بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

بینات

 
 

حج اور قربانی سے متعلق چند اہم مسائل


حج اور قربانی سے متعلق چند اہم مسائل

 

مروہ پر عمرہ ختم کرنے کے بعد حجرِ اسود کو بوسہ دینا

سوال

مروہ پر عمرہ ختم کرنے کے بعد احرام کی حالت میں حجرِ اسود کو بوسہ دے سکتے ہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ عمرہ ادا کرنے والا شخص جب تک حلق یا قصر نہ کرالے اس وقت تک وہ حلال نہیں ہوتا اور اس پر احرام کی پابندیاں عائد رہتی ہیں اور چوں کہ حجرِ اسود پر خوشبو لگی ہوتی ہے، اس لیے حالتِ احرام میں اس کو چھونا یا بوسہ دینا بھی درست نہیں۔
البتہ اگر کوئی حالتِ احرام میں حجرِ اسود کا بوسہ دے دے، تو اس پر دم واجب ہوگا یا نہیں؟ اس کا مدار خوشبو کی کثرت پر ہے، یعنی اگر خوشبو زیادہ لگ گئی تو دم واجب ہوگا اور اگر کم مقدار میں لگی ہو، تو صدقہ کرنا لازم ہوگا، دم واجب نہیں ہوگا، قلیل اور کثیر کے معیار کے بارے میں متعدد اقوال ہیں، جن کا حاصل یہ ہے کہ حجرِ اسود کا بوسہ لینے کی صورت میں دیکھا جائے گا کہ اگر لگائی گئی خوشبو کی مقدار زیادہ ہو، تو ہتھیلی کے چوتھائی حصے پر لگنے سے دم واجب ہوجائے گا، لیکن اگر لگائی گئی خوشبو کی مقدار کم ہو، تو کامل عضو (مکمل ہتھیلی) پر لگنے کی صورت میں دم لازم ہوگا اور اس سے کم میں صدقہ لازم ہوگا۔                         فقط واللہ اعلم
فتویٰ نمبر :   144504101633                                                               دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

ایامِ حج میں منیٰ میں قیام نہ کرنا

سوال

بعض حج گروپ والے اس طرح پیکج دے رہے ہیں کہ وہ عزیزیہ میں رہائش دیں گے، اور ۸؍ ذوالحجہ کی رات کو یا ۹؍ کی صبح کو عرفات لے جائیں گے، ۸؍ تاریخ کو منیٰ میں قیام نہیں کروائیں گے، ۹؍ تاریخ کو وقوفِ عرفہ کے بعد مزدلفہ میں رات گزاریں گے اور ۱۰؍تاریخ کی صبح کو رمی وغیرہ کرواکر دوبارہ عزیزیہ میں رہائش دیں گے ۔ اس پورے پیکج میں منیٰ میں قیام شامل نہیں ہوگا، تاکہ حج کے اخراجات کم ہوسکیں ۔اب پوچھنا یہ ہے کہ :
1-کیا اس طرح حج ادا ہوجائے گا ؟
2-منیٰ میں قیام کی حیثیت کیا ہے؟ واجب ہے یا سنت؟
3-منیٰ میں ارادۃً قیام کا چھوڑنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ ایامِ حج کے ۸ ؍ذو الحجہ سے ۱۲ ؍ذوالحجہ تک کل پانچ دن ہیں، جس میں ۸؍ ذوالحجہ کو سورج طلوع ہونے کے بعد مکہ سے منیٰ جاکر اوروہاں رات کا قیام، پھر ۱۰،۱۱، ۱۲ ؍ذو الحجہ کی راتوں میں منیٰ میں قیام کرنا سنتِ مؤکدہ ہے، منیٰ میں قیام کرنے کی بہت تاکید وارد ہوئی ہے، چنانچہ روایات سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے خود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کے ساتھ منیٰ میں قیام فرمایا اور ۸؍ تاریخ کی ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور ۹؍ تاریخ کی فجر کی نماز میں منیٰ میں پڑھی، پھر طلوعِ آفتاب کے بعد عرفہ کی طرف تشریف لےگئے۔
حضرت عمر فاروق  رضی اللہ عنہ  لوگوں کو زجروتوبیخ فرمایا کرتے تھے اس بات پر کہ منیٰ کا قیام کوئی چھوڑدے، یہاں تک فرماتے تھے کہ: اس کا حج ہی نہیں ہوا، یعنی حج کا کمال اس کو حاصل نہیں ہوا۔
اسی طرح حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما  کے بارے میں منقول ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے: ایامِ تشریق میں عقبہ کے پیچھے (مکہ کی حدود میں) کوئی رات نہ گزارے۔ فقہاء کرام میں سے امام شافعی  ؒ اور دیگر ائمہ کرام رحمۃ اللہ علیہم نے منیٰ میں قیام کو واجب قرار دیا ہے ۔
حاصل یہ ہے کہ منیٰ میں قیام کی شرعاً بہت تاکید وارد ہوئی ہے اور یہ سنتِ مؤکدہ ہے، ارادۃً اور قصداً منیٰ میں قیام ترک کرنا حاجی کے لیے مکروہ ہے،لہٰذا صورتِ مسئولہ میں :
1- اگر کسی نے حج کے ایام میں منیٰ میں قیام کو ترک کیا تو اس کا حج تو ادا ہوجائے گا، البتہ خلافِ سنت ہونے کی وجہ سےمکروہ ہوگا اور ثواب کم ملے گا۔
2-فقہ حنفی میں منیٰ کا قیام سنتِ مؤکدہ ہے ۔
3-حاجی کے لیے منیٰ کا قیام قصداً اورارادۃً چھوڑنا خلافِ سنت اور مکروہ ہے، حج گروپ والوں کا اس طرح لوگوں کو پیکج دینا بھی صحیح نہیں ہے کہ جس سے حج جیسی عظیم عبادت میں خلافِ سنت امر کا ارتکاب لازم آئے، جو زندگی میں ایک مرتبہ کرنا فرض ہے۔                             فقط واللہ اعلم 
فتویٰ نمبر :   144509102328                                                                              دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

حکومت کی طرف سے بھیجے گئے حج معاون کا نفلی حج ادا کرنا

سوال

حکومتِ پاکستان کو حج کے لیے معاونین درکار ہیں، اگر کوئی شخص جس پر حج فرض نہ ہو، وہ بطورِ معاون چلا جائے اور حج کر آئے، تو کیا یہ جائز ہے؟ کیوں کہ یہ تعین کرنا مشکل ہوگا کہ مقصد معاونت ہے یا حج۔

جواب
 

صورتِ مسئولہ میں اگر حکومت مذکورہ شخص کو حج ادا کرنے کی اجازت دے دے اور وہ حج اداکرے، تو اس کا حج ادا ہوجائے گا ۔                                         فقط واللہ اعلم 
فتویٰ نمبر :  144507101760                                                                                    دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

حج کے لیے چھٹی نہ ملے تو کیا حکم ہے؟

سوال

اگر آفس سے حج کے لیے چھٹی نہ ملے، تو پھر حج پر جانے کا کیا حکم ہے؟ جب کہ چھٹی جان بوجھ کر کرنے پر نوکری سے نکال دیتے ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ اگر حج ایک مرتبہ فرض ہو جائے، تو جب تک ادا نہ کرے ذمہ میں باقی رہتا ہے، اگرچہ بعد میں حج کی استطاعت نہ رہے اور فقیر بن جائے تب بھی ذمہ سے ساقط نہیں ہوتا، نیز حج اس عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہوتا ہے جس کے پاس ضروریاتِ زندگی کے پورا کر لینے، نیز اہل وعیال کے واجب خرچے پورے کرنے کے بعد اس قدر زائد رقم ہو جس سے حج کےضروری اخراجات (وہاں کے قیام اور کھانے وغیرہ) اور آنے جانے کا خرچ پورا ہوسکتا ہو۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر حج سائل پر فرض ہو چکا ہے، تو سب سے پہلے آفس والوں کو حج سے متعلق شرعی مسئلہ کے بارے میں سنجیدہ طریقہ سے بتلائے، اور اس بنا پر چھٹی حاصل کر نے کی کوشش کرے اور فرض حج کوادا کرے، اور اگر اس کے باوجود بھی آفس والے چھٹی نہیں دیتے، تو پھر اپنے حالات کو دیکھے، اگر کہیں اور جگہ پر ملازمت مل سکتی ہے، تو پھر کہیں اور ملازمت اختیار کرے، اور حج کا فریضہ ادا کرے، اور اگر کہیں ملازمت نہیں مل سکتی اور اس کے بغیر گزارہ مشکل ہےتو پھر ملازمت جاری رکھے، اور ہر سال چھٹی کی کوشش کرے، جیسے ہی چھٹی مل جائے، حج کی ادائیگی کرے ۔                                 فقط واللہ اعلم 
فتویٰ نمبر :  144508100994                                                                        دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

ایامِ حج میں عورتوں کے مخصوص ایام کے چند مسائل

سوال

1-کیا ایامِ حج میں عورتیں اپنے مخصوص ایام کی تاریخ کو آگے کرنے کے لیے ڈاکٹر کی تجویز کی ہوئی دوائی استعمال کرسکتی ہیں؟ کیونکہ ان کی واپسی کی تاریخ ۱۳؍ ذو الحجہ یعنی ۱۲ کی رات ۲ بجے ہے۔ 
2- کیا کسی عورت کو عین حج کے ایام میں مخصوص ایام آجاتے ہیں اور واپسی کی فلائٹ وہی ہے جو اوپر بتائی ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی، وہ عورت طوافِ زیارت کا کیا کرے؟ کیا کوئی محرم بحالتِ مجبوری نہاکر اچھی طرح کپڑا باندھ کر طواف کر سکتی ہے؟ کیونکہ طوافِ زیارت فرض ہے۔
3- اس صورت میں جو کہ اوپر فلائٹ بتائی گئی ہے کیا طوافِ وداع ۱۱؍ ذو الحجہ کو کرسکتے ہیں؟ کیونکہ  ۱۲؍ کو طوافِ وداع کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، جبکہ رات کی فلائٹ بھی ہو، ہم لوگوں کی رہائش عزیزیہ میں ہوتی ہے اور وہیں سے کراچی کے لیے واپسی ہوتی ہے۔ جزاکم اللہ

جواب

1-صورتِ مسئولہ میں ایامِ حج میں حیض سے بچنے کی خاطر ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوا استعمال کرکے مخصوص ایام کو آگے بڑھانے کی شرعاً گنجائش ہے اور اس کے نتیجے میں کی جانے والی عبادات درست شمار ہوں گی، تاہم فطری چیز کو روکنے سے صحت پر بڑا اثر پڑنے کا اندیشہ ہے۔
2- طوافِ زیارت فرض اور حج کا رکن ہے، اس طواف کو ادا کیے بغیر مُحرم مکمل طور پر احرام سے نہیں نکل سکتا اور یہ طواف کرنا ہرحال میں ضروری ہے۔ صورتِ مسئولہ میں جو عورت حیض یا نفاس میں ہے وہ پاک ہونے سے پہلے طوافِ زیارت نہ کرے، اگر دسویں تاریخ کو یا اس سے پہلے حیض شروع ہوگیا اور بارہویں تاریخ تک بھی فراغت نہ ہو، تو وہ طوافِ زیارت مؤخر کردے اور اس تاخیر پر دم لازم نہیں ہوگا، جب تک حیض ونفاس سے پاک نہ ہوجائے، طوافِ زیارت نہیںہوسکتا اور طوافِ زیارت کے بغیر وطن واپس آنا درست نہیں، اگر واپس آگئی تب بھی عمر بھر یہ فرض لازم رہے گا، اور شوہر کے لیے حلال بھی نہ ہوگی اور دوبارہ حاضر ہوکر طوافِ زیارت کرنا پڑے گا، اس لیے حیض ونفاس سے پاک ہونے کا انتظار کرنا لازمی ہے، تاہم اگر فلائٹ، سیٹ یا ویزا ختم ہونے کے مسائل کی وجہ سے پاک ہونے کا انتظار کرنا مشکل ہے تو ان مشکلات کی بنا پر اگر مجبوراً طوافِ زیارت ناپاکی کی حالت میں کرلیا گیا تو حدودِ حرم میں بطور دَم ایک گائے یا ایک اونٹ ذبح کروانا لازم ہوگا، اور اس کے بعد عورت حلال بھی ہوجائے گی۔
3- صورتِ مسئولہ میں جو عورت حج کے تمام ارکان وواجبات ادا کرچکی ہو اور طوافِ وداع سے قبل اسے حیض یا نفاس شروع ہو جائے اور پاک ہونے تک محرم کے ساتھ انتظار کرنے کی کوئی صورت نہیں ہو تو ایسی صورت میں اس عورت پر سے طوافِ وداع ساقط ہو جائے گا، اس کو چاہیے کی مسجد حرام میں داخل ہوئے بغیر دروازے کے پاس سے دعا مانگ کر رخصت ہوجائے، اس عورت پر دم بھی واجب نہیں ہے۔ (فتاویٰ رحیمیہ، ص:۱۰۵، ج:۸)                                                     فقط واللہ اعلم
فتویٰ نمبر :  7730-1433ھ                                                                                                                    دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

قربانی کے لیے خریدے ہوئے جانور کو بیماری کی وجہ سے ذبح کرنے کے بعد گوشت اور دوسرا جانور خریدنے کا حکم

سوال

ایک شخص نے قربانی کے لیے جانور خریدا اور وہ بیمار پڑ گیا، ذبح کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا، ذبح کرنے کے بعد اس کا گوشت کس طرح استعمال کرسکتےہیں؟ اور کون کون استعمال کرسکتاہے؟ اور اب یہ شخص ایک اور جانور قربانی کے لیے خریدے گا یا نہیں؟

جواب

1-صورتِ مسئولہ میں مذکورہ جانور کا مالک اگر امیر اورصاحبِ نصاب ہے تو وہ یہ گوشت خود بھی استعمال کرسکتا ہے، اپنے گھر والوں کو بھی کھلاسکتاہے، اور فقراء میں صدقہ بھی کرسکتا ہے، لیکن اگر مذکورہ جانور خریدنے والا فقیر ہے تو اس کے لیے اس جانور کا گوشت کھانا اور اسے اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے، بلکہ مذکورہ جانور کا گوشت دیگر فقراء کو صدقہ کرنا اس پر واجب ہے۔
2- اگر جانور خریدنے والا شخص امیر اور صاحبِ نصاب ہو تو اس پر قربانی کے لیے دوسرا جانور خریدنا واجب ہے، لیکن اگر وہ شخص غریب ہے اور اس پر قربانی واجب نہیں، تو پھر اس پر دوسرا جانور خریدنا واجب نہیں۔
فتویٰ نمبر :  20140-1442ھ                                                                      دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

ہدیہ میں ملنے والا قربانی کا گوشت بیچنا

سوال

اگر کوئی مجھے قربانی کا گوشت ہدیہ کرے، جب میں مالک بن جاؤں تو کیا میں اسے بیچ سکتی ہوں؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائلہ کی ملکیت میں بطور ہدیہ قربانی کا گوشت آنے کے بعد سائلہ اسے آگے فروخت کرسکتی ہے۔
فتویٰ نمبر :  21703-1442ھ                                                                                     دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

جانور ذبح کرنے کے فوراً بعد جانور کے دل پر چھری مارنا

سوال

 جب جانور ذبح کیا جاتا ہے تو اس کے فوراً بعد جانور کے دل پر چھری ماری جاتی ہے، جس کی وجہ سے وہ فوراً دم توڑدیتا ہے، کیا یہ عمل کرنا صحیح ہے یا نہیں؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں ذبح کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ گلے میں چھری اس طرح چلائی جائے کہ چار رگیں (سانس کی نالی، کھانے کی نالی، اور دو شہ رگیں) کٹ جائیں اور پھر چھوڑ دیا جائے کہ جانور زور لگائے، جس سے جسم کے اندر کا خون تیزی سے نکل جائے۔ نیز جب تک جانور ٹھنڈا نہ ہوجائے اس کی کھال اُتارنے کی کوشش نہ کی جائے اور نہ ہی چھری ماری جائے۔
آج کل بعض قصائی جو عجلت میں جانور کو جلد ٹھنڈا کرنے کے لیے اس کے دل میں چھری مارتے ہیں یا چھری کی نوک سے گردن کی ہڈی کے ساتھ دماغ کی حس والی رگ کاٹتے ہیں کہ جانور بے حس ہوجائے، یہ طریقہ خلافِ سنت اور مکروہ ہے۔ ایسا کرنے سے جانور کے گوشت میں بہتے ہوئے خون کا کچھ حصہ رہ جاتا ہے اس سے بچنا چاہیے۔ مالکان کو چاہیے کہ وہ قصائی کو ایسا کرنے سے روکیں۔ فقط واللہ اعلم
فتویٰ نمبر :  8671-1436ھ                                                                               دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین