بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

بینات

 
 

حسنِ اخلاق!   سرمایۂ زندگی

حسنِ اخلاق! 

 سرمایۂ زندگی


حسنِ اخلاق کی اہمیت کسی سے مخفی نہیں ہے، حسنِ اخلاق وہ قابلِ قدر جوہر ہے جو انسانی زندگی پر بڑے گہرے اثرات مرتب کرسکتا ہے اور اس کی وجہ سے نفرت محبت میں تبدیل ہوجاتی ہے اور سخت ترین جانی دشمن بھی انسان کا گرویدہ بن جاتا ہے۔ حسنِ اخلاق صرف اس چیز کا نام نہیں ہے کہ کسی انسان سے خندہ پیشانی سے پیش آیا جائے یا مسکرا کر بات کی جائے، بلکہ یہ اپنے اندر وسیع مفہوم رکھتا ہے، چنانچہ قرابت داروں کے ساتھ صلہ رحمی، ماں باپ کی فرمانبرداری، نرم گفتگو، حلم وبردباری، عفوو درگزر، بڑوں کا ادب، چھوٹوں پر شفقت، دیانت وامانت، عہد کی پاسداری، مصائب پر صبر، نعمتوں کا شکر، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی، بھائی چارہ، ایک دوسرے کی جان، مال، عزت وآبرو کا تحفظ، باہمی ہمدردی وغمخواری، ایثار کا جذبہ، یہ سب حسنِ اخلاق کے زمرے میں آتا ہے، بلا شبہ حسنِ اخلاق انسان کی زندگی کا قیمتی اَثاثہ اور بیش بہا سرمایہ ہے۔
چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن کریم میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اخلاق کے بارے میں سورۃ القلم میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’وَإِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ‘‘  (القلم:۴)
ترجمہ: ’’ اور بیشک آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اخلاقِ (حسنہ) کے اعلیٰ پیمانے پر ہیں۔‘‘   (بیان القرآن) 
مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  اپنی تفسیر ’’معارف القرآن‘‘ میں اس آیت کے تحت لکھتے ہیں: 
’’حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما  نے فرمایا کہ: ’’خلق سے مراد دینِ عظیم ہے کہ اللہ کے نزدیک دینِ اسلام سے زیادہ کوئی محبوب دین نہیں ہے۔‘‘ حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  نے فرمایا کہ: ’’آپ کا خلق خود قرآن ہے۔‘‘ یعنی قرآن کریم جن اعلیٰ اعمال واخلاق کی تعلیم دیتا ہے، آپ ان سب کا عملی نمونہ ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ نے فرمایا کہ: ’’خلق عظیم‘‘ سے مراد آداب القرآن ہیں۔‘‘ یعنی وہ آداب جو قرآن نے سکھائے ہیں۔ حاصل سب کا تقریباً ایک ہی ہے۔ رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے وجود مسعود میں حق تعالیٰ نے تمام ہی اخلاقِ فاضلہ بدرجہ کمال جمع فرما دیے تھے، خود نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’بعثت لأتمّم مکارم الأخلاق‘‘ یعنی ’’مجھے اس کام کے لیے بھیجا گیا ہے کہ میں اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کروں۔‘‘                                   (معارف القرآن، ج:۸، ص:۵۳۲)
دوسرے مقام پر ارشادِ باری ہے:
ترجمہ: ’’اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ معافی کو اختیار کیجیے، بھلی باتوں کا حکم کیجیے اور جاہلوں سے منہ پھیرلیجیے!‘‘  (الاعراف:۱۹۹)
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
ترجمہ: ’’ تو آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اُن کو معاف کیجیے اور درگزر سے کام لیجیے۔ بیشک اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘   (المائدۃ:۱۳)
چنانچہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  اخلاق کے اعلیٰ ترین مرتبہ پر فائز تھے، اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اسی حسنِ اخلاق اور تربیت کا نتیجہ تھا کہ ایک دوسرے کی جان لینے والے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  پر جان دینے والے بن گئے:

خود نہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا

ذیل میں نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے حسنِ اخلاق کے چند واقعات ہدیہ قارئین ہیں:
1- حضرت انس  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ : 
’’میں نے پورے دس سال رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت کی۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے کبھی مجھے اُف تک نہیں کہا اور میرے کسی کام پر یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کیوں کیا؟ اور نہ کبھی یہ فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں نہیں کیا؟ بلاشبہ آنحضور  صلی اللہ علیہ وسلم  لوگوں میں سب سے زیادہ محاسنِ اخلاق کے حامل تھے۔‘‘ (بخاری ومسلم)
2- حضرت مسروق  رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا کہ : 
’’جب حضرت معاویہ  رضی اللہ عنہ  کے ساتھ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص  رضی اللہ عنہ  کوفہ تشریف لائے تو ہم اُن کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ذکر کیا اور بتلایا کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  بدگو نہ تھے اور نہ آپ بدزبان تھے اور انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: تم میں سب سے بہتر وہ آدمی ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔‘‘   (بخاری، کتاب الادب)
3- عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  نے کہا کہ :
 ’’رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ سخی تھے اور رمضان کے مہینے میں تو سب دنوں سے زیادہ سخاوت کرتے تھے۔ جب ابوذر غفاری  رضی اللہ عنہ  کو نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیغمبری کی خبر ملی تو انہوں نے اپنے بھائی انسؓ سے کہا کہ وادی مکہ کی طرف جاؤ اور اس شخص کی باتیں سن کر آؤ۔ جب وہ واپس آئے تو ابوذر رضی اللہ عنہ  سے کہا کہ میں نے دیکھا کہ وہ صاحب تو اچھے اخلاق کا حکم دیتے ہیں۔‘‘      (بخاری، باب حسن الخلق)
4- حضرت مسروق رحمۃ اللہ علیہ  نے بیان کیا کہ :
 ’’ہم عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ  کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، وہ ہم سے باتیں کر رہے تھے، اسی دوران انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نہ بدگو تھے، نہ بد زبانی کرتے تھے (کہ منہ سے گالیاں نکالیں) بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  فرمایا کرتے تھے کہ: تم میں سب سے زیادہ بہتر وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔‘‘             (بخاری، باب حسن الخلق)
بلاشبہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذات بابرکت ہم سب کے لیے مشعل راہ ہے، اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اُسوۂ حسنہ کو اپنانا ہر مسلمان پر ضروری ہے، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ : 
’’حضور نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’جس نے میری اطاعت کی سو اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی، اور جس نے میری نافرمانی کی سو اس نے اللہ عزوجل کی نافرمانی کی۔‘‘                (متفق علیہ)
 اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیمات ہم سب کے لیے یہی ہیں کہ ہم حسنِ اخلاق کی سیرت کو اپنائیں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین