بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

بینات

 
 

حدیث ’’مسلسل بالأولیۃ‘‘ کی توضیح اور علم کی خصوصیات

حدیث ’’مسلسل بالأولیۃ‘‘ کی توضیح اور علم کی خصوصیات

 

بتاریخ ۱۶؍ ربیع الاول ۱۴۴۶ھ مطابق ۱۹ ؍ستمبر ۲۰۲۴ء جامعہ بنوری ٹاؤن کے سابق استاذ اور جامعہ دارالعلوم زکریا ساؤتھ افریقہ کے شیخ الحدیث حضرت مفتی رضاء الحق صاحب مدظلہم جامعہ تشریف لائے، اس موقع پر جامعہ کے دارالحدیث میں اساتذہ اور طلبہ کرام کے مجمع میں خطاب فرمایا،اور اجازتِ حدیث دی، حدیث ’’مسلسل بالأولیۃ‘‘ کو بیان کرنے کے بعد اس کی پرمغز تشریح کرتے ہوئے قیمتی نکات ذکر فرمائے، جسے جامعہ کے تخصصِ علومِ حدیث کے طالب علم مولوی محمد انس عطاء اور دورہ حدیث کے طالب علم مولوی محمد احمد شہباز نے قلم بند کیا۔ ادارہ بینات عنوانات وغیرہ کے اضافے کے بعد اس خطاب کو افادۂ عام کی غرض سے شائع کررہا ہے۔   (ادارہ)


’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، الحمد للہ ربِّ العالمین، و الصلوٰۃ و السلام علیٰ سید الأنبیاء و المرسلین، محمدٍ و علیٰ اٰلہٖ و أصحابہٖ و أزواجہٖ و أہل بيتہٖ و ذرّیّاتہٖ و أتباعہٖ أجمعین إلیٰ یوم الدین، أما بعد، فقد قال النبي ﷺ: ارْحَمُوا مَنْ فِي الْاَرْضِ يَرْحَمْکُمْ  - أو يَرْحَمُکُمْ - مَنْ فِي السَّمَاءِ۔ (سنن الترمذي: ۱۹۲۴) أو کما قال النبي ﷺ‎‘‘
محترم طلبہ کرام! جو دورۂ حدیث کے طالب علم ہیں یا تخصص کے طالب علم ہیں، ان کے سامنے میں نے یہ حدیث پڑھ لی، ہمارے مشائخ خصوصاً ہمارے شیخ حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی  رحمۃ اللہ علیہ  حدیث کی مجلس میں اور مدارس کے آخری طلبہ (دورہ حدیث کے طلبہ) کی مجلس میں سب سے پہلے یہ حدیث پڑھتے تھے، ان کی اتباع اور اقتدا میں، میں نے بھی آپ کے سامنے یہ حدیث پڑھی۔ اس حدیث میں ’’ مسلسل بالأوّلیّۃ‘‘ کی خاصیت بھی ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ طلبہ کے ساتھ رہنے سہنے اور طلبہ کی تربیت کی تعلیم بھی ہے۔ حضرت مفتی محمد حسن گنگوہی  رحمۃ اللہ علیہ  اور اسی طرح حضرت شیخ محمد یونس جونپوری، پھر سہارنپوری  رحمۃ اللہ علیہ  ان دونوں سے ہم نے مجلسِ علم میں سب سے پہلے یہ حدیث سنی، اور انہوں نے یہ حدیث سب سے پہلے حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا  رحمۃ اللہ علیہ  سے سنی، اور انہوں نے سب سے پہلے یہ حدیث اپنے شیخ صاحبِ ’’بذل المجہود‘‘ حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری  رحمۃ اللہ علیہ  سے سنی، اور انہوں نے یہ حدیث سب سے پہلے اپنے شیخ حضرت مولانا عبد القیوم بُڈھانوی  رحمۃ اللہ علیہ  سے سنی، جو مولانا عبد الحی بڈھانوی کے صاحبزادہ تھے، اور یہ وہی مولانا عبد الحی بُڈھانویؒ ہیں جو ہمارے علاقہ صوبہ(خیبر) پختون خواہ میں آئے تھے اور سخاکوٹ سے آگے بٹ خیلہ کے قریب بہت بڑا قبرستان ہے، اس قبرستان میں مولانا عبد الحی بُڈھانویؒ کی قبر ہے۔

عبد الحی نام کی شخصیت

مولانا عبد الحی (نام کے) کئی حضرات گزرے ہیں، اور سب عالم فاضل اور بہت اونچے درجہ کے تھے:
1-مولانا عبد الحی لکھنوی، ان کو تو ہم اور آپ جانتے ہیں، جن کا انتقال اُنتالیس سال کی عمر میں ہوا تھا، ‎ ایک کم چالیس، اور اس کے باوجود اُن کے قلم سے ہزاروں صفحات نکلے ہیں اور بے شمار کتابیں لکھی ہیں، عالم فاضل تھے اور چودہ سال کی عمر میں تعلیم فرمایا کرتے تھے، معلّم تھے اور تدریس کرتے تھے۔ اور ہم نے اپنے اساتذہ سے سناہے کہ مولانا عبد الحی لکھنوی مدرس بھی تھے اور کھیل رہے تھے، چودہ سال کی عمر کیا چیز ہے؟ آپ کو معلوم ہے، کھیل رہے تھے، تو کسی نے کہا: آپ مدرس ہوکر کے کھیل رہے ہیں؟ تو انہوں نے ایک شعر کہا:

