بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

بینات

 
 

سُنَّت کی برکتیں


سُنَّت کی برکتیں


’’سنّت‘‘ کے معنی طریقہ وعادت کے ہیں اور ہم جب سنّت کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد ہوتا ہے ’’آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کا طریقۂ زندگی‘‘۔ امام راغب اصفہانیؒ لکھتے ہیں:
’’وسُنّۃ النبي  صلی اللہ علیہ وسلم  طریقتہ التي کان یتحرّاہا.‘‘  (مفردات، ص:۲۴۵)
ترجمہ: ’’آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت سے مراد ہے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا وہ طریقہ جس کو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  قصداً اختیار فرمایا کرتے تھے۔‘‘
سنت کا یہ مفہوم بڑا وسیع اور جامع ہے اور پورا دین اور دین کے تمام شعبے اس کے اندر آجاتے ہیں۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے کن عقائد کی تعلیم فرمائی؟ عبادات کیسے ادا فرمائی تھیں؟ معاملات ومعاشرت میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا طریقہ کیا تھا؟ سیاست وجہانبانی، صلح وجنگ اور فصلِ خصومات میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا کیا انداز تھا؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی رفتار وگفتار، نشست وبرخاست کیسی ہوتی تھی؟ کیسی شکل وشباہت اور لباس وپوشاک کو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  پسند یا ناپسند فرماتے تھے؟ الغرض عقائد ہوں یا عبادات، اخلاق ہوں یا معاملات، معاشرت ہو یا سیاست، زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کے نقشِ پا ثبت نہ ہوں اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس میں اُمت کی رہنمائی نہ فرمائی ہو۔

سُنّت کی عظمت واہمیت

ہرمسلمان کو شاہراہِ حیات پر سفر کرتے ہوئے قدم قدم پر یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس معاملہ میں آنحضرت   صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا طریقہ کیا ہے؟ اس کے دلائل بے شمار ہیں، مگر میں یہاں صرف تین وجوہ کے ذکر پر اکتفا کروں گا:
اول: یہ کہ ہم آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اُمتی ہیں۔ کلمہ طیبہ ’’لا إلٰہ إلا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ پڑھ کر ہم آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی رسالت ونبوت پر ایمان لائے ہیں اور ہم نے یہ عہد باندھا کہ ہم آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہر حکم اور ہر ارشاد کی تعمیل کریں گے۔ اس معاہدۂ ایمانی کا تقاضا یہ ہے کہ ہماری تمام زندگی کا کوئی قدم منشائے نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے خلاف نہ اُٹھے اور ہماری تمام خواہشات سنتِ نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے تابع ہوں، کیونکہ اس کے بغیر ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشادِ گرامی ہے:
’’لایؤمن أحدکم حتٰی یکون ہواہ تبعاً لما جئت بہ۔‘‘  (مشکوٰۃ، ص:۳۰)
ترجمہ:’’تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا، یہاں تک کہ اس کی خواہش اُس دین کے تابع ہو جائے، جسے میں لے کر آیاہوں۔‘‘
پس آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کے منصبِ رسالت ونبوت اور ہمارے اُمتی ہونے کا تقاضا ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کے طریقۂ زندگی کو پورے طور پر اپنائیں اور کسی دوسرے طریقۂ زندگی کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھیں۔ حق تعالیٰ شانہٗ کا ارشاد ہے:
’’وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ إِلَّا لِیُطَاعَ بِإِذْنِ اﷲِ۔‘‘    (النساء:۶۴)
ترجمہ:’’اور ہم نے جو رسول بھی بھیجا، صرف اسی لیے بھیجا کہ بحکمِ خداوندی اس کی فرمانبرداری کی جائے۔‘‘
آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے طریقۂ زندگی سے انحراف، ایک لحاظ سے گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی رسالت ونبوت کا انکار کردینے کے ہم معنی ہے۔ صحیح بخاری میں آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:
’’کل أمتی یدخلون الجنۃ إلا من أبیٰ، قیل ومن أبیٰ؟ قال من أطاعني دخل الجنۃ، ومن عصاني فقد أبیٰ۔‘‘  (مشکوٰۃ، ص:۲۷)
ترجمہ: ’’میری اُمت کے سارے لوگ جنت میں داخل ہوںگے، سوائے اس کے جس نے انکار کردیا، عرض کیا گیا: انکار کس نے کیا؟ فرمایا: جس نے میرا حکم مانا وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے حکم عدولی کی، اس نے انکار کردیا۔‘‘
دوسری وجہ: یہ کہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  سے ہمارا تعلق محض قانون اور ضابطے کا نہیں، کیونکہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  ہمارے محبوب بھی ہیں اور محبوب بھی ایسے کہ حسینانِ عالم میں کوئی بھی محبوبیت میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ہمسری نہیں کرسکتا، چنانچہ ارشاد ہے:
’’لایؤمن أحدکم حتی أکون أحب إلیہ من والدہٖ وولدہٖ والناس أجمعین۔‘‘  (متفق علیہ، مشکوٰۃ، ص:۱۲)
ترجمہ:’’تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا، یہاں تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ، اس کی اولاد اور سارے انسانوں سے زیادہ محبوب ہوجاؤں۔‘‘
اور محبت کا خاصہ یہ ہے کہ وہ محب کو اپنے محبوب کا ہم رنگ بنا دیتی ہے۔ کسی عاشق دل دادہ سے پوچھئے کہ اس کے نزدیک محبوب کی اداؤں کی کیا قدر وقیمت ہے اور وہ چال ڈھال اور رفتار وگفتار میں اپنے محبوب سے ہم رنگی ومشابہت کی کتنی کوشش کرتا ہے؟ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  جب جانِ جہاں اور محبوبِ محبوبانِ عالم ہیں تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ایک سچے عاشق کو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اداؤں پر کس قدر مرمٹنا چاہیے؟ ایک عارف فرماتے ہیں:
پس جو لوگ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت سے انحراف کرکے یہود ونصاریٰ کی سنت کو اپناتے ہیں، ان کا دعوائے محبت بے روح ہے:
 

تعصي الرسول وأنت تزعم حبہٗ
ہٰذا لعمري في الزمان بدیع
لو کنت صادقا في حبہ لأطعتہٗ
فإن المحب لمن یحب یطیع

 

ترجمہ:’’تم رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی نافرمانی بھی کرتے ہو اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت کے بھی دعویدار ہو۔ بخدا! یہ بات تو زمانے کے عجائبات میں سے ہے۔ اگر تم آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی محبت میں سچے ہوتے تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی بات مانتے، کیونکہ عاشق تو اپنے محبوب کا فرمانبردار ہوتا ہے۔‘‘
تیسری وجہ: یہ کہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  خاتم النبیین ہیں اور قیامت تک کے لیے دنیا وآخرت کی کامیابی وکامرانی اور انسانیت کی فلاح وسعادت آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے قدموںسے وابستہ کردی گئی ہے۔ اگر اس دنیا میں سعادت وکامیابی کے ایک سے زیادہ راستے ہوتے تو ہمیں اختیار ہوتا کہ جس راستے کو چاہیں اختیار کرلیں، لیکن یہاں ایسا نہیں، بلکہ ہدایت وسعادت، صلاح وفلاح اور کامیابی وکامرانی کا بس ایک ہی راستہ کھلا ہے اور وہ حضرت خاتم النبیین محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا راستہ ہے، اس راستہ کے علاوہ باقی تمام راستے بند کر دیئے گئے ہیں:

مپندار سعدی کہ راہِ صفا
تواں رفت جز بر پئے مصطفیؐ

حضرت عمر ؓ کا مشہور قصہ ہے کہ وہ ایک بار یہودیوں کے بیت المدراس تشریف لے گئے اور وہاں سے تورات کے چند اوراق اٹھا لائے اور انہیں آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں پڑھنا شروع کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کے چہرۂ انور کا رنگ بدلنے لگا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ  کے توجہ دلانے پر انہوں نے آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کے چہرۂ انور کا رنگ دیکھا تو اوراق لپیٹ کر رکھ دیئے، اور یہ کہنا شروع کیا:
’’أعوذ باﷲ من غضب اﷲ وغضب رسولہ، رضیت باﷲ ربا، وبالإسلام دینا وبمحمد نبیا۔‘‘
ترجمہ:’’میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں اللہ کے غضب سے اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے غضب سے، میں اللہ تعالیٰ کو اپنا رب مان کر، اسلام کو اپنا دین مان کر اور محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کو اپنا نبی مان کر راضی ہوا۔‘‘
آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
’’والذي نفس محمد بیدہٖ لو بدا لکم موسٰی فاتبعتموہ وترکتموني لضللتم عن سواء السبیل ولو کان حیاً وأدرک نبوتي لاتبعني۔‘‘            (مشکوٰۃ، ص:۲۲۲)
ترجمہ: ’’اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم   کی جان ہے، اگر حضرت موسیٰ ( علیہ السلام ) تمہارے سامنے آجائیں اور تم مجھے چھوڑ کر اُن کی پیروی کرنے لگو تو سیدھے راستے سے بھٹک جاؤگے اور اگر وہ زندہ ہوتے اور میری نبوت کا زمانہ پاتے تو وہ خود میری پیروی کرتے۔‘‘
اور حضرت جابر  رضی اللہ عنہ  کی روایت میں یہ الفاظ ہیں:
’’أمتہوّکون أنتم کما تہوّکت الیہود والنصاریٰ؟ لقد جئتکم ببیضاء نقیۃ ولو کان موسٰی حیا ما وسعہ إلا اتباعي۔‘‘  (مشکوٰۃ، ص:۳۰)
ترجمہ: ’’کیا تم اسی طرح بھٹکا کروگے جس طرح یہود ونصاریٰ بھٹک رہے ہیں؟! بخدا ! میں تمہارے پاس روشن اور صاف ستھری شریعت لے کر آیا ہوں اور اگرحضرت موسیٰ ( علیہ السلام ) زندہ ہوتے تو اُن کو بھی میری پیروی کے سوا چارہ نہ ہوتا۔‘‘
تمام انبیاء کرام  علیہم السلام  اپنے اپنے دور میں ہدایت وسعادت کے سرچشمے تھے، لیکن آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تشریف آوری کے بعد یہ تمام سرچشمے بند کر دیئے گئے اور ان پر خطِ تنسیخ کھینچ دیا گیا اور آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت و طریقہ کے بجائے ان حضرات کی شریعت وطریقہ پر عمل کرنا بھی ضلالت وگمراہی قرار پائی۔ اس واقعہ سے ہمیں تین عظیم الشان سبق ملتے ہیں:
ایک: یہ کہ جب انبیاء گزشتہ کی پیروی بھی ہمارے لیے موجبِ فلاح وسعادت نہیں، بلکہ گمراہی وضلالت ہے تو ان کی بھٹکی ہوئی قوموں کے نقشِ قدم پر چلنا فلاح وسعادت کا موجب کیونکر ہوسکتا ہے؟ اسی سے اندازہ کیجئے کہ آج کے مسلمان جو سنتِ نبوی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر عمل پیرا ہونے کے بجائے یہود ونصاریٰ کی نقالی میں فخر محسوس کرتے ہیں، وہ فلاح وسعادت سے کس قدر محروم ہیں اور ان کی ضلالت وگمراہی کس قدر لائقِ صد ماتم ہے۔
آج اُمتِ مسلمہ در بدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہے، اس کا راز یہی ہے کہ اس نے اپنا قبلہ تبدیل کرلیا۔ وہ نبیِ رحمت  صلی اللہ علیہ وسلم  کے دامنِ رحمت سے کٹ کر وابستۂ اغیار ہوگئی ہے۔ وہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کے مقدس طریقۂ زندگی کو چھوڑ کر گمراہ ومغضوب قوموں کے اختراع کردہ نظامہائے زندگی کی تاریکیوں میں بھٹک رہی ہے۔ اس نے آفتابِ مدینہ سے منہ موڑ کر مغرب کی ظلمتوں سے روشنی کی دریوزہ گری شروع کردی ہے۔ انہوں نے اپنے آئینِ سیاست اور اپنے آدابِ معاشرت، اپنی شکل وصورت اور اپنی عقل وخرد کو یہود ونصاریٰ کے سانچے میں ڈھال لیا ہے۔ آج کسی مسلمان کی شکل وصورت، اس کے رہن وسہن، اس کی نشست وبرخاست، اس کے اندازِ گفتگو اور اس کے مظاہرِ زندگی کو دیکھ کر یہ اندازہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ حضرت محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا اُمتی ہے یا کسی یہودی و عیسائی اور کسی خدا بیزار قوم کا فرد ہے۔ اپنے نبیِ رحمت  صلی اللہ علیہ وسلم  سے ایسی بے وفائی واحسان فراموشی کا نتیجہ ہے کہ انفرادی طور پر ہر شخص کا ذہنی سکون غارت ہوچکا ہے اور اجتماعی طور پر ذلت وخواری ان کا مقدر بن چکی ہے:

خرما نتواں یافت ازیں خارکہ کشتیم
دیبا نتواں بافت ازیں پشم کہ رشتیم

دوسرا سبق: ہمیں اس سے یہ ملتا ہے کہ: جب آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تشریف آوری کے بعد حضرات انبیاء کرام  علیہم السلام  کی شریعتیں بھی منسوخ ہوگئیں، تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے کسی نقال اور کسی جھوٹے مدعی نبوت کی پیروی کی گنجائش کب رہ جاتی ہے؟ اور اگر دورۂ محمدی  صلی اللہ علیہ وسلم  میں حضرت موسیٰ  علیہ السلام  کی پیروی بھی گمراہی وضلالت ہے تو کسی مسیلمۂ پنجاب اور اسودِ قادیان کی پیروی کے جہالت وحماقت ہونے میں کیا شبہ رہ سکتا ہے؟
تیسرا سبق: ہمیں یہ ملتا ہے کہ جب آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد انبیاء گزشتہ کی سنتوں اور طریقوں کو اختیار کرنے کی بھی گنجائش نہیں تو بعد کے کسی انسان کی خود تراشیدہ خواہشات وبدعات کو اپنانے کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ دین کے نام پر خود تراشیدہ رسوم وبدعات کی سخت مذمت کی گئی ہے اور ضلالت وگمراہی فرمایا گیا ہے۔ حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ   فرماتے ہیں کہ: ایک دن نماز سے فارغ ہو کر آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں ایسا بلیغ وعظ فرمایا، جس سے آنکھوں سے سیلِ اشک رواں ہوگئے اور دل تھر تھرا گئے۔ ایک شخص نے عرض کیا: یارسول اللہ! یہ تو ایسا وعظ فرمایا، گویا آپ ہمیں رخصت فرمارہے ہیں، اس لیے ہمیں کوئی خصوصی وصیت فرمایئے، ارشاد ہوا:
’’أوصیکم بتقوی اﷲ والسمع والطاعۃ، وإن کان عبداً حبشیاً، فإنہٗ من یعش منکم بعدي فسیرٰی اختلافاً کثیراً، فعلیکم بسنتي وسنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین، تمسکوا بہا، وعضوا علیہا بالنواجذ، وإیاکم ومحدثات الأمور، فإن کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ۔‘‘   (مشکوٰۃ، ص:۳۰)
ترجمہ: ’’میں تمہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنے کی اور امیر کی سمع وطاعت بجالانے کی وصیت کرتا ہوں، خواہ وہ حبشی غلام ہو، کیونکہ تم میں سے جو شخص میرے بعد زندہ رہا، وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا، پس میری سنت کو اور خلفائے راشدینؓ کی سنت کو لازم پکڑنا اور دانتوں کی کچلیوں سے مضبوط تھام لینا اور جو نئے نئے امور دین میں اختراع کیے جائیں ان سے بچتے رہنا، کیونکہ ہر ایسی ایجاد تو بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
اکابرِ امت فرماتے ہیں کہ: دین میں کسی نئی بدعت کی ایجاد در پردہ رسالتِ محمدیہ (علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والتسلیمات) کی تنقیص ہے، کیونکہ بدعت کے ایجاد کرنے والا گویا یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کی ایجاد کردہ بدعت کے بغیر دین نامکمل ہے اور یہ کہ نعوذ باﷲ! خدا ورسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی نظر وہاں تک نہیں پہنچی، جہاں اس بدعت پرست کی پہنچی ہے، یہی وجہ ہے کہ بدعت کے ایجاد کرنے کو دینِ اسلام کے منہدم کردینے سے تعبیر فرمایا، حدیث میں ہے:
’’مَنْ وَقَّرَ صاحبَ بدعۃٍ فقد أعان علٰی ہدم الإسلام۔‘‘  (مشکوٰۃ، ص:۳۱)
ترجمہ:’’جس شخص نے کسی بدعتی کی تعظیم وتوقیر کی، اس نے اسلام کے منہدم کرنے پر مدد کی۔‘‘
ان ضروری امور کی وضاحت کے بعد اب ’’برکاتِ سنت‘‘ کو بیان کرتا ہوں، لیکن یہ عرض کردینا ضروری ہے کے ’’برکاتِ سنت‘‘ بے شمار ہیں، ان کا احاطہ ممکن نہیں، یہاں بطور نمونہ چند امور کو بیان کر سکوں گا:

محبوبیتِ خداوندی

اتباعِ سنت کی سب سے اہم برکت یہ ہے کہ اس کی بدولت آدمی اللہ تعالیٰ کی نظر میں محبوب ہوجاتا ہے، قرآن کریم میں ہے:
’’قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللہُ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔‘‘   (آلِ عمران:۳۱)
ترجمہ: ’’آپ فرما دیجئے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میرا اتباع کرو، خدا تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگیںگے اور تمہارے سب گناہوں کو معاف کردیںگے اور اللہ تعالیٰ بڑے معاف کرنے والے بڑے عنایت فرمانے والے ہیں۔‘‘
حضرت شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ  اس کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں:
’’یعنی اگر دنیا میں آج کسی شخص کو اپنے مالک حقیقی کی محبت کا دعویٰ یا خیال ہو تو لازم ہے کہ اس کو اتباعِ محمدی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی کسوٹی پر کس کر دیکھ لے، سب کھرا کھوٹا معلوم ہو جائے گا۔ جو شخص جس قدر حبیبِ خدا محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی راہ چلتا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی لائی ہوئی روشنی کو مشعل راہ بناتا ہے، اسی قدر سمجھنا چاہیے کہ خدا کی محبت کے دعویٰ میں سچا اور کھرا ہے اور جتنا اس دعویٰ میں سچا ہوگا، اتنا ہی حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیروی میں مضبوط ومستعد پایا جائے گا، جس کا پھل یہ ملے گا کہ حق تعالیٰ اس سے محبت کرنے لگے گا اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اتباع کی برکت سے پچھلے گناہ معاف ہو جائیں گے اور آئندہ طرح طرح کی ظاہری وباطنی مہربانیاں مبذول ہوں گی۔‘‘
اتباعِ نبوی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی برکت سے حق تعالیٰ شانہ کی محبت ومحبوبیت حاصل ہونے کا راز یہ ہے کہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  محبوب رب العالمین ہیں۔ جو شخص بھی آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کی شکل وشباہت، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اخلاق و اعمال اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیرت وکردار کو اپنائے گا، وہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں محبوب ہو جائے گا، کیونکہ محبوب کی ادائیں بھی محبوب ہوتی ہیں۔
دوسرے: یہ کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ہرہر ادا اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ہر قول وعمل منشا الٰہی کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا، گویا اگر کوئی شخص رضائے الٰہی کو مجسم شکل میں دیکھنا چاہتا ہو، وہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کو دیکھ لے، یہی وجہ ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اطاعت کو عین اطاعتِ خداوندی قرار دیا گیا، چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
’’مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اللہَ وَمَنْ تَوَلّٰی فَمَا أَرْسَلْنٰکَ عَلَیْہِمْ حَفِیْظًا۔‘‘  (النساء:۸۰)
ترجمہ: ’’جس نے حکم مانا رسول کا، اس نے حکم مانا اللہ کا، اور جو اُلٹا پھرا تو ہم نے تجھ کو نہیں بھیجا ان پر نگہبان۔‘‘  (ترجمۂ شیخ الہندؒ)
پس جب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت، رضائے الٰہی کا معیار ہوئی اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اطاعت عین اطاعتِ خداوندی قرار پائی تو جو شخص بھی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے مبارک طریقوں کو اپنائے گا اور جو شخص بھی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی معین کردہ شاہراہِ عمل پر گامزن ہوگا، وہ رضائے الٰہی کا مورد ہوگا اور ’’رضي اﷲ عنہم ورضوا عنہ‘‘ کی بشارت سے سرفراز ہوگا۔ یہ اُمتِ محمدیہ (علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والتسلیمات) کی انتہائی سعادت وخوش بختی ہے کہ انہیں آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیروی سے محبوبیت ورضائے الٰہی کا مقام میسر آسکتا ہے۔

گوئے توفیق وسعادت درمیان افگندہ اند
کس بمیدان در نمی آید سواراں را چہ شد

یہاں یہ نکتہ بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ محبت دو طرفہ چیز ہے، پس جو شخص اللہ تعالیٰ کا محبوب ہوگا وہ محب بھی ہوگا، جیساکہ ارشاد ہوا ہے:
’’یُحِبُّہُمْ وَیُحِبُّوْنَہٗ‘‘ یعنی ’’اللہ تعالیٰ ان سے محبت رکھتا ہے اور وہ اللہ سے محبت رکھتے ہیں۔‘‘
گویا محبوب رب العالمین  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت کو اختیار کرنے والے کو دو انعام عطا ہوتے ہیں: ایک یہ کہ: اللہ تعالیٰ کا محبوب بن جاتا ہے اور دوسرے یہ کہ: اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ’’محبِ صادق‘‘ ہونے کی سند عطا کی جاتی ہے۔ یہ دونوں کتنے بڑے انعام ہیں؟ اس کی قدر کسی عاشقِ صادق سے پوچھئے، حضرت اقدس عارف باللہ ڈاکٹر عبد الحئ عارفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

جب کبھی شوریدگانِ عشق کا ہوتا ہے ذکر
اے زہے قسمت! کہ ان کو یاد آجاتا ہوں میں

معیتِ نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم 

اتباعِ سنت کی ایک برکت یہ ہے کہ ایسے شخص کو جنت میں آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کی معیت نصیب ہوگی، آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے خادمِ خاص حضرت انس رضی اللہ عنہ  سے فرمایا تھا:
’’یا بني! إن قدرت أن تصبح وتمسي ولیس في قلبک غش لأحد فافعل، ثم قال: یا بني! وذلک من سنتي، ومن أحب سنتي فقد أحبني ومن أحبني کان معي فی الجنۃ۔‘‘  (مشکوٰۃ، ص:۳۰)
ترجمہ: ’’اے بیٹا! اگر تو اس پر قادر ہو کہ ایسی حالت میں صبح وشام کرے کہ تیرے دل میں کسی کی جانب سے میل نہ ہو تو ضرور ایسا کر، پھر فرمایا: اے بیٹا! اور یہ میری سنت میں سے ہے اور جس نے میری سنت سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی، وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔‘‘
اس حدیث پاک میں سنت نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم  کو محبوب ومرغوب رکھنے والے کے لیے متعدد انعامات کی بشارت ہے۔
ایک: یہ کہ ایسے شخص کا نام آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کے عشاق ومحبین میں لکھا جائے گا، گویا ’’عشقِ رسول‘‘ کا معیار ہی ’’سنتِ نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ سے محبت ہے، جو شخص جس قدر متبعِ سنت ہوگا، اسی قدر عشقِ رسالت میں اس کا مقام بلند ہوگا اور جو شخص جس قدر سنتِ نبوی کی پیروی سے محروم ہوگا، اسی قدر ’’عشقِ نبوی‘‘ سے بے نصیب ہوگا۔
دوسرے: یہ کہ اتباعِ سنت پر صادق مصدوق  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جنت کا وعدہ فرمایا ہے اور یہ ایسا وعدہ ہے جس میں تخلُّف کا کوئی امکان نہیں، پس عشق ومحبت کے ساتھ سنتِ نبوی کی پیروی جنت کا ٹکٹ ہے۔
تیسرا انعام: جو تمام انعامات سے مزید تر ہے، یہ ہے کہ ایسے شخص کو جنت میں آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کی رفاقت ومعیّت نصیب ہوگی اور یہ مضمون قرآن کریم میں بھی منصوص ہے، چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے:
’’مَنْ یُّطِعِ اللہِ وَالرَّسُوْلَ فَأُولٰئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ أَنْعَمَ اللہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَآءِ وَالصَّالِحِیْنَ وَحَسُنَ أُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا ذٰلِکَ الْفَضْلُ مِنَ ﷲِ وَکَفٰی بِاللہِ عَلِیْماً‘‘ (النساء: ۶۸، ۶۹)
ترجمہ: ’’اور جو کوئی حکم مانے اللہ کا اور اس کے رسول کا، سو وہ ان کے ساتھ ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا کہ وہ نبی اور صدیق اور شہید اور نیک بخت ہیں اور اچھی ہے ان کی رفاقت۔ یہ فضل ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ کافی ہے جاننے والا۔‘‘                       (ترجمہ حضرت شیخ الہندؒ)
اس نعمتِ کبریٰ اور دولتِ عظمیٰ سے بڑھ کر کونسی نعمت ہوسکتی ہے کہ کسی خوش بخت کو سرورِ کونین  صلی اللہ علیہ وسلم  اور دیگر انبیاء  علیہم السلام ، صدیقینؓ، شہداءؒ اور صالحینؒ کی صحبت ورفاقت میسر آجائے۔

سو شہید کا مرتبہ

شہید فی سبیل اللہ کا مقام کتنا بلند ہے؟ اور اسے کس قدر انعامات سے نوازا جاتا ہے؟ قرآن کریم اور احادیثِ نبویہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میں اس کی تفصیل موجود ہے، لیکن ’’سنتِ نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ پر مضبوطی کے ساتھ عمل کرنے والے کو سو شہید کا مرتبہ عطا کیا جاتا ہے، حدیث شریف میں ہے:
’’من تمسک بسنتي عند فساد أمتي، فلہٗ أجر مائۃ شہید۔‘‘  (مشکوٰۃ، ص:۳۰)
ترجمہ:’’جس شخص نے میری سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھا میری اُمت کے بگاڑ کے وقت اس کے لیے سو شہید کا اجر ہے۔‘‘
یہ حدیث متعدد فوائد پر مشتمل ہے:
ایک: یہ کہ اس میں اُمت کے عمومی بگاڑ کی پیشن گوئی فرمائی گئی ہے۔ ’’عمومی بگاڑ‘‘ کا لفظ میں نے اس لیے کہا کہ لاکھ دو لاکھ آدمیوں کی جماعت میں اگر سو پچاس آدمی بگڑے ہوئے ہوں تو اس بگاڑ کو پوری جماعت کی طرف منسوب نہیں کیا جاتا۔ یہاں آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ’’فسادِ امت‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے، جس میں ا س طرف اشارہ ہے کہ امت کی اکثریت میں فساد آئے گا، کہیں عقائد کا بگاڑ ہوگا، کہیں اعمال کا، کہیں اخلاق کا، کہیں معاملات اور معاشرت کا بگاڑ ہوگا، آج امت کے مجموعی حالات پر نظر ڈالی جائے تو ’’فساد أمتي‘‘ کا نقشہ سامنے آجاتا ہے۔
دوم: یہ کہ امت کا یہ بگاڑ ترکِ سنت کی وجہ سے ہوگا، یعنی امت، آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  والے اعمال اور اخلاق وآداب کو چھوڑ کر گمراہ قوموں کے نقشِ قدم پر چل پڑے گی اور یہی چیز اس کے عالمگیر فساد کا سبب بن جائے گی۔
یہ امت غیر قوموں کی تقلید کے لیے وجود میں نہیں لائی گئی، بلکہ اقوامِ عالم کی امامت وقیادت کا تاج اس کے سر پر رکھا گیا تھا، اور وہ امامت وقیادت کے منصب پر اسی وقت تک فائز رہے گی، جب تک وہ خود اپنے نبی الرحمت  صلی اللہ علیہ وسلم  کی مقتدی ہو، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے نقشِ قدم کی پابند ہو اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی لائی ہوئی امانت کی نگہبان وپاسبان ہو، چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے:
’’کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ‘‘                                                                                         (آلِ عمران:۱۱۰)
ترجمہ: ’’تم ہو بہتر سب اُمتوں سے جو بھیجی گئی عالم میں، حکم کرتے ہو اچھے کاموں کا اور منع کرتے ہو برے کاموں سے اور ایمان لاتے ہو اللہ پر۔‘‘              (ترجمہ حضرت شیخ الہندؒ)
افسوس ہے کہ قرآن کریم نے ’’خیرِ امت‘‘ کے جو اوصاف وخصوصیات اس آیتِ کریمہ میں بیان فرمائے ہیں، اپنے نبی رحمت  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت وطریقہ کو چھوڑنے کی وجہ سے امت ان خصوصیات سے ہاتھ دھو بیٹھی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اقوامِ عالم کی قیادت کے بجائے ان کی دریوزہ گر ہو کر رہ گئی۔ آج اس کی گراوٹ وپستی کا یہ عالم ہے کہ وہ مادیات ہی میں دوسری قوموں سے بھیک نہیں مانگ رہی، بلکہ آئین وقانون، تمدن وشہریت اور اخلاق ومعاشرت کے آداب بھی باہر سے در آمد کررہی ہے، فإلی اﷲ المشتکٰی۔
سوم: یہ کہ امت کے عمومی فساد اور بگاڑ کی فضا میں بھی ہر امتی کو تاکید فرمائی گئی ہے کہ وہ سنتِ نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم  سے تمسک کرے اور اس کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھے، ایسے پُر از فساد ماحول میں بھی کسی شخص کے لیے یہ کہنے کی گنجائش نہیں ہے کہ ’’اجی کیا کریں؟ پورا معاشرہ ہی بگڑا ہوا ہے، ایسے ماحول میں ’’سنتِ نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ پر عمل کیسے کریں؟‘‘ نہیں، بلکہ چار سو ہزار فتنہ وفساد ہو، معاشرہ اور ماحول کتنا ہی بگڑا ہوا ہو، اتباعِ سنت کی پابندی بہرحال لازم ہے، یہ کبھی ساقط نہیں ہوسکتی، یہی وجہ ہے کہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اُمت کے عمومی بگاڑ اور فساد کے زمانے میں بھی’’سنت‘‘ کو مضبوطی، عزم اور حوصلہ کے ساتھ تھامنے کا حکم فرمایا ہے۔
چہارم: یہ کہ جو شخص ایسے فساد آمیز ماحول میں بھی ’’سنتِ نبوی‘‘کو سینے سے لگائے رکھے، اس کو بشارت دی گئی ہے کہ یہ قیامت کے روز سو شہیدوں کا اجر ومرتبہ پائے گا، کیونکہ شہید تو ایک مرتبہ اپنی جانِ عزیز کا نذرانہ بارگاہِ خداوندی میں پیش کرکے سرخرو ہوجاتا ہے اور یہ شخص کار زارِ زندگی میں جہادِ مسلسل کررہا ہے، اس پر ہرطرف سے طعنوں کی بارش ہو رہی ہے، کوئی ’’دقیانوسی‘‘ کہہ رہا ہے، کوئی کٹھ ملاّ کا خطاب دے رہا ہے، کوئی ’’رجعت پسند‘‘ کی پھبتی اُڑا رہاہے۔ الغرض اس مجاہد کو ہزار طعنے برداشت کرنا پڑ رہے ہیں، جن سے اس کے قلب وجگر چھلنی ہیں، لیکن اس نے بھی ’’محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی غلامی کا عہد باندھ رکھا ہے اور وہ ہر قیمت پر اس عہد کو نبھارہا ہے، اس لیے کوئی شک نہیں کہ اس کا کارنامہ سو مجاہدوں کے برابر شمار کیے جانے کے لائق ہے، ایسا شخص مرتے وقت پوری طعنہ زن قوم کو مخاطب کرکے کہتا ہے:

میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے 
فقیرانہ آئے صدا کر چلے

اور آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کی بارگاہِ عالی میں عرض کرتا ہے:

جو تجھ بن نہ جینے کا کہتے تھے ہم 
سو اس عہد کو ہم وفا کر چلے

وآخر دعوانا أن الحمد ﷲ رب العالمین 
وصلی اﷲ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہٖ صفوۃ البریۃ محمد وآلہٖ وأصحابہٖ وأتباعہٖ أجمعین

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین