ایک آدمی (شوہر) نے اپنا پیسہ بینک میں جمع کرایا، جس پر اُسے ماہانہ آمدنی ملتی ہے، جس میں یقینی طور پر سود شامل ہوتا ہے، آدمی اپنی سودی آمدنی گھر کی مرمت، گاڑی کی مرمت، کار خریدنے کے معاملات میں استعمال کرتا ہے اور وہ اس سودی رقم کو کبھی بھی کھانے وغیرہ کے معاملے میں میز پر لانے کے لیے استعمال نہیں کرتا، اس رقم میں سے ایک پیسہ بھی کھانے پینے کی اشیاء میں استعمال نہیں ہوتا، لیکن صرف دیگر گھریلو سامان میں استعمال ہوتا ہے، اس کے پاس آمدنی کا ایک اور ذریعہ ہے جو بل ادا کرنے اور گھر کی مرمت وغیرہ کے لیے بالکل بھی کافی نہیں ہے، اس نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ وہ بینک سے ملنے والی رقم کو کھانے پینے کی چیزوں سے متعلق کسی بھی چیز میں استعمال نہیں کرے گا، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ کیا سودی رقم بینک سے لینا صحیح ہے؟ یا وہ بینک سے سودی رقم بھی نہیں لے سکتا؟
واضح رہے سود حرام اور ناجائز ہے، بلکہ اللہ اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ساتھ اعلانِ جنگ ہے ،سود خور پر اللہ تعالیٰ کا قہر و عذاب نازل ہوتا ہے ،سودی اکاؤنٹ کھولنا اور سود کی رقم وصول کرنا حرام ہے، چاہے وہ رقم کسی بھی مد میں استعمال کی جائے۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص (شوہر) کے لیے بینک میں سودی اکاؤنٹ کھولنا اور اس سے سودی رقم لینا ناجائز اور حرام ہے، اس پر لازم ہے کہ سودی اکاؤنٹ ختم کرے، اور جتنی سودی رقم اس کے اکاؤنٹ میں آگئی ہے، وہ یا تو بینک کو واپس کرے یا واپسی کی صورت نہ ہو تو پھر بغیر ثواب کی نیت کے صدقہ کرے۔ اس رقم کو گھر کی تعمیر میں لگانا، گھر کی اشیاء خریدنا یا بل وغیرہ ادا کرنا یا کسی بھی طور پر استعمال میں لانا جائز نہیں ۔ قرآنِ کریم میں ہے:
’’الَّذِيْنَ يَاْکُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا يَقُوْمُوْنَ إِلَّا کَمَا يَقُوْمُ الَّذِيْ يَتَخَبَّطُہُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَالُوْآ اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا وَاَحَلَّ اللہُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا‘‘ (البقرۃ: ۲۷۵)
ترجمہ: ’’اور جو لوگ سود کھاتے ہیں ، نہیں کھڑے ہوں گے (قیامت کے دن قبروں سے ) مگر جس طرح کھڑا ہوتا ہے ایسا شخص جس کو شیطان خبطی بنا دے لپٹ کر(یعنی حیران و مدہوش)یہ (سزا) اسی لیے ہوگی کہ ان لوگوں نے کہا تھا کہ بیع بھی مثل سود کے ہے، حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال فرمایا ہے اور سود کو حرام کردیا ہے۔‘‘ (بیان القرآن، ص:۱۹۸،ط:رحمانیہ)
وفيہ أيضاً:
’’يٰاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَأْکُلُوا الرِّبٰوآ اَضْعَافًا مُّضَاعَفَۃً وَّاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ‘‘ (آل عمران: ۱۳۰)
ترجمہ:’’اے ایمان والو! سود مت کھاؤ (یعنی نہ لو اصل سے) کئی حصے زائد (کرکے) اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو، اُمید ہے کہ تم کامیاب ہو۔‘‘ (بیان القرآن، ص:۲۸۱،ط:رحمانیہ)
حدیثِ مبارک میں ہے:
’’عن جابرؓ، قال: لعن رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم اٰکلَ الربا، ومؤکلہ، وکاتبہ، وشاہديہ ، وقال: ہم سواء۔‘‘ (صحيح مسلم، باب لعن اٰکل الربا ومؤکلہ، ج:۵، ص:۵۰، رقم الحديث:۱۵۹۸، ط: دار إحیاء التراث ، بیروت)
ترجمہ: ’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے (لینے) والے پر، سود کھلانے (دینے) والے پر، سودی لین دین لکھنے والے پر اور اس کے گواہوں پر سب ہی پر لعنت فرمائی ہے، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: یہ سب (اصل گناہ میں ) برابر ہیں ۔‘‘
فقط واللہ اعلم
فتویٰ نمبر: 144511102578
دارالافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن