بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

بینات

 
 

حج  ۔۔۔ مظہرِ عشق و بندگی


حج  ۔۔۔ مظہرِ عشق و بندگی


الحمد ﷲ وسلامٌ علٰی عبادہ الذین اصطفٰی، أمّا بعد :
 

’’وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْکَ رِجَالًا وَّعَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ‘‘ (الحج:۲۷)

حضرت ابراہیم خلیل k نے بحکمِ الٰہی جو صدا لگائی، اُسے اللہ تعالیٰ نے قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لیے بندگی، عبادت اور اللہ تعالیٰ سے اپنی والہانہ عقیدت و محبت کے اظہار کا ایک منفرد اور مخصوص طریقہ طے کردیا، جسے ’’حج‘‘ کہتے ہیں۔
حج کیا ہے؟ اُس کے افعال وارکان کی حکمت وفلسفہ کیا ہے؟ اس کی حقیقت ومعقولیت کا نقطہ کیا ہے؟ صوفیاء کرام نے سفرِ حج کو سفرِ عشق اور ارکانِ حج کو عاشقانہ وارفتگی سے تشبیہ دے کر یہ حکمت وحقیقت سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ جس طرح عاشقِ زار کے افعال واعمال میں ظاہری معقولیت دیکھنا اور بتانا مشکل ہوتا ہے، اسی طرح افعالِ حج کے ظاہری افعال کی حکمت ومعقولیت سمجھنے اور سمجھانے میں بھی دشواری پیش آسکتی ہے۔ فریضۂ حج کے ظاہری افعال واعمال کی حقیقت ومعقولیت کا اِدراک کرنے کے لیے عقلِ سلیم،فطرتِ سلیمہ اور عشقِ حقیقی کا جذبۂ صادق بنیادی شرط ہے، چنانچہ حاجی اپنے آپ اور اپنے حلیہ ولباس کو فراموش کرکے اور راہ کی مشقتوں، صعوبتوں کو بھلاکر اپنے پروردگار محبوبِ حقیقی کی یاد اور ذکر کے ساتھ زیارت وملاقات کے جذبات سے لبریز ہوکر والہانہ وار اُس کے دَر پر حاضری دینے کے لیے بڑھتا چلا جاتا ہے، اور اپنی تمام تر حسیات اور قلبی کیفیات کے ساتھ مرکزِ تجلیات بیت اللہ پہنچ جاتا ہے،پھر مکہ سے منیٰ کارُخ کرتا ہے، اور پھر منیٰ سے عرفات جاتا ہے، عرفات سے پھر مزدلفہ آتا ہے اور وہاں سے پھر واپس منیٰ آجاتا ہے۔
یہ آمدورفت، یہ سرگرداں ہونا، ہر ہر جگہ جاکر اُس ایک خدائے وحدہٗ لا شریک کو پکارنا، اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں پر نادم ہونا اور اُسے منانے کے لیے رونا دھونا کہ کسی طرح اپنے محبوبِ حقیقی کو پالے۔ بظاہر اللہ ہمیں اس دنیا میں نظر تونہیں آسکتا، لیکن اُس کے احکامات کی روشنی میں اُس کی عبادت کرکے اُسے پایا تو جاسکتا ہے۔ اُس نے ہمیں راستے اور طریقے بھی خود بتادیئے، ابھی وہاں آؤ اور اس طرح عبادت کرکے مجھے پالو، اور یہ سب کچھ کرنا اسی طریقے سے ہے جیسا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے کیا۔ اب حج کے ان سارے ارکان کو عام دنیوی سوچ اور عقل سے دیکھا جائے تو عجیب سا لگے گا، لیکن یہی اصل حقیقت ہے کہ:

میانِ عاشق و معشوق رمزیست

کراماً کاتبین را ہم خبر نیست

اس شعر سے حج کے فلسفہ کو سمجھا جاسکتا ہے، جو اس رمز کو پالیتا ہے وہی کامیاب ہوجاتا ہے۔ دور سے دیکھنے والوں کو یہ کبھی سمجھ میں نہیں آسکتا۔ کراماً کاتبین سے اس شعر میں فرشتے مراد نہیں ہیں، بلکہ اس سے مراد اُس عاشقانہ کیفیت سے نا آشنا لوگ ہیں، جب تک وہ اس جذبے کے اندر نہ اُتریں وہ اس کو کبھی نہیں سمجھ سکتے۔ جب وہ اس عشقِ حقیقی کے اندر ڈوب جائیں گے تبھی ان کو پتہ چل سکے گا:

أمر  علی الدیار  دیار  لیلی

أقبل ذا الجدار و ذا الجدارا
وما حب الدیار شغفن قلبي

ولٰکن حب من سکن الدیارا

معشوق کے گھر یعنی خدا اور اس کے راستے سے گزرنے کی بھی ایک راحت اور فضیلت ہے۔ شاعر نے یہی جذبہ اس شعر میں پیش کیا ہے، معشوق کے در ودیوارسے اپنی عقیدت ومحبت کا اظہار اور ساتھ ساتھ در و دیوار کی حقیقت کو بھی بیان کیا کہ معشوق کے بغیر اُن کی بذاتِ خود کوئی حیثیت نہیں ہے،جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے حجرِ اسود کو خطاب کرکے کہا کہ: ’’اے پتھر! میں جانتا ہوں تیری حقیقت کچھ نہیں ہے، اگر میں نے اپنے حبیب  صلی اللہ علیہ وسلم  کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔‘‘ ان جگہوں کی وقعت اور حیثیت ان افضل اور مقدس ترین ہستیوں کی وجہ سے ہوئی جو یہاں آئے اور یہاں سے گزرے۔ 
 حج کا جو قافلہ ہوتا ہے یہ عُشاق کا ٹولہ ہوتا ہے، اس کارواں میں بعض حقیقی عاشق ہوتے ہیں اور بعض ظاہری، اسی وجہ سے نوازنے کے اعتبار سے فرق بھی ہوتا ہے، کسی کو خدا ملتا ہے اور کوئی وقت گزاری کرکے خالی ہاتھوں لوٹ جاتا ہے اور اس کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ جو شخص حج کو اس کی حقیقی روح اور مقصد کے ساتھ ادا کرتا ہے تو گویا وہ خدا کو پالیتا ہے، اُس کی زندگی کی کایا پلٹ جاتی ہے، اور جس کو خدا نہیں ملتا وہ تہی داماںہوکر واپس آتا ہے، اور جوپالیتا ہے تو وہ گویا معصوم نومولود بچے کی طرح ہوجاتا ہے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  : مَنْ حَجَّ ﷲ، فلم یرفث ولم یفسق رجع کیومٍ ولدتہ اُمُّہ۔‘‘ (بخاری، ج:۱، ص:۴۱۳، باب فضل الحج المبرور،طبع: الطاف سنز)
ترجمہ : ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے محض اللہ کی رضا کے لیے حج کیا اور اس حج میں گالم گلوچ نہ کی اور نہ ہی گناہ وفسق وفجور کیا تو وہ (حج کے بعدگناہوں سے پاک صاف ہوکر) ایسے واپس لوٹتا ہے، جیسے آج ہی کے دن اس کی ماں نے اُسے جنا ہو۔‘‘
 جیسے رات کے آخری وقت میں اُٹھ کر مانگناہے۔ نیک،عبادت گزار،تہجد گزار لوگ رات کے آخری وقت میں اُٹھ کر اللہ سے مانگتے ہیں، کیونکہ اس وقت اللہ نے خود کہا ہے: ’’میں اس وقت آسمانِ دنیا پرموجود ہوتا ہوں،قریب ہوتا ہوں۔‘‘اس لیے بندہ جاکر اللہ سے مانگتا ہے، توایسے ہی حج کے اندر اللہ نے کہا کہ: میں اس دن فلاں وقت عرفات میں موجود ہوں گا، اور اپنے بندوں کے گناہوں کو معاف کروں گا۔ عاشقِ حقیقی کو یقین ہوتا ہے کہ: اللہ نے کہا ہے کہ عرفہ کے دن میں میدانِ عرفات میںموجود ہوں گا، چنانچہ حاجی مسجدِ حرام (جس کی اتنی فضیلت ہے کہ وہاں ادا کی جانے والی ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نماز کے برابر ہے) کی بجائے وہاں پہنچ جاتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے، حضرت جابر  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
’’عرفہ کے دن اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور پھر فرشتوں کے سامنے حاجیوںپر فخر کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ: ذرا میرے بندوں کی طرف تو دیکھو! یہ میرے پاس پراگندہ بال،گرد آلود اور لبیک وذکر کے ساتھ آوازیں بلند کرتے ہوئے دور دور سے آئے ہیں، میں تمہیں اس بات پر گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اُنہیں بخش دیا۔ یہ سن کر فرشتے کہتے ہیں کہ پروردگار! ان میں فلاں شخص وہ بھی ہے جس کی طر ف گناہ کی نسبت کی جاتی ہے اور فلاں شخص اور فلاں عورت وہ بھی ہے جو گناہ گار ہے ۔آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ: میں نے اُنہیں بھی بخش دیا ۔ پھر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’ایسا کوئی دن نہیں ہے جس میں یومِ عرفہ کے برابر لوگوں کو آگ سے نجات کا پروانہ عطا کیا جاتا ہو۔‘‘
پھر اللہ نے جب حکم دیا کہ عرفات سے مزدلفہ آجاؤ، اب تم مجھے وہاں پاؤگے تو پھر سب وہاں پہنچ گئے، پھر اس کے بعد دوبارہ منیٰ واپسی کا حکم دیا کہ اب وہاں کچھ راتیں گزارو۔ منیٰ ’’ أمنیات‘‘ (امیدوں) سے ہے،منیٰ میں موجود رہ کر اللہ کو مناتے رہو، اللہ سے امیدیں باندھو ۔ منیٰ کا قیام ہمارے لیے ترغیب اور تربیت ہے، دنیا کے ساتھ اپنی تمنائیں اور اُمیدیں نہ باندھے، دنیا میں اپنی خواہشات کو نہ ڈھونڈے، غیراللہ کے ساتھ اُمیدیں نہ باندھے، بلکہ صرف ایک ذات کو اپنی اُمید کا مرکزومحور بنالے، اُس ایک ذات سے مانگے اور دعائیں کرتا رہے اورمنیٰ میں رہ کر شیطان کو دھتکارتا رہے اورمارتا رہے۔ ایک طرف اللہ نے منیٰ میں عبادات اور دعاؤں کا حکم دیا، اس کے ساتھ ہی شیطان کو جاکرکنکریاں مارنے کا حکم بھی دیا۔ اگر ان ارکان کو اُن کی صحیح روح اور حقیقت کے ساتھ ادا کیا جائے تو اس کا بہت گہرا اثر انسان کی زندگی پر پڑتا ہے، اور پھر ساری زندگی ان شاء اللہ! اسی طرح وہ شیطان کو دھتکارتا رہے گا اور اللہ سے مانگتا رہے گا۔
یہ ایک عام خیال ہے کہ بس توفیق مل گئی، یہی اصل ہے۔ اسی طرح کہتے ہیں کہ’’بلاواتو نصیب والوں کا ہوتا ہے۔‘‘ اب وہ صاحبِ نصیب توفیق ملنے کے بعد یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ اب میں یہاں آگیا ہوں، جیسے چاہے وقت گزاروں، سب قبول ہے۔ توفیق یا نصیب کا مل جانا یہ یقیناً سعادت مندی کی علامت ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ احتیاط اور ڈر بھی ضروری ہے۔ اگر قدردانی اور شکرِ نعمت ہوگا تو اس توفیق میں مزید اضافہ بھی ہوگا۔ بعض بزرگوں کے بارے میں سنا گیا، وہ فرمایا کرتے تھے کہ: حج سے ڈرنا چاہیے۔ حج سے اس لیے ڈرنا چاہیے کہ اگر آپ حج اس مقصد اور مطلوبہ کیفیت کے ساتھ نہیں کررہے تو وہ نجات کا ذریعہ بننے کی بجائے سوہانِ روح اور وبالِ جان بن جاتا ہے۔ جو شخص محض شہرت، تفریح، نام وری، ریاکاری اور دکھلاوے کی غرض سے حج کرے گا تو وہ کہاں سے خدا کو پاسکے گا؟!۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
 ’’لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ میری اُمت کے مال دار سیر وتفریح کے لیے حج کریں گے اور بیچ کے درجہ کے لوگ تجارت کے لیے کریں گے۔ اُن کے علماء اور پڑھے لکھے ریا، شہرت اور نام وری کے لیے کریں گے اور غریب لوگ سوال (مانگنے) کے لیے کریں گے۔‘‘     (القریٰ: ص:۳۱)
حج کیفیات کے ساتھ ہے، اس لیے دورانِ حج مقصد اور کیفیات کا احساس بار بار ہونا چاہیے، اس کی فکرکرنی چاہیے، لوگ بھول جاتے ہیں۔ شیطان تو ہر وقت انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے، وہ اُسے گمراہ کرنے سے کبھی غافل نہیں رہتا۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ بس بلاوا آگیا، توفیق مل گئی تو خوش ہوگئے کہ اب میں یہاں پہنچ گیا ہوں، اب جو کروں جیسے کروں، وہ سب قبول ہے۔ اگر یہ تصور اور سوچ ہے تو یہ بھی شیطان ہی کا دھوکہ ہے اور شیطان کے انہی حملوں سے بچنا یہ بھی حج کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد ہے۔ دورانِ حج غفلت، بےتوجہی اور لاپروائی کی وجہ سے ہم کتنے غیر شرعی کام کرلیتے ہیں: سب سے پہلے حج کو جاندار انسانی تصویروں اور فلموں سے سمجھا جاتا ہے، وہاں پہنچنے کے بعد بھی ٹی وی دیکھتے رہتے ہیں۔ نمازوں کے ادا کرنے میں کوتاہی، جماعت کی پابندی میں کوتاہی، اِحرام باندھنے کے بعد بجائے تلبیہ وذکراللہ کے غیبت، گناہ، منکرات ومنہیات کا ارتکاب، نامحرم عورتوں سے اختلاط، عورتوں کی بے پردگی، بدنظری اور دیگر کئی گناہ حج کے دوران سرزد ہورہے ہیں۔ ان گناہوں کے اثر سے دل کی وہ کیفیت ہوجاتی ہے کہ جو ملنا ہوتا ہے وہ نہیں ملتا۔ یقیناً توفیق اس انسان کو بھی ملی ہے، لیکن یہ گناہوں کے ذریعے اپنی توفیق کو ضائع کرکے محروم ہورہا ہے۔ عبادات کے ذریعے مرتب ہونے والے فوائد وثمرات کی حفاظت کے لیے گناہوں سے بچنا سخت ضروری ہے۔ اگر پرہیز کے ساتھ حج ہوگا تو حج کا فائدہ بھی ظاہر ہوگا۔ اگر گناہ اور منکرات ومنہیات سے پرہیز نہ کیا اور جو توفیق اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملی تھی، اُس کی کماحقہ قدر نہیں کی توپھر وہ شیطان کے حملوں سے نہیں بچا۔ شیطان کے حملے اسی طرح جاری رہیں گے اور وہ اپنا کام کرتا رہے گا۔
اگر ایک آدمی صاحبِ استطاعت ہونے کے باوجود فرض حج نہیں ادا کرتا تو یہ ناشکری اور ناقدری ہے۔ گویا عملی طور پر وہ خدا کو اپنی عدمِ احتیاج کا اظہار کررہا ہے کہ مجھے تو آپ کی ضرورت ہی نہیں، حالانکہ اُسے مال واسباب سے جو نوازا گیا تھا وہ اس لیے تھا کہ اب تم میری طرف آجاؤ، لیکن تم نہیں آئے۔ یہ تو اللہ کی مہربانی ہے کہ اس نے صرف صاحبِ استطاعت پر اور وہ بھی زندگی میں صرف ایک مرتبہ حج فرض کیا ہے، حدیث میں آتا ہے:
’’عن عليؓ: من ملک زاداً و راحلۃً تبلغہ إلٰی بیت اﷲ الحرام فلم یحج فلا علیہ أن یموت یہودیاً أو نصرانیاً۔‘‘ (ترمذی،ج:۱،ص:۱۰۰)
ترجمہ:’’حضرت علی رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: جس شخص کے پاس سفرِ حج اور بیت اللہ تک پہنچنے کے لیے سواری کا انتظام ہو اور پھر وہ حج نہ کرے تو کوئی فرق نہیں اس بات میں کہ وہ یہودی ہوکر مرجائے یا نصرانی ہوکر مرے۔‘‘
اسی طرح آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:
’’ من أراد الحج فلیتعجل ۔‘‘ (ابوداؤد،ج:۱،ص:۲۴۲)
ترجمہ :’’جس نے حج کا ارادہ کرلیا تو اب اُسے چاہیے کہ وہ جلدی کرے۔ ‘‘
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ جب فرض حج ادا ہوگیا تو اب نفلی حج کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھی اپنی حیاتِ طیبہ میں ایک ہی دفعہ حج کیا۔ غور کیا جائے تو یہ بھی خدا کا اُمت پر احسان ہے کہ اس نے صاحبِ استطاعت پر زندگی میں صرف ایک ہی مرتبہ حج فرض قرار دیا کہ ہاں! اگر ایک دفعہ بھی تم نے حج کرکے اپنے رب کوپالیا اور تمہاری زندگی تبدیل ہوگئی تویہ بھی تمہارے لیے کافی ہے، ورنہ جس کو اللہ نے ہمیشہ نوازا ہے، اگر وہ کامل زندگی بھی اس راستے میں لگادے اور بار بار حج کرتا رہے تو بھی حق نہیں ادا ہوسکتا، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: 
’’عن عبد اللہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :تابعوا بین الحج والعمرۃ، فإنہما ینفیان الفقر والذنوب کما ینفي الکیر خبث الحدید والذہب والفضۃ ولیس للحجۃ المبرورۃ ثواب إلا الجنۃ۔‘‘   (ترمذی، ج:۱،ص: ۱۶۷)
ترجمہ: ’’نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: ’’پے در پے حج وعمرے کیا کرو، کیونکہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو اس طرح صاف کردیتے ہیں جیسے بھٹی لوہے، سونے اور چاندی کے میل کو صاف کردیتی ہے، اور حجِ مبرور کا ثواب صرف جنت ہے ۔‘‘
یہ بات بھی زبان زَد عام ہے کہ نفلی حج کی بجائے اس رقم سے کسی غریب اورمستحق کی ضرورت کو پورا کردیا جائے تو وہ زیادہ بہتر ہے۔ اس بات کو خوب اچھی طرح سمجھ لیجئے، ایک مد ہے زکوٰۃ اور صدقاتِ واجبہ، جس کا مستحق ایک غریب اور ضرورت مند ہی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ صدقاتِ نافلہ بھی ہیں، مثلاً: انسان کا اپنی ذات پر خرچ کرنا، اپنی اولاد واہل وعیال پر خرچ کرنا، کسی کو ہدیہ تحفہ دے دینا، کسی کی دعوتِ طعام کردینا،کسی ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنا اور کوئی کارِ خیر کرنا، یہ تمام صدقاتِ نافلہ ہیں۔ صدقاتِ نافلہ میں انسان کو اختیار ہے، دل چاہے تو یہ کرلے اور دل چاہے تو وہ کرلے۔ صدقاتِ واجبہ کو صدقاتِ نافلہ کے ساتھ خلط نہیں کرنا چاہیے۔ غریب اور ضرورت مند کے لیے تو اللہ نے صاحبِ نصاب پر ہر سال زکوٰۃ اور صدقۂ فطر فرض کیا ہے، جو صاحبِ نصاب کو ہر سال اور ہر حال میں ادا کرنا چاہیے۔ صاحبِ استطاعت‘ نفلی حج، زکوٰۃ یا صدقاتِ واجبہ کی رقم سے تو ادا نہیں کررہا اور نہ ہی کرسکتا ہے۔ اگر ایک صاحبِ حیثیت زکوٰۃ اور صدقاتِ واجبہ ادا کررہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بطورِ صدقۂ نافلہ اللہ کے راستے میں اس کے قرب کی خاطر حج ادا کررہا ہے تو یہ بھی شریعت کے تقاضے کے مطابق ہے ۔ صدقاتِ نافلہ میں انسان جہاں بھی خرچ کرے وہ کارِ خیر ہے اور ایک کارِخیر کو دوسرے پر وقتی حالات اور ضرورت کے پیش نظر ترجیح تو دی جاسکتی ہے، لیکن کسی ایک ہی کو افضل سمجھ لینا یا ان کارہائے خیر میں باہمی تقابل کرنا یہ مناسب نہیں ہے۔ بسااوقات یہ شیطان کا دھوکہ بھی ہوتا ہے کہ انسان یہ سوچتا ہے کہ فلاں نیک کام ابھی نہیں کرنا، بعد میں کرلوں گا، ابھی کوئی دوسرا نیک کام کرلیتا ہوں،پہلاکارِ خیر مؤخر کردیا اور اس کا وقت گزر گیااوردوسرا نیک کام جس کا ارادہ کیا تھا پھروہ بھی نہ کرسکا، چنانچہ اس سوچ کی وجہ سے وہ کارِخیر سے ہی محروم ہوجاتا ہے ۔
ایک بات یہ بھی ہے کہ زکوٰۃ یا صدقاتِ واجبہ مالی عبادات کی قبیل سے ہیں، جبکہ حج مالی اور جانی دونوں قسم کی عبادت ہے ۔ بسااوقات تن آسانی کے لیے بھی شیطان اس طرح ورغلاتا ہے،کیونکہ حج در اصل مشقت کا نام ہے ۔ ہزاروں سہولیات واسباب بڑھنے کے باوجود آج تک وہ مشقت ہر دور کے اعتبار سے برقرار ہے ۔ یہ مشقتیں بھی حج کے اجر کو بڑھاتی ہیں ۔نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے حجِ قِران ادا فرمایا تھا،یعنی ایک سفر اور ایک احرام کے اندر دوعبادتوں کو جمع کرنا، اس میں مشقت بھی زیادہ ہے اور ثواب بھی زیادہ ہے، اسی لیے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  نے قِران کو افضل کہا ہے۔ غرض تن آسانی کی وجہ سے بھی یہ دھوکہ ہوجاتا ہے ۔
اکثر لوگوں کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ حج تو بڑھاپے کی عبادت ہے،ابھی جوان ہیں، جب گناہوں سے مکمل توبہ کرلیں گے تب جاکر حج کریں گے۔تو یہ بھی درحقیقت شیطان ہی کا دھوکہ ہے، گویاکہ اس سوچ اور فکر سے یہ بات طے کرلی ہے کہ ہم نے ابھی مزید گناہ کرنے ہیں۔ یہ سوچ بذات خود بہت بڑا گناہ ہے کہ اس نیت سے اپنے آپ کو حج فرض سے روک لیا۔جب حج کو اس کی حقیقی روح، مطلوبہ کیفیات اور مقاصد کے ساتھ گناہوں سے بچتے ہوئے اور خالص توبہ کرتے ہوئے ادا کیا جائے تو یقیناً ان شاء اللہ! سابقہ گناہ بھی معاف ہوجائیں گے اور آئندہ زندگی بدل جائے گی۔ حجِ مبرور کہتے ہی اس کو ہیں کہ جس سے زندگی تبدیل ہوجائے۔ پھر اگر نیت خالص ہوگی اور انسان بالارادہ و بالاختیار گناہوں سے بچے گا تو اللہ تعالیٰ بھی اُسے گناہوں سے بچنے کی توفیق دیں گے۔جس کی یہ سوچ ہے کہ حج بڑھاپے کی عبادت ہے تو گویا اس نے حج کا فلسفہ ہی نہیں سمجھا۔
حج جیسے عظیم الشان اجر وثواب اور فضیلت کے باوجود کتنے لوگ ایسے ہیں جن پر حج فرض ہے، لیکن وہ فریضۂ حج کی ادائیگی کے لیے نہیں جاتے۔ کوئی بیوی بچوں کی تنہائی کا بہانہ بناتا ہے تو کوئی روپے پیسے اور مال ودولت کے خرچ پر نکتہ چینی کرتاہے۔ کوئی دکان اور کاروبار کے اُجڑجانے کا اندیشہ ظاہر کرتا ہے توکوئی بیٹوں اور بیٹیوں کی شادی کا ہمالیہ کھڑا کردیتا ہے اور کوئی طویل صعوبتوں اور مشقتوں سے خوف زدہ نظر آتا ہے۔یہ سب اندیشے، وسوسے، خیالات اور توہمات اُنہی لوگوں کا حصہ اور نصیب ہیں جن کے دل ودماغ عشقِ الٰہی سے خالی اوربیت اللہ کی عظمت وبرکات سے بے بہرہ ہیں،ورنہ کون کلمہ گو انسان ایساہوگا جو انوارات وتجلیات کے اس عظیم ترین مرکز اور بے بہارحمتوں اور برکتوں کے خزانہ سے دور رہنا گوارہ کرسکے؟  فَاعْتَبِرُوْا یٰٓاُولِی الْاَبْصَارِ۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین