بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

بینات

 
 

حضرت مولانا سید جاوید حسین شاہ  رحمۃ اللہ علیہ 

حضرت مولانا سید جاوید حسین شاہ  رحمۃ اللہ علیہ 


جامعہ عبیدیہ فیصل آباد کے مہتمم، دارالعلوم کبیر والا کے فاضل، جامعہ باب العلوم کہروڑ پکا کے سابق مدرس، حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانویؒ کے محبوب شاگرد، حضرت مولانا محمد عبداللہ بہلوی ؒ کے مسترشد، حضرت مولانا عبید اللہ انور ؒ کے خلیفہ مجاز، ہزاروں طلبہ و علماء کے استاذ و شیخ حضرت مولانا سید جاوید حسین شاہ صاحب ۲۴؍ شوال المکرم ۱۴۴۵ ھ مطابق ۳؍ مئی ۲۰۲۴ ء بروز جمعہ اس دنیائے رنگ و بو میں ۷۵ بہاریں دیکھ کر راہیِ عالمِ آخرت ہوگئے، إنا للہ و إنا إلیہ راجعون ! إن للہ ما أ خذ ولہ ما أعطیٰ و کل شيء عندہٗ بأجل مسمّٰی‎ ! ‎
حضرت مولانا سید جاوید حسین شاہ صاحب سے پہلا تعارف اس وقت ہوا جب آپ اپنے تین ساتھیوں سمیت حضرت خواجۂ خواجگان مولانا خواجہ خان محمد قدس سرہٗ کی خانقاہ کندیاں شریف میں تین دن کے لیے تشریف لائے ہوئے تھے، میں بھی اپنے دو رُفقاء کے ساتھ تین دن کے لیے خانقاہ سراجیہ گیا ہوا تھا، ایک ہی کمرے میں اور ایک ہی دسترخوان پر تینوں دن کھانا ساتھ کھاتے رہے۔ اس وقت دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ آپ فیصل آباد سے تشریف لائے ہوئے ہیں اور آپ کا نام سید جاوید حسین ہے۔ اسی طرح دوسری بار کراچی دفتر ختمِ نبوت باب الرحمت میں آپ میرے شیخ و مربی حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری شہید قدس سرہٗ سے ملنے کے لیے تشریف لائے، حضرت جلال پوری شہید ؒ اس وقت حضرت مولانا محمد عبداللہ بہلوی قدس سرہٗ کے تحریر کردہ رسائل کی تسہیل کر رہے تھے، ایک جگہ پر حضرت ؒ کو کچھ اشکال تھا توآپ نے سید جاوید حسین شاہ صاحب کے سامنے اپنا اشکال رکھا تو انہوں نے تھوڑی ہی دیر میں وہ اشکال حل کر دیا۔ اسی طرح ایک بار حج کے موقع پر جب حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانوی قدس سرہٗ حیات تھے اور ختمِ نبوت حج گروپ کے ساتھ حج کے لیے تشریف لائے ہوئے تھے، شاہ صاحب فجر کی نماز کے بعد ان کے ہوٹل میں ان سے ملنے کے لیے تشریف لائے تو حضرت کے کمرے سےمتصل ہمارا کمرہ تھا، صبح کی نماز کے بعد ہم ذکر کر رہے تھے تو حضرت شاہ صاحب بھی کمرے میں آگئے اور ذکر میں آخر تک شریک رہے اور پھر جب تک ہم مکہ مکرمہ کے اس ہوٹل میں رہے، حضرت ذکر کے لیے روزانہ تشریف لاتے رہے۔‎ ‎
آپ دسمبر ۱۹۴۸ء میںمغل پورہ لاہور میں پیدا ہوئے، اس کے بعد آپ کے والدین ٹوبہ ٹیک سنگھ کے نواحی گاؤں کلویا میں منتقل ہوگئے۔ ابتدائی اسکول کی تعلیم اپنے چک میں حاصل کی، ۱۹۶۱ ء میں مڈل میں پوزیشن حاصل کی، جس کے نتیجے میں حکومت کی طرف سے آپ کے لیے وظیفہ جاری کیا گیا، لیکن آپ دینی تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کرچکے تھے۔ مدرسہ مدنیہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں داخلہ لیا، چھ سال تک یہاں تعلیم حاصل کرتے رہے۔ ۱۹۶۸ء میں دارالعلوم کبیروالا میں داخلہ لیا، چار سال یہاں تعلیم جاری رکھی، دورئہ حدیث شریف یہیں پڑھا۔ وفاق المدارس العربیہ کے سالانہ امتحانات میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ ۱۹۷۱ء میں جامعہ خیرالمدارس میں دورئہ تکمیل کے لیے داخلہ لیا اور اس میں معقولات علمِ حدیث وغیرہ مختلف علوم و فنون کی منتہی کتابیں پڑھیں،دو سال میں تکمیل کی۔ اس دوران مختلف اساتذہ سے فقہ و افتاء کی تعلیم بھی حاصل کی۔ سال کے آخر میں شعبان و رمضان میں حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانویؒ (بانی جامعۃ الرشید) کے پاس تمرینِ افتاکی۔ دورۂ تفسیر حضرت شیخ التفسیر مولانا محمد عبداﷲ بہلویؒ سے پڑھا۔‎ ‎
پھر اپنے محبوب استاذ حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانویؒ کے حکم پر ۱۹۷۴ء میں جامعہ باب العلوم کہروڑپکا میں تدریس شروع کی، یہاں گیارہ سال تدریس کی۔ بخاری شریف کے علاوہ حدیث کی تمام کتابیں پڑھائیں۔ اس کے بعد اپنے شہر فیصل آباد میں دارالعلوم فیصل آباد میں انیس سال تدریس کی۔ اس دوران جامعہ عبیدیہ کی بنیاد رکھی اور اپنے مدرسے کو پروان چڑھایا، پھر دارالعلوم فیصل آباد سے یہیں آگئے اور شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہوئے۔ ہر سال شعبان اور رمضان میں دورئہ تفسیر بھی پڑھاتے تھے۔
آپ تصوف و سلوک سے گہری وابستگی و شغف رکھتے تھے۔ ۱۹۷۲ء میں آپ نے حضرت مولانا محمد عبداللہ بہلویؒ کی بیعت کی، ان سے تصوف کے اسباق پڑھے، ذکرِ سبعہ صفات تک پہنچے تھے کہ حضرت بہلویؒ کا انتقال ہوگیا، پھر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے فرزند حضرت مولانا عبیداللہ انورؒ سے ۱۹۷۷ ء میں بیعت کی، ۱۹۸۳ء میں حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ نے آپ کو خلافت دی، ان کے علاوہ بھی کئی مشائخ حضرت خواجہ خان محمدؒ، حضرت مفتی عبدالستارؒ، حضرت سید نفیس الحسینیؒ وغیرہ سے کسبِ فیض کیا۔
دارالعلوم پیپلز کالونی کی تدریس کے دوران جامعہ عبیدیہ کی بنیاد رکھی۔ اپنے جامعہ کا نام رکھنے میں بھی اپنے مرشد مولانا عبیداﷲ انورؒ کے نام کی مناسبت کو سامنے رکھا۔ جامعہ عبیدیہ نام تجویز کیا۔ حضرت مولانا سید جاوید حسین شاہ اپنے دور کے نامور استاذالعلماء تھے۔ درسِ نظامی کی تمام کتب بڑی شان کے ساتھ پڑھائیں اور سیکڑوں علماء و ہزاروں شاگردوں نے آپ سے علمِ دین پڑھا۔ شعبان المعظم اور رمضان المبارک میں مدارس کی چھٹیوں کے دوران حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ، مولانا محمد عبداﷲ بہلویؒ کی طرز پر تفسیرِ قرآن پڑھاتے تھے۔ مدارسِ عربیہ کے فضلاء، اساتذہ اور منتہی طلباء نے آپ سے دورہ تفسیر پڑھا۔ حضرت لاہوریؒ، حضرت بہلویؒ، حضرت درخواستی ؒ، مولانا غلام اﷲ خانؒ، مولانا سرفراز خان صفدرؒ ایسے حضرات کے دورہ تفسیر کی کلاسوں کے خلاکو مولانا سید جاوید حسین شاہ صاحب کے دورہ تفسیر کی کلاس نے پُر کیا۔ مولانا سید جاوید حسین شاہ صاحبؒ کو خدا تعالیٰ نے جو مقامِ محبوبیت عطا کیا، وہ قابل ِرشک تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں خلقِ خدا کا آپ کی طرف رجوع ہوگیا۔ خلافت ملنے کے بعد آپ نے لوگوں کو فیضیاب کرنا شروع کیا، پاکستان اور بیرون ملک لوگوں کی بڑی تعداد آپ سے وابستہ ہوئی۔ خانقاہ عبیدیہ اقبال ٹائون آپ کے مرکزمیں ہر بدھ کو مجلسِ ذکر ہوتی تھی، جن میں سالکین کی بڑی تعداد شریک ہوتی تھی۔ آپ کے ملفوظات کی بہت سی کتابیں شائع ہوئیں۔ وعظ و نصائح پر مشتمل مجالسِ ذکر بھی معروف ہے۔رمضان میں لوگ آپ کے ہاں اعتکاف کرتے تھے۔ 
آپ ہر سال بلاناغہ ختمِ نبوت کانفرنس چناب نگر تشریف لاتے، ہمیشہ عوام میں بیٹھ کر کانفرنس میں شرکت کرتے اور واپس چلے جاتے۔ حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانوی صاحبؒ کے امیر مرکزیہ بننے کے بعد ان کے حکم پر اسٹیج پر تشریف لاتے، لیکن بیان بالکل نہ کرتے۔ لگتا ہے کہ پوری کانفرنس میں اپنی شرکت کے دوران صرف دعائوں میں مصروف رہتے۔
آپ پچھلے کچھ عرصہ سے گردوں کے مریض ہوگئے تھے، علاج معالجہ جاری رہا، تبلیغی وخانقاہی سفر بھی جاری رہے۔ اب کچھ مہینوں سے بہت زیادہ علالت حاوی ہوگئی تھی تو اسفار بند کردیےتھے۔ بہت بہادر انسان تھے کہ بیماری کے باوجود جو اور جتنے خیر کے کام کرسکتے تھے آخری وقت تک جاری رکھے۔ کافی حضراتِ علماء کو خلافت سے سرفراز کیا جو آپ کے بعد تصوف کی دنیا کو شاد کام رکھیں گے۔ آپ نے پسماندگان میں ہزاروں طلبہ اور مسترشدین کے علاوہ ایک صاحبزادہ، تین بیٹیاں اور ایک بیوہ چھوڑی ہیں۔ آپ کے فرزند مولانا سید محمد زکریا شاہ سلمہ نےآپ کی نماز ِ جنازہ پڑھائی، آپ کا جنازہ فیصل آباد کے چند بڑے جنازوں میں شمار ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ حضرت سید جاوید حسین شاہ صاحبؒ کی جملہ حسنات کو قبول فرمائے،آپ کو جنت الخلد کا مکین بنائے اور آپ کے لواحقین کو صبرِ جمیل کی توفیق نصیب فرمائے، آمین بجاہ سید المرسلین‎ !
بینات کے باتوفیق قارئین سے حضرت کے لیے ایصالِ ثواب کی درخواست ہے۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین