دو چیزوں کے حوالے سے ہر دور میں مسلمان جذباتی واقع ہوا ہے، ایک اللہ کی وحدانیت اور دوسرا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ختمِ نبوت۔ عالم کفر کی ہمیشہ خواہش رہی ہے، بلکہ ان کی دن رات محنتوں کا لبِ لباب یہی ہےکہ کسی طرح مسلمانوں کا اللہ پر یقین کمزور پڑ جائے اور عقیدۂ ختمِ نبوت پر زد آجائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکات اور عقیدۂ ختمِ نبوت مسلمانوں کا وہ بنیادی سرمایۂ حیات ہے جس کے بغیر مسلمان‘ مسلمان نہیں رہتا۔
۱۸۵۷ء میں حکومتِ برطانیہ کی مکاری اور عیاری سے ایسٹ انڈیا کے نام سے بنی ہوئی کمپنی کی مدد سے مسلمانوں کی حکومت کو دیمک کی طرح کھایاگیا، پہلے کمزور کیا اورپھرحملہ کرکے سلطنتِ مغلیہ کا خاتمہ کردیا۔ ۱۸۵۸ء میں ہندوستان ملکۂ برطانیہ کی حکومت کے زیرِ تحت ہوگیا۔ ۱۸۶۸ء میں دارالعلوم دیوبند کا قیام عمل میں لایا گیا، جہاں سے حکومتِ برطانیہ کے خلاف تحریکیں اُٹھیں۔ انگریز کے خلاف جہاد کا فتویٰ بھی دارلعلوم دیوبند سے جاری ہوا اور مجاہدین کے دستے بھی یہیں سے روانہ ہوئے۔ یوں روزِاول سے انگریز حکومت کےخلاف دارالعلوم دیوبند اور اکابرینِ دیوبند میدانِ کارزار میں کود پڑے اور انگریزوں کی نیندیں حرام کردیں۔ حکومتِ وقت نے بھی ظلم ڈھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، مگرسرفروشوں کے جذبوں کو مات نہ دے سکی۔
متحدہ ہندوستان میں انگریز اپنے جوروستم اور استبدادی حربوں سے جب مسلمانوں کے قلوب کو مغلوب نا کرسکا تو اس نے ایک کمیشن قائم کیا جس نے پورے ہندوستان کا سروے کیا اور واپس جاکر برطانوی پارلیمنٹ میں رپورٹ پیش کی کہ مسلمانوں کے دلوں سے جذبۂ جہاد مٹانے کے لیے ضروری ہے کہ کسی ایسے شخص سے نبوت کا دعویٰ کرایا جائے جو جہاد کو حرام اور انگریز کی اطاعت کو مسلمانوں پر اولوالامر کی حیثیت سے فرض قرار دے۔
ان دنوں مرزا غلام احمد قادیانی سیالکوٹ ڈی سی آفس میں معمولی درجہ کا کلرک تھا۔ اردو، عربی، فارسی اپنے گھر ہی میں پڑھی تھی، مختاری کا امتحان دیامگر ناکام ہوگیا، غرضیکہ اس کی تعلیم دینی و دنیاوی دونوں اعتبار سے ناقص تھی، چنانچہ اس مقصد کے لیے انگریزی ڈپٹی کمشنر کے توسط سے مسیحی مشن کے ایک اہم اور ذمہ دار شخص نے اس سے ڈی سی آفس میں ملاقات کی، گویا یہ انٹرویو تھا مسیحی مشن کا اور ساتھ ہی یہ شخص انگلینڈ روانہ ہوگیا اور مرزا قادیانی ملازمت چھوڑ کر قادیان پہنچ گیا۔ باپ نے کہا کہ نوکری کی فکر کرو، تو اس نے کہا کہ میں نوکر ہوگیا ہوں، پھر بغیر مرسل کے پتہ کے منی آڈر ملنا شروع ہوگئے۔ مرزا قادیانی نے مذہبی اختلافات کو ہوا دی، بحث و مباحثہ اور اشتہار بازی شروع کردی۔ یہ تمام تر تفصیل مرزائی کتب میں موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کام کے لیے برطانوی سامراج نے مرزا قادیانی کا انتخاب کیوں کیا؟ اس کا جواب مرزائی لٹریچر میں موجود ہے۔ مرزا قادیانی کا خاندان جدی پشتی انگریز کا نمک خوار، خوشامدی اور مسلمانوں کا غدار تھا۔ اور مرزا قادیانی کے والد نے ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں برطانوی سامراج کو پچاس گھوڑے مع سازو سامان کے مہیا کیے اور یوں مسلمانوں کے قتلِ عام سے اپنے ہاتھ رنگین کرکے انگریز سے انعام میں جائیداد حاصل کی۔ مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے: میرے والد کی وفات کے بعد میرا بڑا بھائی مرزا غلام قادر خدماتِ سرکار میں مصروف رہا۔ ستارۂ قیصریہ صفحہ نمبر :۴ پر اپنے بارے میں لکھتا ہے کہ:
’’ میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنتِ انگریزی کی تائید وحمایت میں گزرا اور میں نے ممانعتِ جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور اشتہار شائع کیے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں اس سے بھر سکتی ہیں۔‘‘
غرضیکہ مرزا قادیانی کی گوشت پوست میں انگریز کی وفاداری اور مسلمانوں کی غداری رچی بسی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مقصد کے لیے انگریز کی نظرِ انتخاب مرزا قادیانی پر پڑی اور اس کی خدمات حاصل کی گئیں۔ جن حضرات کی مرزائی لٹریچر پر نظر ہے، وہ جانتے ہیں کہ مرزا قادیانی کی ہر بات میں تضاد ہے، لیکن حرمتِ جہاد اور فرضِ اطاعتِ انگریز ایک ایسا مسئلہ ہےکہ اس میں مرزا قادیانی کی کبھی دو رائیں نہیں ہوئیں، کیونکہ یہ اس کا بنیادی مقصد اورغرض وغایت تھی، یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنے آپ کو گورنمنٹ برطانیہ کا خودکاشتہ پودا قرار دیا۔
دارالعلوم دیوبند کے سرخیل حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ نے اپنے نورِایمانی اور بصیرتِ وجدانی سے مرزا قادیانی کے دعوائے نبوت سے پہلے پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ سے حجازِ مقدس میں ارشاد فرمایاکہ: پنجاب میں ایک نیا فتنہ اُٹھنے والا ہے، اللہ اس کے خلاف آپ سے کام لیں گے، بیعت وخلافت سے سرفراز فرمایا اور اس فتنہ کے خلاف کام کرنےکی تلقین بھی فرمائی۔
۱۸۸۱ء میں جب مرزا لعین نے نبوت کا دعویٰ کیا تو علماء دیوبند میدان میں آگئے، اس کے خلاف تحریکیں چلائیں، جانوں کے نذرانے پیش کیے، یہاں تک کہ ۷؍ستمبر ۱۹۷۴ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں غیر مسلم قرار پائے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک ختمِ نبوت کی کامیابی میں بنیادی کردار علماء کرام کا رہا، مگر یہ مسئلہ صرف علماء کا نہیں، بلکہ ہر کلمہ گو مسلمان نے اسے اپنا ذاتی اور ایمانی مسئلہ سمجھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر طبقہ کےلوگوں نے اس تحریک کی کامیابی کے لیے اپنی جان، اپنی مال اور اپنی اولاد پیش کی۔ ہر طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جنون کی حدتک محبت کا اظہارکیا، گولیوں کے سامنے اپنے سینے پیش کیے، مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت پر آنچ نہیں آنے دی، بلکہ سب نے مل کر وہ تاریخ رقم کی ہے، جس کا محض تذکرہ ایمان کی تازگی اور روح کی بالیدگی کا باعث بنتا ہے۔ تحریکِ ختمِ نبوت میں صنفِ نازک بھی کسی سے پیچھے نہ رہیں، یہاں دو واقعات درج کرتا ہوں۔
۱۹۵۳ء کی تحریکِ ختمِ نبوت میں ایک عورت اپنے بیٹے کی بارات لے کر دہلی دروازے کی طرف آرہی تھی، سامنے تڑ تڑ کی آواز آئی، معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کے لیے لوگ سینہ تانے بٹن کھول کر گولیاں کھارہے ہیں تو بارات کو معذرت کرکے رخصت کردیا، بیٹے کو بلا کر کہا کہ بیٹا! آج کے دن کے لیے میں نے تمہیں جنا تھا، جاؤ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس پر قربان ہوکر دودھ بخشوا جاؤ۔ میں تمہاری شادی اس دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں کروں گی اور تمہاری بارات میں آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کو مدعو کروں گی، جاؤ پروانہ وار شہید ہوجاؤ، تاکہ میں بھی فخرکروں کہ میں بھی شہید کی ماں ہوں۔ بیٹا ایسا سعادت مند تھا کہ ماں کے حکم پر آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کے لیے شہید ہوگیا، جب لاش لائی گئی تو گولی کا نشان پشت پر نہیں تھا، بلکہ تمام گولیاں سینے پر کھائیں۔
تحریکِ ختمِ نبوت۱۹۵۳ء کے دوران جب مولانا تاج محمود جامع مسجد کچہری بازار فیصل آباد میں شمعِ رسالت کے پروانوں کے لیے ایک جم غفیر سے قادیانی گروہ اور اس کے کفریہ عقائدوعزائم کے تحفظ اور سرپرستی کے لیے حکومت کی طرف سے کیے گئے اقدامات کے خلاف لوگوں کو سول نافرمانی کی ترغیب دے رہے تھے، مولانا تاج محمود کے دل سے نکلنے والی یہ آواز مسجد کی سیڑھیوں کے پاس کھڑی ایک عورت بھی ہمہ تن گوش ہوکر سن رہی تھی، دفعتاً شدتِ جذبات سے مغلوب ہوکر ساری مسجد میں پھیلے مجمع کو چیرتی ہوئی آگے بڑھی اور اپنی گودکے بچے کو منبر کے قریب جاکر مولانا کی طرف اُچھال دیا اور کہا: مولانا! میرے پاس ایک یہی سرمایہ ہے، اسے سب سے پہلے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و آبرو پرقربان کردو، یہ کہہ کر عورت اُلٹے پاؤ باہر کی طرف چل پڑی۔ اس منظر کو دیکھ کر سارا مجمع دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ خود مولانا کی آواز گلوگیر اور رندھی ہوئی تھی، انہوں نے لوگوں سے کہا کہ اس عورت کو جانے نا دینا، اسے بلاؤ، چنانچہ اس عورت کو بلایا گیاتومولانا نے کہا کہ: بی بی! سب سے پہلے گولی تاج محمود کے سینے سے گزرے گی، پھر میرے اس بچے(اپنے قدموں میں بیٹھے چھوٹے سے اپنے اکلوتے بیٹے طارق محمودکی طرف اشارہ کیا) کے سینے سے، پھر اس مجمع کے تمام افراد گولیاں کھائیں گے اور جب سب قربان ہوجائیں، تب اپنے اس بچے کولے آنااور اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت پر قربان کردینا۔ یہ کہا اور وہ بچہ اس عورت کے حوالے کردیا۔
۱۹۵۳ء کی ختمِ نبوت کی تحریک میں میانوالی سے قافلے لاہور جاتے تھے، ایک قافلے میں میاں فضل احمد موچی بھی جا کر گرفتار ہو گیا، ان کی گرفتاری مارشل لاء کے تحت عمل میں آئی، مارشل لاء عدالت نے ان کو دیکھ کر باقی ساتھیوں کی نسبت کم سزا دی، اس پر وہ بگڑ گئے اور عدالت میں احتجاج کیا کہ میرے ساتھ انصاف کیا جائے، اس سے عدالت نے سمجھا یہ سزا کم کرانا چاہتا ہے۔ عدالت نے پوچھا تو کہا: ’’مجھ سے کم عمر لوگوں کو دس دس سال کی سزا دی، میرے ساتھ انصاف کیا جائے اور میری سزا میں اضافہ کیا جائے۔‘‘ اس بوڑھے جرنیل کی ایمانی غیرت پر جج انگشت بدنداں اُٹھ کر عدالت سے ملحق دوسرے کمرے میں چلا گیا، میاں فضل احمد موچی نے عدالت میں کپڑا بچھا کر گرفتاری، سزا اور آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت وناموس کے تحفظ کے لیے اپنی قربانی کی بارگاہِ الٰہی میں قبولیت کے لیے نوافل پڑھنے شروع کردئیے۔
تحریکِ ختمِ نبوت ۱۹۵۳ء میں دہلی دروازے لاہور کے باہر صبح سے عصر تک جلوس نکلتے رہے، لوگ دیوانہ وار آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کی حفاظت پر جان قربان کرتے رہے۔ عصر کے بعد جب جلوس نکلنے بند ہوگئے تو اسّی سال کا بوڑھا اپنے معصوم سات سالہ پوتے کو کندھے پر اُٹھا کرلایا، دادا نے ختمِ نبوت کا نعرہ لگایا، معصوم بچے نے جو دادا سے سبق پڑھا تھا، اسی کے مطابق زندہ باد کہا، دو گولیاں آئیں، اسّی سال کے بوڑھے اور سات سالہ بچے کے سینہ سے شائیں کرکے گزر گئیں، دونوں شہید ہوگئے، مگر تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کرگئے کہ اگر آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس پر مشکل وقت آئے تو مسلمانوں کے اسّی سالہ بوڑھے خمیدہ کمر سے لے کر سات سالہ بچے تک سب اپنی جان دے کر اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کی حفاظت کرتے ہیں۔
مولانا امین گیلانی ملک عزیز کے مشہور شاعرتھے، بڑھاپے میں قدم رکھنے کے باوجود آواز جوان اور جذبات گرم تھے، اپنی ایک کتاب ’’عجیب و غریب واقعات‘‘ میں اپنی زندگی کا ایک واقعہ رقم کرتے ہیں، پڑھیے اور اپنے بزرگوں کی جرأت و بہادری کا اندازہ لگائیے:
جنرل اعظم کے حکم سے لاہور میں کشتوں کے پشتے لگ رہے تھے، تحریکِ ختمِ نبوت۱۹۵۳ء اپنے جوبن پر تھی، پولیس مجھے اور میرے بہت سے ساتھیوں کو ہتھکڑیاں پہنا کر قیدیوں کی بس میں بٹھا کر شیخوپورہ سے لاہور کی طرف روانہ ہوگئی۔ اسیرانِ ختمِ نبوت بس میں نعرے لگاتے ہوئے جب لاہور کی حدود میں داخل ہوئے، ملٹری نے روک لیا اور سب انسپکٹر کو نیچے اُترنے کا حکم دیا، ایک ملٹری آفیسر نے ان سے چابی لے کر بس کا دروازہ کھول دیا اور بڑے رعب و جلال سے گرج کر بولا کہ تمہیں معلوم نہیں ہے کہ نعرے لگانے والوں کو گولی مارنے کا حکم ہے؟ کون نعرے لگاتا ہے؟ اس صورت حال سے سب پر ایک سکوت طاری ہوگیا، معاً میرا ہاشمی خون کھول اُٹھا، میں نے تن کر کہا: ’’میں لگاتا تھا‘‘ اس نے بندوق میرے سینہ پر تان کر کہا: ’’اچھا! اب لگاؤ نعرہ‘‘ میں نے پرجوش نعرہ لگایا، میرا کالی کملی والا! سب نے باآوازِ بلند جواب دیا: زندہ باد۔ اس کی بندوق کی نالی نیچے ڈھلک گئی اور منہ پھیر کر کہا کہ ہاں! وہ تو زندہ باد ہی ہے اور بس سے اُتر گیا۔ ایسا معلوم ہوا جنت جھلک دکھلا کر اوجھل ہوگئی، پھر اس نے سب انسپکٹر سے کچھ کہا، اس نے بس کا دروازہ مقفل کردیا، چند منٹوں بعد ہم بورشتل جیل لاہور میں تھے۔
جب ۱۹۷۴ ء کی ختمِ نبوت کی تحریک چلی، اس وقت مسٹر ذوالفقار علی بھٹو ملک کے وزیر اعظم تھے، دورانِ تحریک آغا شورش کشمیری اپنے پیارے دوست مولانا تاج محمود کے ساتھ وزیراعظم ذوالفقار بھٹو سے ملے، اس ملاقات کی روداد چٹان ۲۹ ؍اکتوبر ۱۹۷۹ء میں موجود ہے، جو مسٹر بھٹو کی بیان کردہ ہے۔ اس روداد کی تلخیص یوں ہے :
مسٹر بھٹو کہتے ہیں: ’’شورش اپنے دوست مولانا تاج محمودکے ساتھ میرے پاس آئے، شورش نے چار گھنٹے تک مسئلہ ختمِ نبوت اور قادیانیوں کے پاکستان کے بارے میں عقائد و عزائم کے متعلق گفتگو کی۔ دورانِ گفتگو شورش نے عجیب گفتگو کی، شورش نے باتوں کے دوران انتہائی جذباتی ہوکر میرے پاؤں پکڑ لیے۔ شورش جیسے بہادر اور شجاع آدمی کی ایسی حالت دیکھ کر میں لرز اُٹھا، شورش کی عظمت کو دیکھ کر میں نے اُسے اٹھا کر سینہ سے لگا لیا، مگر وہ ہاتھ ملا کر پیچھے ہٹ گیا اور کہنے لگا: بھٹو صاحب! ہم جیسی ذلیل قوم کسی ملک نے پیدا نہیں کی ہوگی، ہم اپنے نبی کے تخت و تاجِ ختمِ نبوت کی حفاظت نا کرسکے۔ پھر شورش نے روتے ہوئے میرے سامنے جھولی پھیلا کر کہا: بھٹو صاحب! میں آپ سے اپنے اور آپ کے ختم المرسلین کی بھیک مانگتا ہوں۔ آپ میری زندگی کی تمام خدمات اور نیکیاں لے لیں، میں خدا کے حضور خالی ہاتھ چلا جاؤں گا، خدا کے لیے خدا کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ختمِ نبوت کی حفاظت کردیجیے، اسے میری جھولی نا سمجھیے، بلکہ اسے فاطمہ بنتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جھولی سمجھ لیجیے، اس سے زیادہ مجھ میں کچھ سننے کی تاب نہ تھی، میرے بدن میں ایک جھرجھری سی آگئی۔ میں نے شورش سے وعدہ کرلیا کہ میں قادیانی مسئلہ ضرور بالضرور حل کروں گا۔
تحریکِ ختمِ نبوت کی کامیابی میں وزیر اعظم پاکستان ذوالفقارعلی بھٹو ؒ کاکردار بھی آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے فیصلے پر دستخط کرتے ہوئے بھٹو ؒ نے یہ تاریخی الفاظ کہے تھے کہ: موت کے پروانے پر دستخط کر رہا ہوں، تاہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کے تحفظ کے لیے جان کی قربانی بڑی سعادت ہو گی۔ کرنل رفیع الدین نے اپنی کتاب ’’بھٹو کے آخری ۳۱۳ دن‘‘ میں لکھا ہے کہ: بھٹو مرحوم نے کہا کہ ختمِ نبوت کا مسئلہ حل کرانا میری نجات کے لیے کافی ہے اور پھانسی کے ایک روز قبل بھٹو ؒ نے کہا کہ: ’’کرنل رفیع! قادیانی آج تو بہت خوش ہوں گے کہ انہیں غیر مسلم اقلیت (کافر) قرار دلوانے والا حکمران پھانسی لگ گیا۔‘‘
اللہ رب العزت ہم سب کو مرتے دم تک ختمِ نبوت کی پہرہ داری اور چوکیداری کے لیے قبول فرمائیں۔