شَیْئانِ عَجیبانِ ہما أبْرَد مِن يَخْ
شَیْخٌ یَتصبَّأ  وَ صَبِيٌّ  یَتشَیَّخْ

یعنی’’دو چیزیں یخ سے(جمے ہوئے پانی اور برف سے) ٹھنڈی ہیں، (ناقابلِ برداشت ہیں) ’’شَیْخٌ یَتصبَّأ‘‘ ایک بوڑھا جو بچہ بن جائے، ’’ صَبِيٌّ یَتشَیَّخْ‘‘ اور دوسرا بچہ جو بوڑھا بن جائے۔‘‘ 
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ( رحمۃ اللہ علیہ ) کی اولاد نہیں تھی، انہوں نے اپنے ایک مرید سے کہا: ’’اپنے بچہ کو لائیے، تاکہ تھوڑی دیر اُن کے ساتھ کھیلیں اور مزاح کریں۔‘‘ وہ اپنے بچہ کو لائےاور اس کو بہت مؤدَّب بنایا: اس طرح بیٹھو گے، اس طرح اُٹھو گے، اس طرح سلام کرو گے۔ جب وہ آیا اور اس نے حضرت تھانوی  رحمۃ اللہ علیہ  کے ساتھ ادب کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا شروع کیا، تو حضرت تھانوی  رحمۃ اللہ علیہ  نےفرمایا: ’’بھائی! میں نے تو کہا بچہ کو لائیے، آپ تو اپنے باپ کو لے آئے‘‘! بچپن کی خصوصیات الگ ہوتی ہیں، اور بڑھاپے کی خصوصیات الگ ہوتی ہیں، تو عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک تو یہ مولانا عبد الحی ہیں۔
2-دوسرے مولانا عبد الحی سورتی ہیں، جو ہندوستان کے گجرات کے بہت بڑے عالم تھے اور بہت سی تصانیف انہوں نے لکھی ہیں۔ اور ان کی جمعہ کے خطبات کی ایک کتاب بھی ہے، جو بالکل مقاماتِ(حریری) کے طرز پر ہے، اور اتفاق سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی اور ان مولانا عبد الحی سورتی کے خطبات پر ہم نے تعلیقات کا کام کیا، افسوس کی بات یہ ہے کہ ہندوستان سے ایک یا دو مرتبہ چھپی اور پاکستان سے نہیں چھپی! ورنہ وہ مقامات کے ساتھ مطالعہ کرنے کے قابل کتاب ہے! ان کی اور بھی بہت سی کتابیں ہیں، ممکن ہے کہ آپ نے اُن کا نام سنا ہو یا نہ سنا ہو، یہ ہیں عبد الحی سورتی۔
3-اور ایک مولانا عبد الحی تیسرے ہیں، جنہوں نے رجال پر بہت کام کیا اور مصنفین کے حالات لکھے ہیں اور وہ مولانا عبد الحی لکھنوی کے بعد گزرے ہیں، اوریہ ہمارے شیخ عبد الفتاح ابو غدہ  رحمۃ اللہ علیہ  کے بالواسطہ یا بالذات استاذ بھی تھے۔ تو وہ مولانا عبد الحی رجال کے ماہر تھے اور تصنیفات کے ماہر تھے، اور انہوں نے جو رجال پر کتاب لکھی ہے وہ سب سے جامع کتاب ہے۔ انہوں نے جب مولانا عبد الحی لکھنوی کے حالات لکھے ہیں تو اس میں لکھا ہے: ’’میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے عبد الحی لکھنوی کا ہم نام بنایا، میرا نام بھی عبد الحی ہے اور مولانا عبد الحی لکھنوی کا نام بھی عبد الحی ہے، ممکن ہے کہ اس نام کی شرکت کی برکت سے اللہ تبارک و تعالیٰ مجھے مقبول بنا دے، جیسے ان کو مقبول بنایا۔‘‘ یہ مولانا عبد الحی تیسرے نمبر پر تھے۔ 
4-اور چوتھے مولانا عبد الحی وہ ہیں جو شاہ اسماعیل شہید  رحمۃ اللہ علیہ  کے ساتھ تھے، اور وہ جہاد کے لیے تشریف لائے تھے، اور فقہ وغیرہ میں بہت ماہر تھے، اور مولانا سید احمد شہیدؒ اُن کو’’ شیخ الاسلام‘‘ کہتے تھے اور مولانا اسماعیل شہیدؒ کو ’’حجۃ الاسلام‘‘ کہتے تھے، تو ان مولانا عبد الحی بُڈھانویؒ کے صاحبزادہ تھے مولانا عبد القیوم بُڈھانویؒ، ان سے حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ نے حدیث ’’مسلسل بالأوّلیّۃ ‘‘ لی ہے، اور یہ مولانا عبد الحی بڈھانویؒ جہاد میں پھر شہید نہیں ہوئے تھے، جہاد کے لیے تو آئے تھے، لیکن ان کو بواسیر کی بیماری ہوئی اور وہیں جیسے آپ کو بتایا بٹ خیلہ میں ایک بہت بڑا قبرستان ہے(وہیں مدفون ہیں)، بٹ خیلہ میں دو چیزیں ہیں: ایک تو اس کا بازار بہت مشہور ہے، بہت لمبا بازار ہے۔ ایک اس کا مقبرہ، اس کے مقبرہ میں آدمی چلتے چلتے تھک جاتا ہے، اور اب تک وہاں مولانا عبد الحی بڈھانویؒ کی قبر محفوظ ہے اور معلوم ہے، تاریخ بھی لکھی ہے کہ کس تاریخ کو وفات پائی؟

