یہ اجلاس ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر لیفٹنٹ جنرل ار شد شریف چوہدری کی ۲۲ ؍ جولائی ۲۰۲۴ء کی پریس کانفرنس کے تناظر میں منعقد ہوا، اجلاس میں اتفاقِ رائے سے مندرجہ ذیل بیان کی منظوری دی گئی:
1- دینی مدارس و جامعات کے قائدین کا اجلاس ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان اور اندازِ بیان کی شدید مذمت اور رَد کرتا ہے، اس میں یہ تأثر دیا گیا ہے کہ ۵۰ فیصد دینی مدارس و جامعات اور ان کے سربراہان نامعلوم لوگ ہیں۔ ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ دینی مدارس و جامعات اور ان کے چلانے والوں کو پوری قوم جانتی ہے اور الحمد للہ علی إحسانہٖ ان کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ یہ مدارس پاکستان کے قانون کے تحت قائم ہوئے ہیں اور قانون کے دائرے میں مصروفِ عمل ہیں ، اس طرح کا لب و لہجہ کسی بھی صورت میں قابلِ قبول نہیں ہے۔ اس سے ملک بھر میں قائم دینی مدارس و جامعات کے سربراہان، اساتذہ کرام، طلبہ و طالبات، معاونین اور کروڑوں دین دار طبقات کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ ہم چیف آف آرمی اسٹاف جناب جنرل سید عاصم منیر سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے ادارے کے ذمہ دار افسران کو ہدایات جاری کریں کہ وہ دینی مدارس و جامعات کے سربراہان، اساتذہ اور طلبہ وطالبات کو مجرم یاملزم یا مشتبہ سمجھ کر بات نہ کریں، عوام میں آکر دیکھیں کہ ان لوگوں کی عزت کیا ہے؟
2- دینی مدارس و جامعات کے سربراہان نے ملکی تحفظ ، سلامتی اور مفاد کو ہمیشہ مقدم رکھا ہے اور کبھی بھی ملکی استحکام اور سلامتی کے خلاف کوئی کام نہیں کیا، ہر مشکل مرحلہ پر مسلح افواج کی حمایت کی اور ہمیشہ دہشت گردی اور فساد کی مخالفت کی اور اس کے نتائج بھی بھگتے، اکابر علماء و مشائخ اس مشن میں شہید ہوئے۔
3- جب پیغامِ پاکستان مرتب کیا گیا تو انہی علماء نے خود کش حملوں اور دہشت گردی کے خلاف کسی صلہ و ستائش کی خواہش کے بغیر محض ملک و ملت کی خاطر فتوے جاری کیے ، تب یہ اہلِ مدارس ذمہ دار بھی تھے ، محبِ وطن بھی تھے اور انہی اداروں کے ذمہ داران اُن کی خدمت میں حاضری دیا کرتے تھے۔
4 - دینی مدارس و جامعات پاکستان میں خواندگی کو فروغ دیتے ہیں، پسماندہ علاقوں سے بچوں کو لا کر محبِ وطن بناتے ہیں، علم سے آراستہ کرتے ہیں اور معاشرے کا صحت مند شہری بناتے ہیں، ورنہ یہی نوجوان ملک کے مقابل آمادۂ پیکار گروہوں کے ہاتھ چڑھتے اور ملک کے خلاف استعمال ہوتے ، آج ان اداروں کی خدمات کی قدر کرنے کے بجائے انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔
5 - دینی مدارس و جامعات کے ذمہ داران نے سیاسی انتشار اور محاذ آرائی سے فائد ہ اٹھانے کا کبھی سوچا بھی نہیں ہے، ہمیشہ ملک کی خیر خواہی کی ہے ، مسلح افواج اور ملکی سلامتی کے لیے دعا گور ہے ہیں ۔
6 - اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کی قیادت نے ہمیشہ مزاحمت کے بجائے مذاکرات اور مکالمے کو ترجیح دی ہے، ہماری تاریخ اس کی شاہد عدل ہے، لیکن ذمہ دار قوتوں نے طے شدہ معاملات کو ہمیشہ قانونی شکل دینے کے بجائے اس میں رکاوٹیں ڈالی ہیں ، وقت آگیا ہے کہ اس روش کو ترک کر کے سنجیدگی سے مسائل کو حل کیا جائے اور ماتحت افسران کے بجائے وہ سر برابان جن کے پاس فیصلہ کرنے ، اسے قانونی شکل دینے اور نافذ کرنے کا اختیار ہے ، وہ دینی مدارس کے بارے میں سرسری اور غیر ذمہ دارانہ بیانات جاری کرنے والوں کو روکیں ، اور مدارس کے مسئلہ پر سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔
7 - مفاہمت کی حکمت عملی اختیار کرنے کے بجائے دینی مدارس و جامعات کو مزاحمت کے راستے پر ڈالنے کی دانستہ یا نادانستہ کوشش کی جارہی ہے۔ ہم متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ موجودہ طرزِ عمل سے ان عناصر کو تقویت نہ پہنچائی جائے جو مفاہمت کے بجائے مدارس کو مزاحمت پر مجبور کریں۔ ملک وملت کا فائدہ اسی میں ہے کہ معقولیت اور شائستگی کا راستہ اختیار کیا جائے۔
8- با اختیار اداروں کی یہ حکمت عملی ہماری سمجھ سے بالا ہے کہ ایک طرف مالی معاملات میں شفافیت کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور دوسری طرف دینی مدارس و جامعات کے بینک اکاؤنٹس کو منجمد کر دیا جاتا ہے اور شیڈولڈ بینکوں میں اکاؤنٹ کھولنے اور انہیں آپریٹ کرنے کو نا ممکن بنایا جارہا ہے، یہ عملی تضاد نا قابلِ فہم ہے۔
9- ہمارے تجربات نے بتایا ہے کہ اس وقت حقیقی اقتدار و اختیار ریاست کے پاس ہے، اس لیے بہتر ہوگا کہ چیف آف آرمی اسٹاف خود براہِ ر است اس مسئلے کا سنجیدگی سے جائزہ لیں، اور اس کے دور رس نتائج کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مدارس کے ساتھ ریاستی اداروں کا رویہ درست کریں اور اس معاملے میں کسی بیرونی دباؤ کی پروانہ کریں۔
10- اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کی قیادت نے فیصلہ کیا ہے کہ دینی مدارس و جامعات کی حریتِ فکر و عمل پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا، ہر قیمت پر دینی مدارس و جامعات کی حریتِ فکر و عمل کا تحفظ کیا جائے گا، اس مقصد کے لیے چاروں صوبائی صدر مقامات اور وفاقی دارالحکومت میں دینی مدارس و جامعات کے بڑے بڑے کنونشن منعقد کیے جائیں گے اور ان میں اہلِ مدارس اور پوری قوم کو حقائق سے آگاہ کیا جائے گا۔
11- پاکستان کے دینی مدارس و جامعات میں دیگر ممالک سے طلبہ وطالبات دینی تعلیم حاصل کرنے آتے تھے اور وہ واپس جا کر اپنے اپنے ممالک میں پاکستان کے غیر سرکاری سفیر کا کردار ادا کرتے تھے، نامعلوم وجوہات کی بنا پر غیر ملکی طلبہ کو ویزے دینے بند کر دیے گئے اور اس طرح رضا کارانہ سفارت کاری کا باب بند کردیا گیا اور اب وہ لوگ بھارت کا رخ کرتے ہیں اور اس کا فائدہ بھارت کو پہنچ رہا ہے، جبکہ ساری دنیا میں تعلیم و تعلم کے لیے روابط کھلے رہتے ہیں، خود ہمارے ملک کے طلبہ مختلف شعبوں میں اعلیٰ تعلیم کے لیے دنیا بھر کے ممالک جاتے ہیں اور ایسے عالم میں کہ ہم ایک ایک ڈالر کے محتاج ہیں، زرِ مبادلہ باہر جارہا ہے، جبکہ دینی مدارس و جامعات میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات اپنے اپنے ممالک سے زرِ مبادلہ پاکستان لارہے تھے۔ خود ہماری یونیورسٹیوں میں بھی بیرون ممالک کے طلبہ زیر تعلیم ہیں۔
12- ہم ایک بار پھر حقیقی با اختیار اربابِ اقتدار کو پیغام دینا چاہتے ہیں : ملک و ملت کا مفاد اس میں ہے کہ دینی مدارس و جامعات کو حریف سمجھنے کے بجائے حلیف سمجھا جائے۔ پراپیگنڈے اور بدگمانیوں پر قائم کردہ تأثر کو ذہنوں سے نکالا جائے اور حسنِ ظن اور اخلاص کے ساتھ مسائل کو سلجھایا جائے۔
13- اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کا پہلا صوبائی کنونشن ۲۸؍ اگست ۲۰۲۴ ء بروز بدھ صبح ۹؍ بجے کراچی میں منعقد ہو گا۔
14- اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کی رکن تنظیمیں حسب ذیل ہیں:
(الف) وفاق المدارس العربیہ پاکستان
(ب) تنظیم المدارس اہل سنت پاکستان
(ج) وفاق المدارس الشیعہ پاکستان
(د) وفاق المدارس السلفیہ پاکستان
(ہ) رابطۃ المدارس الاسلامیہ پاکستان