اسلام وہ دینِ فطرت ہے جو انسانی زندگی کے تمام پہلوؤ ں سےمتعلق رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اس میں زندگی کے ہر شعبہ اور گوشہ کے متعلق احکامات اور ہدایات موجود ہیں، جن میں نقص و کمی ، دشواری و تنگی اور ظلم و زیادتی نام کی کوئی چیز نہیں۔ اس کی پاکیزہ تعلیمات ایسی جامع، مکمل اور مفید ہیں کہ ہر ایک کے لیے ، ہر جگہ، ہر زمانے اور ہر حالت میں قابلِ عمل اور دنیا و آخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہیں۔ ایک سچے مسلمان کا یہ شیوہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کے تمام مراحل اور امور میں اسلام کا صحیح معنوں میں متبع اور پیروکار بننے کی کوشش کرے۔
نو مولود بچوں کے لیےعمدہ، دلکش اوربامعنی نام ،جس سے اسلامی تشخص جھلکتاہو تجویز کرنے، مہمل، بے معنی، غلط اور برے معانی کے حامل نام سے احتراز کرنے کے متعلق شریعت کے مفصل احکام و ہدایات موجود ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت کی نظر میں یہ موضوع انتہائی اہمیت کا حامل ہے، جسے نظر انداز کرنے کی ہرگز گنجائش نہیں۔ یوں تو ناموں کا موضوع دوسرے مذاہب اور دیگر اقوامِ عالم میں بھی اہمیت کا حامل رہا ہے، لیکن شریعت نے جس باریک بینی سے اس موضوع پر روشنی ڈالی ہے اور اس کے متعلق مکمل رہنمائی فرمائی ہے، دنیا کےکسی بھی دوسرے مذہب میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔
نام انسان کے تعارف کا ذریعہ ہے، اسی کے ذریعے وہ مخاطب کیا جاتا ہے، اسی سے انسان کی معاشرہ میں شناخت ہوتی ہے۔ بغیر نام کے اس کی شناخت اورپہچان دشوار ہے، اس لیےہر زمانے میں اور ہر قوم میں نام کا رواج رہا ہے۔ نام بچے کے لیے زیب و زینت کا سامان ہے۔ اچھے، بامعنی اور دلکش نام سے دل میں اس کی عظمت قائم ہوتی ہے، جبکہ برے نام طبیعت پر گراں گزرتے ہیں، جس کااثر بعض اوقات اس نام والے کو بھدّا بنادیتا ہے۔ نام باپ اور سر پرست کی طرف سے وہ قیمتی تحفہ ہے جو انسان کے ساتھ دنیا و آخرت میں ہمیشہ لگا رہتا ہے، کہیں جدانہیں ہوتا، جس طرح آدمی نام سے دنیا میں جانا پہچانا جاتا ہے ،ویسے ہی آخرت میں بھی اس کی شناخت اسی سے ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ شریعتِ مطہرہ نے مسلمانوں کو اپنے بچوں کے لیے اچھا، دلکش اور بامعنی نام رکھنے کا حکم دیا اور اس کو والدین پر اولاد کا حق قرار دیا، اور جن ناموں کے معانی اچھے نہیں ان کو رکھنے سے منع کیا۔
بہرحال بچوں کے والدین پر جو حقوق عائد ہوتے ہیں ان میں ایک اہم ترین حق یہ ہے کہ بچہ کا اچھا نام رکھا جائے۔
آیئے! بچوں کے اچھے، بامعنی اور دلکش نام تجویز کرنے، مہمل، بےمعنی اور برے ناموں سے احتراز کرنے کے سلسلے میں چند احادیثِ طیبہ بھی ملاحظہ فرمائیں:
حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ باپ پر بچے کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ اس کا اچھا اور عمدہ نام رکھے اور اس کو حسنِ ادب سے آراستہ کرے:
۱- ’’عن أبي سعيدؓ وابن عباسؓ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم: ’’من ولد لہٗ ولد فليحسن اسمہ وأدبہ الخ۔‘‘ (شعب الإیمان: ۱۱/۱۳۷، حقوق الأولاد، رقم الحدیث: ۸۶۵۸)
ایک حدیث میں جنابِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھا نام باپ کی جانب سے پہلا اور بہترین تحفہ قرار دیتے ہوئے فرمایا:
۲- ’’أوّل ماینحل الرجل ولدہ اسمہٗ، فلیحسن اسمہ۔‘‘ (جمع الجوامع: ۳/۲۸۵، حرف الہمزۃ مع النون، رقم الحدیث:۸۸۷۵، دار الکتب العلمیۃ)
یعنی ’’آدمی اپنے بچے کو سب سے پہلا تحفہ نام کا دیتا ہے، اس لیے بچے کا اچھا نام رکھنا چاہیے۔‘‘
۳-’’عن أبي الدرداءؓ، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم: إنکم تدعون يوم القيامۃ بأسمائکم، وأسماء آبائکم، فأحسنوا أسماءکم۔‘‘ (أبوداؤد: ۴/۲۸۷، باب في تغییر الأسماء)
یعنی ’’قیامت کے دن تم اپنے اور اپنے باپ کے ناموں سے پکارے جاؤ گے، لہٰذا اچھے نام رکھا کرو۔‘‘
مذکورہ بالا احادیثِ طیبہ سے معلوم ہوا کہ:
۱-باپ پر بچے کا ایک بنیادی اور اہم حق یہ بھی ہے کہ اس کے لیے اچھے سے اچھا نام تجویز کرے ، لہٰذا باپ کو چاہیے کہ بچے کے اس حق میں کوتاہی اور غفلت سے کام نہ لے۔
۲- نوزائیدہ بچے کے لیے سب سے پہلا اور بہترین تحفہ جو باپ اسے دے سکتا ہے وہ اچھا نام ہے؛ لہٰذا خوب سے خوب تر تحفہ دینے کی کوشش کرے۔
۳-قیامت کے دن اپنے اور باپ کے نام سے پکارا جائے گا کہ فلاں آدمی جو فلاں کا بیٹا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ میدانِ حشر میں اگر کوئی برے نام سے پکارا گیا تو اس بھرے مجمع میں بڑی خفت اور سبکی ہوگی، اس لیے وہ دن آنے سے پہلے توجہ دی جائے اور خود یا کسی اللہ والے عالم سے اچھا نام منتخب کرالیا جائے۔
یاد رکھیے: نام رکھنے کا مقصد محض تعارف اور پہچان نہیں، بلکہ درحقیقت مذہب کی شناخت اس سے وابستہ ہے۔ فکر و عقیدہ کے اظہارکا ایک ذریعہ ہے؛ اس لیے اس سلسلے میں احادیثِ طیبہ میں خصوصی ہدایات دی گئیں ہیں۔ اچھے، دلکش اور بامعنی ناموں کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے اور ایسے ناموں سے منع کیا گیا ہے جو برے معانی کے حامل ہوں۔
عرب معاشرہ شرک و بت پرستی اور نخوت و تکبر جیسے عیوب سے آلودہ ہو چکا تھا، ان عیوب کا اثر ان کے ناموں پر بھی پڑ گیا تھا، چنانچہ وہ اپنے لیے یاتو ایسےنام رکھنا پسند کرتے تھے، جن میں شرک و بت پرستی کا معنی موجود ہوتا، یا ا یسےنام اختیار کرتے تھے جن میں جرأت، بہادری، تکبر و غرور اور بڑائی کا معنی موجود ہوتا۔ تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے کہ ایک مرتبہ ابوالرقیش اعرابی سے کسی نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ تم لوگ اپنی اولاد کے لیے کلب(کتا)، ذئب (بھڑیا) جیسے برے نام تجویز کرتے ہو، جب کہ اپنے غلاموں کے لیے مرزوق (رزق دیا ہوا)، رباح (نفع پانے والا) جیسے عمدہ اور اچھے نام رکھتے ہو؟ ابوالرقیش اعرابی نے جواب میں کہا: بیٹوں کے نام دشمنوں کے لیے اور غلاموں کے نام اپنے لیے رکھتے ہیں، یعنی غلام تو اپنی خدمت اور فائدہ حاصل کرنے کے لیے رکھے جاتے ہیں؛ اس لیے ان کے یہ نام رکھے گئے۔ اور اولاد چونکہ دشمنوں کے خلاف سینہ سپر ہو کر جنگ کرتی ہے، اس لیے ان کے لیے یہ نام تجویز کیے گئے، تاکہ ان کے نام سنتے ہی دشمن مرعوب ہوجائے۔(السیرۃ النبویۃ لابن ھشام: ۱/۲)
بہرحال عرب معاشرہ میں شرکیہ نام اور دیگر برے معانی پر مشتمل نام رائج ہو چکے تھے، چنانچہ عبدالعزیٰ(عزیٰ بت کا بندہ)، عبد الکعبۃ(کعبہ کابندہ)، عبد الشمس (سورج کا بندہ)، غراب (کوا)، عاص(گنہگار) جیسے برے نام ان میں عام ہو چکے تھے۔ اپنی بہادری اور بڑائی جتانے کے لیے بعض اوقات وہ جنگلی درندوں کے نام بھی رکھ دیتے تھے، مثلاً: لیث(شیر)، أسد (شیر)، ذئب (بھڑیا) وغیرہ۔
اسلام جو توحید اور امن و سلامتی کا دین ہے، تکبر و نخوت جیسے برے اوصاف سے بیزار ہے، اس لیے اس سلسلے میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول یہ تھا کہ جب ان میں سے کوئی اسلام قبول کرتا اور اس کا نام قابلِ اصلاح ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت اہتمام سے اس کے نام کی اصلاح فرماتے تھے، چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’أن النبي صلی اللہ عليہ وسلم کان يغير الاسم القبيح‘‘ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم برے ناموں کو اچھے ناموں سے بدلتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپ کی خدمت میں ایک وفد حاضر ہوا، اس وفد میں ایک صاحب کا نام ’’أصرم ‘‘تھا ۔آپ نے اسی آدمی سے پوچھا تیرا کیا نام ہے؟ اس نے کہا: ’’أصرم‘‘ ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ تم ’’زُرعۃ‘‘ ہو۔ (أبوداؤد :۷/۳۰۸، باب في تغییر الاسم القبیح)
أصرمکا معنی ہے: کاٹنے والا، قطع کلام و تعلق کرنے والا، جو کہ ایک منفی اور غلط معنی ہے، زُرعۃ کا معنی کھیتی یا بیج کے ہیں، یعنی دوسرے کو نفع پہچانے والا جو ایک اچھا اور مثبت معنی ہے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لڑکی کا نام جمیلۃ رکھ دیا، جس کا پہلا نام عاصیۃ (گناہگار) تھا۔ غزوۂ حنین کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے پوچھا: آپ کا کیا نام ہے؟ اس نے کہا : غراب۔(غراب کوے کو کہتے ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج سے تم غراب نہیں ،بلکہ مسلم ہو:(الأدب المفرد باب/ ۱/۸۲۴)
ان چند مثالوں پر اکتفا کرتا ہوں، ورنہ کتبِ احادیث میں اس جیسی بہت سی مثالیں ہیں جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظرمیں ناموں کی غیر معمولی اہمیت تھی، جو نام قابلِ اصلاح ہوتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت اہتمام سے اس کی اصلاح فرماتے تھے۔
یوں تو دیکھنے میں نام رکھنا ایک چھوٹی سی بات معلوم ہوتی ہے، بلکہ بعض لوگ تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ ’’نام میں کیا رکھا ہے؟‘‘ حالانکہ یہ انتہائی غلط بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بچوں کی شخصیت اور کردار پر اچھے نام کے اچھے اثرات پڑتے ہیں، جبکہ برے نام کے ممکنہ برے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، اس لیے شریعت نے معنی و مفہوم کے اعتبار سے اچھا نام رکھنے کا حکم دیا، تاکہ بچے کی زندگی کی شروعات کی پہلی اینٹ درست طور پر رکھی جائے۔ مشہور محدث اور فقیہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ مرقات شرح مشکوٰۃ میں لکھتے ہیں: اپنی اولاداورخادم وغیرہ کے لیے اچھے نام کا انتخاب کرنا سنت ہے، کیونکہ بسااوقات برا نام تقدیر کے موافق ہو جاتا ہے، مثال کے طور پر اگر کوئی شخص اپنے بیٹے کا نام خسار (جس کے معنی گھاٹے اور نقصان کے ہے) رکھے تو ہو سکتا ہے کہ کسی موقع پرخود وہ شخص یا اس کا بیٹا تقدیرِ الٰہی کے تحت خسارہ میں مبتلا ہو جائے اور اس کے نتیجے میں لوگ یہ سمجھنے لگیں کہ اس کا خسارہ اور نقصان میں مبتلا ہونا نام کی وجہ سے ہے اور بات یہاں تک پہنچ جائے کہ لوگ اس کو منحوس جاننے لگیں اور اس کی ہم نشینی سے احتراز کرنے لگ جائیں۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح: ۷/۲۹۰۰، باب الفال والطیرۃ۔ وکذا في مظاہر حق: ۵/۳۰۰)
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے متعلق منقول ہےکہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو باقاعدہ ہدایت فرمایا کرتے تھے کہ: لوگوں کے پاس ایسے آدمیوں کوقاصدبناکر بھیجاکرو، جو خوبصورت اور اچھے نام والے ہوں۔ علماء لکھتے ہیں: ’’اس کا سبب نفسیاتی تھا، اچھے نام اور اچھی صورت کا مخاطب پر اچھا اثر پڑتا ہے۔‘‘ (إحیاء علوم الدین: ۴/۱۰۶، بیان حقیقۃ النعمۃ)
لہٰذا جس طرح والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی نگہداشت و حفاظت کریں، ان کی نشوونما اور بہترین تعلیم و تربیت کی فکر کریں، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ والدین بچوں کے لیے اچھے نام تجویز کریں۔ غرض انسان کی شخصیت پر نام کا اثر پڑتا ہے۔ اچھے ناموں کے اچھے اور برے ناموں کے برے اثرات ہوتے ہیں، چنانچہ ایک روایت میں یہ واقعہ منقول ہے: حضرت عبد الحمید ابن جبیرؒ کہتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت سعید ابن المسیب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھا۔ انہوں نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی کہ میرے دادا جن کا نام حزن تھا، وہ ایک مرتبہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: تمہارا کیا نام ہے؟ انہوں نے کہا: میرا نام حزن(جس کا مطلب ہے سخت اور دشوار گزار زمین)ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حزن کوئی اچھا نام نہیں ہے، لہٰذا میں تمہارا نام تبدیل کر کے حزن کے بجائے سھل رکھ لیتا ہوں۔ (سھل کا معنی ہے کہ نرم اور ہموار زمین جہاں انسان کو آرام ملے) اس پر میرے دادا نے کہا کہ میرے باپ نے میرے لیے جو نام رکھا ہے ، میں اس کو تبدیل نہیں کر سکتا۔ حضرت سعید ابن المسیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : ’’اس کے بعد سے ہمارے خاندان میں ہمیشہ سختی رہی۔‘‘(بخاري: ۲/۹۱۴/في الأدب: باب اسم الحزن۔ وکذا في سنن أبي داؤد: ۲/۶۷۷ /باب في تغییر الاسم القبیح)
اس سلسلے میں حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا یہ عجیب و غریب واقعہ بھی ملاحظہ فرمالیں: حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک انجان شخص حاضر ہوا ، سلام و دعا اور خیروخبر کے بعد حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اس شخص سے پوچھا: تیرا کیا نام ہے؟ اس نے کہا: جمرۃ(انگارہ)، دریافت کیا: کس کے بیٹے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ : شھاب(آگ کا شعلہ)، پوچھا کہ کس قبیلہ سے تعلق ہے؟ اس شخص نے کہا: حرقۃ(سوخت شدہ، جلا شدہ بستی) سے، آپ نے سوال کیا، تمہاری رہائش کہاں ہے؟ جواب دیا: حرۃ النار (آگ کی سرزمین)، آپ نے پھرسوال کیا، کونسی جگہ میں؟ اس آدمی نے کہا: ذات لظی (آگ کے شعلوں سے بھڑکنے والا ٹیلہ) میں، یہ سن کر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جلدی اپنے گھر والوں کی خبر لو! وہ سب آگ میں جل کر راکھ کاڈھیرہو گئے ہیں۔ جب اس نے جاکر دیکھاتوویسے ہی پایا، جیسا کہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا۔ (الموطا للإمام مالک: ۲/۹۷۳، باب مایکرہ من الأسماء۔ وکذا في مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح: ۷/۲۹۰۰، باب الفال والطیرۃ)
ان دونوں واقعات میں آپ نے دیکھا کہ برے ناموں نے کیسا برا اثر کر کے دکھایا؟ پہلے واقعہ میں برے نام کی وجہ سے پورے خاندان میں سختی باقی رہی ،جبکہ دوسرے واقعہ میں برے ناموں کی نحوست سے پورا گھرانا جل کر خاکستر ہوگیا۔ کتبِ احادیث میں اس جیسے اور بھی بہت سارے واقعات منقول ہیں، جن کو طوالت کے خوف سے ترک کیا جاتا ہے۔ علامہ ابن القیم جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب تحفۃ المودود باحکام المولود اور حافظ علامہ ابن حجر العسقلانیؒ نے الإصابۃ في تمییز الصحابۃؓ میں اس قسم کے کئی واقعات ذکر کیے ہیں۔ باذوق حضرات وہاں دیکھ سکتے ہیں۔
شخصیت پر اچھے اور برے ناموں کے اثرات پڑنے کو جدید سائنس نے بھی تسلیم کیا ہے، چنانچہ ’’سنتِ نبوی اور جدید سائنس‘‘ میں ہے:
’’جدید سائنس نے اچھے ناموں کو پسند کیا ہے، ان کی پسند دراصل ناموں کے الفاظ اور پھر ان کےاثرات کی وجہ سےہے۔پیراسائکالوجی کے ماہر پروفیسر پیرل ماسٹرنے اپنی حالیہ تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ نام زندگی پر اثرانداز ہوتے ہیں ،حتیٰ کہ نام کے الفاظ کا ترجمہ بھی اپنے فوائد اور اثرات بدل دیتا ہے۔‘‘ (سنتِ نبوی اور جدید سائنس:۱/۳۰۳)
ناموں کی نفسیات پر تحقیق کرنے والے یونیورسٹی آف ایریزونا کے ماہرِ نفسیات ڈیوڈزو کہتے ہیں کہ آپ کا نام، آپ کی شناخت سب سے اہم عنصر ہے اور اسی کی مدد سے لوگ آپ سے بات کرتے ہیں تو دوسروں کے ذہنوں میں آپ کی شبیہ بھی اسی کی وجہ سے بنتی ہے۔‘‘ (بی بی سی نیوز: ۲۵جولائی۲۰۲۱ء)
کچھ عرصہ پہلے میں نے ایک اخبار میں پڑھا کہ حال ہی میں سائنسی ماہرین نے ایک تحقیق پیش کی ہے جس میں ثابت کیا گیا ہے کہ انسانی شخصیت اور ناموں کے درمیان تعلق محض انہیں ایک انفرادی پہچان دینے کی حد تک نہیں ہے، بلکہ اس کے اثرات زندگی بھر انسانی شخصیت پر مختلف انداز میں جاری رہتے ہیں۔ اس تحقیق کے لیے ماہرین نے امریکہ اور کینیڈا میں سوشل سیکورٹی کا ریکارڈ جانچ اندازے قائم کیے اورپھر اس مقصد کے لیے لوگوں کے نام، ان کی جائے پیدائش یا جائے رہائش، پیشہ اور دیگر عوامل کے بیچ ممکنہ تعلقات کو جاننے کی کوشش کی گئی۔ ماہرین نے اس مشاہدے میں یہ بھی دعویٰ کیا کہ بہت سے لوگ ایسے پیشوں کا انتخاب بھی کرتے ہوئے پائے گئے، جن کا تعلق ان کے نام سے کسی حد تک قائم کیا جا سکتا ہے۔ مذکورہ بالا احادیثِ طیبہ، مستندواقعات اور سائنسی تحقیقات اور دیگر معتبر تفصیلات سے واضح ہوا کہ اچھے ناموں کے اچھے اور برے ناموں کے ممکنہ برے نتائج پڑ سکتے ہیں، اس لیے والدین کو چاہیے کہ اس معاملے کی اہمیت اور حساسیت کو جان کر اپنے بچوں کے لیے بامعنی، اچھے اور دلکش ناموں کا انتخاب کریں۔ یہاں اس بات کی بھی وضاحت کردوں کہ ناموں میں یہ اثر اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے، نام بذاتِ خود نہ کسی کو نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان، اس لیے اس کو مؤثر بالذات سمجھنا ہرگز درست نہیں، نیز یہ بھی کوئی ضروری نہیں ہے کہ ہر ایک پر ضرور بالضرور نام کے اثرات مرتب ہی ہوں گے، بلکہ ہو سکتا ہے کسی فرد پر نام کے اثرات مرتب نہ ہوں، لیکن عام طور پر ہوتا یہی ہے کہ نام کے ممکنہ اثرات انسان پر مرتب ہوتے ہیں۔
ناموں کے متعلق شریعت کی طرف سے اتنی زیادہ تاکید اور ترغیب وترہیب کے باوجود اس وقت مسلم معاشرہ غفلت، زبوں حالی اور جدت پسندی کا شکار ہے، یہاں تک کہ بعض اوقات ہمارے ننھے منے، جان سے پیارے بچے بدقسمتی سے صحیح اسلامی ناموں سے محروم ہو جاتے ہیں۔
آج کل لوگوں کا یہ مزاج بنتا جارہا ہے کہ بچوں کے ناموں میں جدت ہو۔ ایسا نام رکھا جائے جو پڑوس، محلہ اور آس پاس کی آبادی اور اہلِ قرابت میں سے کسی کا نہ ہو ،خواہ اس کا معنی اور مفہوم کچھ بھی نکلتا ہو، چنانچہ بعض اوقات جدت پسندی کے جنون میں لوگ ایسے نئے نئے نام تجویز کرتے ہیں جو یا بےمعنی اور مہمل قسم کے ہوتے ہیں یا غلط معانی کے حامل ہوتے ہیں۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب ؒمعارف القرآن میں رقم طراز ہیں:
’’کچھ لوگ تو وہ ہیں جنہوں نے اسلامی نام ہی رکھنا چھوڑدیا ہے، ان کی صورت و سیرت سے پہلے بھی ان کا مسلمان سمجھنا مشکل تھا، ان کے نام سے پتہ چل جاتا تھا، اب نئے انگریزی طرز کےنام رکھے جانے لگے۔ ‘‘ (معارف القرآن: ۴/۱۳۲)
بعض سادہ لوح ناواقف مسلمانوں میں یہ رجحان بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ قرآن کریم سے نام تجویز کرنے کو خیر و برکت کا ذریعہ سمجھتے ہیں، قطع نظر اس سے کہ اس کا معنی اور مطلب کیا ہے؟
آیا یہ نام مناسب بھی ہے یا نہیں؟ چنانچہ ایک مسجد کے نمازی نے اپنی بچی کا نام ’’لِنتَ‘‘ رکھا۔ مسجد کے امام صاحب نے تبدیل کرنے کا کہا تو جواب ملا کہ بچی کی دادی کو دورانِ تلاوت یہ لفظ پسند آیا تھا، اس لیے رکھا ہے، لہٰذا دادی کی خوشی کی خاطر اس نام کو تبدیل نہیں کر سکتے۔حضرت مولانا مفتی مہربان علی بڑوتی صاحب ؒ نے یہ واقعہ ذکر کیا ہے کہ شہر مظفر نگر کے دیہات میں ایک عورت نے جو ذرا قرآن کریم پڑھنا جانتی تھی، اس کے یہاں یکے بعد دیگرے تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ اس نے اپنے کو خواندہ سمجھتے ہوئے بچیوں کے نام تجویز کرنے کے لیے قرآن کریم سے ’’سورۂ کوثر‘‘ کا انتخاب کیا، چنانچہ بڑی بچی کا نام ’’کوثر‘‘ رکھا۔ دوسری کا نام ’’وانحر‘‘ تجویز کیا۔ اور تیسری کا نام ’’أبتر‘‘ مقرر کیا۔ کوثر اور وانحر کے معنی تو بحثیتِ نام کسی حد تک درست بھی ہیں، لیکن آخری لفظ ’’ابتر‘‘ کا معنی توبالکل غلط ہے جو کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔ (مسلمانوں کے نام اور ان کے احکام:۱/۱۳)
ایسے لوگوں کو بطور اصلاح کچھ کہا جائے تو سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم سے رکھے ہوئے ناموں کو تبدیل کرنا کون سے مسئلے کی بات ہے، حالانکہ قرآن کریم سے نام تجویز کرنے کی بات علی الاطلاق درست نہیں ہے، اس لیے کہ قرآن کریم میں حمار، کلب، خنزیر، بقرہ، فرعون، ہامان، قارون وغیرہ کے الفاظ بھی آئے ہیں، تو ان کے طریقِ استدلال کے مطابق ان الفاظ کے ذریعے بھی نام رکھنا صحیح ہونا چاہیے۔
لہٰذا نام کے اچھا یا برا ہونے کا معیار یہ نہیں کہ وہ نام پسند آجائے یا وہ قرآن کریم میں مذکور ہو، بلکہ اچھا ہونے کا معیار یہ ہے کہ شریعت کی نظر میں بھی وہ نام اچھا ہو۔ اسی طرح بعض لوگ اسلامی ہدایات کے برخلاف ناول، افسانوں، فلموں، ڈراموں اور دیگر غیر شرعی پروگراموں سے نام اخذ کر کے رکھتے ہیں، حالانکہ وہ نام یا تو فرضی ہوتے ہیں یا سراسر غیر اسلامی، بلکہ بسا اوقات اس میں مذاہبِ باطلہ کی آمیزش ہوتی ہے جو انتہائی افسوس کن اور قابلِ اصلاح امر ہے۔
یاد رکھئے! نام کی حیثیت ایک قالب کی سی ہے جس میں انسان ڈھلتا ہے ۔ نام کا انسان کی فطرت پر نفسانی اثر رہتا ہے۔ اچھے نام والا آدمی اپنے نام کا اچھا اثر محسوس کرتا ہے، چنانچہ جب اس سے پکارا جاتا ہے تو وہ اپنے اندر ایک عجیب طرح کی کیفیت محسوس کرتا ہے۔ اس کے برخلاف جس کا نام اچھا نہیں ہوتا وہ اپنے نفس کو جھنجھوڑتا رہتا ہے۔