مدار الاسنادحضرت مولانا شاہ محمد اسحاق  رحمۃ اللہ علیہ 

میں عرض کررہا تھا کہ مولانا خلیل احمد سہارنپوری  رحمۃ اللہ علیہ  نے مولانا عبد القیوم بڈھانوی رحمۃ اللہ علیہ  سے اور مولانا عبد القیوم بڈھانوی رحمۃ اللہ علیہ  نے یہ حدیث ’’مسلسل بالأوّلیّۃ ‘‘حضرت شاہ محمد اسحاق  رحمۃ اللہ علیہ  سے لی ہے۔ اور حضرت مولانا شاہ محمد اسحاق  رحمۃ اللہ علیہ  ’’مدار الإسناد‘‘ ہیں۔ ہندوستان میں اور بعض عرب کے علاقے میں جتنی اسانید ہیں وہ سب شاہ محمد اسحاق  ؒ تک پہنچتی ہیں، حضرت شیخ مولانا محمد زکریا کاندھلوی  رحمۃ اللہ علیہ  نے لکھا ہے کہ: ’’ایک مرتبہ میرےذہن میں آیا کہ ہندوستان میں جتنے حدیث پڑھانے والے ہیں (اس وقت ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش ایک تھا) ہند میں جتنے پڑھانے والے ہیں، وہ بریلوی ہوں، غیر مقلد ہوں (جو اہل حدیث اپنے آپ کو کہتے ہیں)، یا دیوبندی ہوں یا کسی اور فرقہ سے ہوں، ان سب کو خطوط لکھوں کہ آپ اپنی سندِ حدیث کو بیان کیجیے۔‘‘ اس وقت محدثین‘ بخاری پڑھانے والے بہت کم ہوتے تھے، جب کسی مدرسہ سے شیخ الحدیث چلے جاتے تھے، تو وہ دوسرے شیخ الحدیث کے لیے پریشان ہوتے تھے، اور اس زمانے میں اچھے اچھے شیخ الحدیث تھے، شیخ فرماتے ہیں کہ :’’میں نے مختلف جماعتوں کو خطوط لکھے، تاکہ ان کا جواب آجائے، کہتے ہیں کہ: بریلویوں کی طرف سے، غیر مقلدین کی طرف سے، دیوبندیوں کی طرف سے، دوسروں کی طرف سے جتنی اسانید تھیں سب شاہ محمد اسحاق  ؒ تک پہنچی تھیں۔‘‘ اور شاہ محمد اسحاق  رحمۃ اللہ علیہ ، شاہ ولی اللہ  رحمۃ اللہ علیہ  کے پڑنواسے ہیں، اللہ تبارک و تعالیٰ یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ انسان اور عالم کا سلسلۂ سند پوتے سے پہنچے، کبھی کبھی اللہ تبارک و تعالیٰ سلسلۂ سند، بیٹی کے راستے سے نواسے کے ذریعہ سے بھی پھیلاتے اور پہنچاتے ہیں، خود رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  جو علم کا مرکز، عمل کا مرکز، نور کا مرکز، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  ان سب چیزوں کے مرکز تھے اور ان کا سلسلۂ نسب، سلسلۂ علم اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی بیٹیوں کے ذریعہ سے، اور صاحبزادیوں کی نسل کے ذریعہ سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے پھیلایا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ اور حضرت شاہ عبدالعزیز رحمہما اللہ کا سلسلہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے نواسے کے ذریعہ سے پھیلایا۔ اور ہم نے سنا ہے کہ شاہ اسحاق  رحمۃ اللہ علیہ  کی زبان میں اتنی زیادہ فصاحت اور بلاغت نہیں تھی جتنی فصاحت و بلاغت دوسرے علماء میں ہوا کرتی ہے، لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ دلوں کو دیکھتے ہیں، اخلاص کو دیکھتے ہیں، ان کے اخلاص کی برکت سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے پورے سلسلہ کو پھیلایا، دنیا کے کونے کونے میں پھیلایا۔

پہلی وحی کے موقع پر تین بار دبانے کی حکمت

آپ حضرات بخاری جلد اول کی تیسری حدیث میں پڑھتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: ’’مجھے حضرت جبرئیل علیہ السلام نے تین مرتبہ دبایا، تین مرتبہ سینہ سے ملا کر دبایا‘‘ وہ جو تین مرتبہ دبانا ہے، اس کی مختلف حکمتیں بیان کی گئی ہیں، مثلاً: ایک حکمت یہ ہے، بھائی! یہ جو علم ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا دین ہے، یہ تین چیزوں پر مشتمل ہے: علم، عمل، دعوت۔ یہ تینوں مشقت کی چیزیں ہیں، تینوں کے لیے تیار ہو جاؤ، ایک مرتبہ دبایا، یعنی یہ علم آپ کو دبائے گا، جب علم آپ کو دبائے گا اور علم کی مشقت برداشت کرو گے تب آپ کے ذریعہ سے علم پھیلے گا:

بِـقَدْرِ  الْکَدِّ  تُکْـتَسَبُ  الْمَعَالِي

وَمَـنْ طَـلَبَ الْعُلَا سَہِرَ اللَّيَالِي
تَرُومُ  الْعِزَّ  ثُمَّ  تَنَامُ  لَيْلًا

يَغُوصُ الْبَحْرَ مَنْ طَلَبَ اللّآلِي
وَمَـنْ طَلَبَ الْعُلَا مِنْ غَيْرِ کَدٍّ

اَضَاعَ الْعُمْرَ فِي طَلَبِ الْمُحَالِ

یہ اشعار تو آپ بار بار سنتے ہیں، تو یہ علم انسان کو دبانے والا ہے۔ اور علامہ تفتازانیؒ کے دو شعر تھے، ان کا خلاصہ یہی ہے کہ پہلے میں سوچ رہا تھا کہ یہ ’’جنون کےفنون ہیں‘‘ (یعنی)جنون کی مختلف قسمیں ہیں، لیکن علم حاصل کرنے کے بعد مجھے پتا چلا کہ ’’جنون، فنون نہیں ہیں‘‘، ’’فنون، جنون ہیں‘‘، یہ فنون، آدمی کو مجنون بناتے ہیں، پاگل بناتے ہیں۔ پہلے زمانے میں ایک ایک روایت کے لیے اور ایک ایک علم کے لیے لوگ دور دور کا سفر کرتے تھے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ تھا کہ تین مرتبہ دبایا: (اولاً) علم آپ کو دبائے گا، تیار رہو!اے طالب علم! تیار رہو! بخاری کی ابتدا میں یہ حدیث آئی ہے۔ (ثانیاً)اے طالب علم! عمل آپ کو دبائے گا!اور عمل مشکل کام ہے اور عمل مقصد ہے: ’’إِنَّ اللہَ لَا يَنْظُرُ إِلٰی صُوَرِکُمْ، وَ أمْوَالِکُمْ، وَلٰکِنْ يَّنْظُرُ إِلٰی قُلُوْبِکُمْ وَأعْمَالِکُمْ‘‘ (رواہ مسلم)  اللہ تعالیٰ قلب اور عمل کو دیکھتے ہیں، تو عمل مشکل ہے، کسی سے کہا جائے: بھائی! تہجد کے لیے اُٹھنا پڑے گا، اور تہجد میں اتنی رکعتیں پڑھنی پڑیں گی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جب تہجد کے لیے اُٹھتے تھے تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ  کی روایت ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پہلی رکعت میں(سورۃ) بقرۃ پڑھی، دوسری رکعت میں (سورۃ) آل عمران پڑھی، تیسری رکعت میں (سورۃ) نساء پڑھی، چوتھی رکعت میں (سورۃ) مائدۃ پڑھی اور جتنا قیام، اتنا رکوع اور جتنا رکوع، اتنا سجدہ، جتنا رکوع و سجدہ، اتنا قومہ اور اتنا جلسہ، اس میں کتنے گھنٹے لگ گئے ہوں گے؟ یہ حضرت حذیفہؓ سے غالباً ابوداؤد شریف کی حدیث ہے ، تو عمل آپ کو دبائے گا۔ پھر اس کے بعد (ثالثاً) دعوت آپ کو دبائے گی، دعوت کا کام آپ کو دبائے گا، اس لیے بعض حضرات فرماتے ہیں کہ: دعوت کے کام میں پرانے لوگوں کو جتنی دلچسپی لینی چاہیے تھی، اتنی دلچسپی نہیں لی، ورنہ جیسے عرب فاتحین کا کام تھا، عرب فاتحین جس ملک میں جاتے تھے، زمین کو بھی فتح کرتے تھے اور قلوب کو بھی فتح کرتے تھے، اور ہمارے پرانے زمانہ کے فاتحین جہاں جہاں گئے اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے کم از کم زمین کی فتوحات تو کی ہیں، لیکن قلوب کی فتوحات نہیں۔

قدیم سجستان اور خراسان کا جغرافیہ

دیکھو! لبنان ہے، وغیرہ وغیرہ ہے، اکثر مسلمان ہوگئے، صحابہ کرامؓ نے فتوحات کی ہیں، ایران ہے، افغانستان ہے، ہمارے علاقہ تک، یہ جو ہمارا علاقہ ہے صوابی وغیرہ، یہاں تک سَجِستان ہے، افغانستان دو مِنطقوں پر مشتمل ہے: ایک خراسان اور ایک سجستان، سجستان‘ قندھار سے لے کر غزنی اور کابل تک اور وہاں سے لے کر یہ ہمارے دریائے سندھ تک جس کو دریائے سندھ کہتے ہیں، اور ہم(اہلِ سرحد) اس کو ’’اباسین‘‘ کہتے ہیں، یہ پورا سجستان تھا، اور بلوچستان مکمل اس میں شامل تھا، اس کو کہتے ہیں: ’’سجستانِ کبیر‘‘، اب تو ’’سیستان‘‘ ایک چھوٹا سا علاقہ رہ گیا ہے۔ اور ’’خراسانِ کبیر‘‘ بھی بہت بڑا تھا، ایران کا خراسان، یہ ہرات کا علاقہ اور افغانستان کا مغربی علاقہ اور افغانستان کا شمالی علاقہ اور پورا ازبکستان، تاجکستان، ترکمانستان، ترکمانستان یہ بھی خراسان میں تھا اور(امام) نَسائی وہاں کے رہنے والے ہیں، نسائی ’’نَسأ‘‘ کے رہنے والے ہیں اور ’’نَسأ‘‘ کا پرانا نام’’نَسأ‘‘ ہے، آج کل ’’اشک آباد‘‘ کہتے ہیں، تو یہ پرانا ’’نَسأ‘‘ہے، یہ بھی خراسان میں تھا ۔بخارا، سمرقند، ازبکستان، کرغزستان کے بعض علاقے یہ پورا ’’خراسانِ کبیر‘‘ تھا، وہاں صحابہ کرامؓ نے فتوحات کی ہیں، سب مسلمان ہوگئے، افغانستان حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  کے زمانہ میں عبدالرحمٰن بن سمُرۃ  رضی اللہ عنہ نے فتح کیا، اور عبد الرحمٰن بن سمُرۃ رضی اللہ عنہ  نے کابل میں صلاۃ الخوف پڑھی تھی ، یہ خود سنن ابوداؤد میں موجود ہے، آپ ان شاء اللہ سنن ابوداؤد میں پڑھیں گے یا پڑھ لی ہوگی۔ پھر اس کے بعد جب حضرت معاویہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما  کے درمیان اختلاف پیدا ہوا، اور اختلاف کی بنیاد یہ تھی کہ حضرت معاویہ q سمجھتے اور فرماتے تھے کہ: خلافت بعد میں ہے اور دشمنانِ عثمانؓ کو ختم کرنا پہلے ہے، پہلے گند صاف کیا جائے، اس کے بعد خلافت مضبوط ہوگی، اور آسان الفاظ میں میں کہتا ہوں: پہلے انتقام اور بعد میں استحکام، یعنی حکومت کا استحکام بعد میں۔ اور حضرت علیq کی رائے تھی کہ پہلے استحکام (یعنی)میرے ہاتھ پر بیعت کرو، اس کے بعد انتقام۔ یہ اجتہادی اختلاف تھا۔ اس زمانہ میں افغانستان دوبارہ مسلمانوں کے ہاتھ سے نکلا، بغاوتیں ہو گئیں، جب حضرت معاویہ q کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے خلافت عطا فرمائی، تو حضرت معاویہ q  بہت باغیرت شخصیت تھے، انہوں نے پھر عبدالرحمٰن بن سمرۃq کو بھیجا کہ جو فتوحات آپ نے کی تھیں ان کو دوبارہ مکمل کریں، حضرت عبد الرحمٰن بن سمرۃq نے دوبارہ افغانستان کو فتح کیا۔ افغانستان، سجستان، خراسان دوبارہ فتح کیا، پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کو بلایا اور وہ بصرہ گئے، عبدالرحمٰن بن سمرۃq کا انتقال پھر بصرہ میں ہوا۔ میں یہ عرض کررہا تھا کہ جہاں صحابہ کرامؓ پہنچے وہاں سب مسلمان ہیں، افغانستان میں سب مسلمان ہیں، ازبکستان میں سب مسلمان ہیں، اور جو پشاور تک کا علاقہ ہے اور ہمارا علاقہ وہ سب مسلمان ہیں، الحمد للہ! یہ بعد میں ملحدین پیدا ہوگئے تو الگ بات ہے، ایران میں سب مسلمان، یہ الگ بات ہے کہ بعد میں روافض بن گئے، اس کے تو صحابہؓ ذمہ دار نہیں۔ اور بعد کے جو فاتحین ہیں وہ فتوحات کرتے رہے، اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے، لیکن سب لوگ مسلمان نہیں ہوئے۔تو حضرت شاہ محمد اسحاق  رحمۃ اللہ علیہ ، انہوں نے اپنے نانا حضرت شاہ عبد العزیز  رحمۃ اللہ علیہ  سے حدیث ’’ مسلسل بالأوّلیّۃ‘‘ سنی، اور حضرت شاہ عبد العزیزؒ نے شاہ ولی اللہؒ سے اور شاہ ولی اللہ ؒکے بعد کا جو سلسلہ ہے وہ ان کے رسالہ ’’الفضل المبین في مسلسلات النبي الأمین‘‘ میں مذکور ہے، وہاں آپ دیکھ سکتے ہیں۔

حدیث ’’مسلسل بالأوّلیّۃ‘‘ میں تسلسل کی ابتدااور دیگر خصوصیات

علماء کہتے ہیں کہ یہ حدیث ’’مسلسل بالأوّلیّۃ‘‘ہے سفیان بن عیینہؒ تک، سفیان بن عیینہؒ کے استاذ ہیں عمرو ابن دینارؒ، عمرو ابن دینارؒ کے استاذ ہیں ابو قابوسؒ، ابو قابوسؒ کو حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے ’’صدوق‘‘ کہا ہے، اور بعض دوسرے حضرات فرماتے ہیں کہ یہ ’’مجہول‘‘ تھے، کیوں کہ ان سے صرف ایک راوی ہے عمرو بن دینار، دوسرا راوی نہیں ہے، بہرحال! اس حدیث کو سب نقل کرتے ہیں، تین طبقوں میں مسلسل نہیں، عبد اللہ بن عمرو بن العاص صحابیؓ ہیں اکیلے، ان کے تلمیذ ہیں ابو قابوسؒ، وہ اکیلے ہیں، ان کے تلمیذ ہیں عمرو بن دینارؒ، عمرو بن دینارؒ کے بعد ہیں سفیان ابن عیینہؒ، ان سے یہ حدیث بہت زیادہ پھیل گئی ہے۔ اور حدیث ’’مسلسل بالأوّلیّۃ‘‘ میں بہت برکت ہوتی ہے، کہتے ہیں کہ اس میں انقطاع کا احتمال نہیں ہوتا، اس لیے کہ ہر ایک کہتا ہے: سب سے پہلے میں نے سنا تو انقطاع کا احتمال ختم ہوا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس حدیث میں حدیث کو تو الگ رکھو، حدیث کی کیفیت کو بھی محدثین نے محفوظ رکھا ہے، حدیث تو اپنی جگہ، حدیث کی کیفیت کو بھی انہوں نے ملحوظ اور محفوظ رکھا ہے، یہ حدیث ’’مسلسل بالأوّلیّۃ ‘‘کی خصوصیت ہے، اور اس کے علاوہ یہ بھی حدیث ’’مسلسل بالأوّلیّۃ‘‘ یا کوئی بھی حدیث مسلسل ہو، اس کی یہ خصوصیت ہے کہ راویوں نے حدیث کو تو کیا اُس کی کیفیات کو بھی نہیں چھوڑا، حدیث کو کیسے چھوڑتے؟! حدیث میں کیسے جھوٹ بولتے؟ انہوں نے تو حدیث کی کیفیات کو بھی ملحوظ رکھا! میں یہ عرض کررہا تھا، وہ جو تین مرتبہ دبانا ہے، اس میں علم آدمی کو دباتا ہے، عمل آدمی کو دباتا ہے: العلم من المھد إلی اللحد، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے علم ہے، اور 

مکتبِ عشق کے انداز نرالے دیکھے
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا

ڈاکٹر آرام سے سوجاتا ہے اور صبح نسخے لکھتا ہے، آپ مدرسین سے پوچھ لیں ان کی نیند حرام ہوتی ہے، جتنی مرتبہ پڑھائے گا اتنا زیادہ مطالعہ کرے گا۔ تو علم اور عمل، عمل بھی مقصود ہے۔

حضرت بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  کے ایک خادمِ خاص
 

حضرت مولانا محمد یوسف بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  کو تو ہم نے بہت قریب سے دیکھا ہے، ان کے دروس میں شرکت کی ہے، ان کی مجالس میں شرکت کی ہے، وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھتے تھے۔ مولانا بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  کے ایک خادم تھے علی بھائی، انگلینڈ کے رہنے والے تھے، اصل میں (افریقی ملک) موزمبیق کے تھے، ایک گجراتی طالب علم تھے، جب بھی حضرت نکلتے تھے، تشریف لاتے تھے، تو ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مسجد تشریف لاتے تھے، وہ باہر انتظار میں رہتے تھے، اب پچھلے سال اُن کا انتقال ہوا ، اللہ تعالیٰ مغفرت فرمادے، وہ اتنے اچھے طالب علم تھے کہ اگر کوئی اور طالب علم خدمت کے لیے آگے بڑھتا تو وہ پیچھے ہٹ جاتے، اور حضرت مولانا بنوری ؒچاہتے تھے کہ یہی میری خدمت کریں۔ ایک مرتبہ ایک اور طالب علم یا کوئی اور صاحب آگے بڑھے تو علی بھائی پیچھے ہٹ گئے، مولانا بنوریؒ نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا، جو دوسرے ساتھی تھے، انہوں نے مولانا رحمہ اللہ کا جوتا رکھا اور جوتے کی نوک کو قبلہ سے دوسری طرف کردیا، حضرت مولانا بنوری ؒنے فرمایا: جب آپ کو خدمت کا طریقہ نہیں آتا تو خدمت کے لیے کیوں آگے بڑھتے ہیں؟ یعنی جوتے کے پنجہ کو قبلہ کی طرف کرنا چاہیے۔ اتنے چھوٹے چھوٹے اعمال کا بھی وہ خیال رکھتے تھے، جیسے حدیث میں آتا ہے کہ جب آدمی سجدہ کرتا ہے تو ابو حمید ساعدی کی حدیث ہے، آپ نے پڑھی ہے کہ اپنے پنجہ کو قبلہ کی طرف متوجہ کرے، تو فرماتے تھے: جس طرح ہمارا پنجہ ہے، اسی طرح چپل کا بھی پنجہ ہے، چپل کا پنجہ بھی اسی طرح ہونا چاہیے۔
 حضرت مولانا محمد زکریا  رحمۃ اللہ علیہ  کے شاگرد تھے مولانا یونس جونپوریؒ، جو اپنے زمانے میں بہت بڑے محدث تھے، یہ سارے حالات محدثین کے اور ان کے مالہ و ما علیہ سب اُن کو یاد تھے، اور بہت نازک مزاج بھی تھے، ایک مرتبہ مولانا زکریا کاندھلوی  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا : ’’ابھی تک آپ کو لاٹھی رکھنا بھی نہیں آیا، یہ لاٹھی کا منہ ہے، اس طرح رکھنا چاہیے۔‘‘ یہ بہتر بات ہے، کوئی ضروری چیز نہیں ہے، لیکن میں عرض کر رہا تھا کہ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی وہ خیال رکھتے تھے، جب چھوٹے چھوٹے اعمال کا خیال رکھتے تھے تو بڑے اعمال کا کیسے خیال نہیں رکھتے ہوں گے؟ اور عمل کی وجہ سے علم میں برکت آتی ہے، عمل کی وجہ سے علم بڑھتا ہے، اب آپ سمجھ لیجیے کہ ایک آدمی مسجد آتا ہے کہ کیا دعا ہونی چاہیے؟ باہر جاتا ہے تو کیا دعا ہونی چاہیے؟ اس کی پریکٹس کرے گا تو وہ (دعا) اس کو آئے گی، عمل نہیں کرے گا تو اس کو علم کیا آئے گا؟! 

دوسری حکمت

علماء یہ بھی کہتے ہیں کہ تین مرتبہ دبانے کی ایک حکمت یہ ہو سکتی ہے کہ تین طبقے دین کو دبائیں گے، قرآن کریم کی برکت سے اور قرآن کریم کے جاری کرنے سے ان کا مکر و فریب ختم کیا جائے گا، ایک ہے مشرکین، اور نمبر دو ہے اہل کتاب یہود و نصاریٰ جو ہمیشہ(سے) ہمارے دین کے پیچھے لگے ہوئے ہیں، اور دین کو برباد کررہے ہیں اور ایک ہیں ملحدین جو دین کو نہیں مانتے۔ اور تین مرتبہ دبانے میں اشارہ ہے کہ تین طبقوں کو یاد رکھو: مشرکین اور ہندؤں کو دیکھو کہ مسلمانوں کے ساتھ کیا کررہے ہیں؟ یہود و نصاریٰ کو فلسطین اور مسجد اقصیٰ میں دیکھو! اور دوسری جگہ پر یہود و نصاریٰ ہمارے ساتھ کیا کرتے ہیں؟ نہ ہماری معیشت کو چھوڑتے ہیں، اور نہ ہماری شریعت کو چھوڑتے ہیں، ہماری معیشت کو بھی برباد کرتے ہیں، اور ہماری شریعت کو بھی برباد کرتے ہیں، اور تیسرے نمبر پر ملحدین جو مذہب کا انکار کرتے ہیں، تو یہ حدیث ’’مسلسل بالأوّلیّۃ‘‘ آپ حضرات کے سامنے بیان کی گئی، اللہ تبارک و تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو عمل کی توفیق عطا فرما دے، اور علم کے نور کی توفیق عطا فرمادے، علم کا نور ذکر سے بھی ہے اور علم کا نور عمل سے بھی ہے۔
ایک مرتبہ حضرت مولانا انعام الحسن  رحمۃ اللہ علیہ ، ’’انعام الحسن ‘‘ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حسن ابن علیq نے احسان کیا۔ ایک مرتبہ میں یہاں دارالافتا میں تھا، بنوری ٹاؤن میںتھوڑی خدمت کرتا تھا، ایک سوال آیا کہ انعام الحسن شرعی نام ہے یا شِرکی نام ہے؟ سوال سمجھ گئے؟ یہ شرعی نام ہے یا شِرکی نام ہے؟ دوسرے جوابوں کے علاوہ ایک جواب یہ بھی ہے کہ اصل نام تو انعام ہے اور الحسن پوری فیملی میں پھیلا ہوا ہے، یہ گویا ان کا لقب اور فیملی نام ہے، اگر کوئی یہ کہے کہ بھائی! بصریین تو کہتے ہیں: موصوف کی اضافت صفت کی طرف ممنوع ہے، إلا بالتأویل، مگر تاویل کریں گے، لیکن کوفیین کا طبقہ (ہمارا تو کوفیین سے زیادہ تعلق ہے، کیونکہ امام ابو حنیفہؒ کوفی تھے) وہ کہتے ہیں کہ:موصوف کی اضافت صفت کی طرف ہو سکتی ہے، (لہٰذا)انعام الحسن کا مطلب ہوگا ’’الإنعام الحسن‘‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہترین انعام ، خیر! مولانا انعام صاحب جب تبلیغ کے بڑے تھے، تو ان کے سامنے کسی نے کارگزاری سنائی، کارگزاری میں کہا کہ میں نے فلاں جگہ بیان کیا، اور بیان میں میں نے کہا: ’’بس کام تو یہی ہے ‘‘، ’’بس کام تو یہی ہے‘‘، حضرت مولانا انعام الحسن صاحب  نے جب سنا کہ ’’کام تو بس یہی ہے‘‘، تو حضرتؒ نے فرمایا: بھائی! تم دوبارہ یہ بات کہو، اس نے دوبارہ بات کہی، تو پھر فرمانے لگے: بھائی! میرے اور آپ کے درمیان یہی تو فرق ہے: میں کہتا ہوں کہ: تبلیغ کا کام بھی ایک کام ہے اور آپ کہتے ہیں: بس کام یہی ہے، ’’ہی‘‘ اور ’’بھی‘‘ کا فرق ہے اور پھر فرمانے لگے کہ: بھائیو! نورِ نبوّت پھیلتا ہے ذکر سے (یعنی)تصوّف سے، اور علمِ نبوت پھیلتا ہے مدارس سے، اور عملِ نبوت پھیلتا ہے دعوت و تبلیغ سے، ان سب لائنوں کو مضبوطی سے پکڑو اور اگر ان سب کو مضبوطی سے نہیں پکڑ سکتے تو ایک لائن کو پکڑو اور دوسری لائنوں کی قباحت اور مذمت بیان مت کرو، ان کے ساتھ رفاقت کرو، ہمدردی کرو، اپنے آپ کو یہ سمجھو کہ مجھ سے یہ سارے کام نہیں ہوسکتے، اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمادے۔ اللہ تعالیٰ سب کو دین کی خدمت کے لیے قبول فرمائے۔
بھائی! یہیں کے نور کا جو تھوڑا سا نور ہمارے ذہنوں میں آیا ہے، ہم تو وہی پھیلا رہے ہیں، اسی میں لگے ہوئے ہیں، اصل روشنی تو یہیں (جامعہ علومِ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن) کی ہے،  ہمارا بلب تو بیکار ہے، روشنی یہاں سے ہے، اللہ تعالیٰ اس روشنی کو مزید پھیلادے اور اس مدرسہ کو ہر طرح کی علمی، عملی، ظاہری اور باطنی ترقی عطا فرما دے، اور دوسرے اہلِ حق کے تمام مدارس کو اللہ تعالیٰ ترقی عطا فرمادے۔

اجازتِ حدیث

اجازتِ حدیث میں ہمارے بزرگوں کا طریقہ یہ ہے کہ جو تخصص والے ہیں ان کو اجازت ہے، جو دورہ حدیث والے ہیں ان کو اجازت ہے اور جنہوں نے ابھی تک تکمیل نہیں فرمائی ہے، دورہ حدیث تک نہیں پہنچے ہیں تو اکا بر کا طریقہ یہ ہے کہ ان کو بعد میں اجازت دی جائے گی، فی الحال نہیں، بعد میں ان شاء اللہ جب دورہ حدیث تک پہنچیں یا فارغ ہوجائیں۔

حضرت مولانا محمد انور بدخشانی رحمۃ اللہ علیہ  کا تذکرہ

حضرت مولانا محمد انور بدخشانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ  کو بھی دعاؤں میں یاد کرلیں، ان کو وہاں(جنوبی افریقہ میں) بھی ہم ہمیشہ یاد کرتے ہیں ۔حضرت مولانا محمد انور بدخشانی  رحمۃ اللہ علیہ  میری طالب علمی کے بھی ساتھی تھے اور تدریس کے بھی ساتھی تھے۔ اکوڑہ خٹک میں‘ میں بھی پڑھتا تھا، میبذی وغیرہ میں تھا اور مولانا انور صاحبؒ بھی، اور عمر میں مولانا انور صاحبؒ مجھ سے بہت بڑے تھے، علم میں بھی بڑے تھے، اور عمر میں بھی بڑے تھے، میری عمر اس وقت تقریباً سولہ سال تھی اور ان کی عمر کم از کم چھبیس (یا) ستائیس سال ہوگی اور انہوں نے کتابیں بہت تحقیق سے پڑھی تھیں، اور بہت ذہین آدمی تھے، ہوشیار تھے، اور مجھے یاد ہے کہ میبذی کا تکرار کراتے تھے، ان کی اپنی زبان تو فارسی تھی، لیکن انہوں نے فنون کی کتابیں سب پشتو میں پڑھی تھیں تواچھی پشتو بولتے تھے، اور آپ کو معلوم ہے ہمارے ہاں( اکوڑہ خٹک میں) تدریس تو پشتو میں ہوتی تھی، تو وہ ہمارے ساتھ تکرار کرتے تھے، وہ تکرار کے بڑے تھے، بہترین تکرار کرتے تھے اور اس زمانے میں اساتذہ کی گواہی تھی کہ بہت مدت کے بعد اتنے قابل طالب علم ہمیں ملے ہیں۔ پھر غالباً مشکاۃ اور دورہ حدیث کے لیے یہاں (بنوری ٹاؤن) آئے اور یہاں دورہ حدیث کیا۔ جب میں یہاں تخصص سے ۱۹۷۴ء میںفارغ ہوا ، وہ پہلے سے مدرس ہو چکے تھے، میں بعد میں مدرس بنا، تو پھر تدریس کی رفاقت بھی رہی اور طالب علمی کی رفاقت بھی تھی۔ بہت بے تکلف تھے ہمارے ساتھ، جیسے ہم نے (ان کی وفات کا) سنا تو ان کے لیے ایصالِ ثواب کیا، اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند فرمادے، اور انہوں نے جو تالیفات فرمائی ہیں، اللہ تعالیٰ قبول و مقبول اور ان کے لیے نجات کا ذریعہ بنادے، اور درجاتِ علیا کا ذریعہ بنادے، اور اللہ تعالیٰ ان کے اَخلاف کو ان کے صاحبزادوں کو اُن کا قائم مقام بنادے، دین کی خدمت کے لیے سب کو قبول فرمادے۔
حضرت مولانا بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  بھی ان سے بہت خوش تھے، سب سے پہلے ان کی شادی حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ  کی صاحبزادی سے ہوئی، وہ نابینا تھیں، لیکن مولانا انور صاحبؒ فرماتے تھے کہ: نابینا ہونے کے باوجود وہ گھر کی سب خدمت کرتی ہیں، تو وہ بھی بہت خوش تھے اور مرحومہ بھی مولانا انور صاحبؒ سے بہت خوش تھیں، پھر ان کے ہاں بچی کی ولادت ہوئی، یعنی حضرت بنوریؒ کی نواسی پیدا ہوئی، پھر نواسی کا بھی انتقال ہوا اور چند دن کے بعد پھر مرحومہ کا بھی انتقال ہوا، مرحومہ کے ساتھ حضرت مولانا محمد یوسف بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  کی بے حد محبت تھی۔ اسی وجہ سے مولانا انور صاحبؒ سے بھی بے حد محبت تھی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان محبوبین کے ساتھ اُن کو ملادے، اور ہمارے بھی سب کے علم میں عمر میں برکتیں عطا فرمادے، اور انہی متقین اور صالحین کے ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں بھی ملادے، اس مدرسہ کو اللہ تعالیٰ ترقی عطا فرمادے، اور اس مدرسہ کی ترقی سے اللہ تعالیٰ دوسرے ملحقہ مدارس کو بھی ترقی عطا فرمادے، اور ہر قسم کے شرور اور فتنوں سے حفاظت فرمادےاور اس مدرسہ کو اور اہلِ حق کے تمام مدارس کو ہر طرح کی ظاہری، باطنی، علمی اور روحانی، عملی ترقی عطا فرمادے، ضروریات کا انتظام غیب کے خزانوں سے فرمادے ، وصلی اللہ علی سیدنا محمدٍ و علیٰ اٰلہٖ وصحبہٖ  أجمعین، برحمتک یا أرحم الراحمین‎!

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین