یوں تو انسانی زندگی کے اہم شعبے عموماً بے بنیاد رسوم وروایات کے گہرے سایوں میں گرے پڑے ہیں،جن کے نقصانات ونتائج تو اپنی جگہ ہیں ہی؛ لیکن بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسانی زندگی مختلف مشکلات ومسائل کا شکار ہوجاتی ہے۔ ان میں سے ایک اہم ترین شعبہ ’’شادی بیاہ‘‘ ہے جو ہمیشہ سے رسوم وروایات کے نرغے میں رہتا ہے اور شادی سے متعلقہ رسوم میں سے ایک اہم رسم ’’مروجہ جہیز‘‘ ہے۔ جہیز سے مراد وہ سازو سامان ہے جو شادی بیاہ کے موقع پر لڑکی کے اہل خانہ کی طرف سے مہیا کیا جا تا ہے،چاہے وہ نقد،سونا وچاندی اور زیورات کی شکل میں ہو یا فرنیچر، برتن وغیرہ روزہ مرہ استعمال ہونے والی چیزوں کی صورت میں۔
’’جہیز‘‘ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ فقہی نقطۂ نظر سے اس کی حیثیت ہبہ اور عطیہ کی ہے، جو والدین وغیرہ کی طرف سے لڑکی کو بلا عوض فراہم کی جاتی ہے؛ لہٰذا اس کے بذاتِ خود جائز ہونے؛بلکہ خلوصِ نیت سے ہو تو احسان اور کارِ خیر ہونے میں شبہ نہیں ہے، خصوصاً بیٹی یا بہن کو کچھ داد دہش دینا نیکی اور بھلائی کی بات ہے؛ لیکن دین اور علم دین سے تعلق رکھنے والے حضرات کے لیے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ بہت سی چیزیں فی نفسہٖ جائز بلکہ مندوب ہونے کے باوجود بعض علت کی وجہ سے مذموم وممنوع بن جاتی ہیں۔ مروجہ رسم ’’جہیز‘‘ بھی بحالتِ موجودہ یہی صورت اختیار کرگئی ہے اور فی نفسہٖ مندوب ہونے کے باوجود اب اس کے ساتھ اس قدر مفاسد ومنکرات وابستہ ہوچکے ہیں کہ اس کی کھلی چوٹ دیناکسی طرح قرینِ قیاس نہیں رہا۔ ذیل میں اس کے چند مفاسد لکھے جاتے ہیں:
اس بات میں دو رائے نہیں ہیں کہ جہیز شرعاً ایک غیر ضروری چیز ہے، شریعت نے کہیں اس کو لازم یا ضروری قرار نہیں دیا اوراگر یہ تسلیم بھی کرلیاجائے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پاکیزہ بیٹیوں کی رخصتی کے موقع پر جو کچھ دیا تھا،اس کی حیثیت جہیز کی تھی اوراس کو جہیز کے لیے بنیاد قرار دیا جائے تو بھی اس کی نوعیت زیادہ سے زیادہ ایک مندوب عمل کی ہوگی،اس کو فرض یا واجب تو کجا، سنتِ مؤکدہ قرار دینا بھی درست نہیں۔ اب ہر حال میں اس کا انتظام واہتمام کرنا شرعاً کسی طرح پسندیدہ نہیں ہے؛ بلکہ اگر اس کو لازم قرار دیاجائے تو بدعت ہونے میں بھی کلام نہیں۔
اگر کوئی شخص اپنی ذات کی حد تک اس کو لازم نہ بھی سمجھے؛ لیکن اس کے باوجوداس کی پابندی کرتا ہے، توبھی اس سے اس رسمِ باطل کی تائید وتقویت ہوتی ہے۔
نکاح سے متعلق شرعی تعلیمات پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ اس میں یسر وسہولت اورسادگی پسندیدہ ہے، اس موقع پر غیر ضروری مالی اخراجات یا عملی انتظامات شریعت کے مزاج ومذاق کے خلاف ہیں؛ کیونکہ یہی سرگرمیاں رفتہ رفتہ نکاح کا حصہ بنتی جاتی ہیں اور اگر کہیں اس کی تکمیل کے اسباب وسائل میسر نہ ہوں تواس کی وجہ سے نکاح بھی مؤخر یا معطل ہوجاتا ہے۔ ایک حدیث شریف میں ہے:
’’عن سعید بن أبي ہلال: أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: تناکحوا، تکثروا، فإنی أباہي بکم الأمم یوم القیامۃ۔‘‘(۱)
ترجمہ: ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادگرامی ہے:نکاح کرکے اولاد کی کثرت کرو؛ کیونکہ میں قیامت کے دن آپ کی وجہ سے دوسری اُمتوں پرفخر کروں گا۔‘‘
عقل اور تجربہ،دونوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نکاح کو مشکل بنانے سے معاشرے میں بےحیائی کو فروغ ملتا ہے اور عفت وعصمت کی چادریں تار تار ہوجاتی ہیں؛ چنانچہ نفسانی خواہشات فطری طور پر عاقل بالغ آدمی کے اندر ودیعت رکھے گئے ہیں،اگراس کے لیے کوئی جائز راستہ مہیا نہ ہو تو ناجائز پہلو کی طرف قدم اُٹھے گا۔ اگر ان فطری خواہشات کی تسکین کا جائز راستہ موجود تو ہو؛ لیکن طرح طرح کے تکلّفات اور پابندیوں کو اس کا حصہ بناکر پیچیدہ تر بنادیا جائے تو بھی عام متوسط افراد بروقت اپنی ضرورت کی تکمیل نہیں کرپائیں گے اوراس کا بھی نتیجہ وہی ظاہر ہوگا کہ ناجائز راستوں کی بادہ پیمائی شروع ہوجائے گی ۔
انسانی تاریخ کا تجربہ بہر حال اس بات کی تصدیق فراہم کرتا ہے؛چنانچہ ماضی کی طرح اب بھی جن معاشروں میں جلدی اور سادگی کے ساتھ نکاح کرنے کا دستور ہے، وہاں فحاشی،بے حیائی اور بدکاری کے واقعات کم پیش آتے ہیں اور جہاں اس کے برعکس شادی بیاہ کا انتظام مشکل اور پیچیدہ ہوتا ہے وہاں بے حیائی اور بے پردگی کے نمونے زیادہ دیکھنے کو ملتے ہیں؛اس لیے شادی بیاہ کے معاملات میں غیر ضروری رسموں کو جگہ دینے کا نتیجہ یہی ظاہر ہوتاہے کہ اس کی بدولت معاشرے میں بے حیائی اور بے پردگی کو فروغ ملتا ہے۔
ہمارے یہاں ایک لمبے عرصہ سے جہیز کے لین دین کا تعامل جاری ہے، اس لیے اب وہ نکاح کا ایک ضروری حصہ بن چکا ہے،لڑکی والے بھی اس کا پورا انتظام کرتے ہیں اور لڑکے والوں کی طرف سے بھی اس کے باقاعدہ مطالبے ہوتے ہیں، بلکہ متعدد جگہوں پر تواس رواج نے ا س حد تک ترقی کی ہے کہ رشتہ کی بات طے کرتے وقت ہی ساتھ یہ بھی طے کیاجاتا ہے کہ جہیز میں کیا کیا ملے گا؟ اس کا ایک نقصان تو یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ لڑکی کے اہلِ خانہ اکثر اوقات شرما شرمی میں اور دلی رضامندی کے بغیر ہی جہیز دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور دوسرا خراب نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ اس کے بدلے پھر لڑکے کے اہلِ خانہ سے بھی مختلف چیزوں کا مطالبہ شروع ہوجاتا ہے؛ حالانکہ یہ دونوں باتیں شرعاً ممنوع، گناہ اور اخلاقی ومعاشرتی لحاظ سے حد درجہ نامناسب ہیں۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس پر کسی مسلمان کو ملامت کرنااور طعنے دینا جائز ہوسکے۔ حدیث شریف میں ہے:
’’عن أبي حُرَّۃَ الرَّقاشِيِّ، عن عَمِّہٖ أن رسولَ اللہِ -صلی اللہ علیہ وسلم- قال: ’’لا یَحِلُّ مالُ امرءٍ مُسلِمٍ إلا بطیبِ نَفسٍ مِنہ۔‘‘ (۲)
ترجمہ:’’کسی مسلمان کامال اس کی دلی رضامندی کے بغیر لیناجائز نہیں۔‘‘
’’البحرالرائق‘‘میں ہے:
’’ولو أخذ أہل المرأۃ شیئا عند التسلیم فللزوج أن یستردہٗ؛ لأنہٗ رشوۃْ‘‘(۳)
ترجمہ: ’’اگرسسرال والے رخصتی کے وقت کچھ لے لیں توشوہرواپسی کامطالبہ کرسکتاہے؛کیونکہ شرعاًیہ رشوت کے زمرہ میں آتاہے۔‘‘
’’فتاویٰ شامی‘‘میں ہے:
’’ (أخذ أہل المرأۃ شیئا عند التسلیم فللزوج أن یستردہٗ) لأنہ رشوۃ۔‘‘(۴)
ترجمہ: ’’اگر سسرال والے رخصتی کے وقت کچھ لے لیں توشوہرواپسی کامطالبہ کرسکتاہے؛ کیونکہ شرعاً یہ رشوت کے زمرہ میں آتا ہے۔‘‘
عام رسم ورواج کے برخلاف اگر والدین کمزور اور کم حیثیت کے لوگ ہوں اور وہ جہیز کا انتظام کیے بغیر ہی اپنی لختِ جگر کورخصت کردیں تو خود والدین کو بھی مختلف قسم کے طعن وتشنیع اور ملامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور لڑکی کی زندگی بھی اسی کی نذر ہوجاتی ہے؛ چنانچہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر اس کو یہ طعنے ملتے ہیں؛ حالانکہ جہیز بالکل نہ دینا یا کم دینا کوئی ایسا جرم نہیں ہے، جس کی وجہ سے کسی مسلمان پر طعن وتشنیع کی اجازت دی جاسکے۔
بہت سی مرتبہ لڑکی کے اہلِ خانہ ناجائزکمائی پر مجبور ہوجاتے ہیں اور جہیز کا انتظام کرنا اُن کے لیے متعدد منکرات کے ارتکاب کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اس کی صاف سیدھی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں پہلے سے ’’متوسط جہیز‘‘ میں بہت سی چیزیں داخل ہیں اور اس میں روز افزوں ترقی جاری ہے، نت نئی چیزیں اس فہرست میں جگہ پارہی ہیں؛ جب کہ عام طور پر حلال کمائی سے اس کا انتظام کرنا مشکل ہوجاتا ہے تو بسا اوقات چار وناچار اس کے لیے حرام ذرائع کی طرف ہاتھ اُٹھ جاتے ہیں؛ چنانچہ کہیں سودی قرض لیا جاتا ہے اور کبھی ناجائز کاروبار کی مختلف صورتیں اختیار کرلی جاتی ہیں۔
بہت سے غریب گھرانے ایسے ہیں جہاں کی لڑکیاں محض اس لیے نکاح سے محروم ہوتی ہیں کہ ان کے والدین اور بھائیوں کے پاس جہیز فراہم کرنے کی استطاعت نہیں ہے اور ایسا تو آئے دن دیکھنے میں آتا ہے کہ نکاح مکمل طور پر معطل تو نہیں ہوتا؛ لیکن اس میں خاصی تاخیر کی جاتی ہے اور بروقت شادی کرنا اسی فکرِ جہیز کی بدولت التوا کی نذر ہوجاتا ہے؛حالانکہ عام حالات میں نکاح کرنا سنتِ مؤکدہ ہے اور اگر قوی خدشہ ہوکہ نکاح نہ کرنے یا ملتوی کرنے کی صورت میں بدنظری، بے حیائی یا بدکاری وغیرہ گناہوں میں مبتلا ہوجائے گا تواس وقت نکاح کرنا واجب ہے۔جو چیز مسنون عمل میں تاخیر یا تعطیل کا سبب بن جائے وہ اچھی نہیں ہے اور اگر اس کی وجہ سے کسی گناہ کا ارتکاب کرنے کی بھی نوبت آئے تو مذموم وشنیع ہونے میں شبہ نہیں ہے۔
جولوگ جہیز کی اس رسمِ بد کی حمایت وتائید کرتے ہیں وہ عموماً یہ کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں برِصغیر کے معاشرے میں چونکہ عموماً عورتوں کو اپنا مقررہ حصہ میراث کا نہیں دیا جاتا، اس لیے کیوں نہ اس موقع پر ان کے ساتھ خوب نیکی واحسان کا معاملہ کیا جائے؛ تاکہ ان کے حقوق کی کچھ تو تلافی ہوسکے!
لیکن یہ عذر کسی طرح لائقِ التفات نہیں ہے؛ کیونکہ وراثت میں جس طرح مردوں کا حصہ مقرر ہے اور ان کو اپنا حصہ دے دینا واجب ہے، یوں ہی عورتوں کو بھی اپنا مقررہ شرعی حصہ سپرد کردینا ضروری ہے اور اس پر قبضہ جمانا حرام ومذموم ہے۔ جہیز کو اس کا متبادل قرار دینا قطعاً درست نہیں ہے؛ بلکہ اگر کوئی اس جذبے سے دینا چاہے تو یہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ دینے میں خلوصِ نیت بھی کارفرما نہیں ہے۔
یہ اشکال نہ اُٹھایاجائے کہ کچھ بھی نہ دینے سے کچھ کچھ دینا تو بہر حال بہتر ہے؛ کیونکہ پہلی صورت(یعنی بالکل کچھ حصہ نہ دینے )میں لوگ اپنے آپ کو کم ازکم مجرم تو خیال کرتے ہیں اور اگر عملی طور پر وہ اس گناہ کے مرتکب بن جاتے ہیں کہ عورتوں کے حصے پر ناجائز قبضہ جماتے ہیں تو بھی کم از کم اس کو گناہ وجرم تو تصور کرتے ہیں؛ جب کہ جہیز کی صورت میں تو یہ احساس بھی مردہ یا نیم مردہ ہوجاتا ہے اور لوگ اپنے تئیں اپنے آپ کو مجرم ہی خیال نہیں کرتے۔
ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ جہیز کی اس رسمِ بد نے ہمارے ہاں معاشرے کے تقریباً تمام طبقات میں اپنے لیے جگہ پیدا کی ہے اور تقریباً سبھی لوگ کسی نہ کسی شکل میں اس کا اہتمام کرتے ہیں۔ ایسی چیز کو بدلنے کی مناسب صورت یہی ہے کہ:
الف: اپنی حد تک مضبوطی کے ساتھ اس کے لین دین سے گریز کرلیاجائے۔
ب:تمام معاشرے میں عموماً اور اپنے اپنے حلقۂ اثر کی حد تک خصوصاً اس کی مذمت کی جائے، مسلمانوں کے دینی شعور اور مذہبی حس کو بیدار کرنے کی بھر پور کوشش کی جائے اور اس سلسلہ میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں ہونا چاہیے۔ جو لوگ مجاہدہ سے کام لے کر سادگی کے ساتھ شادی بیاہ کریں ان کی مناسب طریقے سے حوصلہ افزائی کی جائے اور جو لوگ اسی رسمِ بد پر عمل پیرا ہوں،اعتدال ومیانہ روی کے ساتھ اُن کے اس عمل کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ اس طرح کرنے سے اُمید کی جاتی ہے کہ کچھ ہی عرصہ میں یہ رسمِ بد ختم یا کم ہوجائے گی۔ اللہ تعالیٰ امتِ مرحومہ کو رسوم ورواج کے نرغہ سے نکال کر سیادت وقیادت کے منصب پر سرفراز فرمائیں۔
۱-مصنف عبدالرزاق، باب وجوب النکاح وفضلہ، ج۶ ص۱۷۳۔
۲-السنن الکبری للبیہقي، بابُ مَن غَصَبَ لَوحًا فأدخَلَہ فی سَفینَۃٍ أو بَنَی عَلَیہ جدارًا، ج۱۲ ص۶۲۔
۳-البحر الرائق، کتاب النکاح، باب المہر، ج۳ ص۲۰۰۔
۴-الدر المختار وحاشیۃ ابن عابدین، کتاب النکاح، باب المہر، ج۳ ص۱۵۶۔