موبائل فون پر وسیع ترین پابندی ہی آگے بڑھنے کا بہترین طریقہ ہے۔‘‘
قارئین! دیکھیے کہ جس تحقیق کا آئرلینڈ کی وزارتِ تعلیم کی وزیر حوالہ دے رہی ہیں، اس میں دو بنیادی وجوہات ذکر کی گئی ہیں: اول طلباء کا پڑھائی سے رحجان ہٹنا اور دوسرا سائبر ہراسانی۔ اقوامِ متحدہ کا فنڈ برائے اطفال یونیسیف کے مطابق سائبر بلینگ ‎ Cyberbullying ‎یعنی سائبر ہراسانی کی تعریف یہ ہے کہ کوئی شخص ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز مثلاً انٹرنیٹ، سوشل میڈیا یا موبائل فون کا استعمال کرتے ہوئے کسی دوسرے شخص کو ڈرائے، اُس کے متعلق جھوٹ بولے، اُسے دھمکائے، گالی گلوچ کرے، ہراساں کرے، اسے جان بوجھ کر تکلیف پہنچائے، جعلی اکاؤنٹ بنا کر غیر مناسب میسیجز دوسرے کو بھیجے، اور دوسرے شخص کے کردار کو مسخ کرنے کی کوشش کرے۔ یہ دونوں ہی وجوہات ایسی ہیں جن سے بچوں اور طلباء کا مستقبل داؤ پر لگتا ہے اور وہ طرح طرح کے نفسیاتی، ذہنی، اور دیگر امراض کا شکار ہورہے ہیں۔ ایک اور تحقیقی رپورٹ یہ بیان کرتی ہے کہ ان ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز، سوشل میڈیا، اور اسمارٹ فون کے استعمال سے ڈی ہیومنائزیشن ‎ Dehumanisation ‎ یعنی انسان میں سے انسانی صفات کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ 

مغربی ترقی یافتہ ممالک میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز پر عائد پابندیاں 

آئرلینڈ تو ایک چھوٹا سا یورپی ملک ہے، آپ اقوامِ متحدہ کی تعلیمی، علمی و ثقافتی تنظیم یونیسکو کی گلوبل ایجوکیشن مانیٹرنگ رپورٹ ۲۰۲۳ء کو ہی دیکھ لیجئے جو کہ واضح طور پر کہتی ہے کہ: ’’موبائل فون اسکولوں میں سیکھنے کے عمل میں رکاوٹ بنتے ہیں۔‘‘ رپورٹ میں درج ہے کہ بیلجیم، اسپین، اور برطانیہ میں اسکولوں میں سے اسمارٹ فون کو ختم کرنے سے بچوں کے سیکھنے کے عمل میں بہتری آئی ہے۔ یہ رپورٹ چار سو پینتس صفحات پر مشتمل ہے اور اس کو عالمی ماہرینِ تعلیم نے مرتب کیا ہے۔ یوں تو یہ رپورٹ پوری ہی پڑھنے کے قابل ہے، کیونکہ یہ ٹیکنالوجی کا تعلیمی اداروں اور تعلیم پر اس کے اثرات کا ذکر کرتی ہے، مگر اس رپورٹ کا آٹھواں باب نہایت اہمیت کا حامل ہے، جس میں ٹیکنالوجی کے منفی اثرات اور عالمی سطح پر ٹیکنالوجی، موبائل فون اور سوشل میڈیا پرعالمی پابندی کےقوانین کو تفصیلی بیان کیا گیا ہے۔ ذیل میں ایک اقتباس درج ہے۔ 

‎“Studies from Belgium, Spain and the United Kingdom show ‎that banning mobile phones from schools improves academic ‎performance, especially for low-performing students. Analysis ‎for this report shows that, globally, almost one in four countries ‎has introduced such bans in laws or policies.
Article 25 of the education law in Tajikistan states that the use ‎of mobile phones by students is prohibited in primary,‎ ‎vocational and secondary schools. In Uzbekistan, the law calls ‎for switching off all devices when entering schools.
Several schools and universities in the United States have also ‎started banning TikTok and other platforms."

ستمبر ۲۰۲۴ ء کو برطانوی اخبار گارڈین میں چھپنے والی ’’ہم پچھلے زمانے میں واپس جارہے ہیں‘‘ رپورٹ کے مطابق کئی یورپی ممالک اسمارٹ فون کے اسکولوں میں لانے پر تدریجاً پابندی لگارہے ہیں، جن میں سرفہرست نیدرلینڈ، فرانس، ہنگری، اٹلی، اور یونان جیسے ممالک شامل ہیں۔ ان ممالک کے اسکولوں سے جڑے ماہر ینِ تعلیم کا یہ ماننا ہے کہ جب ہم اسکولوں میں تمام بچوں کو دیکھتے ہیں تو وہ برآمدہ میں ٹہلتے ہوئے اسمارٹ فون میں منہمک نظر آتے ہیں، اُن کی آپس کی بات چیت ختم ہوچکی ہے اورکھیل کھیلنے والی ٹیبل ٹینس کی ٹیبلیں ویران پڑی رہتی ہیں اور بنیادی طور پر سماجی ثقافت کو کھوبیٹھے ہیں۔ 

‎“Six years ago, as officials at the Netherlands’ Calvijn College ‎began considering whether to ban phones from their schools, the ‎idea left some students aghast.‎ ‎“We were asked whether we thought we were living in the ‎‎1800s,” said Jan Bakker, the chair of the college, whose students ‎range in age from 12 to 18 years.‎ While the majority backed the idea, about 20% of the parents, ‎teachers and students surveyed were staunchly opposed. Some ‎were parents who worried about not being able to get hold of ‎their children during the day, while a handful of teachers argued ‎it would be better to embrace new technologies rather than shun ‎them.‎ Still, school officials pushed forward. “Walking through the ‎corridors and the school yard, you would see all the children ‎were on their smartphones. Conversations were missing, the ‎table tennis tables were empty,” said Bakker. “Basically we were ‎losing the social culture."

اسی طریقے سے نیدرلینڈ کی حکومت نے موبائل فون، اسمارٹ واچز (گھڑیوں) اور ٹیبلٹس پر اسکولوں میں پابندی عائد کردی ہے۔ اس وقت برطانوی پارلیمنٹ میں اس موضوع پر قانون سازی کے لیے بحث چل رہی ہے کہ کیا اسکولوں پر یہ لازم کردیا جائے کہ وہ مکمل طور پر موبائل فون فری ہوں؟ آرگنائزیشن آف اکنامک کارپوریشن اینڈ ڈیولیپمنٹ (او ای سی ڈی) یعنی اقتصادی تعاون و ترقی کی عالمی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق حد سے زیادہ ڈیجیٹل آلات کا کلاس روم میں استعمال سے طلباء کی تعلیمی کارکردگی پر منفی اثر پڑتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں کم از کم انیس ریاستوں نے ایسے قوانین منظور کیے ہیں یا ایسی پالیسی نافذ کی ہیں جو ریاست بھر میں طلباء پر اسکولوں میں اسمارٹ فون کے استعمال پر پابندی عائد کرتی ہیں۔ 

‎“Cell phones, smart watches, and tablets are now banned for ‎pupils at Dutch primary and secondary schools. The Dutch ‎government called them a "distraction that reduces academic ‎performance and social interaction.‎
‎"There is increasing evidence that cell phones in class are ‎harmful. Students can concentrate less and their performance ‎suffers. We need to protect students from that," the Dutch ‎government said in a statement.‎
Greece and Italy already have mobile phone bans in schools, and ‎Germany has been mulling a similar move. A recent study by the ‎Organization for Economic Cooperation and Development ‎‎(OECD) recommened limiting the use of phones at school.”‎

آسٹریلیا کی حکومت نے پچھلے مہینے یعنی نومبر ‎۲۰۲۴ء کو سولہ سال تک کی عمر کے بچوں کو سوشل میڈیا استعمال کرنے پر پابندی کا قانون نافذ کردیا ہے اور اس کی پارلیمنٹ نے دنیا کا سخت ترین قانون پاس کیا ہے۔ آسٹریلین وزیر برائے مواصلات میشیل رولینڈ ‎ ‎Michelle Rowland ‎کے مطابق ٹک ٹاک، فیس بک، انسٹا گرام، ایکس (ٹیوٹر)، اسنیپ چیٹ وغیرہ پر ۲۰۲۵ء تک مکمل پابندی لگائی جائے گی۔ آسان الفاظ میں سولہ سال کی عمر کے بعد ہی کوئی آسٹریلیا میں سوشل میڈیا کو استعمال کرسکے گا اور یہ پابندی صرف سوشل میڈیا کے اسکولوں میں استعمال تک محدود نہیں ہے، بلکہ چوبیس گھنٹے سولہ سال کے کم عمر بچوں کو مکمل طور پر سوشل میڈیا استعمال کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ 

‎“Australia will ban children under 16 from using social media, ‎after its parliament approved the world's strictest laws.‎
The ban, which will not take effect for at least 12 months, could ‎see tech companies fined up to A$50m ($32.5m£25.7m) if they ‎don't comply.‎
Prime Minister Anthony Albanese says the legislation is needed ‎to protect young people from the "harms" of social media, ‎something many parent groups have echoed.‎
The legislation does not specify which platforms will be banned. ‎Those decisions will be made later by Australia’s communications ‎minister, who will seek advice from the eSafety Commissioner - ‎an internet regulator that will enforce the rules.‎
However the minister, Michelle Rowland, has said the ban will ‎include Snapchat, TikTok, Facebook, Instagram and X. Gaming ‎and messaging platforms are exempt, as are sites that can be ‎accessed without an account, meaning YouTube, for instance, is ‎likely to be spared.

سوچنے کی بات ہے کہ کیوں ہمارے حکومتی عہدےداروں، سیاستدانوں، پالیسی بنانے والوں کے ساتھ ساتھ اسکولوں، کالجز، اور یونیورسٹیوں سے جڑے لوگوں کو یہ ترقی یافتہ ممالک کے قوانین اور پالیساں نظر نہیں آتیں؟ 

چند گزارشات

آخر میں ہم اس مضمون کے ذریعے ٹیکنالوجی کے حوالے سے چند گزارشات پیش کرنا چاہیں گے:
*    اسکولوں کے اندر بچوں کے موبائل فون اور اس سے جڑی ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کے لانے اور استعمال پر مکمل پابندی لگائی جائے۔ یہ صرف راقم کی تجویز نہیں ہے، بلکہ یہ تجویز اقوامِ متحدہ کی تعلیمی، علمی و ثقافتی تنظیم یونیسکو کی جانب سے گلوبل ایجوکیشن مانیٹرنگ رپورٹ ۲۰۲۳ء میں دی گئی ہے اور اس پر کئی ترقی یافتہ ممالک نے عمل بھی کیا ہے اور ان ممالک میں اسکولوں میں بچوں کے موبائل فون لانے پر پابندی ہے۔ ان ممالک میں برطانیہ، آئرلینڈ، اسپین، بیلجیم اور دیگر کئی ممالک شامل ہیں۔ 
*    بچوں اور نوجوانوں کے سوشل میڈیا کے استعمال پر مکمل پابندی عائد کی جائے اور اس کے لیے مناسب قانون سازی کی جائے۔ آسٹریلیا کی ہی مثال دیکھ لی جائے کہ وہاں پر سولہ سال سے کم عمر بچوں پر سوشل میڈیا کے استعمال پر مکمل پابندی عائد کردی گئی ہے۔ 
*    پرائمری و سیکنڈری اسکولوں میں بچوں کی ذہنی نشوونما کے لیے انہیں جدید ٹیکنالوجیز سے دور رکھا جائے، اس کے لیے امریکہ، برطانیہ، فرانس، اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں جو قانون سازی اور پالیساں نافذ کی گئی ہیں، اُن کو دیکھ لیا جائے۔ 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین