بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

بینات

 
 

تبصرہ وتعارف ، نقدونظر

تبصرہ وتعارف ، نقدونظر

 

ذِکرُ المرسلین ترجمہ ’’قصص النبیّینؑ‘‘ (تین جلدیں)

مترجم: مولانا یوسف ماما کفلتیویؒ۔ نظرثانی: مولانا شبیر احمد صوفی صاحب۔ صفحات جلد اول: ۲۹۶۔ صفحات جلددوم: ۴۱۶۔ صفحات جلد سوم: ۴۷۵۔ عام قیمت: ۳۶۰۰۔ ناشر: زمزم پبلشرز، شاہزیب سینٹر نزد مقدس مسجد، اردو بازار، کراچی۔ رابطہ نمبر: 03098204773
معروف ومشہور درسی کتاب ’’قصص النبیّینؑ‘‘ حضرت مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کی عربی ادب کی شاہکار کتاب ہے، جو سالہا سال سے پاک وہند کے مدارس میں درسِ نظامی کے نصاب میں شامل ہے۔ 
’’قصص النبیّینؑ‘‘ جس طرح اپنے موضوع یعنی عربی ادب کی افادیت کے اعتبار سے انتہائی مفید ثابت ہوئی ہے، وہیں یہ کتاب ایک مصلح کا کردار بھی ادا کرتی ہے، انبیاء  علیہم السلام  کے تذکروں اور قصوں میں طلبہ کی ایمانی وعملی اصلاح اور ذہن سازی بھی ساتھ ساتھ ہوتی رہتی ہے اور ہم نے اس حوالہ سے اس کتاب کو بہت ہی مفید اور کارآمد محسوس کیا ہے۔ کسی نے اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کیا خوب کہا کہ: ’’اس کتاب کے ذریعہ بچوں کا علمِ کلام تیار ہوگیا۔‘‘ نیز کتاب میں انبیاء  علیہم السلام  کے واقعات کو ایسے دلچسپ اور اثرانگیز انداز و پیرایہ میں لکھا گیا ہے کہ پڑھتے ہوئے دل پر عجیب کیفیت طاری ہوتی اور بےساختہ آنسو رواں ہوتے ہیں ۔ 
بہرحال اس کتاب کا بنیادی مقصد مبتدی طلبہ کو عربی زبان(گرائمر) اور اس کا ترجمہ سکھانا ہے، چنانچہ یہ کتاب مبتدی طلبہ کی استعداد اور نفسیات کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے، مگر مبتدی طلبہ کے لیے صرف ونحو سے زیادہ مناسبت نہ ہونے کی وجہ سے کماحقہ ترجمہ کرنا ، تمام الفاظ کے ترجمہ کو الگ الگ سمجھنا اور یاد رکھنا مشکل ہوتا ہے۔اس کتاب کے کئی اردو تراجم ملتے ہیں۔ زیرِنظر ترجمہ برطانیہ کے شہر باٹلی کے ایک عالم دین مولانا یوسف پٹیل کفلتیوی قاسمی صاحبؒ کا ہے، اس ترجمہ کی خصوصیت یہ ہے کہ عام فہم اور آسان ہونے اور حلِ لغات کے ساتھ ساتھ اس میں صرفی نحوی تحقیق بھی شامل کی گئی ہے، اس تحقیق کا یہ فائدہ ہے کہ طلبہ بصیرت کے ساتھ مختلف الفاظ کا ترجمہ الگ الگ بھی سمجھ سکتے اور کرسکتے ہیں۔ آیات کا ترجمہ اکثر حضرت مولانا اشرف علی تھانوی  رحمۃ اللہ علیہ  کے ترجمہ سے لیا گیا ہے۔
ترجمہ کے شروع میں تفصیلی مقدمہ ہے، جس میں کئی نامور علماء کی تقاریظ ہیں، مترجم کا تفصیلی پیش لفظ ہے اور چالیس صفحات پر صاحبِ کتاب حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی  رحمۃ اللہ علیہ  کا تعارف اور سوانح ہے۔ اس کے بعد ہندوستان کے معروف عالم دین مولانا عبداللہ کاپودروی صاحب مدظلہ کی طرف سے ’’قصص النبیین کے جواہر پارے‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون ہے، جو پوری کتاب کا بہترین تجزیہ ہے، اس مضمون میں پوری کتاب کا خلاصہ اور ہر سبق پر تبصرہ ہے۔ مولانا موصوف خود کئی سال یہ کتاب پڑھاچکے ہیں، لہٰذا ان کا یہ تجزیہ اور تبصرہ خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اس کے بعد مولانامرغوب احمد لاجپوری صاحب کی طرف سے کتاب کا مقدمہ ہے، جس میں ’’قصص النبیین‘‘ کی وجہ تالیف، اہمیت اور چند خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔اس کے بعد تقریباً بیس صفحات پر مترجمِ کتاب مولانا یوسف ماما صاحبؒ کی سوانح اور تذکرہ ہے۔ 
جلد اول کی ابتدا میں صفحہ نمبر: ۱ پر اجمالی فہرست ہے، کئی عنوانات میں اس فہرست کے صفحات اور اندرونی صفحات میں مطابقت نہیں ہے، اُمید ہے آئندہ ایڈیشن میں صفحات نمبر درست کردیے جائیں گے۔ کتاب کا ٹائٹل دیدہ زیب، تصحیح اور سیٹنگ بہترین اور جلد بندی مضبوط ہے اور کاغذ متوسط و مناسب ہے۔ 

مرغوبُ المسائل (مکمل سیٹ، چھ جلدیں)

مولانا مرغوب احمد لاجپوری صاحب۔ صفحات جلد اول: ۴۲۶۔ صفحات جلددوم: ۳۷۸۔ صفحات جلد سوم: ۳۸۹۔ صفحات جلد چہارم: ۴۱۲۔ صفحات جلد پنجم: ۳۹۰۔ صفحات جلد ششم: ۴۵۶۔ عام قیمت: ۶۰۰۰۔ ناشر: زمزم پبلشرز، شاہزیب سینٹر نزد مقدس مسجد، اردو بازار، کراچی۔ رابطہ نمبر: 03098204773
زیرِتبصرہ ضخیم کتاب فقہی مضامین، رسائل اور مقالات کامجموعہ ہے، جو برطانیہ کے معروف عالمِ دین مولانا مرغوب احمد لاجپوری صاحب (معلم وخطیب مسجد بلال، تھورن ہل لیز، ڈیوزبری، برطانیہ) کے قلم سے نکلے ہیں۔ پہلی جلد متفرق موضوعات سے متعلق ۱۴ ؍ رسائل اور ایک مقالہ کا مجموعہ ہے۔ دوسری جلد حرمین شریفین سےمتعلق ۱۳ ؍رسائل کا مجموعہ ہے۔ تیسری جلد نکاح کے موضوع پر ۱۱ ؍رسائل اور ۲؍ مقالات کا مجموعہ ہے۔ چوتھی جلد میں اِسراف وغلو کے موضوع پر ۱۱ ؍رسائل اور ایک مقالہ ہے۔ پانچویں جلد میں متفرق موضوعات پر ۱۴؍ رسائل اور ایک مقالہ ہے۔ چھٹی جلد میں اصلاحِ معاشرہ کے موضوع پر ۱۰؍ رسائل ہیں۔ 
بطور نمونہ پہلی اور چھٹی جلد کے رسائل کے عنوانات ذکر کیے جاتے ہیں، پہلی جلد میں متفرق موضوعات پر درج ذیل ۱۴؍ رسائل اور ایک مقالہ ہے: ۱: بیت الخلاء میں ذکر، ۲: مسجد کی صفائی، ۳: مسجد میں بچوں کو لانا، ۴: فرض نماز کے بعد اعلان، ۵: اشکالات اور ان کے جوابات، ۶: شفق غائب نہ ہونے والی رات میں، ۷: مسبوق کے مسائل، ۸: تہجد کی جماعت، ۹: پیر اور جمعہ کے دن کی موت، ۱۰: رؤیتِ ہلال، ۱۱: تراویح کی اُجرت، ۱۲: تراویح کے حفاظ کا انتخاب، ۱۳: دوسری منزل میں اعتکاف، ۱۴:گھر میں اعتکاف کرنا، ۱۵: کرونا وائرس: چند سوالات۔
چھٹی جلد میں اصلاحِ معاشرہ سے متعلق درج ذیل ۱۰ رسائل ہیں: ۱: آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی بددُعائیں، ۲: لعنت والے اعمال، ۳: صدق وکذب، ۴: امانت وخیانت، ۵: مالِ وقف میں خیانت، ۶: علماء کی توہین، ۷: حق کہنا ہر وقت ضروری ہے؟، ۸: کسی کو تکلیف نہ پہنچائیے، ۹: امیر بننے کا شوق، ۱۰:مسلمانوں پر حالات کیوں؟
ان عنوانات سے قارئین کو کتاب کے موضوعات اور مندرجات کا کچھ اندازہ ہوگیا ہوگا ۔ بہرحال ہمارے خیال میں کتاب دینی اور علمی اعتبار سے مفید ہے۔ فقہی مسائل باحوالہ ہیں، آیات واحادیث اور فقہی عبارات درج ہیں۔ علاماتِ ترقیم اور عربی عبارات کی سیٹنگ کا مزید اہتمام کرلیا جاتا تو بہتر ہوتا۔ کتاب کا ٹائٹل دیدہ زیب اور جلد بندی مضبوط ہے اور کاغذ متوسط و مناسب ہے۔ 
 دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہلِ علم کو اس کتاب سے فائدہ اُٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ 

سلامتی کا راستہ (صحابہ کرامؓ کے بارے میں تاریخی روایات اور ان سے منسوب بعض واقعات سے متعلق)

از قلم: مولانا حافظ محمد اقبال رنگونی صاحب۔ صفحات: ۴۸۰۔ قیمت: درج نہیں۔ ناشر: ادارہ اشاعت الاسلام، مانچسٹر، برطانیہ۔ پاکستان میں ملنے کا پتہ: جامعہ ابوہریرہؓ، برانچ آفس خالق آباد، نوشہرہ، کے پی کے۔ رابطہ نمبر: 0923630237
صحابہ کرامؓ کی محبت وعقیدت اور ادب واحترام ایمان کا تقاضا ہے۔ اُن سے محبت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی نسبت کی لاج ہے، اور صحابہ کرامؓ سے بدگمانی یا بغض درحقیقت حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی نسبت کی توہین، حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے لائے ہوئے دین سے بدگمانی اور حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی دعوت و محنت پر شک کا اظہار ہے۔ مسلمانوں کا صحابہ کرامؓ سے رشتہ ایمان کا ہے، جس قدر اُن پر اعتماد و اعتبار ہوگا ، ایمانی رشتہ مضبوط تر ہوگا، اگر خدانخواستہ صحابہ کرامؓ سے بدگمانی اور بد اعتمادی ہوگئی تو ایمان بھی متزلزل اور کمزور ہوتے ہوتے زائل ہوجائے گا۔ صحابہ کرامؓ ایمان کا دروازہ ہیں، یہ دروازہ توڑنے والے پورے گھر کو غیرمحفوظ کردیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ عموماً اعداء اسلام کاپہلا نشانہ صحابہ کرامؓ ہوتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ دروازہ کمزور کیے اور توڑے بغیر گھر کو کمزور نہیں کیا جاسکتا۔ صحابہ کرامؓ دین کے ناقل ہیں، انہی کے واسطے سے دین قیامت تک کے تمام مسلمانوں تک پہنچا ہے۔ قرآن جیسی کتاب، احادیث وسنت جیسی تعلیمات انہی کے واسطے سے پہنچی ہیں۔ حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد فاروقی سرہندیؒ (متوفی: ۱۰۳۴ھ) لکھتے ہیں:
ترجمہ: ’’قرآن واحادیث اصحاب کرامؓ کی تبلیغ سے ہم تک پہنچا ہے، جب اصحابؓ مطعون ہوں گے تو وہ دین جو اُن کے ذریعہ ہم تک پہنچا ہے، وہ بھی مطعون ہوگا، نعوذ باللہ من ذٰلک۔‘‘                                   (مکتوبات، دفترِ اول، مکتوب نمبر:۳۶، ص:۱۱۱)
شومیِ قسمت کہ اہلِ سنت کے معروف خانوادۂ سادات کے فرد اور دارالعلوم ندوۃ العلماء کے سابق استاذ مولانا سلمان حسنی ندوی راہِ اہلِ سنت سے انحراف کرتے ہوئے کچھ سالوں سے مستقل تنقیصِ صحابہؓ کے مرتکب ہورہے ہیں۔مولانا سلمان ندوی کو صحابی کی تعریف پر بھی اعتراض ہے، کئی صحابہ کرامؓ کا نام لے کر اُن کی کردار کشی کرتے ہیں، انہیں قاتل، ظالم اور غاصب کہتے ہیں، بالخصوص حضرت معاویہ، حضرت عمرو بن العاص اور حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہم  کو زیادہ طعن وتشنیع کا نشانہ بناتے ہیں۔ 
پہلے پہل دارالعلوم ندوۃ العلماء کے اکابر نے انہیں محبت اور دلائل سے سمجھایا، مگر موصوف کے ہاں صحابہؓ کی قدرو منزلت نہیں تھی، تو اکابر کی کہاں مان سکتے تھے، چنانچہ ندوۃ العلماء کے اکابر نے حضرت (مولانا محمد رابع حسنی ندویؒ کی سربراہی میں) موصوف کو دارالعلوم ندوۃ العلماءسے فارغ اوربے دخل کردیا۔
بہرحال دارالعلوم دیوبند سمیت ہندوستان کے کئی علماء نے مولانا سلمان حسنی ندوی کی تلبیسات کا تعاقب کیا ہے، دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو کے استاذِ حدیث حضرت مولانا عتیق احمد قاسمی بستوی صاحب نے مولانا سلمان ندوی کے رد میں ۸۰ صفحات پر مشتمل ایک کتابچہ لکھا، جس میں انہوں نے دلائل کی روشنی میں لفظِ صحابیؓ کی تعریف وتشریح اور صحابہ کرامؓ کے مقام ومرتبہ کو بیان کیا ، اس کتابچہ کا جواب مولانا سلمان ندوی نے ’’ازالہ کا ازالہ‘‘ کے عنوان سے دیا۔ اس رسالہ میں صحابہ کرامؓ سے متعلق روافض کے پرانے اعتراضات اور اشکالات سے استفادہ کرتے ہوئے ۳۴؍ سوالات واعتراضات لکھے۔ مولانا سلمان ندوی کی تحریر کا اندازہ لگانے کے لیے حضرت مولانا عتیق احمد قاسمی بستوی صاحب کی چندسطور ملاحظہ فرمائیں، وہ مولانا سلمان ندوی کو مخاطب کرکے لکھتے ہیں:
’’آپ کا یہ پیرا گراف پڑھ کر میں صدمہ میں ڈوب گیا، اگر رسالہ کے اوپر آپ کا نامِ نامی نہ ہوتا تو میں یہ سمجھتا کہ کسی رافضی کی تحریر ہے جو صحابہؓ کے مقام ومرتبہ کو گھٹانے پر تُلا ہوا ہے، اگر آپ کے دل میں صحابۂ رسول کے بارے میں جذباتِ احترام ہوتے تو آپ یہ ہرگز نہ لکھتے۔‘‘                                                      (عظمتِ صحابہؓ، ص:۳۵)
بہرحال زیرِتبصرہ کتاب مولانا سلمان ندوی کے اسی رسالے ’’ازالہ کا ازالہ‘‘ کا مدلل اور تفصیلی جواب ہے۔ مولانا حافظ محمد اقبال رنگونی صاحب نے رسالہ میں مذکور اشکالات و اعتراضات کا مدلل اور محقق جواب دیا ہے۔ کتاب کا انداز اور اُسلوب مُناظرانہ ہونے کے بجائے داعیانہ اور محققانہ ہے۔ مولانا سلمان ندوی کی تمام عبارات و اعتراضات کو لکھ کر ان کا تفصیلی جواب دیا گیاہے، اہلِ سنت کے موقف کی دلائل کے ساتھ وضاحت کی گئی ہے۔ صحابہ کرامؓ کی گستاخی کے روگ میں مبتلا حضرات کے لیے اس میں کافی وشافی دلائل ہیں اگر وہ حق کو قبول کرنا چاہیں ۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کو اہلِ زیغ وضلال کی ہدایت کا ذریعہ بنائے، انہیں توبہ کی توفیق عطا فرمائے، اگر ان کی قسمت میں ہدایت نہیں تو اللہ تعالیٰ اُن کے شر اور اُن کے وجود سے اُمتِ مسلمہ کی حفاظت فرمائے، اور اس کتاب کو مؤلف و ناشرین اور معاونین کے لیے ذخیرۂ آخرت بنائے، آمین
کتاب کا ٹائٹل دیدہ زیب، کمپوزنگ اور سیٹنگ بہتر، کاغذ متوسط اور جلدبندی مضبوط ہے۔ 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین