بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

بینات

 
 

اوقاف کی تولیت ۔۔۔ اہلیت -  شرائط

اوقاف کی تولیت

اہلیت -  شرائط

 

ضرورت واہمیت

اس وقت اُمتِ مرحومہ جس بدحالی اور بےدینی کا شکار ہے، وہ محتاجِ بیان نہیں ہے، اس کے بنیادی اسباب میں سے اہم اور اَساسی سبب ’’اسلامی خلافت‘‘ کا فقدان اور ملت کی اس عظیم نعمت سے محرومی بھی ہے، جس کاکوئی دوسرا پائیدار متبادل موجود نہیں ہے، تاہم اسلامی معاشرہ میں وقف ادارے جزوی اور عارضی طور پر اُمت کے حق میں سود مند ثابت ہوسکتے ہیں اور ماضی وحال میں ان اداروں سے امت کو بڑا فائدہ پہنچ رہا ہے۔ تاہم بدقسمتی یہ ہے کہ متعدد عناصرکی بنیاد پر یہ فائدہ بھی تعداد وکیفیت دونوں کےلحاظ سے سکڑرہا ہے، ان متعدد عناصر میں سےایک اہم عنصر یہ ہے کہ متولی بننے، بنانے میں اہلیت ولیاقت کا لحاظ نہیں رکھا جاتا ہے، بلکہ وراثت یا تعلق وغیرہ بنیادوں پر کسی کو اس اہم کام کے لیے نامزد کردیا جاتا ہے۔ یہاں صلاح واصلاح کے جذبےسے اس کےمتعلق چند ضروری باتیں درج کی جاتی ہیں:

تولیت کا معیار اور اس کی ضروری شرائط

حضرات فقہائےکرام کے ہاں یہ بات مُسلّم ہے کہ وقف کا مُتولی وہی شخص ہوسکتا ہے جس میں درج ذیل شرائط موجود ہوں:
1- امین اور دیانت دار ہو، خائن نہ ہو۔ جو شخص خیانت کرنےوالا ہو یا اس کےبارےمیں خیانت کرنےکا اندیشہ ہو، وہ متولی بننے کااہل نہیں ہے۔
2- وقف سےمتعلق تمام تر ذمہ داریوں کو درست طریقےسےانجام دینے کی اہلیت واستطاعت رکھتا ہو۔ اگر ایک شخص بہت ہی نیک ودیانت دار ہو، لیکن وقف کی مطلوبہ ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کسی وجہ سے کوتاہی کرتا ہو، چاہے یہ کوتاہی ناتجربہ کاری کی بنیاد پر ہو، مزاج ومذاق کی وجہ سے ہو، شعور کی کمی کی وجہ سے ہو، یا کسی بھی بنیاد پر ہو، ایسا شخص متولی بننےکا اہل نہیں ہے۔
3- وہ خود متولی بننے/بنائےجانےکا مطالبہ نہ کرے، کوئی شخص خود ہی متولی بننےکا مطالبہ کرتاہے تو (عام حالات میں ) ایساشخص بھی اس منصب کا اہل شمار نہیں ہوگا۔
4-  بہت سے اہلِ علم نے مذکورہ شرائط کے ساتھ ’’عدالت‘‘ کو بھی شرط قرار دیا ہے، اس کاحاصل یہ ہے کہ متولی کے ذہنی وجسمانی قویٰ، تقویٰ اور مروت دونوں سے مالا مال ہو، لہٰذا اگرکوئی شخص کبیرہ گناہ کرتا ہے اور اس سے توبہ نہیں کرتا، یا صغیرہ گناہوں پر اصرار کرتا ہے تو ایسا شخص بھی ان اہلِ علم کے نزدیک متولی بننے کی لیاقت نہیں رکھتا۔

حضرات فقہائےکرام کی تصریحات

وقف کےمسائل سے متعلق فقہ حنفی کی مشہور کتاب ’’الإسعاف‘‘ میں ہے:
’’لا يولی إلا أمين قادر بنفسہ أو بنائبہ، لأن الولايۃ مقيدۃ بشرط النظر، وليس من النظر توليۃ الخائن، لأنہ يخل بالمقصود وکذا توليۃ العاجز لأن المقصود لا يحصل بہ ويستوي فيہا الذکر والأنثی وکذلک الأعمی والبصير وکذلک المحدود في قذف إذا تاب لأنہ أمين. رجل طلب التوليۃ علی الوقف قالوا :لا تعطی لہ وہو کمن طلب القضاء لا يقلد۔‘‘
ترجمہ:’’جوشخص امانت دارہواوروقف کی ذمہ داری بذات خود یاکسی نائب کے ذریعے نبھانے پر قادر ہو، اُسے ہی متولی بنایاجائے، کیونکہ یہ ذمہ داری مصلحت کی بنیاد پردی جاتی ہے اور خائن کو ذمہ داری سپرد کرنا قرینِ مصلحت نہیں ہے، وہ تومقصد کے حصول میں رکاوٹ بنتا ہے۔ نیز جو شخص ذمہ داری ادا کرنے پر قادر نہ ہو اسے بھی مقصد حاصل نہ ہونے کی وجہ سے یہ ذمہ داری سپرد نہیں کی جائے گی۔ اس معاملہ میں مردوعورت برابر ہیں، اسی طرح بینا اور نابینا بھی، نیز محدود فی القذف جس نے توبہ کی ہو، چونکہ وہ بھی امین ہے۔ اگر کوئی خود متولی بننے کی خواہش ظاہر کرے تو اسے متولی نہ بنایا جائے، جیساکہ منصبِ قضاء کے خواہش مند کو یہ ذمہ داری نہیں سونپی جاتی۔‘‘
’’تنقیح الفتاویٰ الحامدیۃ‘‘میں ہے:
’’(سئل) في الصالح للنظر من ہو؟ (الجواب) : ہو من لم يسأل الولايۃ للوقف وليس فيہ فسق يعرف، ہٰکذا في فتح القدير۔ وفي الإسعاف لا يولی إلا أمين قادر بنفسہٖ أو نائبہٖ ويستوي في ذلک الذکر والأنثی ۔‘‘
ترجمہ: ’’فتح القدیر میں ہے کہ :وقف کی ذمہ داری کے لیے زیادہ مناسب وہ شخص ہے جوخود ذمہ داری طلب نہ کرے، نیزوہ ظاہری طورپرفاسق بھی نہ ہو۔ اسعاف میں ہے کہ: جوشخص امانت دار ہو اور وقف کی ذمہ داری بذاتِ خود یاکسی نائب کے ذریعے نبھانے کی صلاحیت رکھتاہو، اسے ہی متولی بنایاجائے خواہ مرد ہو یا عورت۔‘‘
کویت کے ’’موسوعہ فقہیہ‘‘ میں ہے:
’’مَا يُشْتَرَطُ فِي الْـمُتَوَلِّي: يُشْتَرَطُ فِي الْـمُتَوَلِّي عِنْدَ اَکْثَرِ الْفُقَہَاءِ الْعَدَالَۃُ وَالْقُدْرَۃُ عَلَی التَّصَرُّفِ وَالاَمَانَۃُ۔‘‘ 
ترجمہ: ’’اکثر فقہاء کرام کے نزدیک متولی کے لیے عدالت، امانت اور متعلقہ کام بخوبی ادا کرنے کی لیاقت شرط ہے۔‘‘

خیانت کا مفہوم

یہاں اس غلط فہمی کو بھی دور ہونا چاہیے جو ’’امانت‘‘ اور ’’خیانت‘‘ کے متعلق عام ہے کہ اس کو صرف مالی امور ومعاملات کے ساتھ خاص سمجھا جاتا ہے، جو شخص مالی امور میں غبن نہیں کرتا، اس کو بہرحال امانت دار خیال کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ ’’امانت‘‘ کا ادھورا تصور ہے، امانت اور خیانت کا تعلق صرف مالیات کےساتھ خاص نہیں، بلکہ وقف سےمتعلق تمام تر ذمہ داریوں کےساتھ اس کا تعلق ہے، لہٰذا جس طرح وقف کے اموال میں بے جا تصرف کرنا خیانت ہے، یوں ہی وقف کی ذمہ داریوں کو درست طریقہ سے نہ بجالانا بھی خیانت ہی کی ایک شاخ اور اسی کی ایک صورت ہے، جس طرح مالیات میں غبن اور کوتاہی کرنےوالامتولی بننے کا اہل نہیں ہے، یوں ہی تولیت کے فرائض اور ذمہ داریوں کی ادائیگی میں واضح طور پر کوتاہی کرنے والا بھی اس بارِ گراں کا کسی طرح لائق نہیں ہے۔ اسی طرح اگر متولی کسی نااہل کو ذیلی ذمہ داری سپرد کرتا ہے، جو وقف کے لیے نقصان دہ ہو تو یہ بھی اس کی کوتاہی میں شمار ہوگا۔

متولی کے فرائض اور ذمہ داریاں

رہا یہ سوال کہ متولی کی کیا ذمہ داریاں ہیں جن میں کوتاہی کرنا خیانت کہلاتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ بنیادی طور پر متولی کی درج ذیل ذمہ داریاں ہیں:

1- متعلقہ وقف کے مقاصد کا تحفظ کرنا

اوقاف کی متنوع صورتیں ہوسکتی ہیں، پھر وقف کرنے والے شخص کو بھی شریعت نے اختیار دیا ہے کہ چاہے تو وقف کرتے وقت کچھ شرائط لگائے، ان جائز شرائط کی رعایت رکھنا ضروری ہے، متولی کی ذمہ داری ہے کہ ان تمام باتوں کی رعایت رکھے۔

2-  وقف کے منافع/ فوائد کو شرعی ضوابط کےمطابق استعمال کرنا

یہ منافع مال کی شکل میں بھی ہوسکتے ہیں اور منافع و سہولیات کی صورت میں بھی، ہر قسم کے منافع کو شرعی دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے استعمال کرتے رہنا ضروری ہے۔ مثال کےطور پر مسجد ایک وقف ادارہ ہے، نقد رقم کی شکل میں اس کا کچھ فنڈ بھی ہوسکتا ہے، اس میں پانی، بجلی وغیرہ کی سہولیات بھی دستیاب ہوتی ہیں، اب ان پیسوں کو کہاں اور کس طرح خرچ کرنا چاہیے؟ پانی اور بجلی وغیرہ کی سہولیات کو کہاں کس حد تک استعمال کیا جاسکتا ہے؟ کون ان سہولیات سے کہاں تک استفادہ کرسکتا ہے؟ مسجد کی زمین کو کن کن کاموں میں کہاں تک اور کس طرح استعمال کیاجاسکتاہے؟ یہ اور اس نوعیت کی تمام باتوں میں شرعی احکام وضوابط کی پابندی کرتے رہنا ضروری ہےاور یہ تولیت کے منصب کی ذمہ داریوں میں سے ہے۔

3-  درپیش مسائل ومعاملات میں متعلقہ وقف کے مصالح کا بھر پور تحفّظ کرتےرہنا
 

وقف ادارہ کو خرید وفروخت، کرایہ داری کےمعاملات بھی پیش آسکتےہیں، کوئی اس کے خلاف کچہری میں دعویٰ بھی کرسکتاہے، بعض اوقات خود وقف کےلیے بھی دعویٰ کرنے کی ضرورت پیش آجاتی ہے، ان جیسے تمام معاملات میں متعلقہ وقف کے مصالح کی اچھی طرح نگہداشت کرتے رہنا بھی متولی کی ذمہ داری اور اس کا فرضِ منصبی ہے۔

متولی نامزد کرنےکا مناسب طریقہ کار

کسی بھی وقف ادار ہ کے متولی کو نامزد کرنے کا مناسب طریقہ کار یہ ہے کہ:
1- اگر وقف کرنے والا شخص خود متولی بننے کی اہلیت رکھتا ہے اور عملی طور پر بھی اس کی ذمہ داریاں ٹھیک طریقے سے انجام دے سکتا ہے، تو وہ متولی بن جائے۔
2- اگر خود لیاقت نہ رکھتا ہو، یا لیاقت تو رکھتا ہے، لیکن کسی وجہ سے متعلقہ ذمہ داریاں انجام دینا مشکل ہے تو کسی ایسے معتمد شخص کو متولی نامزد کرلے جو درج بالا شرائط وکوائف پر پورا اُترتا ہو۔
3- وقف نامہ تحریری طور پر محفوظ رکھ لے، اوراس میں اس بات کی بھی صراحت کرےکہ فلاں کو ان ان شرائط و کوائف کی بنیاد پر فلاں فلاں مقاصد واہداف کے لیے متولی مقرر کیا گیا ہے، اگر وہ ان ضروری کوائف کا حامل نہ رہے تو اس کا حقِ تولیت بھی نہ رہے گا اوراس کے بعد بھی ہمیشہ کےلیےایسا ہی آدمی اس کا متولی رہے گا، جو فلاں فلاں شرائط وکوائف کا حامل ہو، اور تولیت کے اس منصب پر اسی وقت تک برقرار رہے گا جب تک وہ ان شرائط کاحامل اور ان پر عامل ہو۔

اُسوۂ فاروقی

حضرت عمر فاروق  رضی اللہ عنہ  کو خیبر میں ’’ثمغ‘‘نامی ایک جگہ ملی تھی جو بڑی نفیس اور قیمتی زمین تھی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ بات چیت کرنے کے بعد آپ نے اس کو وقف کیا تھا اور وقف نامہ میں یہ بھی تحریر فرمایا:
’’بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ہٰذَا مَا اَوْصٰی بِہٖ عَبْدُ اللہِ عُمَرُ اَمِيْرُ الْمُـوْمِنِيْنَ إِنْ حَدَثَ بِہٖ حَدَثٌ اَنَّ ثَمْغًا وَصِرْمَۃَ بْنِ الْأکْوَعِ وَالْعَبْدَ الَّذِيْ فِيہِ وَالْمِائَۃَ سَہْمٍ الَّتِي بِخَيْبَرَ وَرَقِيْقَہُ الَّذِي فِيْہِ، وَالْمِائَۃَ الَّتِي اَطْعَمَہٗ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ بِالْوَادِيْ تَلِيْہِ حَفْصَۃُ مَا عَاشَتْ، ثُمَّ يَلِيْہِ ذُو الرَّاْيِ مِنْ اَہْلِہَا اَنْ لَّا يُبَاعَ وَلَا يُشْتَرٰی، يُنْفِقُہٗ حَيْثُ رَاٰی مِنَ السَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ وَذَوِي الْقُرْبٰی، وَلَا حَرَجَ عَلٰی مَنْ وَلِيَہٗ إِنْ اَکَلَ اَوْ آکَلَ اَوِ اشْتَرٰی رَقِيْقًا مِنْہُ ۔‘‘ 
ترجمہ: ’’یہ وصیت نامہ اللہ کے بندےامیرالمؤمنین (حضرت) عمر ( رضی اللہ عنہ ) کی طرف سے ہے۔ اگر میرے ساتھ کوئی حادثہ پیش آئےتو’’ ثمغ ‘‘اور’’صرمہ بن اکوع‘‘ والی جائیداد اوروہ غلام جووہاں ہیں اور خیبر(کی غنیمت سے حاصل شدہ) سو حصے اور اس میں جوغلام ہیں اور وہ سو حصے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے وادی ’’قر‘‘ میں اپنے اہل وعیال کے اخراجات کے لیے چھوڑے ہیں، ان کی متولیہ (حضرت ام المؤمنین) حفصہ ( رضی اللہ عنہا ) ہوں گی جب تک زندہ رہیں، ان کے بعد ان کے اہل میں سے صاحبِ رائےاس کے متولی ہوں گے۔اورشرط یہ ہے کہ اس جائیداد کونہ بیچا جائے گا، نہ خریدا جائے گا۔ متولی اپنی صوابدید کے مطابق گداگروں، ناداروں اور قرابت داروں میں خرچ کرے گا اور اس کے خود کھانے میں بھی کوئی حرج نہیں، مہمانوں کو کھلائے یا غلام خریدے۔‘‘ 
اس عبارت کا خط کشیدہ حصہ معنی خیز ہے، ام المؤمنین حضرت حفصہ  رضی اللہ عنہا  آپ کی بیٹی اور حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ ہیں، ان کو متولی بنایا جب تک وہ زندہ رہیں، اس کی متولی رہیں گی، ان کے انتقال کے بعد کون متولی ہوگا؟ اس کا بھی فیصلہ فرمادیا کہ ان کے اہل میں سے جو شخص ’’ اہلِ رائے‘‘ہو، وہی اس کا متولی قرار پائے گا، اور حضرات صحابہ کرامؓ کے ہاں ’’اہلِ رائے‘‘وہی شخص سمجھاجاتاہے جو دیندار اور عقل مند ہو۔
 وقف کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ اپنے وقف ناموں میں اس بات کی صراحت کرلیا کریں، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اہل وعیال یا خاندان کا ہر فرد تولیت کے منصب پر براجماں ہوکر وقف کے حقیقی مقاصد میں خلل انداز نہ ہوسکے گا، بلکہ صرف وہی افراد اس ذمہ داری کو سر لے سکیں گے جو اس کی اہلیت ولیاقت رکھتےہیں اور یوں وقف کے مقاصد درست طریقےسے پورے ہوتے رہیں گے، جس سے اُمت کا بھی فائدہ ہوگا اور وقف کرنے والے کے نیک اعمال میں بھی اس حساب سے اضافہ ہوتا رہے گا۔

موجودہ صورت حال اور اس کے نقصانات

اس وقت وقف کے جن اداروں کی تولیت عام مسلمانوں کےہاتھ میں ہے، ان میں عام طور پر رواج یہ ہےکہ خاندان اور وراثت کی بنیاد پر تولیت منتقل ہوتی ہے۔ ہمارے مدارس ، مساجد اور خانقاہوں کا حکم بھی وقف کا ہے، یہ کسی کی ذاتی املاک نہیں کہلاسکتے، اس لیے ان اوقاف کے متولی حضرات کے تقرر میں کئی وجوہ سے اہلیت وصلاحیت کا لحاظ ضروری ہے، کیونکہ اجتماعی نظم سے مسلمانوں کی سلطنت ختم ہوجانے کےبعد اب معاشرے میں دین داری کا بڑا سرچشمہ یہی دینی ادارے ہیں، نا اہل کو ان کا ذمہ دار بنانے میں :
الف:ملت کا نقصان ہے۔
ب:متعلقہ وقف کے تقاضے ادھورے رہ جانا ظاہر ہے۔
ج:شعوری یا لاشعوری طورپر وقف کےمعاملہ میں خیانتوں کا امکان غالب رہتا ہے، جس کے اثرات وقف کی وسعت کے مطابق ہوتے ہیں۔
د:مطلوبہ استعداد کے حامل رجال کار پیدا ہوجانےکا راستہ مخدوش ہوجاتاہے۔

بعض علماء کی تحقیق: ابتداع کا پہلو

بعض اہلِ علم نے دینی مناصب کو وراثت کی بنیاد پر سپرد کرنے کو بدعات میں سے شمار فرمایا ہے، چنانچہ علامہ قرافی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتےہیں:
’’(القسم الثاني) : محرم، وہو بدعۃ تناولتہا قواعد التحريم وأدلتہ من الشريعۃ کالمکوس والمحدثات من المظالم المنافيۃ لقواعد الشريعۃ ، کتقديم الجہال علی العلماء وتوليۃ المناصب الشرعيۃ من لا يصلح لہا بطريق التوارث وجعل المستند لذلک کون المنصب کان لأبيہ، وہو في نفسہ ليس بأہل ۔‘‘
ترجمہ: ’’شریعت کے قواعداوردلائل سے جس بدعت کی حرمت معلوم ہووہ حرام ہے، مثلاً:مختلف قسم ٹیکس اورنت نئے مظالم جوشرعی احکام کے سراسرخلاف ہیں، اور مثلاً: جہلاء کوعلماء کرام پرفوقیت دینا، دینی مناصب محض وراثت کے طورپر اس دلیل کی بنیاد پرحوالہ کرناکہ اس کاباپ متولی تھا، جب کہ وہ شخص اس کا بالکل اہل نہ ہو۔‘‘
علامہ شاطبی  رحمۃ اللہ علیہ  ’’بدعاتِ عادیہ‘‘پر بات کرتےہوئےتحریرفرماتےہیں:
’’واَمَّا الْعَادِيَّۃُ: فَاقْتَضَی النَّظَرُ وُقُوْعَ الْخِلَافِ فِيْہَا، واَمْثِلَتُہَا ظَاہِرَۃٌ مِمَّا تَقَدَّمَ فِيْ تَقْسِيْمِ الْبِدَعِ، کَالْمُکُوْسِ، وَالْمُـحْدَثَاتِ مِنَ الْمَـظَالِم، وَتَقْدِيمِ الْجُہَّالِ عَلَی الْعُلَمَاءِ فِي الْوِلَايَاتِ الْعِلْمِيَّۃِ، وَتَوْلِيَۃِ الْمَـنَاصِبِ الشَّرِيْفَۃِ مَنْ لَّيْسَ لَہَا بِاَہْلٍ؛ بَلْ بِطَرِيْقِ الْوِرَاثَۃِ، وَإِقَامَۃِ صُوَرِ الْأئِمَّۃِ وَوُلَاۃِ الْأمُوْرِ وَالْقُضَاۃِ۔‘‘
ترجمہ:’’پہلے بدعت کی تقسیم کے ضمن میں عبادات کے علاوہ عادات میں بدعات کی مثالیں واضح ہوچکی ہیں، مثلاً:مختلف قسم کے ٹیکس نافذکرنا، نت نئے مظالم، علمی مناصب میں جہلاء کو علماء پر فوقیت دینا، اہم مناصب نااہل لوگوں کے سپرد کرنا، بلکہ وراثت کے طورپردینا، ائمہ کرام، خلفاء اورقاضیوں کی مورتیاں نصب کرنا۔‘‘
 درج بالا تفصیل سےمعلوم ہوا کہ تولیت کا منصب سنبھالنے کے لیے کچھ شرائط ہیں، جوشخص ان شرائط پر پورا نہ اُترتا ہو، اس کو متولی بنانا، یا اس کا از خود متولی بننا شرعاً جائز نہیں ہے، نیز اس کے نتیجےمیں بہت سے منکرات ومفاسد پیدا ہوجاتے ہیں، ا س لیے اس کے ناجائز ہونے میں تو شبہ نہیں ہے، البتہ بدعت ہے یانہیں؟ تو اگر اس غلط اور مذموم رواج کو شرعی حکم کا درجہ دیا جائے یا ورواثت کو شرعی استحقاق کا سبب گردانا جائے تو بدعت ہونے میں بھی شبہ نہیں ہے اور اگر کوئی اس حد تک تجاوز نہ کرے تو بدعت نہیں ہے۔ جن اہلِ علم نے اس کو بدعات میں سے شمار فرمایا ہے، وہ اسی صورت پر محمول ہے، ’’الفروق‘‘ پر ’’تہذیب الفروق‘‘ کے نام سے علامہ محمد بن علی بن حسین مالکی  رحمۃ اللہ علیہ  کا ایک حاشیہ ہے، اس میں ہے:
’’وکذٰلک تقديم الجہال علی العلماء وتوليۃ المناصب الشريفۃ من لا يصلح لہا بطريق التوريث، فإن جعل الجاہل في موضع العالم حتی يصير مفتياً في الدين ومعمولًا بقولہ في الأموال والدماء والأبضاع وغيرہا محرم في الدين فقط. وأما کون ذٰلک يتخذ ديدنا حتی يصير الابن مستحقا لرتبۃ الأب وإن لم يبلغ رتبۃ الأب في ذٰلک المنصب بطريق الوراثۃ أو غير ذلک بحيث يشيع ہٰذا العمل ويطرد ويراہ الناس کالشرع الذي لا يخالف بأن يعبروا عنہ کما يعبر عن القاعدۃ الشرعيۃ الکليۃ من مات عن شيء فنصيبہٗ لولدہٖ، ففيہ جہتان جہۃ کونہٖ بدعۃ بلا إشکال، وجہۃ کونہٖ قولًا بالرأي غير الجاري علی العلم ہو الذي بينہ النبي - صلی اللہ عليہ وسلم - بقولہ : ’’حتی إذا لم يبق عالم اتخذ الناس رؤسًا جہالًا،فسئلوا فأفتوا بغير علم فضلوا وأضلوا۔‘‘
ترجمہ: ’’جہلاء کوعلماء پرفوقیت دینا، اہم مناصب نااہل لوگوں کووراثت کے طورپر سپرد کرنا(یہ بھی بدعات کی شکلیں ہیں) چنانچہ عالم کی جگہ جاہل کافتویٰ (اور قضاء) کا منصب سنبھالنا اور اس کی بات کو معاملات، خون بہا، اور نکاح غیرہ معاملات میں فیصلے کی حیثیت دینا شرعاً حرام ہے۔ نیزوراثت کی بنیادپردینی مناصب کی تولیت کہ بیٹا نااہلی کے باوجود محض وراثت کی بنیاد پر باپ کے منصب کا مستحق ٹھہرے اور یہ معاملہ اس طرح جاری وساری ہو کہ لوگ اسے دینی حکم سمجھ کر اس اس کی مخالفت کو گناہ سمجھیں، اسے دینی ضابطہ کی حیثیت دی جائے کہ جوبھی کسی منصب پرفائز ہو تو اس کے فوت ہونے کے بعد بیٹا ہی اس کا وارث ہوگا تو اس میں دو جہتیں ہیں: ایک لحاظ سے بدعت ہے اور بدعت ہونے میں کوئی اشکال کی بات بھی نہیں (کیونکہ تسلسل اور عام رواج کی وجہ سے نئی نسل اسے شرعی حکم اور شرعی ضابطہ سمجھیں گے) دوسری جہت جہالت کی ہے کہ علم وتحقیق سے عاری بات ہے، جیساکہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بہت پہلے اس کی پیشن گوئی فرمائی تھی کہ: ’’جب عالم نہ رہے تو لوگ اپنے ناواقف سربراہان کو مقتدی بناکر ان سے دینی رہنمائی حاصل کریں گے اور وہ بھی علم کے بغیر جواب دیں گے، وہ خود بھی گم راہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گم راہ کریں گے۔‘‘

حاصلِ تحریر

خلاصہ کلام یہ ہے کہ:
1- وقف اداروں کا متولی بننا کوئی عام دنیوی معاملہ نہیں ہے، جس کو رائج طور وطریقے سے نمٹایا جائے، بلکہ یہ ایک شرعی معاملہ ہے جس کے لیے شریعت نے ایک ضابطہ مقرر فرمایا ہے، تولیت کا بوجھ سنبھالنے کے لیے کچھ شرائط مقرر فرمائی ہیں، اگر کسی میں وہ شرائط موجود نہ ہوں تو نہ خود اس کا کسی وقف ادارےکا متولی بننا جائز ہے اور نہ ہی دیگر افراد کا ایسے نااہل شخص کو متولی بنانا درست ہے۔
2- ان شرائط کی تفصیل درج بالا سطور میں تحریر کی گئی ہے۔
3- نا اہل شخص کو متولی بنانا خود تو ہے ہی غلط اور مذموم، اس کے نتیجےمیں بھی بہت سی غلطیاں اور منکرات و مفاسد پیدا ہوجاتے ہیں، فی زمانہ اس کی وجہ سے اُمت کا اجتماعی طور پر بھی بڑا نقصان ہوتاہے۔
4- وقف اداروں کے انتظام وانصرام کے لیے اہلیت سے قطع نظر وراثت کی بنیاد پر متولی نامزد کیا جانا بالکل غلط عمل اور قابلِ اجتناب ہے۔
5-  بعض اہلِ علم کے ہاں یہ بدعت ہے جس کی توجیہ سابقہ سطور میں درج کی گئی ہے۔
اخیر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ امتِ مرحومہ کے حال پر خصوصی رحم وکرم فرمائیں اور ہمیں پوری استقامت اور تندہی کے ساتھ اپنے صراطِ مستقیم پر چلائے رکھے۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین