کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس بارے میں کہ :
1- دنیا میں میاں بیوی ایک ہی گھر میں اکٹھے رہتے ہیں تو کیا جنت میں بھی اکٹھے ہی ایک ہی جگہ/ گھر میں رہیں گے؟
2- دنیا میں بیوی اپنے شوہر کے تابعدار رہتے ہوئے زندگی گزارتی ہے، یعنی جو میاں صاحب کہتے ہیں ویسا کرتی ہے تو کیا بیوی جنت میں بھی شوہر کے تابعدار ہوگی؟ یا تابعداری سے آزاد ہوگی اور اپنی زندگی جیسے چاہے گی گزارے گی ؟
3- اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیثِ مبارکہ میں جتنے بھی جنتیوں کے انعامات بتائے ہیں، کیا وہ انعامات مرد اور عورت کے لیے برابر ہوں گے یا مردوں کے لیے زیادہ انعامات ہوں گے اور عورتوں کے لیے کم؟
4-بحیثیت عورت میں جب یہ پڑھتی ہوں کہ شوہر کو جنت میں ستر ستر حوریں ملیں گی تو میرے خیال میں یہ بات آتی ہے اور تنگ کرتی ہے کہ پھر جنت میں بیوی کی اپنے شوہر کے سامنے ان حوروں کے ہوتے ہوئے کیا اہمیت ہوگی؟ یعنی بیوی اور حوریں کیا برابرہوں گی ؟
5- جنت میں عورتوں کو کیا انعامات ملیں گے؟
برائے مہربانی تھوڑی تفصیل لکھ دیں، تا کہ عورت کو بھی سکون حاصل ہو کہ اللہ تعالیٰ نے صرف مردوں کے لیے ہی نہیں، بلکہ عورت کے لیے بھی برابر کی جنت بنائی ہے۔
اصل میں جب بھی علماء کے بیانات سنیں یا علماء کی کتابیں پڑھیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جنت صرف مردوں کے لیے بنائی گئی ہے اور اس میں سارے انعامات بھی صرف مردوں کے لیے ہی ہیں۔ عورت صرف مرد کے سکون کے لیے بنائی گئی ہے، بذاتِ خود عورت کی کوئی حیثیت نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ عورت کوئی اور مخلوق ہے، جبکہ اصل مخلوق تو مرد حضرات ہیں۔ مفتی صاحب! میں جنت کے حوالے سے کتاب ’’جنت کے دلکش مناظر (ادارہ تالیفاتِ اشرافیہ)‘‘ پڑھ چکی ہوں۔
درخواست: مفتی صاحب! میں آپ کی بہن آپ کے تفصیلی جواب کی منتظر ہوں، برائے مہربانی جنت کے بارے میں مزید جاننے کے لیے اچھے علماء کی کتابوں کا نام بتائیے، تا کہ عورتوں کو بھی خوشی محسوس ہو۔
اہلیہ علی رحمٰن (لاہور)
واضح رہے کہ مؤمن کے لیے سب سے اہم چیز اپنی زندگی شریعت کے مطابق گزارنا ہے، اس دنیا کے بعد یہی چیز کام آنی ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جنت کا حصول مرد یا عوت کسی خاص جنس کے ساتھ نہیں رکھا ہے، بلکہ جو کوئی مومن ہوگا اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائیں گے، پھر جب انسان اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے جنت میں داخل ہوجائے تو وہاں اس کا دل ہر قسم کے میل اور بُرے خیالات سے پاک ہوگا، وہاں کسی قسم کے بے ہودہ خیالات نہیں آئیں گے، لہٰذا سائلہ کو چاہیے کہ وہ شریعت پر عمل پیرا ہو کر اللہ تعالیٰ کو راضی کرے، دیگر باتوں میں پڑکر اپنے جذبے کو ماند نہ ہونے دے۔
1-جنت میں اللہ تعالیٰ میاں بیوی کو ایک ساتھ رکھیں گے، بلکہ اگر میاں بیوی میں سے کوئی ایک جنت میں داخل ہوجائے اور دوسرا اپنے اعمال کی وجہ سے پیچھے رہ جائے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے فضل سے جنت میں پہنچائیں گے، اگر دنیا میں دونوں کے درمیان کوئی رنجش ہو بھی تو اللہ تعالیٰ جنت میں ان رنجشوں کو ختم کردیں گے اور اللہ تعالیٰ اس کی بیوی کو تمام حوروں کی سردار بنائیں گے۔
2- جنت میں اللہ تعالیٰ ہر وہ چیز مہیا کریں گے، جسے انسان کا دل چاہے گا، وہاں کسی قسم کی کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی، جنت کی زندگی کو دنیا کی زندگی سے موازنہ اور قیاس کرنا درست نہیں، عورت بھی اپنی من چاہی زندگی چاہے گی، لیکن وہاں دنیا کی زندگی کی طرح کسی قسم کی کوئی بے ہودگی نہیں ہوگی۔
3- قرآن کریم اور سنتِ مطہرہ میں جنتیوں کے لیے جو جو نعمتیں بتلائی گئی ہیں، ان نعمتوں میں مرد و عورت دونوں برابر ہیں۔
4- عورت جنت میں اپنے شوہر کو ملنے والی حوروں سے افضل اور ان کی سردار ہوگی۔
5- نیک عورت اگر شادی شدہ ہے تو جنت میں اپنے جنتی شوہر کے ساتھ رہے گی اور شوہر کو ملنے والی حوروں کی سردار ہوگی، اوراللہ تعالیٰ اس عورت کو ان سب سے حسین وجمیل بنائیں گے اور وہ میاں بیوی آپس میں ٹوٹ کر محبت کرنے والے ہوں گے۔
اور اگر دنیا میں عورت کے متعدد شوہر ہوں، یعنی عورت نے اپنے شوہر کے انتقال یا اس کے طلاق دینے کے بعد دوسری شادی کرلی ہو، یعنی اس عورت نے دو یا اس سے زیادہ شادیاں کی ہوں تو وہ جنت میں اپنے کس شوہر کے ساتھ رہے گی ؟ اس بارے میں مختلف اقوال ہیں :
1-اس عورت کو اختیار دیا جائے گا کہ جس کے ساتھ اس کی زیادہ موافقت ہو اس کو اختیار کرلے۔
2-وہ عورت آخری شوہر کے ساتھ رہے گی۔حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورت کو اس کا آخری شوہر ملے گا۔
3-عورت اس شوہر کے ساتھ رہے گی جس نے دنیا میں اس کے ساتھ اچھے اخلاق کا برتاؤ کیا ہو اور وہ شوہر جس نے عورت پر ظلم کیا ہوگا، اس کو تنگ کیا ہوگا، وہ اس عورت سے محروم رہے گا۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کسی کے دو شوہر ہوں تو وہ جنت میں کس کے ساتھ رہے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے اختیار دیا جائے گا ، پس وہ اس شوہر کو اختیار کرے گی جس نے دنیا میں اس کے ساتھ اچھے اخلاق کا برتاؤ کیا ہو، اور وہی اس کا جنت میں شوہر ہوگا، اے ام سلمہ! اچھے اخلاق والے دنیا اور آخرت کی بھلائی لے گئے۔
4-بعض حضرات نے یوں تطبیق دی ہے کہ اگر سب شوہر حسنِ خلق میں برابر ہوں تو آخری شوہر کو ملے گی، ورنہ اسے اختیار دیا جائے گا۔
اور اگر عورت کنواری ہو، یعنی اس کا شادی سے پہلے ہی انتقال ہوگیا ہو ، یا شادی شدہ تو ہو ،لیکن اس کا شوہر جنتی نہ ہو تو جنت میں جس مرد کو بھی وہ پسند کرے گی، اس کے ساتھ اس کا نکاح ہوجائے گا، اور اگر موجودہ لوگوں میں کسی کو بھی پسند نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک مرد جنت میں پیدا فرمائیں گے جو اس کے ساتھ نکاح کرے گا۔
باقی یہ خواہش کہ ایک عورت بیک وقت کئی مردوں کی بیوی ہو خلافِ فطرت بھی ہی اور جنت میں یہ خواہش پیدا بھی نہیں ہوگی۔ ’’المعجم الأوسط للطبراني‘‘ میں ہے:
’’قال: خطب معاويۃ بن أبي سفيان أم الدرداء بعد وفاۃ أبي الدرداء، فقالت أم الدرداء: إني سمعت أبا الدرداء يقول: سمعت رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم يقول: أيما امرأۃ توفي عنہا زوجہا، فتزوجت بعدہٗ فہي لآخر أزواجہا۔ وما کنت لأختارک علی أبي الدرداء۔‘‘ (المعجم الأوسط للطبراني:۳/۲۷۵، من اسمہ بکر، برقم:۳۱۳۰، ط:دارالحرمین، القاہرۃ)
’’المعجم الکبير للطبراني‘‘ میں ہے:
’’عن أم سلمۃ، قالت: قلت: يا رسول اللہ! أخبرني عن قول اللہ ’’حُوْرٌعِيْنٌ‘‘، قال: ’’حور: بيض، عين: ضخام العيون شقر الجرداء بمنزلۃ جناح النسور ‘‘، قلت: يا رسول اللہ! أخبرني عن قولہ: ’’ کَاَنَّہُمْ لُؤْلُؤٌ مَّکْنُوْنٌ ‘‘ ، قال: ’’صفاؤہم صفاء الدر في الأصداف التي لم تمسہ الأيدي‘‘. قلت: يا رسول اللہ! أخبرني عن قولہ: ’’فِيْہِنَّ خَيْرَاتٌ حِسَانٌ‘‘، قال: ’’خيرات الأخلاق، حسان الوجوہ‘‘. قلت: يا رسول اللہ! أخبرني عن قولہ: ’’ کَاَنَّہُنَّ بَيْضٌ مَّکْنُوْنٌ ‘‘، قال: ’’ رقتہن کرقۃ الجلد الذي رأيت في داخل البيضۃ مما يلي القشر وہو العرفي‘‘ . قلت: يا رسول اللہ! أخبرني عن قولہ: ’’ عُرُباً اَتْرَاباً ‘‘، قال: ’’ہن اللواتي قبضن في دار الدنيا عجائز رمضاء شمطاء خلقہن اللہ بعد الکبر، فجعلہن عذاری عرباً متعشقات محببات، أتراباً علی ميلاد واحد‘‘ . قلت: يا رسول اللہ! أنساء الدنيا أفضل أم الحور العين؟ قال: ’’بل نساء الدنيا أفضل من الحور العين، کفضل الظہارۃ علی البطانۃ‘‘ . قلت: يا رسول اللہ! وبما ذاک؟، قال: ’’ بصلاتہن وصيامہن وعبادتہن اللہ، ألبس اللہ وجوہہن النور، وأجسادہن الحرير، بيض الألوان خضر الثياب صفراء الحلي، مجامرہن الدر، وأمشاطہن الذہب، يقلن: ألا نحن الخالدات فلا نموت أبداً، ألا ونحن الناعمات فلا نبؤس أبداً، ألا ونحن المقيمات فلا نظعن أبداً، ألاونحن الراضيات فلا نسخط أبداً، طوبی لمن کنا لہ وکان لنا‘‘، قلت: يا رسول اللہ! المرأۃ منا تتزوج الزوجين والثلاثۃ والأربعۃ ثم تموت فتدخل الجنۃ ويدخلون معہا، من يکون زوجہا؟ قال: ’’ يا أم سلمۃ! إنہا تخير فتختار أحسنہم خلقاً، فتقول: أي رب إن ہذا کان أحسنہم معي خلقاً في دار الدنيا فزوجنيہ، يا أم سلمۃ! ذہب حسن الخلق بخير الدنيا والآخرۃ۔‘‘ (۲۳/۳۶۷، أزواج رسول اللہ ﷺ، أم سلمۃ، ط:مکتبۃ ابن تیميۃ، القاہرۃ)
’’وقولہ: ’’وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَآئِهِمْ وَأَزْوٰجِهِمْ وَذُرِّيّٰتِهِمْ‘‘ أي: يجمع بينہم وبين أحبابہم فيہا من الآباء والأہلين والأبناء، ممن ہو صالح لدخول الجنۃ من المؤمنين؛ لتقر أعينہم بہم، حتی إنہ ترفع درجۃ الأدنی إلی درجۃ الأعلی، من غير تنقيص لذلک الأعلی عن درجتہ، بل امتنانا من اللہ وإحسانا، کما قال تعالی: ’’وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّــتُہُمْ بِـاِیْمَانٍ اَلْحَـقْنَا بِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَمَآ اَلَتْنٰہُمْ مِّنْ عَمَلِہِمْ مِّنْ شَیْءٍ ۰ۭ کُلُّ امْرِیٍٔ بِمَا کَسَبَ رَہِیْنٌ‘‘ (تفسير ابن کثير:۴/۴۵۱، ط : دار طيبۃ)
فقط و اللہ اعلم
فتویٰ نمبر : 15050-1442ھ دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن