بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

بینات

 
 

خودی اور دعا

خودی اور دعا


میں کسی کے آگے دامنِ احتیاج پھیلاؤں؟ اظہارِ عجز کروں؟ یہ تو میری خودی کی موت ہے، میں تو سب سے اعلیٰ واشرف ہوں، مسجودِ ملائکہ ہوں، مجھ سے بااختیار اس کائنات میں کون ہے؟ میری ضرب سے سمندر کا سینہ شق اور ہوا کا دامن چاک۔ اس دبدبہ وسطوت کے ہوتے ہوئے سائلانہ روش اختیار کروں؟ اپنے مقام سے گرجاؤں؟ اپنی حیثیت کو بھول جاؤں؟ یہ تو مجھ سے ہرگز نہ ہوسکے گا؟
بندۂ عقل اسی لاف وگزاف میں تھا کہ یکایک کسی صاحبِ بصیرت نے للکارا، او بصیرت کے اندھے! تو سب کچھ سہی، پھر بھی یہ تو دیکھ کہ کیا تو مختارِ محض ہے؟ کیا تیرا مجد وشرف خود اختیاری ہے؟ کیا تو موجود بالذات ہے؟ قائم بالذات ہے؟ اے حدوث کے پُتلے! ذرا اپنی حقیقت کو تو پہچان، نہ تیرا وجود اختیاری نہ تیری صفات ذاتی، بلکہ تو جو کچھ ہے اور جیسا کچھ ہے اپنے بل بوتے پر ایک آن بھی قائم نہیں رہ سکتا، رہا تیرا زعمِ اختیار تو یہ بھی اپنی ابتدا وانتہا میں جبر ہی کی کڑیوں میں معلق ہے! باقی جس کا اختیار واقعتاً چل رہا ہے اور جو حقیقتاً بااختیار، خود بخود اور قائم بالذات ہے، وہ تو اپنی خلاقیت اور قیومیت کے باوجود غیب ومستور ہے، وہی جو چاہتا ہے دیتا ہے اور جب چاہتا ہے چھین لیتا ہے۔ عقل پرستوں کے اندھے پن کی کوئی انتہا ہے کہ ہوا میں لہراتے ہوئے پرچم کو دیکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ پرچم خود لہرا رہا ہے، اس پر شیر کی جو تصویر بنی ہے اس کو دیکھ کر ڈرتے ہیں، اُف شیر بپھر بپھر کر حملہ کر رہا ہے، نادان یہ نہیں جانتے کہ یہ محض دستِ صبا کا کرشمہ ہے، بلکہ خود ہوا بھی کسی غیبی اشارہ پر چل رہی ہے۔ سن عارف رومیؒ کیا کہہ رہے ہیں:

ما ہمہ شیراں ولے شیرِ علم

حملہ ما از بد باشد دم بدم
حملہ ما پیدا و ناپیدا ست باد

جاں فدائے آں کہ ناپیدا ست باد
باد ما و بود ما از داد تست 

ہستی ما جملہ از ایجاد تست

بس تیری اور تیرے اختیار وطاقت کی حقیقت اتنی ہی ہے، پھر اس پر گھمنڈ کیسا؟ مخلوق میں سب سے اشرف وبااختیار ہو کر بھی تو اپنے خالقِ حقیقی کے آگے ہیچ بلکہ کالعدم ہے، وہ منبعِ جود وعطا اور تو سراپا احتیاج!! پس مخلوق کے آگے تیرا جھکنا اپنی امید وخوف کو حادث سے وابستہ کرنا یقیناً خود کی موت اور شرفِ انسانی کا جنازہ ہے، لیکن خود اپنے خالق وقیوم سے بے نیازی، یہ تو سراسر خود فریبی ہے! ہر غیر سے بے نیاز ہو کر اپنے مالک کا ہمہ وقت نیاز مند ہورہنا، سب سے مستغنی ہو کر ’’المغني‘‘ کا ہر ارادہ کی تخلیق وتکمیل میں دست نگر بنا رہنا، یہی تو کیشِ ابراہیمی ہے، اسی سے تو حدوث کو بقا کا سہارا ملتا ہے اور حیاتِ جاودانی بنتی ہے، پس اپنے عجز کا اعتراف اور بارگاہِ صمدیت سے استمداد جس کا نام ’’دعا‘‘ ہے، تیرے دن رات کا وظیفہ بلکہ ہر سانس کا مشغلہ ہونا چاہیے:
’’رَبَّنَآ اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً وَّہَیِّیْٔ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا‘‘                  (کہف، ع:۱) 
’’اے ہمارے رب! دے ہم کو اپنے پاس سے بخشش اور پوری کردے ہمارے کام کی درستی۔‘‘
کیونکہ وحی ربانی نے تیری حیثیت یہی بتائی جتائی ہے۔
’’یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاۗءُ اِلَى اللہِ ۝۰ۚ وَاللہُ ہُوَالْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ‘‘             (فاطر، ع:۳)
’’اے لوگو! تم سب محتاج ہو اللہ کے اور اللہ ہی غنی اور حمید ہے۔ ‘‘
گرفتارِ عقل نے اہلِ بصیرت کی یہ باتیں جو سنیں تو اس کے ہوش کچھ ٹھکانے آئے، اتنا تو مان ہی لیا کہ ’’رب’’ سے بے نیازی ہلاکت کا پیش خیمہ ہے، پل بھر کے لیے بھی اس کی نظرِ کرم ہٹ جائے تو بس ہم عدم ہیں! مگر کج رو عقل پھر بھی ایک مغالطہ کھا گئی، اس نے کہا: تیری باتیں سب بجا ودرست، مگر میرا رب محض قیوم ومستعان ہی نہیں، بلکہ وہ بڑا علیم وخبیر بھی ہے، میری ہر احتیاج اس پر روزِ روشن سے زیادہ عیاں اور میری ہر حاجت روائی میں وہ ہر مہربان سے بڑھ کر مہربان ہے، پھر میں اس سے کیوں مانگوں؟ کیا میرے مانگے بغیر نعوذ باللہ اس کو میری حاجت وضرورت کا علم نہ ہوگا؟ ہرگز نہیں، وہ دانا وبینا ہے، اس کے جانتے اس سے مانگنا یہ تو ایک گستاخی ہے، جسارت بے جا ہے، میں تو اس کے تصور سے بھی لرز جاتا ہوں!
صاحبِ بصیرت نے یہ منطق جو سنی تو ہنس پڑا، کہنے لگا: بندۂ عقل! کہاں مادی عقل کے زور پر ان حقائق کو سمجھنے چلا ہے، یہ تو عقلِ ایمانی سے پوچھنے کی باتیں ہیں۔ اے نادان! اللہ کا علیم وخبیر ہونا مسلم، بلاشبہ اس کو تیری اطلاع کی حاجت بھی نہیں، مگر یہ تو بتا کہ اس کے علم قدیم ومحیط سے تیری اس خلش کی تسکین کیسے ہوگی جو ہر ناپیدا مستقبل سے متعلق تیرے اندر اُبھرتی رہتی ہے؟ تیرا حال تو یہ ہے کہ :

گفتند ہر چہ در دلت آید ز ما بخواہ 

گفتم کہ بے حجابئ تقدیرم آرزو ست 

(اقبالؒؔ)

یعنی جب تک تجھ کو یہ معلوم نہ ہو کہ وہ علیم وخبیر تیرے ساتھ کیا معاملہ کرےگا؟ مہر کا یا قہر کا؟ اس وقت تک تیرا اضطراب کیسے مٹ سکتا ہے؟ دیکھا نہیں کہ اسی ذہنی اضطراب سے پریشان ہوکر موحدِ کامل ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والدین اور اولاد کے لیے اسی علیم وخبیر رب سے کیا کچھ نہیں مانگا اور مانگتے ہی رہے، حالانکہ اس کا بھی اعتراف اور اقرار تھا کہ :
’’رَبَّنَآ اِنَّکَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِیْ وَمَا نُعْلِنُ ۝۰ۭ وَمَا یَخْفٰى عَلَی اللہِ مِنْ شَیْءٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَاۗءِ‘‘                                                              (ابراہیم، ع:۶)
’’اے ہمارے رب! تجھ کو سب کچھ معلوم ہے جو ہم اپنے دل میں رکھیں اور جو ظاہر کردیں اور اللہ سے کوئی چیز بھی چھپی نہیں، نہ زمین میں نہ آسمان میں۔‘‘
غور کرنے کا مقام ہے کہ علم وخبر کے اقرار کے باوجود پھر بھی فریاد کیوں ہے؟ وہی نامعلوم مستقبل کے خوف سے جو درد وکسک پیدا ہورہی ہے، اس کی تسکین مطلوب ہے! جس کی صورت اس کے سوا کچھ اور نہیں کہ اپنی طرف سے نالہ وشیون کرکے ہر شر سے حفاظت اور ہر خیر کی ضمانت حاصل کرلی جائے، چنانچہ تیری اسی نفسیات کا پاس ولحاظ کرکے رب علیم وخبیر نے غایتِ کرم سے اذنِ عام دیا کہ :
’’ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ‘‘
’’تم مجھ سے مانگو میں تمہاری سنوں گا۔‘‘
پس دعا کیا ہے؟ خوف وحزن کا تریاق! اس تریاق کو استعمال نہ کیا تو ہموم وغموم تجھ کو ہلاک کر دیں گے، زندگی موت سے بدتر ہوجائے گی۔ پھر بات اتنی ہی نہیں! ذرا فکر کو مہمیز لگا، دیکھ کہ تجھ میں اور تیرے خالق میں ایک اور تعلق بھی ہے، بہت نازک مگر بڑا پائیدار، وہ حسن وعشق کا تعلق ہے، ادھر حق تعالیٰ سر چشمۂ جمال وکمال ہے اور ادھر انسان میں عشق کا جوہر آبدار، کیسے ممکن ہے کہ حسن کی دلفریبیاں ہوں اور عشق کی فدا کاری دبی رہ جائے۔ دیکھا نہیں کہ عاشقِ صادق موسیٰ (علیہ الصلاۃ والسلام) کو جب حسنِ ازل نے شرفِ کلام بخشا تو پوچھا تو صرف یہی تھا کہ ’’مَا تِلْکَ بِیَمِیْنِکَ یٰمُوْسٰی‘‘ (اے موسیٰ! تیرے داہنے ہاتھ میں کیا چیز ہے؟) اس کا جواب تو صرف اسی دو لفظی جملہ پر ختم تھا کہ ’’ہِیَ عَصَایَ‘‘ (یہ میری لاٹھی ہے) مگر زبانِ عشق اس پر کہاں تھم سکی، موقع جو پایا تو عرض معروض کا ایک سلسلہ شروع کردیا کہ :
’’اَتَـوَکَّؤُا عَلَیْہَا وَاَہُشُّ بِہَا عَلٰی غَنَمِیْ وَلِیَ فِیْہَا مَاٰرِبُ اُخْرٰى‘‘                 (طہ، ع:۱) 
’’اس پر میں سہارا لیتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں کے لیے پتے جھاڑتا ہوں اور اس سے میرے کئی اور بھی فائدے ہیں۔‘‘
ذرا عاشقانہ تکلم کی خوبی تو دیکھ کہ بات بڑھا کر ختم بھی کی تو ایسے الفاظ پر جو خود تفصیل طلب تھے کہ شاید بارگاہِ حسن سے تفصیل کا اشارہ ملے اور عرضِ شوق کا ایک اور موقع ہاتھ آجائے۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا حضرت موسیٰ  ؑکی اس سب تفصیل سے نعوذ باللہ ذاتِ علیم وخبیر کے علم واطلاع میں اضافہ مقصود تھا؟ حاشا وکلا، یہاں تو صرف کلام ہی مقصودِ تکلم تھا، جذبۂ عشق کی تسکین البتہ غایت الغایت تھی اور یہ کچھ حضرت موسیٰ  ؑپر منحصر نہیں، تجھ میں بھی عشق کی چنگاری ہے، اگر اس کے اظہار کا موقع نہ ملے تو گھٹ کر مرجائے، اسی لیے خالقِ فطرت نے بہ ہمہ علم وخبر تیرے جذبۂ عشق کی تسکین کے لیے اجازت بھی دی اور یقین بھی دلا یا کہ: 
’’فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ‘‘
’’تم مجھ کو یاد کرو میں تم کو یاد کروں گا۔‘‘
یہ عشق پر حسن کا انعام واحسان ہے، اب اس ایقان کے ساتھ جب تو ’’رَبِّيْ‘‘ کا نعرۂ عاشقانہ بلند کرے گا تو تیرے تصور کے کان ’’عَبْدِيْ‘‘ کا جواب ضرور سنیں گے اور تو قبولیت کے یقین سے سرشار ہوجائے گا۔ اب حمد وثنا ہو یا استمداد کی التجا، اس سب سے تیرا مقصود محبوب سے لطفِ خطاب حاصل کرنا ہوگا، اس منزل میں آکر تو اسی پر مسرور ومشکور ہوگا کہ عرض ومعروض کا ایک موقع تو مل گیا، ورنہ کہاں ہمارا عشق ناتمام اور کہاں وہ بارگاہِ حسنِ تمام، یہ نکتہ میں نے عاشقِ ربانی عارف رومی سے پایا کہ :

از دعا نبود مرادِ عاشقاں 

جز سخن گفتن بہ آں شیریں دہاں

پس اب دعا کیا ہے؟ محض جذبۂ عشق کی تسکین!

حافظ! وظیفۂ تو دعا گفتن است وبس

دربند آں مباش کہ نشنید یا شنید

بندۂ عقل پر دل کی یہ پراسرار باتیں جادو کرگئیں، وہ ندامت وحسرت میں ڈوب گیا کہ عقل کو رہنما بنا کر وصالِ محبوب سے کس قدر دور رہا، ایک جھنجھلاہٹ کے ساتھ وہ کہہ اُٹھا :

آزمودم عقل دور اندیش را 

بازمی دیوانہ سازم خویش را

بندۂ عقل کے اس اعتراف اور رجوع سے صاحبِ بصیرت کا دل پگھل گیا، شفقت ودرد کے لہجے میں اس نے ’’دعا‘‘ کے اور بھی لطیف اسرار بیان کیے کہ: 
انسان پابندِ عقل ہو کر خودی ناآشنا بن گیا، اس کا شرف صرف یہی نہیں کہ وہ مسجودِ ملائکہ اور فاتحِ کائنات ہے، بلکہ اس کی عظمت کا اوج تو یہ ہے کہ اس کو بارگاہِ ازل میں ’’محبوبیت‘‘ کا رتبہ حاصل ہے۔ دیکھا نہیں کہ ابلیس گو مقرب رہا، مگر ذرا سی سرکشی میں راندۂ بارگاہ کردیا گیا اور تیرے جدِ اعلیٰ آدم (علیہ الصلوٰۃ والسلام) سے بتانے جتانے کے باوجود لغزش ہوئی، ہوسکتا تھا کہ اس پر گرفت سخت ہوتی اور آدم کو اپنے بچاؤ کی صورت بھی کوئی سجھائی نہیں دے رہی تھی، مگر ربِ رحیم کے اس مخصوص اندازِ کرم پر حور وملائک بھی رشک کھاگئے ہوں تو عجب نہیں کہ آدم کے قلبِ لرزاں میں خود بارگاہِ عفو ہی سے ’’دعا‘‘ کا جذبہ پیدا فرما دیا گیا اور ’’کلماتِ دعا‘‘ بھی القا کیے گئے، قرآن گواہ ہے کہ:
’’فَتَلَقّٰی اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ‘‘
’’پھر آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمات سیکھے۔‘‘
کہا یہ گیا کہ اے آدم! تم اپنی زبانِ معذرت یوں کھولو:
’’رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَـنَا  وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ‘‘ (الاعراف، ع:۲) 
’’اے رب! ہم نے اپنی جان پر ظلم کیا اور اگر تو ہمیں نہ بخشے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو ہم تو تباہ ہی ہوجائیں گے۔‘‘
ہم معاف کردیں گے۔ چنانچہ دھڑکتے ہوئے دل اور لڑکھڑائی زبان سے آدم نے جب یہ دعا کی تو معافی اور بخشش کا پروانہ فوراً مل گیا:
’’ثُمَّ اجْتَبٰىہُ رَبُّہٗ فَتَابَ عَلَیْہِ وَہَدٰى‘‘
’’پھر اس کے رب نے اس کو نوازا تو اس پر مہربانی سے توجہ کی اور سیدھی راہ دکھائی۔‘‘
دیکھ لیا، نوازش کا بہانہ ’’دعا‘‘ ہی کو بنایا گیا، ’’مناجاتِ مقبول‘‘ پہلے عطا کی، پھر دامنِ مراد بھر دیا۔
کریمِ ازل کی یہ لطف نوازی صرف آدم ہی کے ساتھ نہ تھی، بلکہ آج بھی ہر اس آدم زاد کے ساتھ ہے جو محبتِ الٰہی کے اس درجے کو پہنچ چکا ہو کہ اس کی ’’مُحِبّیت‘‘ نے محبوبیت کا شرف پالیا ہو، اب وہ محبوبِ سبحانی ہے، اس کا دل، دلنواز نے سنبھال لیا ہے۔
’’قلب المؤمن بين اصبعين من أصابع الرحمٰن۔‘‘              (الحدیث)
’’مومن (کامل) کا قلب رحمٰن کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہے۔‘‘
وہی جب چاہتا ہے دل کو سکینت سے معمور کرکے شکر پر اُبھارتا ہے اور جب چاہتا ہے سوز وگداز پیدا کرکے فریاد وزاری اور دعا ومناجات پر مضطر کردیتا ہے۔ اب دعا بھی دلبر کی طرف سے ہے اور عطا بھی اسی کا کرشمہ، عارف رومیؒ نے اس رمز کو کس خوبی سے بیان کیا ہے :

آں دعائے بے خوداں دیگر است 

آں دعا زو نیست گفت داور است
آں دعا حق می کند چوں او فنا است

آں دعا و آں اجابت از خدا ست

یہ ’’دعا‘‘ کا نقطۂ اوج ہے، یہاں پہنچ کر انبیاء کے معاملے میں وحی الٰہی ہے اور خاصانِ حق کے معاملے میں الہامِ ربانی اور بہرصورت ’’محبوبیت‘‘ کی نشانی ہے، اسی لیے تو سید العارفین صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کے رتبہ وشرف کو یوں ظاہر فرمایا کہ :’’الدعاء ھوالعبادۃ‘‘  ۔۔۔ ’’دعا ہی اصل عبادت ہے۔‘‘
یہ نکتہ کی باتیں تھیں جو زبان کہہ سکی اور قلم لکھ سکا، آگے اللہ پاک سے التجا ہے کہ تجھ کو ’’دعا‘‘ کا خوگر بنا کر زینہ بہ زینہ اس کے مراتب کا مشاہدہ کرائے کہ :

دعا 

1-عرفانِ نفس کا لازمی نتیجہ ہے         2-خوف وحزن کا تریاق ہے
3-جذبۂ عشق کی تسکین ہے                  4-الہامِ ربانی اور شرفِ محبوبیت کی نشانی ہے!!

(قندِ مکرر از ماہنامہ بینات، شمارہ: ربیع الثانی ۱۳۸۳ھ مطابق ستمبر ۱۹۶۳ء)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین