الحمد للہ و سلامٌ علٰی عبادہ الذین اصطفٰی
عالمی مجلس تحفظِ ختمِ نبوت کے زیرِ اہتمام ۴؍ صفرالمظفر ۱۴۴۴ھ مطابق یکم ستمبر ۲۰۲۲ء بروز جمعرات مزارِ قائد کے ملحقہ باغِ جناح میں عظیم الشان، فقیدالمثال تحفظِ ختمِ نبوت کانفرنس منعقد کی گئی۔ کانفرنس کا انعقاد ۷؍ ستمبر ۱۹۷۴ء (جس دن قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا) کی مناسبت سے تھا، جس میں ہزاروں کی تعداد میں قافلے جوق در جوق شریک ہوئے، جس کی بنا پر باغِ جناح کی وسعتیں اپنی تنگ دامنی کا شکوہ کررہی تھیں۔ شرکائے کانفرنس جتنا اجتماع گاہ میں تھے، اس سے کہیں زیادہ باہر روڈوں پر موجود تھے۔ دیکھنے والے بتاتے ہیں کہ اطراف کی تمام گلیاں اور سڑکیں بھری ہوئی تھیں۔ کانفرنس عصر کی نماز کے بعد شروع ہوکر رات کے دو بجے اختتام پذیر ہوئی۔ کانفرنس میں تمام مکاتبِ فکر کے علماء کرام سمیت سیاسی راہنمائوں اور وکلاء نے خطاب کیا۔
کانفرنس میں عالمی مجلس تحفظِ ختمِ نبوت کے مرکزی امیر حضرت حافظ محمد ناصرالدین خاکوانی، نائب مرکزی امیر ورئیسِ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹائون حضرت مولانا سیّد سلیمان یوسف بنوری الحسینی مدظلہ، حضرت مولانا صاحبزادہ عزیز احمد، خانقاہ سراجیہ کندیاں شریف کے سجادہ نشین حضرت مولانا صاحبزادہ خلیل احمد، حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی، جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹائون کے نائب رئیس حضرت مولانا سید احمد یوسف بنوری الحسینی، کراچی شہر کی معروف و مشہور روحانی شخصیت حضرت مولانا شمس الرحمٰن عباسی، مجلس تحفظِ ختمِ نبوت کے مرکزی راہنما حضرت مولانا اللہ وسایا، حضرت مولانا مفتی محمد حسن، حضرت مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی، حضرت مولانا قاضی احسان احمد، جمعیت علماء اسلام صوبہ خیبرپختونخوا کے امیر سینیٹر حضرت مولانا عطاء الرحمٰن، جمعیت علماء اسلام صوبہ سندھ کے ناظم عمومی حضرت مولانا راشد محمود سومرو، مولانا عبدالکریم عابد، مولانا محمد غیاث، مولانا قاری محمد عثمان، پیپلز پارٹی کراچی کے صدر و سابق صوبائی وزیر جناب سعید غنی، ایم کیو ایم کے دیرینہ راہنما و سابق میئر کراچی جناب ڈاکٹر فاروق ستار، پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین و سابق ناظم کراچی جناب مصطفیٰ کمال، جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر جناب معراج الہدیٰ صدیقی، وکلاء برادری کے نمائندہ و عالمی مجلس تحفظِ ختمِ نبوت کے قانونی مشیر جناب منظور احمد میو راجپوت ایڈووکیٹ، جماعت علمائے اہل حدیث کے امیر جناب مولانا ڈاکٹر ضیاء اللہ شاہ بخاری اور جمعیت علماء پاکستان (نورانی گروپ) کے صوبائی صدر مولانا قاضی احمد نورانی وغیرہ نے خطاب کیا۔ راقم الحروف نے اس موقع پر عالمی مجلس تحفظِ ختمِ نبوت کا تعارف، اس کے کارہائے نمایاں اور اس کانفرنس کی غرض و غایت پر مشتمل خطبۂ استقبالیہ پڑھا، جس کے چند اقتباسات درج ذیل ہیں:
’’آج کی اس عظیم الشان فقیدالمثال تحفظِ ختمِ نبوت کانفرنس کو رونق بخشنے والے تمام علمائے کرام و مشائخِ عظام ، قائدین ، سیاسی رہنمائوں اور کانفرنس میں شرکت کرنے والے تمام عاشقانِ رسول اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ آپ نے اپنی تمام تر مصروفیات کو ایک طرف رکھتے ہوئے اس کانفرنس میں شرکت کرکے اس کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ آج یہاں جمع ہونے والے فدایانِ ختمِ نبوت میں ہر نسل، ہر قوم، ہر مسلک، ہر جماعت، ہر زبان بولنے والے لوگ شامل ہیں اور اپنی مسلکی، قومی، لسانی اور سیاسی شناخت اور پہچان مٹاکر صرف اور صرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی ہونے کی حیثیت سے یہاں جمع ہیں، کیوں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا رشتہ وہ مضبوط رشتہ ہے جس کے سامنے ہر تفریق، ہر فرق اور ہر امتیاز مٹ جاتا ہے، اس لیے کہ عقیدۂ ختمِ نبوت کا تحفظ کسی ایک فرد، ایک جماعت، ایک تنظیم کا کام نہیں، بلکہ پوری اُمتِ مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس عقیدہ کی حفاظت کرے۔
چوں کہ اس عقیدے کا تحفظ دین کی اساس اور بنیا دہے۔ عقیدۂ ختمِ نبوت محفوظ ہے تو ہم سب کا دین محفوظ ہے۔ عقیدۂ ختمِ نبوت محفوظ ہے تو قرآن محفوظ ہے، عقیدئہ ختمِ نبوت ہے تو دین کی تعلیمات محفوظ ہیں۔ اگر یہ عقیدہ باقی نہیں رہتا تو پھر نہ دین باقی رہے گا، نہ اس کی تعلیمات اور نہ قرآن باقی رہے گا۔ اس عقیدے پر پورے دین کی عمارت قائم ہے، اسی میں اُمت کی وحدت کا راز مضمر ہے، یہی وجہ ہے کہ جب کبھی کسی نے اس عقیدے میں نقب لگانے کی کوشش کی یا اس مسئلے سے اختلاف کرنے کی کوشش کی، اسے اُمتِ مسلمہ نے سرطان کی طرح اپنے جسم سے علیحدہ کردیا، اس لیے ختمِ نبوت کا تحفظ یا بہ الفاظِ دیگر منکرینِ ختمِ نبوت کا استیصال دین ہی کا ایک حصہ ہے ، مسلمانوں نے ہمیشہ اسے اپنا مذہبی فریضہ سمجھا ہے اور ہر دور میں اپنا یہ فریضہ احسن طریقے سے انجام دیا اور اس فریضے کی ادائیگی میں کبھی کسی کوتاہی اور غفلت کا ارتکاب نہیں کیا۔ ہندوستان میں جب قادیانی فتنہ نے سر اٹھایا تو امتِ مسلمہ اور علمائے اُمت اس فتنہ کا سر کچلنے کے لیے میدانِ عمل میں اُترے۔ اس فتنے کے مقابلے میں تمام مکاتبِ فکر کے جید علماء کرام اور مشائخِ عظام صف آرا ہوئے، خصوصاً حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری v اس فتنہ کے مقابلہ میں ہمیں سب سے آگے نظر آئے۔
جدید تعلیم یافتہ طبقہ تک اپنی آواز پہنچانے کے لیے حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے مولانا ظفر علی خانؒ اور علامہ اقبالؒ کو تیار و آمادہ کیا۔ حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کام کو باقاعدہ منظم کرنے کے لیے خطیب الامت حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو امیرِ شریعت مقرر کرکے باقاعدہ مجلسِ احرار کو اس کام کی طرف متوجہ کیا اور تحفظِ ختمِ نبوت اور ردّ ِقادیانیت کا محاذ ان کے سپرد کیا۔ انہوں نے باقاعدہ اس کے لیے مستقل شعبۂ تبلیغ قائم کیا اور اس کے تحت فتنۂ قادیانیت کے مقابلے کے لیے اپنی تمام تر کوششیں اور صلاحیتیں صرف کردیں ۔ ان کے سرفروشوں نے قادیانیت کا پوسٹ مارٹم کیا اور پورے ملک میں اپنے جوشِ خطابت سے مرزائیت کے لیے نفرت کا ماحول پیدا کردیااور ان سرفروشوں نے اپنے شعلۂ خطابت سے قادیانی نبوت کے خرمن کو پھونک ڈالا۔
پاکستان بن جانے کے بعد مرزا محمود اپنی ذریت کے ساتھ پاکستان آیا اور یہاں اپنا اثرو رسوخ استعمال کرکے قادیانیت کو فروغ دینے کی کوششیں شروع کردی۔ فوج میں ان کا گہرا اثر و رسوخ تھا، کلیدی مناصب پر انہوں نے قبضہ جمالیا۔ پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ ظفر اللہ قادیانی قرار پایا، اس طرح قادیانیت نے پاکستان میں اپنی جڑیں مضبوط کرنا شروع کیں۔ ان حالات میں قادیانیت کے خلاف کام کرنے کے لیے امیر شریعتؒ نے ملکی سیاسیات سے دست کش ہونے کا اعلان کردیا اور جنوری ۱۹۴۹ء سے صرف اور صرف عقیدئہ ختمِ نبوت کے تحفظ کے لیے کام کرنے کا اعلان فرمایا۔ غورو فکر کے بعد ۱۹۴۹ء کے فیصلے کو آگے بڑھانے کے لیے ’’مجلس تحفظِ ختمِ نبوت‘‘ کے نام سے ایک غیر سیاسی تبلیغی تنظیم کی بنیاد رکھی گئی، جس کے پہلے امیر حضرت مولانا سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ بنائے گئے۔
مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت کے دستور میں وضاحت کردی گئی کہ یہ جماعت غیر سیاسی اور خالص تبلیغی جماعت ہوگی اور اس کے ذمہ داران سیاسی معرکوں میں حصہ نہیں لیں گے، تاکہ تمام مسلمان خواہ وہ کسی جماعت یا طبقہ سے تعلق رکھتے ہوں، وہ اس کا م کا حصہ اور اس کے معاون بنیں اور اربابِ اقتدار ، حکومتوں اور کسی سیاسی جماعت سے جماعت کا تصادم نہ ہو اور جماعت اپنی پوری توجہ اپنے تبلیغی کام پر مرکوز رکھے۔ اسی لیے جماعت نے اپنا مخصوص تبلیغی نظام قائم کیا اور مبلغین کا ایک مربوط و منظم سلسلہ شروع کیا جو ہر شہر، ہر قریہ، ہر بستی میں ختمِ نبوت کے تحفظ اور ردِ قایانیت کے لیے لوگوں کی ذہن سازی میں مصروف رہا۔ آج بھی یہ سلسلہ قائم ہے اور پچاس کے قریب مبلغین جماعت کے تحت کام کررہے ہیں، جہاں ضرورت پڑے ایک اطلاع دینے پر یہ مبلغین وہاں پہنچ جاتے ہیں۔
جماعت نے علماء ، طلباء اور دیگر تعلیم یافتہ افراد کو اس موضوع پر تیار کرنے کے لیے ہر شہر میں مختلف تربیتی کورس کرائے۔ چناب نگر میں ہر سال باقاعدہ مستقل تربیتی کورس منعقد ہوتا ہے ،جبکہ تخصصِ تحفظِ ختمِ نبوت کا شعبہ اس کے علاوہ مستقل قائم ہے ،جس میں اس موضوع پر افراد کو تیار کیا جاتا ہے۔اس کے لیے جماعت نے جہاں مختصر اور طویل دورانیے کے تربیتی کورسوں کا اہتمام کیا، سیمینار ، علمی مذاکرے ، تقریری اور معلوماتی انعامی مقابلے کروائے، وہاں جلسوں اور کانفرنسوں کا بھی اہتمام کیا۔ چنانچہ سال بھر جماعت کے ماتحت بلاشبہ پورے ملک میں علاقائی وضلعی سطحوں پر سینکڑوں چھوٹے بڑے پروگرام ہوتے رہتے ہیں۔ اسی مبارک سلسلہ کی ایک کڑی یکم ستمبر ۲۰۲۲ء کی یہ عظیم الشان کانفرنس ہے۔ اہلِ کراچی نے اپنے روایتی جوش و خروش کے ساتھ والہانہ انداز میں اس کانفرنس میں شرکت کرکے اور اسے بھر پور انداز میں کامیاب بناکر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی محبت و عقیدت کا ثبوت دیا اور اِن شاء اللہ! کل روزِ محشر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے حقدار بنیں گے۔ اہلِ کراچی نے صرف اس کانفرنس کی کامیابی ہی میں کردار ادا نہیں کیا، بلکہ اہلیانِ کراچی نے ہمیشہ ہر کارِ خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے، خواہ وہ دینی مدارس کے ساتھ تعاون ہو یا دینی تنظیموں اور دینی تحریکات کا معاملہ ہو، اپنے مسلمان بھائیوں کی امداد اور ان کی خبر گیری ہو، خصوصاً جب کوئی اجتماعی آفت اور مصیبت کا وہ شکار ہوئے ہوں تو اہلِ کراچی نے اپنے دل کے دروازے بھی وا کیے اور اپنے خزانوں اور تجوریوں کے منہ بھی کھول دئیے۔
عقیدۂ ختمِ نبوت کے تحفظ کے لیے اہلِ کراچی کا جوشِ ایمانی اور جذبۂ دینی قابلِ دید ہے کہ اس کام کے لیے ہمیشہ وہ پیش پیش رہے۔ قادیانیوں کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے ملتان کے بعد پہلا مرکز کراچی میں قائم کیا گیا اور اس کے نظم کے لیے حضرت مولانا لال حسین اختر رحمۃ اللہ علیہ کو کراچی بھیجا گیا، جس کا دفتر پہلے ریڈیو پاکستان کے قریب تھا اور اس کے بعد حضرت مولانا مفتی احمد الرحمٰن قدس سرہٗ کی کوششوں سے یہ موجودہ خوبصورت دفتر ایم اے جناح روڈ نزد مزارِ قائد تعمیر کیا گیا۔ ۱۹۷۴ء کی تحریک میں بھی اسلامیانِ کراچی کا بھر پور کردار فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ یہ تحریک تو محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری الحسینی نور اللہ مرقدہٗ کی قیادت میں چلی تھی اور حضرت بنوریؒ کا تعلق کراچی سے تھا، اسی طرح علامہ شاہ احمد نورانیؒ اور پروفیسر غفور احمدؒ کا تعلق بھی کراچی سے تھا، جنہوں نے حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی قیادت میں قومی اسمبلی میں کلیدی کردار ادا کیا، گویا کہ پورے ملک میں تحریک کی قیادت کراچی نے کی۔
حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری الحسینی رحمۃ اللہ علیہ کے بعد امامِ اہلِ سنت حضرت مفتی احمد الرحمٰن رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے بعد حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمۃ اللہ علیہ کی نائب امیر کی حیثیت سے عقیدۂ ختمِ نبوت کے تحفظ کے لیے محنتیں، مساعیِ جمیلہ اور کوششیں آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ شہیدِ اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ اجل اور جانشین حضرت مولانا سعید احمد جلالپوری شہید رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنے شیخ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عقیدۂ ختمِ نبوت کے تحفظ کو اپنی زندگی کا مشن بنالیا اور اپنی تحریر و تقریر کے ذریعہ سے اس کی حفاظت کی۔ فتاویٰ ختمِ نبوت کو جمع کیا جو تین جلدوں میں شائع ہوئے، اس موضوع پر متعدد رسائل آپ کے قلم سے نکلے۔ حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمۃ اللہ علیہ ہی کی تربیت یافتہ دو عظیم ہستیاں مفتی محمدجمیل خان شہید رحمۃ اللہ علیہ اور مفتی نظام الدین شامزی شہید رحمۃ اللہ علیہ کی بھی ختمِ نبوت کے لیے عظیم الشان اور ناقابلِ فراموش خدمات ہیں۔ حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر نور اللہ مرقدہٗ کے دورِ امارت (فروری ۲۰۱۵ء تا جون ۲۰۲۱ء) میں مجلس تحفظِ ختمِ نبوت نے نمایاں کارنامے انجام دئیے۔ مذکورہ بالا تمام حضرات کا تعلق کراچی سے تھا اور موجودہ نائب امیر حضرت مولانا سید سلیمان یوسف بنوری الحسینی مدظلہٗ بھی کراچی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس طرح اسلامیانِ کراچی نے ہر دور میں تحفظِ ختمِ نبوت کا فریضہ احسن انداز میں انجام دیا۔
اس اجتماع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم علماء کرام و مشائخِ عظام اور دیگر رہنمایانِ قوم کی خدمت میں دست بستہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ۱۹۷۴ء اور ۱۹۸۴ء کی تحریک کے بعد شاید ہم مطمئن ہوکر بیٹھ گئے ہیں کہ مسئلہ حل ہوگیا اور اب اس کے لیے مزید محنت کی ضرورت نہیں، لیکن حالات اس کے برعکس ہیں ، آج کا نوجوان اور آئندہ پروان چڑھنے والی نسلیں اس فتنے سے آگاہ ہی نہیں ہیں، جبکہ قادیانیوں نے اپنا طریقۂ کار بھی تبدیل کرلیا ہے ، وہ اپنے حقوق کا رونا روکر گمراہی پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں، اس سلسلے میں انہوں نے عالمی اداروں کا سہارا لیا ہوا ہے، لہٰذا موجودہ دور کی صورت حال کو سامنے رکھ کر نئے سرے سے اپنی ترجیحات قائم کرنے اور مسلسل اُمتِ مسلمہ کو اس فتنہ سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں مرکزی کردار علماء کرام، مشائخ عظام اور مسلم راہنمایان ہی ادا کرسکتے ہیں۔ اس اجتماع کی وساطت سے ہم قادیانیوں سے کہنا چاہتے ہیں کہ ایک نئی نبوت کے ماننے کے بعد تم نے اپنا راستہ خود مسلمانوں سے علیحدہ کرلیا ہے، اگر تم اس نئی نبوت کے ماننے پر بضد ہو تو اپنے آپ کو مسلمانوں سے علیحدہ قوم اور اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت تسلیم کرلو، مسلمانوں میں گھسنے کی ناکام کوشش مت کرو۔ اور اگر اپنے آپ کو مسلمانوں میں شمار کرنا چاہتے ہو تو راستہ کھلا ہے۔ مرزا غلام احمد کی نبوت کا انکار کرکے خاتم الانبیاء حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے وابستہ ہوجائو، بلکہ ہم انتہائی دلسوزی اور اخلاص کے ساتھ تمام قادیانیوں کو دعوت دیتے ہیں کہ تم ایک طویل عرصہ سے دجل و تلبیس کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہو ، غلط تاویلات کرکے تم خود تذبذب کا شکار ہو، آئو ! سچے دل سے اسلام کے دامنِ عافیت اور ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی چادرِ رحمت کے سایہ میں آکر سکون حاصل کرو، مسلمان تمہیں سینے سے لگانے کے لیے تیار ہیں۔ ہم عوام سے کہنا چاہتے ہیں کہ آپ نے آج تک عقیدۂ ختمِ نبوت کا تحفظ کیا ہے اور قادیانیوں سے متعلق آئینی دفعات پر پہرا دیا ہے، بس ہمیشہ بیدار رہیں اور اسی طرح چوکنا ہوکر ختمِ نبوت کی پاسبانی اور چوکیداری کا فریضہ انجام دیتے رہیں، تاکہ کوئی قزاق ختمِ نبوت کے عقیدہ میں نقب زنی کرنے میںکامیاب نہ ہو۔ ایک بار پھر ہم سب کی جماعت عالمی مجلس تحفظِ ختمِ نبوت کی جانب سے آپ تمام حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہوں، خاص طور پر ان تمام رفقاء و کارکنانِ ختمِ نبوت کا جنہوں نے اس کانفرنس کی کامیابی کے لیے دن رات محنت کی۔ اللہ تعالیٰ ان تمام حضرات کو جزائے خیر عطا فرمائے، آمین ! ‘‘
اس کانفرنس میں درج ذیل چند قراردادیں بھی پاس کی گئیں، جنہیں مفتی محمد سلمان یٰسین صاحب استاذ و مفتی جامعہ معہدالخلیل الاسلامی نے پیش کیا:
’’1- آج کا یہ عظیم الشان فقیدالمثال اجتماع قرار دیتا ہے کہ ہم سب کو اپنے ملک سے محبت کے عہد کی تجدید کرنا ہوگی، اس لیے کہ ملک ہے تو ہم سب ہیں، اگر خدانخواستہ ملک غیر مستحکم ہوا یا اسے کچھ ہوگیا تو محفوظ کوئی بھی نہیں رہے گا۔
2-آج کا یہ اجتماع سمجھتا ہے کہ یہ ملک پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے اور اسلام کے نام ہی سے اس کی بقا ہے، لہٰذا قیامِ پاکستان کی منزل نفاذِ اسلام کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے اور اسلام کا نظام نافذ کرنا چاہیے، تبھی یہ ملک امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔
3-خصوصاً عقیدئہ ختمِ نبوت، جس کے تحفظ کرنے کا پاکستان کو سرکاری سطح پر اعزاز حاصل ہے، اس عقیدے کی سلامتی اور اس کے خلاف محرکات مثلاً قادیانی فتنے کے خلاف جدوجہد جاری رہنی چاہیے۔
4- پاکستان اسلامی ملک ہے اور اسلامی ملک کے سرکاری و ریاستی عہدوں اور کلیدی مناصب پر مسلمان ہی فائز ہوسکتے ہیں، لہٰذا قادیانیوں کا داخلہ تمام کلیدی عہدوں پر بند کیا جائے اور جس عہدے پر جو قادیانی فائز ہے، اسے اس سے برطرف کیا جائے۔
5-پچھلے دورِ حکومت میں ایک سکہ بند قادیانی بلال حی -جس کا تعلق سیالکوٹ سے ہے- کو آذربائیجان میں پاکستان کا سفیر بناکر تعینات کیا گیا جو ابھی تک اس عہدے پر براجمان ہے، یہ اجتماع مطالبہ کرتا ہے کہ آذربائیجان میں مقیم قادیانی سفیر کو فوراً واپس بلاکر اس کی جگہ کسی مسلمان اور محبِ وطن پاکستانی کا تقرر کیا جائے۔
6- تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ اپنی ترجیحات اور پالیسیاں اسلام اور پاکستان کو مقدم رکھ کر طے کریں اور قادیانی نواز افراد سے اپنی صف بندی جدا کریں۔ یاد رکھیں کہ ہمارے ملک پاکستان کے مصور و خالق شاعرِ مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال مرحوم نے کہا تھا کہ ’’قادیانی ملک اور ملت کے غدار ہیں۔‘‘
7-اس وقت ملک بھر میں جو سیلابی صورت حال ہے اور آزمائش کی اس گھڑی میں ہمارے ہم وطن مبتلا ہیں، ہمارا فرض بنتا ہے کہ تمام تر مذہبی و مسلکی، قومی و لسانی اور سیاسی و گروہی مفادات سے بالاتر ہوکر ان کی امداد کریں اور اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ و استغفار کا اہتمام کریں۔
8-آج کا مسلمانوں کا یہ عظیم اجتماع مطالبہ کرتا ہے کہ وطن عزیز سے جس طرح قانونی و عدالتی طور پر سود کو حرام اور ممنوع قرار دیا گیا ہے، اسی طرح حکومت پاکستان اسے سرکاری ، انتظامی اور بینکاری سطح پر بھی ممنوع قرار دے ۔
9-آج کے اس اجتماع کے توسط سے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام مسلمان قادیانی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں، کیونکہ قادیانی اپنے مال کا ایک معتدبہ حصہ مسلمانوں کو مرتد بنانے پر صرف کرتے ہیں، لہٰذا عاشقانِ مصطفیٰ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ محبتِ نبوی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا ثبوت دیتے ہوئے منکرینِ ختمِ نبوت کا مکمل معاشی مقاطعہ کریں۔
10-جہاد اسلام کا اہم حکم ہے اور ہماری اسلامی فوج کا شرعی ومنصبی فریضہ ہے، جبکہ قادیانی گروہ جہاد کا منکر ہے، لہٰذا انہیں ہماری اسلامی فوج کے عہدوں پر نہ رکھا جائے ۔
11-قادیانی آئین پاکستان کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں ، حکومت انہیں آئین کا پابند بنائے۔
12-قادیانی شعائرِ اسلام کا استعمال نہیں کر سکتے، ہم حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ قادیانیوں کو امتناعِ قادیانیت آرڈنینس پر عمل در آمد کرنے کا پابند بنایا جائے۔
13-آج کا یہ اجتماع پوری دنیا کے سامنے قادیانیت کے خلاف ایک ریفرنڈم ہے اور اہلِ کراچی نے اپنا فیصلہ سنادیا ہے کہ عالمی اداروں کی تحفظِ عقیدئہ ختمِ نبوت اور تحفظِ ناموسِ رسالت کے قانون کے خلاف کوئی سازش کامیاب نہیں ہونے دی جائے گی۔
14-آخر میں ہم قادیانیوں کو بھی یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ آج بھی اگر مرزا غلام احمد قادیانی ملعون کی جھوٹی نبوت کا طوق اُتار کر دامنِ محمدی سے وابستہ ہوجائیں تو ہم انہیں اپنے بھائیوں کی طرح سینے سے لگالنے کو تیار ہیں۔ ہم قادیانیوں کو دعوتِ اسلام دیتے ہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی بدبخت پر تین حرف بھیج کر خاتم النبیین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کے سائے میں آجائیں۔‘‘
اللہ تبارک و تعالیٰ اس کانفرنس کو مسلمانوں کے ایمان کی تقویت کا ذریعہ اور قادیانیوں کی ہدایت کا ذریعہ بنائے اور آخرت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا مستحق بنائے، آمین بجاہ سیّدالأنبیاء والمرسلین۔
وصلی اللہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد و علٰی آلہٖ و صحبہٖ أجمعین