زمانے کے اطوار جس طرح ایک جیسے نہیں رہتے، اسی طرح انسان بھی ایک جیسے نہیں رہتے۔ہر صدی میں لوگوں کے مزاج، افکار اور رہن سہن کے طریقے بدلتے رہتے ہیں ۔ بعض اوقات نیک بندوں کی جگہ عاصی وخطاکار لے لیتے ہیں اور بعض اوقات تو گناہ گاروں کی جگہ مقربینِ الٰہی جلوہ افروز ہوجاتے ہیں ۔ ہر دور میں اللہ تعالیٰ اپنے کچھ بندوں کو وہبی صلاحیتیں عطا کرتے ہیں ، ایسی صلاحیتیں جو زندگی کے ان دوراستوں کو قبل از وقت نمایاں کردیتی ہیں ، جن سے ہماری مابعد الموت کی زندگی کا پتا چلتاہے، اب صاحبِ صلاحیت کے لیے انتخاب ہوتا ہے کہ یا تو وہ ہدایت کا راستہ چن کر فوز وفلاح سے سرفراز ہوجائے اور یا گمراہی کے دلدل میں پھنس کر ناکامی ونامرادی کا قلادہ پہن لے۔ اس زمانے میں کچھ لوگ صراطِ مستقیم کی راہ پکڑے ہوئے ہیں تو کچھ اپنی گمراہی کے ساتھ اُمتِ مسلمہ کو بھی ضلالت کے گڑھے میں دھکیلنے کی کوشش کررہے ہیں ۔
کوئی بھی فتنہ جب پروان چڑھتاہے تو اس کے پیچھے کئی سارے راز پنہاں ہوتے ہیں ۔ اس زمانے کے فتنہ پرور اور شرپسند لوگ متجدّدین کہلاتے ہیں ، جن کو اس زمانے کےمعتزلہ کہا جاسکتاہے۔ یہ لوگ ایسا فتنہ برپا کیے ہوئے ہیں جو احکاماتِ الٰہی اور معجزاتِ نبویہ علیٰ صاحبہا الصلوات والتسلیمات کو عقل کے ذریعے تسلیم کرنے اور ماوراء العقل کو پس پشت ڈالنے کی تعلیم دیتے ہیں ۔ اس سے بڑھ کر فتنہ برپا اس وقت ہوتا ہے جب عوام بے لگام اس سامری فتنے کو بنی اسرائیل کی طرح پروان چڑھاتے ہیں ۔
دراصل یہ فتنہ مغربی ممالک کی پیداوار ہے، جن کے ہاں یہ باور ہوہی چکا ہے کہ دینِ اسلام ایسا مقبول دین ہے جو انسان کی فطرت میں داخل ہے اور پوری دنیا میں بڑی سرعت سے پھیل سکتا ہے، چنانچہ اسلام دشمن اس کو دبانے کی کوشش میں لگ گئے، اسی سلسلے میں مسڑفرناؤ اپنی کتاب میں لکھتاہے کہ: ’’مسلم آبادی مشرق ومغرب کے وسط میں ہے جس وجہ سے ان کو حربی وجنگی استقامت حاصل ہے اور جو چیز ان میں کثیر الوقوع ہوگی وہ مشرق ومغرب تک پھیلے گی۔‘‘ چنانچہ کہا گیا کہ دینِ اسلام کی اَساس قرآن وسنت کومشکوک بناکر ان میں تفرقہ ڈال دیا جائے، تاکہ یہ لوگ اپنی حدود تک محصور ہو کے رہ جائیں ، اس سلسلے میں انہوں نے مختلف وار کیے۔
1- جس طریقے سے دین اسلام پھیلا تھا، اسی طریقے کو ملحوظِ خاطر رکھ کر مرزا غلام احمد قادیانی کو بطور نبی پیش کیاگیا، جس نے اسلام کے ہر حکم کو تبدیل کرنے کی کوشش کی، دین کی سربلندی کے لیے جہاد کو امن کے نام پر ختم کرنے کا حکم دیا، تاکہ اسلام کی مزید اشاعت نہ ہو اور فرائض وواجبات میں اختیار کا نظریہ دیا، تاکہ دین اسلام برائے نام رہ جائے۔
2-مسلم ممالک میں حرام چیزوں سے بنائی گئی مصنوعات پھیلائیں ، تاکہ انہیں رزق میں بے برکتی کے باعث معاشی اعتبار سے کمزور کرسکیں ۔
3- مغرب نے سائنسی اصولوں کی بنیاد پر جس ’’نئی تہذیب‘‘ کی شجرکاری کی، وہ مذہب کے احکامات اور حدود کے بالکلیہ متضاد ہے، جسے آزادی اور روشن خیالی کانام دیا جاتا ہے کہ آپ کسی کے حکم کے بھی ماتحت نہ ہوں ، یہی نئی تہذیب پوری دنیا میں پھیلائی گئی، مسلم ممالک میں اسی نظام کے تحت ان کے سرکاری نظام میں مداخلت کرکے ایسا نظامِ تعلیم ترتیب دیا جس سے متجددین کی ایک کھیپ وجود میں آئی جو قرآن وسنت سے زیادہ سائنسی علوم سے ماخوذ عقلی اصولوں پر بنائی گئی نئی تہذیب کے دلدادہ اور انگریزی تعلیم کے پروردہ تھے۔ اپنے اعتزال کے زہر کو اُمتِ مسلمہ میں پھیلاتے رہے اور ایسی باریک بینی دکھائی کہ اہلِ علم کا ایک کنبہ بنسبت جاہل کے قرآن وسنت چھوڑ کر عقل کے پہیے کے گرد گھومنے پر آمادہ ہوگیا۔
4- اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے نصاب کو ایسے طرز وطریقے سے ترتیب دیا جس سے دین اسلام کی پابندیاں عام ہوئیں اور تقلید کرنے والوں کو احکاماتِ الٰہی میں ذاتی اختیار رکھنے کی تعلیم ہوئی۔
ان سب کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ عقل ہی ان کے لیے مشعلِ راہ اور قابلِ تقلید بن گئی اور قرآن وحدیث اور معجزاتِ نبویہ علیٰ صاحبہا الصلوات والتسلیمات پر عمل اور اقرار ثانوی درجے کی چیزیں قرار پائیں ، گویا عقل کو اصل کا درجہ دے کر قرآن وسنت کو بے اصل کہہ دیا گیا، العیاذ باللہ!
اب لوگوں کا حال یہ ہے کہ قرآن وسنت کے احکام اور معجزاتِ نبویہ علیٰ صاحبہا الصلوات والتسلیمات میں جو بھی ماوراء العقل بات سامنے آتی ہے تو کھلم کھلا انکار کرتے ہیں کہ ان کو ہماری عقل قبول نہیں کرتی۔ اسی طرح بعث بعد الموت، احوالِ میدانِ حشر اور دوزخ وجنت کو محض خیالی تصور قرار دیتے ہیں ۔ الأمان والحفیظ
چونکہ دینِ اسلام کی اَساس قرآن وسنت میں ہے، اسی تناظر میں انہوں نے قرآن وسنت پر متعدد وار کیے:
1-قرآن میں تحریف کرنا: متجددین جب قرآن میں لفظی تحریف کرنے سے عاجز ہوئے تو معنوی تحریف میں لگ گئے اور بغیر کسی دلیل اور قرینے کے قرآن کے ظاہری اور حقیقی معنی کو چھوڑ کر غیر ظاہر معنی (جو ان کی عقل تسلیم کرتی ہے) مراد لینے لگے۔
2- قرآن کی متشابہات کے پیچھے پڑنا: اہلِ سنت والجماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن کریم کی متشابہات کا علم سوائے اللہ کے کسی کے علم میں نہیں اور ان متشابہات سے جو بھی اللہ کی مراد ہے، ہمیں محض اس کے حق اور سچ ہونے کا اعتقاد رکھنے کا کہا گیا ہے اور جو شخص ان کے پیچھے پڑے گا، نہ تو اس کو خالص توحید حاصل ہوگی اور نہ ہی صحیح اور کامل ایمان، وہ شخص کفر اور ایمان کے درمیان متذبذب ہوجائے گا۔ متجددین کا حال اس سے مختلف نہیں ۔ اپنے باطل نظریہ کی دلیل پیش کرتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک چیز نازل ہوئی اور اس کی مراد اور مطلب کا کسی کو علم نہیں ، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمادیا ہے: ’’وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗ اِلَّا اللہُ‘‘ کہ میرے علاوہ ان تاویلات اور متشابہات کا علم کسی کو نہیں ۔
3- اسلام کی ریسرچ کا فتنہ: آج کل کے متجددین اسلام کے شرعی احکام کی ریسرچ کرنا چاہتے ہیں ، تاکہ ان میں حد درجے شکوک وشبہات پیدا کرسکیں اور ان مسائل واحکام میں ایسی اختراعات داخل کردیں جو قرآن وحدیث میں بیان تک نہیں اور نہ ہی کسی صورت میں قرآن وحدیث ان اختراعات پر دلالت کرتے ہیں ۔
4-توہینِ قرآن: تمام غیر مسلم ممالک اسلام کی بنیاد کو منہدم کرنے اور اس کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے میں شانہ بشانہ کھڑے ہیں ۔ آئے روز دینِ اسلام کی مقدسات کی بے حرمتی کرکے مسلمانوں کے ایمان کا احتساب کیا جاتا ہے اور جرأت اتنی کہ حکومتی سطح پر ہرزہ سرائی کی جاتی ہے۔ کبھی حرمتِ رسول جیسی نازیبا حرکت کی جاتی ہے تو کبھی شانِ صحابہ s میں گستاخی کا ارتکاب کیا جاتاہے اور جرأت اتنی کہ حکومتی سطح پر ہرزہ سرائی کی جاتی ہے، جب مغربی ممالک متجددین کے پس پردہ قرآنی احکام کی مخالفت اور انکار کرکے دینِ اسلام کمزور نہ کرپائے تو نعوذباللہ! وہ قرآن کریم کی توہین پر اُتر آئے اور اعلانیہ قرآن کریم کو نذر آتش کرنے لگے۔ جب عقل سے کچھ بن نہیں پاتا تو یہی بے ایمان خلافِ عقل کام کرنے لگ جاتے ہیں ، یہ لوگ اللہ کی پکڑسے دور نہیں ، ضرور نشان عبرت بنیں گے۔
جیساکہ معلوم ہوچکا کہ فتنۂ تجدُّد پسندی مغرب کی شجرکاری کا عملی نمونہ ہے اور یہ فتنہ سائنسی علوم سےبنائی گئی مغرب کی نئی تہذیب سے پروان چڑھا، چنانچہ سانحہ یہ ہے کہ ہمارے بعض علماء نے ایسی تصانیف فرمائی ہیں ، جن میں قرآن کریم کی روشنی میں سائنسی علوم کو ثابت کیا گیا ہے جوکہ قرآن میں شک پیدا کرنے والی بات ہے۔
حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مضامین میں یہ واقعہ ذکر فرمایا ہے کہ ایک مرتبہ وہ مصر گئے تو وہاں کے بڑے عالم اور محقق سے ملاقات ہوئی، انہوں نے شیخ بنوری رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا کہ آپ نے میری تصنیف کا مطالعہ کیا؟ انہوں نے سائنسی اصول وقواعد کو قرآن سے ثابت کیا تھا، تو شیخ بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے جواب میں فرمایا: جی! تصنیف کا مطالعہ تو ہوا، لیکن ا س طرح کی تصنیف فرماکر آپ نے قرآن میں شک پیدا کردیا جو آج نہیں تو کل ضرور ہوگا، اس لیے کہ سائنس کے اصول وضوابط ہمیشہ یکساں نہیں رہتے، ترقی کے ساتھ ان میں ردوبدل ہوجاتی ہے، آج آپ نے جن قواعد کو قرآن سے ثابت کیا، کل وہ قواعد کچھ اور ہوں گے اور آپ کا ثابت کیا ہوا کچھ اور ہوگا۔
مغرب نے جس شجر خبیث کو بویا اور جس نئی تہذیب سے فتنۂ تجدُّد پسندی نے سر اُٹھایا، اب اس شجر خبیث کی جڑیں کاٹنے کی ضرورت ہے، تاکہ مغرب سے پھیلائی گئی شاخیں مرجھا کر نیست ونابود ہوجائیں ، اس لیے کہ مغربی تہذیب لامذہب ہونے کے مترادف ہے، جس میں نہ حق تعالیٰ کی توحید کا اعتقاد ہے اور نہ ہی اس کے احکام کی پابندی اور نہ ہی اس کے برگزیدہ بندے انبیاء ورسل( علیہم السلام ) کے وجود کا اقرار ہے، جو شخص بیک وقت (مذہبِ اسلام اور مغربی تہذیب) دونوں کشتیوں پر سوار ہونا چاہے گا، وہ مغربی تہذیب کا دلدادہ ہوجائے گا، حالانکہ مسلمان ہونے کے بعد شرعی حدود کی پاسداری ہی ایمان کی پہچان ہے۔