بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

بینات

 
 

بھوک کا ہتھیار اور کرنے کا کام!

بھوک کا ہتھیار اور کرنے کا کام!

الحمد للہ وسلامٌ علٰی عبادہ الذین اصطفٰی

پاکستان کے حالیہ انتخابات ۸؍فروری ۲۰۲۴ء کو مکمل ہوگئے۔ بظاہر مرکز اور صوبوں میں حکومتیں بن گئیں، صدارتی انتخاب بھی ہوگیا، لیکن ابھی تک حکومتی اتحاد کے علاوہ کوئی سیاسی جماعت ان انتخابات سے مطمئن نظر نہیں آتی اور یہ اصطلاح اس بار عام ہوئی کہ فارم ۴۵ والے ہرادیے گئے اور فارم ۴۷ والے حکمران بنادیے گئے، کئی ایک کے نتائج تبدیل ہوئے اور ہارجیت کے نوٹیفکیشن بارہا کئی تبدیلیوں کے باوجود ابھی تک جاری ہورہے ہیں۔ گویا نہ ہارنے والوں کو ابھی تک اپنی ہار کا یقین ہے اور نہ جیتنے والوں کو ابھی تک کوئی اطمینان ہے۔ دوسری طرف الیکشن کے بعد چند دن دہشت گردی میں وقفہ ضرور نظر آیا، لیکن پاکستان کی فورسز پر کئی مقامات پر دہشت گردانہ حملے پھر شروع ہوگئے، جس میں دو افسران کے علاوہ کئی ایک سپاہی جامِ شہادت نوش کرگئے۔ 
ادھر اندرونِ سندھ میں کچے کے ڈاکوئوں کا راج ہے، جو عوامی ٹریفک پر کئی بار فائرنگ کرچکے ہیں، کئی ایک ڈرائیوروں کو اغوا کیا، اور انہیں زدوکوب کے علاوہ ان سے بھاری تاوان بھی طلب کیے گئے۔ ایک اسکول ٹیچر جو کہ اسی علاقے سے تعلق رکھتے تھے، ان کو ڈاکوئوں نے قتل کردیا، کچھ دنوں کے بعد ایک اور اسکول کے استاذ کو قتل کردیا گیا۔ شنید یہ ہے کہ کچے اور پکے کے ڈاکو برملا اور بڑے دھڑلے سے یہ کہتے ہیں کہ پولیس ہو یا کوئی اور فورس ہمارا کچھ نہیں بگاڑسکتی، اس لیے کہ پولیس میں ہمارے آدمی موجود ہیں جو ہر کارروائی سے پہلے ہمیں اطلاع پہنچادیتے ہیں۔ دوسری طرف صرف کراچی میں دن دیہاڑے اسٹریٹ کرائم میں خوفناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔ کئی ایک وارداتوں میں تو ڈاکوئوں نے مال لوٹنے کے ساتھ مظلوم شہریوں پر گولیاں چلادیں، جس سے وہ زندگی کی بازی ہارگئے۔ ان ڈاکوؤںسے گویا نہ اب جان محفوظ ہے اور نہ مال اور عزت و آبرو محفوظ ہے۔ ان حالات میں ملک میں امن و امان آئے تو کیسے آئے اور ملک معاشی طور پر مستحکم ہو تو کیسے ہو؟
حکومت بن جانے کے باوجود ابھی تک مہنگائی کے کنٹرول میں اور خورد و نوش کی اشیاء کی قیمتوں میں کوئی استحکام نظر نہیں آرہا اور یہ آ بھی کیسے سکتا ہے، اس لیے کہ آئی ایم ایف سے ابھی پچھلا قرضہ لینے کے لیے ان کی کتنی سخت سے سخت شرائط مانی گئیں، جس کی بنا پر ہر چیز کی قیمت میں ہوشربا اضافہ ہوا اور ابھی پھر سے وزیر اعظم صاحب قوم کو خبردار اور تیار کررہے ہیں کہ اگلے تین سال کے لیے آئی ایم ایف کے قرض پروگرام میں جانے کے لیے ہمیں کئی سخت فیصلے کرنے پڑیں گے۔ پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں جولائی سے ایک بار پھر مزید اضافہ کیا جارہا ہے۔ ان حالات میں تنخواہ دار اور دیہاڑی دار مزدور کہاں جائے؟ اور کرے تو کیا کرے؟ اللہ تعالیٰ ہی رحم فرمائے۔ 
لگ یہ رہا ہے کہ بین الاقوامی مالی ادارے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اسلامی ملک ہونے اور غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی مدد و نصرت اور تعاون کی پاداش میں ان پر بھی بھوک کا ہتھیار مسلط کررہے ہیں، جیسا کہ غزہ میں تیس سے پینتس ہزار بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور بزرگوں کو بموں، گولیوں اور دوسرے ہتھیاروں سے شہید کرنے کے علاوہ زندہ بچ جانے والوں پر خوراک، پانی اور دوسری اشیائے ضروریہ کی ترسیل روک کر ان پر بھوک کا ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایک برطانوی صحافی کے بقول رفح کے خیموں میں رہنے والوں کے لیے ایک کلو آٹے کی قیمت (وہ بھی اگر مل جائے تو) ۴۰ پائونڈ (پاکستانی ۱۴ ہزار سے زیادہ) ہے۔ 
اس پُرہجوم شہر کے زیادہ تر لوگ پہلے ہی اسرائیل کی طرف سے ہونے والی شدید جارحیت اور خوفناک تباہی کی وجہ سے بے گھر ہوچکے ہیں، ہزاروں خاندان سڑکوں، اسکولوں اور ہسپتالوں کے صحن میں یا چوراہوں پر رہنے پر مجبور ہیں، ان کے پاس پناہ لینے کے لیے کوئی تہہ خانے نہیں، بھاگنے اور اسرائیل کی وحشیانہ بمباری سے چھپنے کو کوئی جگہ نہیں۔
غزہ شہر میں لوگ گھاس کھانے پر مجبور ہیں اور جانوروں کی خوراک سے روٹی بنارہے ہیں۔ عالمی تنظیم آکسفیم نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ یہاں نسل کشی کا خطرہ بڑھ رہا ہے اور تقریباً تین لاکھ افراد اب بھی یہاں چار ماہ سے امداد سے تقریباً مکمل طور پر منقطع ہونے کے باوجود مقیم ہیں۔ مزید کہا کہ شمالی غزہ کے علاقے میں اب ہر طرف تباہ کن بھوک کا راج ہے، لوگ بیت الخلاء کا پانی پیتے ہیں اور جنگلی پودے کھاتے ہیں۔
امریکا، برطانیہ اور مغربی دنیا ایک طرف اسرائیل کو اسلحہ اور فوجی قوت مہیا کررہے ہیں، دوسری طرف امریکا کا صدر جوبائیڈن اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کرانے کا معاہدہ کرانے کے لیے سلامتی کونسل میں قرارداد لے کر گیا ہے، جسے چین اور روس نے رفح پر حملے کا جواز پیدا کرنے کی کوشش قرار دے کر مسودہ ویٹو کردیا۔ اخبارات کی خبروں کے مطابق غزہ میں جنگ بندی کی آڑ لے کر حماس کے خلاف سلامتی کونسل میں پیش کردہ امریکی قراراد چین اور روس نے ویٹو کردی، الجیریا نے بھی قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیا۔ قرارداد میں امریکا نے سلامتی کونسل سے حماس کی مذمت کا مطالبہ کیا تھا۔ روس نے اپنے ردِعمل میں کہا کہ قرارداد کا مقصد رفح پر اسرائیلی حملے کے لیے جواز پیدا کرنا ہے۔ چینی مندوب نے اپنے سخت ردِعمل میں کہا کہ یہ قرارداد عالمی توقعات سے بہت نیچے ہے، امریکی مسودے میں جنگ بندی کے لیے جو شرائط درج کی گئی ہیں، وہ فلسطینیوں کو قتل کرنے کے لیے گرین سگنل دینے کے مترادف اور ناقابلِ قبول ہیں۔ قرارداد ویٹو ہونے کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ امریکا ساتھ دے یا نہ دے، اسرائیلی فوج رفح پر حملہ ضرور کرے گی۔ 
ان حالات میں عوام الناس کے بس میں جو کچھ ہے، وہ یہ ہے کہ اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کی دامے، درمے، قدمے، سخنے، مدد و نصرت اور تعاون کے ساتھ ساتھ ہر پاکستانی اپنےا ن مظلوم بھائیوں کو دعائوں میں یاد رکھنے کے علاوہ اپنے ملک کی خوشحالی، سلامتی، استحکام اور پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلام کا قلعہ بنانے کی خلوص کے ساتھ دعائیں مانگے، اس لیے کہ آج کے مادی دور میں خدا تعالیٰ سے مانگنے کی ضرورت کو یکسر فراموش کردیا گیا ہے اور اچھے اچھے متدین لوگ بھی حق تعالیٰ سے مدد مانگنے پر اتنا اعتماد نہیں کرتے، جتنا کہ اپنی ظاہری تدابیر پر کرتے ہیں۔ کسی قوم کی کامیابی و کامرانی یا اس کی ذلت و ناکامی ارادئہ خداوندی اور خشیت ِالٰہی کے تابع ہے، قرآن کریم میں ہے:
’’إِنْ یَّنْصُرْکُمُ اللہُ فَلَا غَالِبَ لَکُمْ وَإِنْ یَّخْذُلْکُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِیْ یَنْصُرُکُمْ مِّنْ م بَعْدِہٖ وَعَلَی اللہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۔‘‘    (آلِ عمران: ۱۶۰)
ترجمہ: ’’اگر اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا اور اگر وہ تمہاری مدد سے ہاتھ کھینچ لے تو کون ہے جو اس کے بعد تمہاری مدد کرسکے؟ اور اہلِ ایمان کو صرف اللہ بھروسہ کرنا چاہیے۔‘‘
آج مسلمان جن حالات سے گزر رہے ہیں، ایک طرف حکمرانوں کی بے حسی اور دوسری طرف مسلم عوام کا ہر جگہ استحصال۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ کی طرف خلوص اور تضرع کے ساتھ دعائوں کے ذریعہ متوجہ ہونا بہت ضروری ہے۔ ہم لوگ مجلسوں میں، ہوٹلوں میںیا دفتروں میں حالاتِ حاضرہ پر لایعنی اور بےمقصد تبصرے کرنے کے خوگر ہوگئے ہیںـ ، حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ ہمارے تبصرے حالات کی اصلاح کے لیے ذرہ برابر کارآمد نہیں، ان تبصروں کی بجائے اگر ہمارے وقت کا کچھ حصہ بھی دعا، اِنابت اور رجوع الی اللہ میں خرچ ہونے لگے تو حق تعالیٰ کی رحمت متوجہ ہوسکتی ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:
’’وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ أَسْتَجِبْ لَکُمْ إِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِیْنَ‘‘   (المومن:۶۰)
ترجمہ: ’’اور کہتا ہے تمہارا رب: مجھ کو پکارو کہ پہنچوں تمہاری پکار کو، بے شک جو لوگ تکبر کرتے ہیں میری بندگی سے، اب داخل ہوں گے دوزخ میں ذلیل ہوکر۔‘‘ 

وصلی اللہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد و علٰی آلہٖ و صحبہٖ أجمعین

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین