اجتہاد سے جس طرح حکم کا استنباط کرنا جائز ہے، اسی طرح اجتہاد سے حدیث کو معلَّل سمجھ کر مقتضائے علت پر عمل کرنا جائز ہے، جس کا حاصل احکامِ وصفیہ کی تعیین ہے مثلِ احکامِ تکلیفیہ کے یا احد الوجوہ پر محمول کرنایا مطلق کو مقید کرنا اور ظاہر الفاظ پر عمل نہ کرنا، ایسا اجتہاد بھی جائز ہے۔
ہر شخص کو علل بیان کرنے کا حق نہیں ہے، بلکہ مجتہد کو حق ہے اور مجتہد کو بھی ہمیشہ حق نہیں، بلکہ وہاں تعلیل کا حق ہے جہاں تعدیۂ حکم کی ضرورت ہو۔ اور جو اُمور تعبدی ہوں جن کا تعدیہ نہیں ہوسکتا، وہاں قیاس کا مجتہد کو بھی حق نہیں، اسی لیے فقہاء کرام نے صلوٰۃ وصوم، زکوٰۃ وحج میں تعلیل نہیں کی، ان کی فرضیت کی بناء تعبد ہے۔
میں نے ان کو لکھا کہ احکامِ شریعت میں آپ کو کیا حق ہے علت نکالنے کا؟ اگر اسی طرح وجہ نکالی جائے تو کوئی حلال‘ حلال اور کوئی حرام‘ حرام نہ رہے، کیونکہ ہر شخص اپنی منشا کے مطابق علت نکال لے گا حلت کی یا حرمت کی، مثلاً کسی نے حرمتِ زنا کی یہ علت نکالی کہ اس سے اختلاطِ نسب ہوتا ہے، یعنی اگر کئی مرد ایک عورت سے صحبت کریں اور پھر حمل رہ جائے تو ممکن ہے کہ ہرایک ان میں سے اپنے نسب کا دعویٰ کرے تو اس صورت میں ان میں سخت جنگ وجدال کا اندیشہ ہے اور ممکن ہے کہ ہر ایک انکار کردے تو اس صورت میں اس عورت اور بچے پر سخت مصیبت ہوگی۔ اس کے بعد میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر کوئی ایسی تدبیر کرے کہ علوق کا احتمال ہی نہ رہے، مثلاً کوئی ایسی دوائی استعمال کرلی یا کوئی عورت سنِ ایاس کو پہنچ گئی یا مثلاً زانیوں کی کسی خاص جماعت میں محبت واُخوت ہوجائے جس سے احتمال بھی جنگ وجدال کا نہ رہے تو اس صورت میں زنا جائز ہوجانا چاہیے؟ کیونکہ وہ علت یہاں مرتفع ہے اور دوسرے کا حق متعلق نہیں تو اس میں کیا قباحت ہے؟ تو کیا زنا جائز ہوجائے گا؟ ہرگز نہیں، حالانکہ جو علت بتلائی گئی ہے، وہ مرتفع ہے۔
حاکم کی طرف سے کوئی حکم صادر ہو تو ہرگز اس( حکم) کی علت نہیں پوچھتے، اس کی وجہ یہ ہے کہ حکام کی عظمت ہے، اس لیے حجت نہیں کرتے۔ سو جب خدا تعالیٰ کے احکام کی علل دریافت کی جاتی ہے، اس سے تو شبہ پڑتا ہے کہ ان کے دل میں حق تعالیٰ کی عظمت نہیں ہے، غرض محکوم ہونے کی حیثیت سے علل دریافت کرنا عقلاً بیہودہ امر ہے، ہاں! طالب علمی کی حیثیت سے بغرض تحقیقِ فن مضائقہ نہیں، مگر وہ منصب صرف طالب علموں کا ہے۔
خیال تو کیجئے کہ کلکٹر کا منادی جب حکم کی اطلاع کرتا ہے تو کوئی علت نہیں پوچھتا، افسوس ہے، کیا علماء کو بھنگی سے بھی زیادہ ذلیل سمجھنے لگے ہیں؟ علماء درحقیقت منادی کرنے والے اور احکام کے ناقل ہیں، خود مُوجد نہیں، اس لیے ان سے علتیں پوچھنا حماقت نہیں تو اور کیا ہے۔
فرمایا: احکامِ شرعیہ کی علت عوام کے سامنے ہرگز بیان نہیں کرنی چاہیے، بلکہ ضوابط کی پابندی کرانی چاہیے، ورنہ خطرہ کا قوی اندیشہ ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھئے: جیساکہ صاحب کلکٹر نے ایک مجرم کو کسی دفعہ کی بنا پر سزا کا حکم کردیا اور فوراً اس کی تعمیل ہوگئی، مگر وہ مجرم اس دفعہ کی علت ہرگز دریافت نہیں کرسکتا اور جرأت کرکے دریافت بھی کرلے گا تو کلکٹر اس کو ڈانٹ دے گا کہ ہم نہیں جانتے، بس قانون یہ ہے اور اگرچہ ہم علت جانتے بھی ہیں، مگر بتاتے نہیں (اور اگر اس کا شوق ہی ہو تو) سنو، اس کے لیے تعلیمِ فن کی ضرورت ہے، ہمارے پاس آکر ترتیب وار پڑھو، پھر اپنے وقت پر جو امر سمجھنے کا ہے، وہ سمجھ لیں اور خود آجائے گا، دریافت کی بھی ضرورت نہ ہوگی۔
کیوں صاحب! کیا یہی انصاف ہے کہ حاکم دنیوی کا فیصلہ تو بسر وچشم مان لیں اور کچھ اعتراض نہ کریں اور احکامِ شرعیہ پر سینکڑوں اعتراض کریں؟! بس معلوم ہوا کہ شریعت کی قدر اتنی بھی نہیں جتنی حاکمِ دنیوی کی ہے۔
نہ ان کا ماننا واجب ہے، البتہ ان میں سے بعض احکام ایسے ہوتے ہیں کہ کتاب وسنت کے اشارات سے ان کی تائید ہوجاتی ہے تو اس صورت میں ان کا قائل ہونا جائز ہے اور اگر کتاب وسنت کے خلاف ہو تواس کا رد واجب ہے اور اگر کتاب وسنت سے نہ متأید ہوں، نہ اس کے خلاف ہوں تو اس میں جانبین کی گنجائش ہے۔
آج کل یہ مرض لوگوں میں ہے کہ وہ احکام کی علت تلاش کیا کرتے ہیں اور جب علت نہیں ملتی تو حکمت کو علت سمجھ کر اس کو جواب میں پیش کردیتے ہیں، حالانکہ علت کی حقیقت ’’ما یترتب علیہ الحکم‘‘ ہے اور حکمت کی حقیقت ’’ما یترتب علی الحکم‘‘ ہے اور تعیینِ حکمت چونکہ اکثر جگہ نص سے نہیں محض امرِ قیاسی ہے، لہٰذا حِکمِ مخترعہ میں مخالف جانب کا بھی قوی احتمال باقی رہتا ہے، پس اگر کسی وقت میں یہ حکمتِ مخترعہ مخدوش ہوجائے تو علل کی نظر میں اس سے حکمِ خداوندی بھی مخدوش ہوجائے گا۔ علت ’’ما یترتب علیہ الحکم ‘‘کو کہتے ہیں اور حکمت خود’’ مرتب علی الحکم ‘‘ہوتی ہے تو دونوں جدا جدا ہیں۔
۱-جو لوگ مصالحِ مخترعہ کو بناء احکامِ شرعیہ تعبُّدیہ کی قرار دیتے ہیں، ان کا رَد اس سے ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تعریف میں فرماتے ہیں جب انہوں نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو خرید کر آزاد کردیا تھا:’’ وَمَا لِأَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰی إِلَّا ابْتِغَائَ وَجْہِ رَبِّہِ الأَعْلٰی ‘‘ تواس میں ان کے فعل کا سبب نفی اور استثناء کرکے منحصر فرمادیا ’’اِبْتِغَائَ وَجْہِ رَبِّہِ‘‘ میں، حالانکہ اس میں یہ بھی ایک مصلحت تھی کہ قومی ہمدردی ہے۔
۲-دوسری اس میں بڑی قباحت یہ ہے کہ اگر وہ دنیوی مصالح کسی دوسرے طریقے سے حاصل ہونے لگیں اور اسلام پر ان کے مرتب ہونے کی توقع نہ رہے تو چونکہ اسلام کو مقصود بالعرض رکھا ہے اور مصالحِ دنیوی کو مقصود بالذات، اس لیے نتیجہ یہ ہوگا کہ اسلام کو چھوڑ کر دوسرے طریقے کو اختیار کرلیں گے۔
۳-تیسرے یہ مصالح ہیں تخمینی، اور تخمینات بہت آسانی سے مخدوش ہوسکتے ہیں تو اگر یہ کبھی مخدوش ہوجائیں تو چونکہ حکمِ شرعی اس پر مبنی سمجھا گیا تھا، لہٰذا وہ حکم بھی مخدوش ہوجائے گا۔
حکمت سے حکم تعدی نہیں ہوتا، نہ حکم کا وجود وعدم اس کے ساتھ دائر ہوتا ہے اور یہ عدمِ دوران حکمتِ منصوصہ میں بھی عام ہے، جیسے طواف میں رمل ،اس کی بناء ایک حکمت تھی، مگر وہ مدارِ حکم نہیں۔
احکامِ شرعیہ کے ساتھ جو کبھی مصلحت مذکور ہوتی ہے، وہ کبھی علت ہوتی ہے اور کبھی حکمت ہوتی ہے۔ علت کے ساتھ تو حکم وجوداً وعدماً دائرہوتا ہے، لیکن حکم کے ساتھ دائر نہیں ہوتا، یعنی حکمت کے تبدُّل سے حکم نہیں بدلتا اور اس فرق کا سمجھنا یہ راسخین فی العلم کا خاصہ ہے۔ پس لحیہ کے مسئلہ میں حدیث پاک میں ’’خالفوا المشرکین‘‘ کا مقرون فرمانا بطور حکمت ہے، بطور علت کے نہیں، حرمت کا مدار تغیُّر یعنی صورت کا بگاڑنا ہے، نہ مخالفت۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ بعض احادیث میں جو یہ حکم آیا ہے وہ اس سے مطلق ہے، جیساکہ ’’لعن النبي صلی اﷲ علیہ وسلم المخنثین من الرجال‘‘ میں۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی حاکم رعایا سے کہے کہ دیکھو! قانون کو مانو، فلاں قوم کی طرح شورش مت کرو، تو اگر وہ قوم اتفاق سے شورش چھوڑ دے تو کیا اس حالت میں رعایا کو اس قوم کے ساتھ اس میں بھی مخالفت کرنا چاہیے، اس بنا پر کہ پہلے ان کی مخالفت کا حکم ہوا تھا؟
قرآن میں جہاں کہیں حکم کے بعد لامِ غایت آیا ہے وہ علت نہیں ہے، حکمت ہے۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس حکم پر یہ اثر مرتب ہوگا، یہ مطلب نہیں کہ حکم کی بنا اس پر ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اصل مدار احکامِ شرعیہ کے ثبوت کا نصوصِ شرعیہ ہیں، لیکن اسی طرح اس میں بھی شبہ نہیں کہ باوجود اس کے پھر بھی ان احکام میں بہت سے مصالح اور اسرار بھی ہیں اور گو مدار ثبوتِ احکام کا اُن پر نہ ہو، لیکن ان میں یہ خاصیت ضرور ہے کہ بعض طبائع کے لیے ان کا معلوم ہوجانا احکامِ شرعیہ میں مزید اطمینان پیدا ہونے کے لیے ایک درجہ میں معین ضرور ہے، گو اہلِ یقینِ راسخ کو اس کی ضرورت نہیں، لیکن بعض ضعفاء کے لیے تسلی بخش اور قوت بخش ہے۔ اسی راز کے سبب بہت سے اکابر و علماء مثلاً : امام غزالیؒ وخطابیؒ وابن عبد السلام ؒ وغیرہم کے کلام میں اس قسم کے معانی ولطائف پائے جاتے ہیں۔
جن احکام کی حکمتیں معلوم ہوجائیں، ان کو مبانی ومناشی احکام کا نہ سمجھے، بلکہ خود ان کو احکام سے ناشی سمجھے، ان شرائط کے ساتھ حکمتوں کے سمجھنے کا مضائقہ نہیں۔
سالم روش یہ ہے کہ یوں کہا جائے کہ احکام میں حکمتوں کا ہونا یقینی ہے، لیکن تعیین چونکہ شارع نے نہیں کی، اس لیے ہم بھی نہیں کرتے اور ہمارے امتثال کی بناء صرف حکمِ باری ہے، گوہم کو حکمت معلوم نہ ہو، اگر یہ علوم مقصود ہوتے تو حضرات صحابہؓ ان کی تحقیق کے زیادہ مستحق تھے۔
قرآن پاک کا نزول محاورات میں ہوا ہے اور محاورات سے معلوم ہوتا ہے کہ ظن کے معنی صرف وہ نہیں جو ’’ملا حسن‘‘ وغیرہ میں مذکور ہیں۔ قرآن ہی کے چند مقامات کو دیکھ کر میں یہ کہتا ہوں کہ محاورات میں ظن کے معنیٰ عام طور سے محض حکم کی جانبِ راجح کے ساتھ مختص نہیں، چنانچہ ایک مقام پر حق تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’وَاِنَّہَا لَکَبِیْرَۃٌ إِلاَّ عَلَی الْخَاشِعِیْنَ الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ‘‘ یہاں ظن سے مراد یقین ہے، کیونکہ لقاء رب کا یقینِ جازم واجب ہے اور ایک جگہ حق تعالیٰ نے قیامت کے متعلق کفار کا مقولہ نقل فرمایا ہے: ’’اِنْ نَّظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَّ مَا نَحْنُ بِمُسْتَیْقِنِیْنَ‘‘ یہاں بھی ظن سے مراد معنیٰ اصطلاحی نہیں ہیں، کیونکہ کفار کو وقوعِ معاد کا ظنِ غالب وراجح بھی نہ تھا، وہ تو بالکل ہی منکر ومکذب تھے، چنانچہ خود قرآن میں ہے: ’’بَلْ کَذَّبُوْا بِالسَّاعَۃِ‘‘ پس یہاں ظن سے مراد جانبِ مرجوح بھی مراد نہیں، کیونکہ ان کو تو قیامت کا احتمال بھی نہ تھا، ان سب موارد کو دیکھ کر میں یہ کہتا ہوں کہ محاورہ میں ظن کے معنی خیال کے ہیں، خواہ وہ خیال صحیح ہو یا باطل، قوی ہو یا ضعیف، اس کو پیش نظر رکھ کر تمام آیات کو دیکھئے! سب حل ہو جائیں گی اور کوئی اشکال نہ رہے گا، چنانچہ ’’إِنَّ الظَّنَّ لایُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا‘‘ میں بھی ظن سے مراد مجرد خیال بلادلیل ہے۔
ظنِ اصطلاحی جوکہ مفید ہے وہ خیال مع الدلیل ہے، دلائلِ شرعیہ سے اس کا معتبر وحجت ہونا معلوم ہوتا ہے، کیونکہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ قرآن میں بعض آیات مجملہ ومشکلہ بھی ہیں، سب کی سب مفسر ومحکم ہی نہیں ہیں اور جب بعض آیات مجمل ومشکل بھی ہیں تو ان کی کوئی تفسیر قطعی نہیں تو ظنی ہوگی، اب اگر ظن مطلقاً غیر معتبر ہے تو آیاتِ مجملہ ومشکلہ بالکل متروک العمل ہوجائیں گی، حالانکہ اس کا کوئی قائل نہیں۔
ظن کا عقائد میں دخل نہیں، البتہ فقہیات میں ہے، کیونکہ فقہ میں ضرورت عمل کی ہے اور عقائد میں کونسی گاڑی اَٹکی ہے، اس کو طالب علم یاد رکھیں۔
عقائدِ قطعیہ کے لیے ضرورت ہے دلیلِ قطعی کی جو ثبوتاً بھی قطعی ہو اور دلالۃً بھی قطعی ہو اور عقائدِ ظنیہ کے لیے دلیلِ ظنی کافی ہے، بشرطیکہ اپنے ما فوق کے ساتھ معارض نہ ہو، ورنہ دلیل مافوق ماخوذ ہوگی اور یہ دلیل متروک ہوگی۔
ظنی ہونے کا تقاضا ہی یہ ہے کہ جانبِ مخالف کا اس میں شبہ رہتا ہے، اگر تمہیں شبہ ہے تو ہوا کرے، اس سے مسئلہ کی ظنیت کی تاکید وتقویت ہوتی ہے، ایسے شبہ سے کچھ حرج نہیں ۔
منتہاء حسنِ ظن یہ ہے کہ خود اس کے فعل میں تاویل مناسب کرکے اس کو قواعدِ شرعیہ کے تابع بنادے، نہ یہ کہ شریعت میں تبدیلی کرکے شریعت کو اس کے تابع بنادے۔
’’اِنَّ الظَّنَّ لاَیُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا‘‘ اہلِ علم کو اس مقام پر شبہ ہوجایا کرتا ہے کہ شریعت میں تو ظن کا اعتبار کیا گیا ہے، چنانچہ خبر واحد اور قیاس ظنی ہے، ظن وہ معتبر ہے جس کا استناد نص کی طرف ہے، چنانچہ خبر واحد جو ظنی ہے تو وہ اصل ہی میں ظنی الثبوت نہیں ہے، محض اس کی سند میں ظن عارض ہوگیا ہے، ورنہ بحیثیت رسول ہونے کے وہ فی نفسہٖ قطعی ہے۔ اسی طرح قیاس گو اصل ہی میں ظنی ہے، لیکن وہ خود مُثبِت نہیں ہے، بلکہ مُظہِر ہے اور مُثبِت تو نص ہے اور قیاس اس کی طرف مستند ہے۔ اور جس ظن پر ملامت ہے، اس سے مراد وہ ظن ہے جس کا مستند نص نہ ہو، محض تخمین اور رائے اس کا منشا ہو۔ نرا گمان جو دلائلِ شرعیہ سے ماخوذ نہ ہو وہ مُثبِت نہیں، تاوقتیکہ اس ظن کا کوئی مستند شرعی ہو، دین کے بارے میں کارآمد نہیں۔
دین کی قید اس لیے لگائی ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ کسی امر میں کوئی گمان مفید نہ ہو، چنانچہ طب میں کہ وہ دین کا امر نہیں، ظن معتبر ہے۔ البتہ امرِ دنیوی میں بھی جہاں جس ظن کی ممانعت ہے، وہاں اس پر عمل جائز نہیں۔ مقصود یہ کہ دین کے بارے میں گمان اصلاً کوئی چیز نہیں، خواہ وہ گمان کرنے والا کتنا ہی بڑا ذہین ہو اور عاقل ہو۔ دین کے بارے میں جب تک دلیلِ شرعی نہ ہوگی، اس کا خیال معتبر نہ ہوگا۔
ظن کی کئی قسمیں ہیں: ایک واجب، جیسے ظنِ فقہی غیر منصوص میں اور حسنِ ظن مع اللہ اور دوسرا مباح جیسے ظن اُمورِ معاش میں اور ایسے شخص کے ساتھ بدگمانی کرنا جس میں علانیہ علامات فسق کے پائے جاتے ہیں، جیسے شراب خانوں میں اور فاحشہ عورتوں کی دکانوں میں کسی کی آمد ورفت ہو اور اس پر فسق کا گمان ہوجائے، جائز ہے، مگر یقین نہ کرے۔ اسی طرح سوء ظن غیر اختیاری ہو، اس کے مقتضا پر عمل نہ ہو، اس میں بھی گناہ نہیں، بشرطیکہ حتی الامکان اس کو دفع کرے۔ اور تیسرا حرام، جیسے الہٰیات ونبوات میں بلادلیلِ قاطع، کلامیات وفقہیات میں خلافِ دلیلِ قاطع ظن کرنا یا جس میں علامات فسق کے قوی نہ ہوں، بلکہ ظاہراً اصلاح کے آثار نمودار ہوں، اس کے ساتھ سوء ظن کرنا یہ حرام ہے۔
سوء ظن کے مقتضا پر عمل کرنا مظنون بہ کے حق میں تو حرام ہے، جیسے اس کی تحقیر کرنا، اس کو ضرر پہنچانا (لیکن) خود ظان کو اپنے حق میں جائز ہے، بایں معنیٰ کہ اس کی مضرت سے خود بچے۔
فرمایا کہ: معاملات میں تو سوء ظن چاہیے اور اعتقاد میں حسنِ ظن۔ اور معاملات میں سوء ظن سے مراد ہے کہ جس کا تجربہ نہ ہو چکا ہو، اس سے لین دین نہ کرے، روپیہ نہ دے تو اس معنی کو معاملات میں سوء ظن رکھے، باقی اعتقاد میں سب سے حسنِ ظن رکھے، کسی کو برا نہ سمجھے۔
حدیث: ’’ نہی طعام المتبارئین‘‘ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فخر کرنے والوں کے کھانے سے منع فرمایا ہے، حالانکہ زبان سے (فخر کا) کوئی بھی اقرار نہیں کرسکتا، پس اگر قرائن وغیرہ سے یہ بات نہیں معلوم ہوسکتی تو اس حدیث پر عمل کیوں کرہوسکتا ہے؟ اس سے صاف ظاہر ہے کہ قرائن وغیرہ سے فخر معلوم ہوجاتا ہے اور اس کا اعتبار کرنا جائز ہے۔
سب کا قاعدہ مشترکہ یہی ہے کہ جس امر کے اثبات کا شرع میں جو طریق ہے، جب تک اس طریق سے وہ امر ثابت نہ ہو، اس کا کسی طرف منسوب کرنا جائز نہیں اور اپنے محل میں ثابت ہوچکا ہے کہ ان طرقِ اثبات میں شریعت نے الہام یا خواب یا کشف کو معتبر وحجت قرار نہیں دیا تو ان کی بنا پر کسی کو چور یا مجرم سمجھنا حرام اور سخت معصیت ہے۔
جو ذرائع شریعت کے نزدیک کوئی درجہ بھی نہیں رکھتے، ان پر حکم لگانا کس قدر سخت گناہ ہوگا؟ جیسے حاضرات کرنا چور کا نام نکالنے کے لیے یا لوٹا گھمانا یا آج کل جو عمل مسمریزم شائع ہوا ہے، یہ تو بالکل مہمل اور خرافات ہی ہیں۔
اس سے بڑھ کر یہ کہ کسی سحر یا کسی جن کے واسطے سے یا کسی نجومی یا پنڈت کے واسطے سے کسی چیز کا یقین کرلینا، خصوصاً جب کہ اس خبر سے کسی بری کو متہم کردیا جائے، ایسا شدید حرام ہے کہ کفر کے قریب ہے، ایسی ضعیف یا باطل بناؤں پر کسی کو چور سمجھ جانا اور کسی طرح کا شبہ کرنا جائز نہیں، مسلمانوں کے لیے اصل مدار علم وعمل ہے، تو دیکھ لو! جب شریعت نے ان کی دلالت کو حجت نہیں کہا، تم کیسے کہتے ہو؟
تصرف کا شرعی حکم یہ ہے کہ فی نفسہ مباح وجائز ہے، پھر غرض ومقصود کے تابع ہے، یعنی اگر اس کا استعمال کسی غرضِ محمود کے لیے کیا جائے تو یہ محمود سمجھا جائے گا، جیسے مشائخِ صوفیہ کے تصرفات اور اگر کسی مذموم مقصد کے لیے کیا جائے، پھر مذمت وکراہت میں جو درجہ اس کی غرض اور مقصد کا ہوگا، اسی کے مطابق اس کی مذمت وکراہت میںکمی بیشی ہوگی۔سحر میں اگر کلماتِ کفریہ ہوں مثل بہ استعانتِ کواکب وغیرہ تب تو کفر ہے، خواہ اس سے کسی کو ضرر پہنچایا جائے یا نفع پہنچایا جائے۔ اور اگر کلمات مفہوم نہ ہوں تو بوجہ احتمال کفر ہونے کے واجب الاحتراز ہے اور یہی تفصیل ہے تمام تعویذ گنڈوں اور نقش وغیرہ میں۔
عمل باعتبار اثر کے دو قسم کے ہیں: ایک قسم یہ کہ جس پر عمل کیا جائے، وہ مسخر اور مغلوب المحبت ومغلوب العقل ہوجائے، ایسا عمل اس مقصود کے لیے جائز نہیں جو شرعاً واجب نہ ہو، جیسے نکاح کرنا کسی معین مرد سے کہ شرعاً واجب نہیں، اس لیے اس کے لیے ایسا عمل جائز نہیں۔ دوسری قسم یہ کہ صرف معمول کو اس مقصود کی طرف توجہ بلامغلوبیت ہوجائے، پھر بصیرت کے ساتھ اپنے لیے مصلحت تجویز کرے، ایسا عمل مقصود کے لیے جائز ہے، اس حکم میں قرآن وغیر قرآن مشترک ہیں۔ رقیہ جائز تو ہے، مگر افضل یہی ہے کہ نہ کیا جائے۔
خواب یا بے خودی حجتِ شرعیہ نہیں، اس سے نہ غیرِ ثابت‘ ثابت ہوسکتا ہے، نہ راجح‘ مرجوح، نہ مرجوح‘ راجح، سب احکام اپنے حال پر رہیں گے، البتہ اتنا اثر لینا شرع کے موافق ہے کہ جانبِ احوط کو پہلے سے زیادہ لے لیا جائے۔ خواب پر مسائل میں اعتماد کرنا جائز نہیں۔
خوابوں کا کیا اعتبار؟ اول تو خود خواب ہی کا حجت ہونا ثابت نہیں، پھر اس کی صحیح تعبیر کا سمجھ میں آجانا ضروری نہیں، خواب کسی حالت کی علت نہیں، ایک قسم کی علامت ہے اور علامت کبھی صحیح ہوتی ہے اور کبھی غلط، اس لیے جس چیز کی وہ علامت ہے، اس کی حقیقت دیکھنی چاہیے۔
(بہت سے امور) جوکہ صرف مکشوف ومشہور ہیں، جن کے حجت نہ ہونے پر دلائلِ شرعیہ موجود ہیں، اس حالت میں ان تفصیلات کا یا ان کے معانی کا اعتقادِ جازم رکھنا یا اس کے مقتضا پر عمل کو لازم سمجھنا یا ان کو مقصود بالذات یا مقصودیت کے لیے شرط سمجھنا ، جیساکہ اس وقت مشاہد ہے، یقیناً غلو فی الدین ہے۔
کشف اگر شرع سے متصادم نہ ہو تو اس میں دونوں امر محتمل ہیں، صحت بھی غلط بھی، خواہ اپنا کشف ہو، خواہ اپنے اکابر کا، بالخصوص جب کہ وہ کشف ذات وصفات سے متعلق ہو، جس میں ظنیات سے حکم کرنا محلِ خطر ومحتملِ معصیت ہے۔
مسائلِ کشفیہ کے لیے یہی غنیمت ہے کہ وہ کسی نص سے متصادم نہ ہوں، یعنی کوئی نص ان کی نافی نہ ہو۔ باقی اس کی کوشش کرنا کہ نص کو ان کا مثبت بنایا جائے، اس میں تفصیل ہے، وہ یہ ہے کہ: اگر نص اس کی محتمل ہو تو درجۂ احتمال تک اس کا رکھنا غلو تو نہیں، مگر تکلف ہے اور اس کو درجۂ احتمال سے بڑھا دینا غلو ہے۔ اوراگر وہ محتمل بھی نہ ہو تو اس کا دعویٰ کرنا احتمالاً یا جزماً صریح تحریف ہے نص کی۔ البتہ اگر وہ دعویٰ بطور تفسیر یا تاویل کے نہ ہو، محض بطورعلمِ اعتبار کے ہو تو اس میں یہ تفصیل ہے کہ وہ حکم اگر کسی اور نص سے ثابت ہو تو وہ اعتبار داخلِ حدود ہے اور اگر وہ کسی اور نص سے ثابت نہ ہو تو وہ بھی تکلف ہے۔
تتمہ: کشفِ قلوب کی دوقسمیں ہیں: ایک بالقصد جس میں دوسرے کی طرف متوجہ ہوکر اس کے خطرات پر اطلاع حاصل کی جاتی ہے، یہ جائز نہیں، تجسس ہے، کیونکہ تجسس ا س کو کہتے ہیں کہ جو باتیں کوئی چھپانا چاہتا ہو، اس کو دریافت کرے۔ دوسری صورت یہ کہ بلاقصد کسی کے مافی الضمیر کا انکشاف ہوجائے اور یہ کرامت ہے۔
’’اتقوا فراسۃ المؤمن‘‘ اس حدیث میں اصل ہے فراست کی اور وہ ایک قسم کا کشف ہے اور وہ بھی مثلِ کشف کے حجتِ شرعیہ نہیں۔
فرمایا: ایک مرتبہ مولانا محمد یعقوب ؒ نے علم قیافہ کا حاصل بیان کیا تھا کہ باطنی نقص پر حق تعالیٰ کسی ظاہری ہیئت کو علامت بنا دیتے ہیں، تاکہ ایسے شخص سے احتیاط ممکن ہو، یہ حاصل ہے علمِ قیافہ کا، مگر ایسے اُمور و علامات کوئی حجتِ شرعیہ نہیں۔
مکاشفہ تو حجت کے درجہ میں بھی نہیں ہے، بس اتنا ہے کہ اگر مکاشفہ شرع کے خلاف نہ ہو تو وہ خود صاحبِ کشف یا جو صاحبِ کشف کے اتباع کا التزام کرے اس کو عمل کر لینا جائز ہے اور کسی قدر مؤکد ہے۔ مؤکد ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اگر عمل نہ کرے گا تو ضرور کسی ضررِ دنیوی میں مبتلا ہوگا، نہ کہ اُخروی میں۔ فرمایا کہ: اِلہام کی مخالفت سے بھی دنیا میں مواخذہ ہوجاتا ہے، مثلاً کسی بیماری میں مبتلا ہوجائے یا کوئی اور آفت آجائے، مگر آخرت میں نہیں ہوتا، کیونکہ الہام حجتِ شرعیہ نہیں، اس لیے اس کی مخالفت معصیت نہیں، جس سے آخرت میں مواخذہ ہو۔ اور وحی کی مخالفت سے آخرت میں بھی مواخذہ ہوتا ہے۔
حدیثِ ضعیف حسبِ تصریح اہلِ علم کسی حکمِ شرعی کے لیے مُثبِت نہیں ہوسکتی۔
شیخ عبد الحق رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ایک شخص ہمارے زمانہ میں ایسا صاحبِ فراست ہے کہ صرف صورت دیکھ کر نام بتلادیتا ہے، مجھے بھی حق تعالیٰ نے اتنی فہم عطا فرمائی ہے کہ طرزِ گفتگو سے مجھے انداز طبیعت کا معلوم ہوجاتا ہے، البتہ ایسا اِدراک بدون دلیلِ شرعی کے حجت نہیں۔
’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘ کا حکم
اگر یہ شبہ ہو کہ ’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘ ہمارے اوپر حجت نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ ’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘کو اگر ذکر فرماکر اُن پر نکیر نہ فرمائی گئی ہو تو ہمارے لیے بھی حجت ہیں۔
اس قاعدہ اصولیہ میں ایک قید مشہور ہے کہ نقل کرکے نکیر نہ کیا گیا ہو، اس میں اتنی تنبیہ ضروری ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ اسی مقام پر نکیر ہو، بلکہ کسی نص میں بھی نکیر ہونا کافی ہے، ورنہ تبریۂ حضرت یوسفm کے قصہ میں جو اس شاہد کا منقول قول منقول ہے: ’’اِنْ کَانَ قَمِیْصُہٗ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ‘‘ اور اس مقام پر نکیر نہیں ہے تو لازم آتا ہے کہ ہماری شریعت میں بھی حجت ہو، اس سے ان لوگوں کا بھی جواب ہوگیا جو سجدۂ ملائکہ واخوانِ حضرت یوسف علیہ السلام سے جوازِ سجدۂ تحیۃ پر استدلال کرتے ہیں۔ وجہ جواب ظاہر ہے کہ دوسری نصوص میں نکیر موجود ہے۔ وفی المقام تفریعان لطیفان یتعلقان بقصۃ موسٰی علیہ السلام مبنیان علی کون ما قص اﷲ ورسولہ علینا من نکیر حجۃ لنا، أحدہما إباحۃ مال الحربي برضاہ ولو بعقدٍ فاسدٍ، فإن استیجار الأم لإرضاع الابن عقدٌ فاسدٌ، وہو مذہب الحنفیۃ۔