بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

بینات

 
 

سراپا وفائے شیخ اور جستجوئے علم حضرت مولانا محمد انور بدخشانی  رحمۃ اللہ علیہ 

سراپا وفائے شیخ اور جستجوئے علم

حضرت مولانا محمد انور بدخشانی  رحمۃ اللہ علیہ 

 

بتاریخ ۷؍صفر ۱۴۴۶ھ مطابق ۱۶ ؍اگست ۲۰۲۴ء جامعہ کے شیخ الحدیث ، و رکن مجلسِ شوریٰ حضرت مولانا محمد انور بدخشانی  رحمۃ اللہ علیہ  کے ایصالِ ثواب کے لیے جامعہ میں  طلبہ کرام نے قرآن خوانی کی، اور بعد ازاں  اساتذہ جامعہ ودیگر حضرات نے حضرت مولانا بدخشانی  رحمۃ اللہ علیہ  کی حیات وخدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے طلبہ کو نصائح فرمائیں ۔ اس موقع پر نائب رئیس مولانا سید احمد یوسف بنوری مدظلہم نے پُرمغز خطاب فرمایا، جسے جامعہ کے دورہ حدیث کے طالب علم مولوی احمد شہباز نے قلم بند کیا۔ ادارہ بینات عنوانات وغیرہ کے اضافے کے بعد اس خطاب کو افادۂ عام کی غرض سے شائع کررہا ہے۔     (ادارہ)

 

الحمد للہ رب العالمين، والصلاۃ والسلام علی سید  المرسلین، وعلٰی آلہٖ و صحبہٖ أجمعین، أما بعد، فأعوذ باللہ من الشيطٰن الرجيم، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم: ’’یَرْفَعِ اللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ وَ اللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ‘‘ (المجادلۃ:۱۱) صدق اللہ العظیم، وقال رسول اللہ ﷺ : ’’إن العلماء ورثۃ الأنبیاء.‘‘ (سنن أبي داود:۳۶۴۲) صدق رسولہ النبي الکریم‎.‎ اللّٰہم صل علی سیدنا محمد و علی آل سیدنا محمد و أصحاب سیدنا محمد.

عزیزانِ گرامی قدر! آج کے دن ہم سب اپنے استاذِ گرامی، جامعہ کے شیخ الحدیث، حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ   کے داماد، بعد ازاں  حضرت مولانا نور احمد  رحمۃ اللہ علیہ  - جو جامعہ دار العلوم کراچی کے اولین ناظم، حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  اور حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کے استاذ تھے- ان کے داماد، محقّقِ کبیر، صاحبِ تالیفاتِ کثیرہ، شیخ الکل فی الکل، حضرت مولانا محمد انور بدخشانی -رحمہ اللہ رحمۃً واسعۃً، نوّر اللہ مرقدہٗ، أکرم نزلہٗ و وسّع مدخلہٗ- کی وفات حسرتِ آیات کے موقع پر جمع ہیں ۔

ہماری شناخت، دین ومذہب 

ہماری اور آپ کی شناخت اول وآخر مذہب ہے، ہمیں  کوئی بھی صلاحیت عطا ہو، بولنے کی صلاحیت سے اللہ نے ہمیں  مشرّف کیا ہو، ہمارے اندر لکھنے کی صلاحیت ہو، ہماری کوئی اور شناخت قبیلہ اور خاندان کی ہو، ان تمام چیزوں  کی اَساس اگر دین اور مذہب نہیں  ہے، تو نہ دنیا میں  اس کا حقیقتاً کوئی فائدہ ہے، اور آخرت میں  تو اس کی کوئی اُمید نہیں  رکھنی چاہیے۔ اہلِ مذہب کا بنیادی مقدمہ ہی یہ ہے کہ یہ کائنات چند روزہ نہیں  ہے، اس کے بعد حقیقی دنیا کا آغاز ہوگا، چناں  چہ کسی شخص کی وفات سے دل میں  ایک ملال کی کیفیت تو پیدا ہوتی ہے، لیکن ایک مومن کے لیے یاس اور مایوسی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں  ہوتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: ’’تحفۃ المؤمن الموت۔‘‘ (مستدرک الحاکم:۷۹) یعنی: ’’مومن کے لیے موت ایک تحفہ کی حیثیت رکھتی ہے۔‘‘ 
اس پر اقبالؒ    کا شعر ہے:

نشانِ مردِ مومن با تو گویم

چوں  مرگ آید تبسم بر لبِ اوست

’’میں  تمہیں  کسی مردِ مومن کی نشانی بتاتا ہوں ، جب موت آتی ہے تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔‘‘
اس وقت کچھ خِطّوں  میں  اُمتِ مسلمہ کے نوزائیدہ بچوں  سے لے کر بڑی عمر کی خواتین تک روز شہادتیں  ہو رہی ہیں ، اور ہم اس کسمپرسی میں  جینے پر مجبور ہیں ، اس لیے موت کی اندوہناکی کا کیا سوال؟! 

جامعہ اور شہداء جامعہ

ہمارے اساتذہ نے اشارہ کیا کہ آج اللہ نے جامعہ کو جو روحانی ترقی دی ہے، اس میں  ایک اہم کردار اُن شہداء کرام کی قربانیوں  کا ہے، جو جامعہ کو عطا ہوئیں ، جامعہ کا معاملہ تو یہ ہے کہ دیگر اداروں  کے برعکس اس کے ہر شعبہ کا شہید الگ ہے، اس کے شیخ الحدیث کے منصب پر کوئی فائز رہا ہو، یا اہتمام کے منصب پر فائز رہا ہو، دارالافتاء سے منسلک ہو، یا اور کسی شعبہ میں  ہو، جیسے: مولانا قاری افتخار احمد صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  کو یاد کیجیے! ہمارے جامعہ کے ہر شعبہ سے وابستہ حضرات کو اللہ تعالیٰ نے شہادتوں  سے ہمکنار کیا ہے، شہداء کرام میں  طلبہ کی بھی ایک الگ فہرست ہے۔ لہٰذا اُستاذِ گرامی کی وفات پر منعقد کیا جانے والا یہ تعزیتی اجتماع صرف غم و اندوہ کا اظہار نہیں  ہے، بلکہ شاعر کی زبان میں  یوں  کہیے کہ:

اَعِدْ ذِکْرَ نُعْمَانٍ لَّنَا إِنَّ ذِکْرَہٗ
ھُوَ الْمِسْکُ مَا کَرَّرْتَہٗ یَتَضَوَّعٗ

وہ تو وہ ہے تمہیں  ہو جائے گی محبت اُس سے
تم اِک نظر میرا محبوبِ نظر تو دیکھو

وہ کون لوگ تھے جنہوں  نے جامعہ کو جامعہ بنایا؟ وہ کون شخصیات تھیں  جن کی وجہ سے اطراف و اکنافِ عالم میں  کوئی ایک طالب علم بھی پہنچتا ہے، اور اپنا تعارف جامعہ کے حوالہ سے کرواتا ہے، تو لوگوں  کی نگاہیں  احترام سے جھک جاتی ہیں ؟! ان شخصیات میں  سرِفہرست ہمارے استاذ گرامی حضرت مولانا محمد انور بدخشانی  رحمۃ اللہ علیہ  تھے۔ 

ایک پہلو: مجسّم جستجوئے علم

حضرت مولانا بدخشانی رحمۃ اللہ علیہ  کی شخصیت کا سب سے نمایاں  پہلو، جس کی تعبیر کے لیے مجھے ایک اور محقّق، حضرت بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  کے داماد، حضرت مولانا محمد طاسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ  کا جملہ یاد آتا ہے، انہوں  نے حضرت بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  کی وفات پر جو مضمون لکھا ہے، اس میں  حضرت بنوریؒ کی علمی گرویدگی کو یوں  تعبیر کیا ہے کہ: ’’علم کے ساتھ ان کا تعلق عینیت کا تھا، غیریت کا نہیں  تھا!‘‘ کیا اکابر تھے؟! ان کے ایک جملہ کی شرح کے لیے بھی وقت درکار ہوتا ہے! آپ طلبہ میں  سے بعض علمِ کلام کے طالب علم ہیں ، اور جانتے ہیں  کہ علمِ کلام میں  صفاتِ باری تعالیٰ کے بارے میں  بحث ہوتی ہے کہ صفات‘ عینِ ذات ہیں  یا غیر ذات ہیں ؟ ہمارا اور جمہور اشاعرہ کا موقف ہے کہ صفات لا غیر و لا عین ہیں ، جس کے ثبوت کے لیےہم ’’شرح عقائد‘‘ میں  بحثیں  پڑھتے ہیں ۔ حضرت مولانا محمد طاسین صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا: ’’حضرت بنوریؒ کا تعلق علم کے ساتھ عینیت کا تھا، غیریت کا نہیں  تھا!‘‘ یعنی عام قاعدہ سے ہٹ کر صفتِ علم ان کی ذات کا حصہ بن گئی تھی۔چناں  چہ اگر حضرت بدخشانی صاحبؒ کی پوری شخصیت کو ایک مختصر جملے میں  بیان کرنا ہو تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ : ’’اس ہستی کا تعلق بھی علم کے ساتھ عینیت کا تھا۔‘‘ 
علم سے استفادہ کا عالم یہ تھا کہ اگر ہم جیسا کوئی ناچیز یا کوئی طالب علم کتاب ہاتھ میں  لے کر جا رہا ہوتا، تو اپنی تمام تر جلالتِ شان و قدر کے باوجود پوچھتے تھے کہ کون سی کتاب ہاتھ میں  ہے؟ کس موضوع پر ہے؟ کتاب کو دیکھتے تھے۔ ان کے اپنے علم پر اعتماد کا عالم یہ تھا کہ ہمیں  دورہ حدیث کے سال ان سے بخاری شریف (جلد دوم) پڑھنے کاشرف حاصل ہو ا، مجھے اور میرے ایک ساتھی (جو جامعہ میں  مصروفِ خدمت ہیں ) سے فرماتے: ’’فتح الباري، عمدۃ القاري، شرح صحیح البخاري لابن بطال اور إرشاد الساري للقسطلاني کھول کر بیٹھو اور دیکھتے رہو۔‘‘ اور دورانِ درس بعض مقامات پر فرماتے کہ: ’’دیکھو! یہاں  ابن حجرؒ نے یہ لکھا ہوگا، ابن بطالؒ نے یہ لکھا ہے۔‘‘ اور کبھی اپنا قیمتی تبصرہ بھی فرماتے۔علم کے ساتھ عینیت کے تعلق اور مسائل کے ساتھ انہماک کا عالم یہ تھا! عرصہ ہوا مطوّلات پڑھاتے تھے، اللہ نے حدیث کی خدمت میں  لگا رکھا تھا، مگر اپنے خوردوں  کی تربیت کا عالم یہ تھا کہ ایک مرتبہ ان کو مقامات کا ایک نسخہ ملا، اس کا حاشیہ ان کو پسند آیا، ان کے صاحبزادے، جامعہ کے استاذ، دارالافتاء کے رکن رکین مولانا انس بدخشانی صاحب تشریف فرما ہیں ، ان کو وہ نسخہ دیا اور فرمایا: ’’احمد مقامات پڑھا رہا ہے، ا س سے کہو اس نسخے کا مطالعہ کرے۔‘‘ علم کے ساتھ ان کی شخصی وابستگی یہ تھی! 
عزیزانِ گرامی! یہ اعتماد رکھیے کہ بند کمروں  میں  اکیلے بیٹھ کر کیا جانے والا مطالعہ لوگوں  کو نظر آئے نہ آئے، اللہ کو نظر آتا ہے اور اس کے لیے قلوب میں  راہ ہموار ہوتی ہے۔ استاذ گرامی کے اذواق مختلف تھے، عصری معلومات سے پوری طرح ہمکنار تھے، سیاسی معاملات میں  اپنا خاص ذوق رکھتے تھے، اور اس سلسلہ میں  وہ اتنے کوہِ گراں  تھے کہ جس سیاسی موقف پر وہ جم جایا کرتے تھے، اگرتمام لوگ مخالف ہوں  تب بھی وہ اپنے اس موقف سے ہٹتے نہ تھے، ایسے کئی وقت آئے مگر وہ اپنےموقف پر قائم رہے، لیکن بایں  ہمہ انہوں  نے اپنی شناخت‘ علم کے ساتھ بنائی، علم کو اپنی اساس بنایا، علم کسی کی اَساس ہو اس کی خوشبو خود مہکتی ہے، اور اس کے اثرات ہوتے ہیں ۔ 
بہر کیف! یہ ایک طویل داستان ہے، ان کی شخصیت کے اتنے پہلو ہیں  کہ اگر کسی ایک پہلو پر بات کی جائے تو دیگر جہتوں  پر بات کرنے کا موقع ہی نہ ملے۔ اور سچی بات ہے مجھ جیسے ناچیز کو یارائے بیان بھی نہیں  ہے، میرے اساتذہ، جوصحیح معنوں  میں  جبال العلم ہیں ، وہ ان کی شخصیت پر روشنی ڈالیں  گے۔ ایک نکتہ ذہن میں  آرہا ہے، ان کا علم کے ساتھ عینیت کا حال یہ تھا، میں  اس وقت طالب علم تھا، اساتذہ کرام کی دو تین دن کی تربیتی نشستیں  ہوئیں ، جن میں  باقاعدہ طلبہ کی چھٹی کردی گئی، اور اساتذہ نے مختلف کتب وفنوں  کے بارے میں  تبصرہ کیا، مختلف اساتذہ نے تیاری کرکے مختلف فنون پر گفتگو کی، لیکن ہمارے جلیل القدر استاذ(مولانا بدخشانی رحمۃ اللہ علیہ ) کو بلاغت کے موضوع پر بات کر نے کے لیے کسی تیاری کی ضرورت نہیں  پڑی، بالفاظِ دیگر اُن کو لیکچر تیار کرنے کی ضرورت پیش نہیں  آئی۔ یہ ان کا ذاتی علم تھا کہ ’’أسرار البلاغۃ‘‘ میں  یہ لکھا ہے، ’’دلائل الإعجاز‘‘ میں  عبد القاہر جرجانی  ؒ نے یہ لکھا ہے، علامہ تفتازانی  ؒنے یہ لکھا ہے، جیسے حضرت کشمیریؒ کے بارے میں  آتا ہے کہ فقہ کو چھوڑ کر ہر علم کے بارے میں  وہ ذاتی تبصرہ کرتے تھے ، وہ (مولانا بدخشانی  رحمۃ اللہ علیہ ) اس قابل تھے کہ باقاعدہ شخصیات اور فنون پر تبصرہ کرتے تھے کہ تفتازانی  ؒ کی وجہ سے علوم میں  یہ تبدیلی آئی اور فلاں  کی وجہ سے یہ تبدیلی آئی۔ 

دوسرا پہلو: وفائے جامعہ

ایک دوسرا پہلو جو میں  آپ حضرات کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں ، وہ ہے جامعہ کے ساتھ ان کی ذاتی وابستگی، عزیزانِ گرامی! ادارے انسان بناتے ہیں ، اور انسانوں  کے بنائے ہوئے اداروں  کو حقیقتاً وہ حیثیت حاصل نہیں  ہوتی جو نصوص اور شعائر اللہ کو حاصل ہوتی ہے، یہ طے شدہ بات ہے، اس سے انکار نہیں ، لیکن کوئی ادارہ اخلاص سے بنایا جائے اور بنانے والا یہ کہے کہ: ’’اس کا ثواب مجھے نہیں  چاہیے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو چاہیے۔‘‘ ایسے ادارہ کے ساتھ جو وفا کرتا ہے، ادارہ اس کے لیے اپنا سینہ کھول دیتا ہے، اور اس کا فیض دنیا میں  پہنچتا ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق حضرت مولانا محمد انور بدخشانی  رحمۃ اللہ علیہ  کی جو آخری بات ہم تک پہنچی ہے، وہ یہ کہ وفات سے پہلے حضرت بنوریؒ کا تذکرہ آیا، تو فرمایا: ’’حضرت نے مجھے کہا تھا: اپنی زندگی جامعہ کے لیے وقف کردو، میں  نے وقف کر دی۔‘‘ آپ کے سامنے یہ بات بھی آئی ہوگی کہ ان کو قاضی القضاۃ سے لے کر دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں  میں  پیش کش کی گئی، لیکن انہوں  نے اس کو درخورِ اعتنا ہی نہیں  جانا، اور اس جامعہ سے اپنی وفا کو آخری درجہ میں  نبھایا، آج بھی اگر ہم جامعہ سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں ، چاہے طالب علم ہوں  یا استاذ ہوں ، مجھے معذرت کے ساتھ کہنے دیجیے کہ اس ادارے کی دَر و دیوار سے وفا‘ حصولِ علم کے لیے شرط ہے، حضرت ڈاکٹر صاحب (مولانا عبدالرزاق اسکندر  رحمۃ اللہ علیہ ) پر کتنے حالات آئے، لیکن فرمایا: ’’مجھے میرے شیخ (حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ) نے کہا تھا: ادارہ نہیں  چھوڑنا۔‘‘ فرمایا کرتے تھے: ’’ہمارے اساتذہ جن گلیوں  سے گزرے، ہم نے ان سے بھی وفا کی ہے۔‘‘ اس جامعہ پر کئی طرح کے حالات آئے، کتنے موقعوں  پر یہ گفتگو ہوچکی ہے کہ یہ مشاورت پر مبنی ادارہ ہے، حضرت بدخشانی  رحمۃ اللہ علیہ  اس مشاورت میں  دل و جان سے شریک ہوئے، ان کی اولین زیارت کا موقع مجھے اپنے گھر میں  تب ملا تھا، جب ہمارے گھر میں  وہ اسی نوعیت کی مشاورت میں  شرکت کے لیے تشریف لاتے، جامعہ کے تمام داخلی معاملات میں  وہ دلچسپی رکھتے، باقاعدہ ان میں  اہمیت کے ساتھ تشریف لاتے تھے، جامعہ کے تمام فیصلوں  میں  شریک ہوتے تھے، مگر کسی منصب کے حصول کے بغیر، ان کے اقوال جو مجھ تک سندِ متصل کے ساتھ پہنچے ہیں  ، فرماتے تھے: ’’میں  کسی منصب کا روادار نہیں  ہوں ۔‘‘ مگرجامعہ کے تمام معاملات میں  دل و جان سے شریک ہوتے تھے اور آخری دم تک جامعہ سے وفا کر گئے۔ یہ اُن کی شخصیت کا دوسرا بڑا پہلو ہے، جسے ہم سب کو اہتمام کے ساتھ سامنے رکھنا چاہیے۔ یقیناً دینے والی ذات اللہ کی ہے، جو دریاؤں  میں ، جنگلوں  میں  ، صحراؤں  میں  اللہ سے ہدایت کا طالب ہوگا اور علم کا طالب ہوگا، اس کے لیے علم کے دروازے کھلیں  گے ، لیکن جہاں  سے استفادہ کیا جارہا ہے، جہاں  رہا جا رہا ہے، اگر اس کے در و دیوار کی محبت آپ کے اندر نہیں  ہے، تو آپ کی شخصیت میں  بڑی کمی ہے، جو ساری زندگی آپ کو محروم کرے گی۔

تیسرا پہلو: عقیدتِ شیخ   ؒ
 

ان کی شخصیت کا تیسرا بڑا پہلو ہے بانیِ جامعہ حضرت محدث العصر مولانا بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  کے ساتھ ان کی عقیدت اور ان کے ساتھ وفا کا تعلق، ابھی میں  نے آپ کے سامنے اثنا ء کلام میں  عرض کیا کہ صفات‘ عینِ ذات ہیں  یا غیر ذات ہیں ۔ بہر کیف! یاد رکھیے کہ ان صفات کا صدور موصوف کی ذات سے ہی ہوتا ہے، لہٰذا جس شخصیت سے آپ علم سیکھنے کے روادار ہیں ، اس سے اگر آپ گہرائی کے ساتھ وابستہ نہیں  ہوں  گے تو سنتِ الٰہی یہی جاری ہے کہ آپ کی ترقی نہیں  ہو پائے گی۔ امام ابو یوسفؒ نے جب تک خود کو امام ابو حنیفہؒ کے ساتھ وابستہ نہیں  کیا، امام ابو یوسف‘ امام ابویوسف نہیں  بنے، ابن قیمؒ نے جب تک ابن تیمیہؒ کے ساتھ خود کو وابستہ نہیں  کیا، ابن قیمؒ، ابن قیمؒ    نہیں  بنے، آج خود حضرت بنوریؒ کی جو شان ہے، وہ اس لیے کہ حضرت بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  نے حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ  کی شخصیت میں  اپنے آپ کو گم کر دیا اور کہا: ’’میں  کچھ نہیں ، بس اپنے شیخ کے افادات کو دنیا تک پہنچانا چاہتا ہوں ۔‘‘ شخصیت کے ساتھ عقیدت کا معاملہ یہ تھا کہ کشمیر سے آئے ہوئے سیب بھی حضرت بنوریؒ کے سامنے آتے تو آبدیدہ ہو جایا کرتے تھے۔ حضرت مولانا محمد انور بدخشانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت بنوریؒ کی ذات کے ساتھ اپنی سچی عقیدت کو جا بجا ثابت کیا، اور ان کی بات سے بات ملائی۔ 
 یہ بھی حسنِ اتفاق تھا کہ حضرت آدم بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  کے ساتھ جس شخصیت کی وابستگی تھی اور ان کے علوم جنہوں  نے آگے دوسروں  تک پہنچائے، اس کا تعلق بھی ’’بدخشاں ‘‘ سے تھا، (جن کا نام)مولانا امین بدخشیؒ تھا، حضرت آدم بنوری رحمۃ اللہ علیہ  کی ہر کتاب میں  مولانا امین بدخشی رحمۃ اللہ علیہ  کا ذکر ملتا ہے۔ اور حضرت بنوری ؒ جو حضرت آدم بنوریؒ کی ذُرّیّت اور سلسلے سے تھے، ان کو بھی ’’بدخشاں ‘‘ سے آیا ہوا ایک عاشقِ صادق ملا اور ان کے ساتھ ذاتی وابستگی اختیار کی۔ ان ذاتی وابستگیوں  کا نتیجہ تھا کہ حضرت بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  کی چہیتی دختر کا نکاح ان کے ساتھ ہوا۔ 

خاندانِ بنوریؒ ، ایک تعارف

عزیزان گرامی ! علماء کے خاندان کے تذکرےعلمی ترقی کا باعث ہوتے ہیں ۔ علامہ سیوطی  رحمۃ اللہ علیہ  کا انتقال کب ہوا؟ سیوطیؒ کی حافظ ابن حجر  رحمۃ اللہ علیہ  سے ملاقات ہوئی یانہیں  ہوئی؟ سیوطیؒ کس عمر میں  دراصل ان سے ملے تھے؟ یہ تمام باتیں  جاننا کئی مسائل کی عقدہ کشائی کا باعث ہوتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ میں  حضرت بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  کے خاندان کا کچھ تذکرہ کروں ، حضرت بنوریؒ کی شادی پھوپھی زاد بہن سے ہوئی، خود دلہن کی طرف سے وکیل تھے، دلہن کی طرف سے خود نکاح پڑھایا، دو آدمی گواہ تھے، ان کے نکاح کا تذکرہ خود اتنا لذیذ اور دلفریب ہے کہ ان کے سوانح نگاروں  نے تفصیل سے لکھا ہے، میں  اس تفصیل میں  نہیں  جاتا۔ 
ان کو اللہ نے پہلی اولاد صاحبزادی کی صورت میں  دی، ان صاحبزادی کی پیدائش اس وقت ہوئی جب آپ کا قیام ’’ڈابھیل‘‘ میں  تھا، یہ صاحب زادی مولانا محمد طاسین صاحب کے عقدِ نکاح میں  آئیں ، جو اپنے طرز کے ایک البیلے محقق تھے، ان کی تصنیفات سے آج بھی کئی محققین استفادہ کرہے ہیں ۔ دوسری صاحبزادی، جن کا نامِ نامی سیدۃ نساء العالمین حضرت فاطمہ t کے نام پر فاطمہ تھا۔ ان کے بعد اللہ نےحضرت کو ایک صاحبزادہ عطا کیا، جس کا نام الیاس تھا، ان کے اپنے دلچسپ اور بھرپور واقعات ہیں  جو ہم نے اپنی پھوپھیوں  سے سن رکھے ہیں ۔ حضرت علامہ محمد زاہد کوثری  رحمۃ اللہ علیہ  اور حضرت بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  کے درمیان جو مکاتبت ہے، اس میں  ان کی وفات کا تذکرہ آیا ہے، ان کا انتقال سال ڈیڑھ سال کی عمر میں  ہوگیا تھا۔ بہر حال ان کے اپنے واقعات ہیں  جو بیان کیے گئے ہیں ۔ تیسرے نمبر کی صاحبزادی کا نکاح حضرت مولانا مفتی احمد الرحمٰن  رحمۃ اللہ علیہ  سے ہوا۔ اور پھر چوتھی صاحبزادی عطا ہوئیں ، جن کا نکاح حضرت بنوریؒ کے بھانجے مولانا خالد بنوری صاحب کے ساتھ ہوا۔ ہماری سعادت ہے کہ اس موقع پر وہ تشریف لائے ہیں ، دارالعلوم سرحد کے مہتمم ہیں ،مولانا ایوب جان بنوری رحمۃ اللہ علیہ  جو حضرت مدنی  رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد تھے، ان کے صاحبزادے ہیں ۔ حضرت بنوریؒ نے اس چوتھی صاحبزادی کا خاص نام تفاؤلاً رکھا، یہ جو ’’مشکاۃ المصابیح‘‘وغیرہ کتبِ حدیث میں  باب الفأل والطیرۃ  ہم پڑھتے ہیں  کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ناموں  سے تفاؤل لیا کرتے تھے، تو ہمارے اکابر کی شخصیات میں  یہ صفت رچی بسی ہوئی تھی۔ حضرت بنوریؒ نے چوتھی صاحبزادی کا نام تفاؤلاً بشارت کے مادہ سے لیا، اس نیک فالی پر کہ اللہ ان کے بعد مجھے بیٹے کی بشارت بھی دے گا، اور ادارہ کی بشارت بھی دے گا، اور دونوں  کی بشارتیں  اللہ تعالیٰ نے دیں ۔ 

تذکرہ سیدہ فاطمہ بنوریہ رحمۃ اللہ علیہا 

حضرت بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  کی دوسری صاحبزادی جن کا نام فاطمہ تھا، نابینا ہوگئی تھیں ، جامعہ سے پہلے پاکستان بننے کے بعد ٹنڈو الہ یار میں  قائم کیے گئے دارالعلوم میں  سب بڑے بڑے اکابر جمع ہوگئے تھے، مولانا شبیر احمد عثمانیؒ، مولانا محمدادریس کاندھلویؒ، حضرت مولانا بنوریؒ، مولانا سلیم اللہ خان صاحبؒ ،یہ شخصیات وہاں   پڑھاتی تھیں ۔ وہاں  بیٹی کی آنکھ میں  کوئی چیزچلی گئی، حضرت بنوریؒ کراچی میں  مصروفیت کی وجہ سے ڈاکٹر کو دکھا نہ سکے، بعد میں  آنکھ ضائع ہوگئی، حضرت بنوریؒ علاج کے لیے ڈاکٹر کے پاس تشریف لے کر گئے تو ڈاکٹر نے کہا: ’’علاج تو ہو سکتا ہے، لیکن انہیں  جنرل وارڈ میں  رکھنا پڑے گا‘‘ جس میں  پردہ کا انتظام مشکل تھا، اس لیے باپ کی غیرت نے گوارا نہیں  کیا، اور بیٹی نے بھی کہا: ’’بابا! آنکھیں  ضائع ہو جائیں ، لیکن میں  جنرل وارڈ میں  عام مریضوں  کے ساتھ نہیں  ٹھہرسکتی۔‎‘‘ علم قربانی مانگتا ہے! یہ ادارے اس طرح بنے ہیں ! بانیِ جامعہ کی بیٹی کی آنکھیں  بھی اس کے لیے قربان ہو گئیں ! ان کے احوال حضرت بنوریؒ اور پھر مولانا محمد انور بدخشانی صاحبؒ نے اپنے ایک مضمون میں  ذکر کیے ہیں ، وہ بڑی نیک زاہدہ خاتون تھیں ۔ 
یہ روایت اللہ کے ایک اور ولی جو اس وقت حیات ہیں ،حضرت مولانا شمس الرحمٰن عباسی مدظلہم نے برسرِ منبر بیان کی ہے کہ حضرت کی صاحبزادی کو خواب میں  اشارہ ہوا، جس کا اظہار انہوں  نے اپنے والد ماجد سے کیا کہ :’’ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خواب میں  زیارت ہوئی، اس ادارہ میں  انور بدخشانی نام کا ایک آدمی ہے، بابا جان! میرا اس سے رشتہ طے کر دیجیے۔‘‘ حضرت مولانا محمد انور بدخشانی صاحبِ جمال تھے، جوان تھے، حسن و جمال کا انتخاب کر سکتے تھے، مگر اپنے شیخ کے لیے قربانی دی اور ایک نابینا خاتون سے شادی کی۔ ایک اور صدری روایت بھی بیان کردینی چاہیے، مجھے حضرت بدخشانی  رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے نے ان کی شادی کا دعوت نامہ دکھایا، جس میں  ان کے نام کے ساتھ ’’سید‘‘ مرقوم ہے، یعنی وہ بھی سید خاندان کے تھے، مگر طبیعت میں  اخفاء کا اور تواضع کا غلبہ ہوگا، اس لیے اس نسبت کا اظہار نہیں  کرتے تھے، اور شیخ کے لیے اپنے آپ کو پیش کیا اور ان کی نابینا بیٹی کے ساتھ رشتہ نبھایا۔ ایک کمرہ کے مکان میں  ان دونوں  میاں  بیوی نے گزارا کیا۔ انہوں  نے دو پارے اپنے شوہر سے پڑھے، ’’مقدمہ جزریہ‘‘ اپنے شوہر سے حفظ کیا۔ لہٰذا اے عزیزو! اس خانوادہ، اس گھرانے اور اس مدرسہ کے اطراف میں  رہائش پذیر عفیف ماؤں  کی قدر کرو، انہی شخصیات کی وجہ سے آج یہاں  کے مرد اس ادارے کو سینچ رہے ہیں ۔ 
ایک اور واقعہ ذکر کرکے بات ختم کردوں  گا، ہماری ان پھوپھی(اہلیہ مولانا بدخشانی  رحمۃ اللہ علیہ ) کا بعد میں  علاج ہوا، اللہ نے اسباب مہیا کیے، ڈاکٹر مل گیا، اور ان کی بینائی واپس آگئی، ڈاکٹر نے کہا: ’’فی الحال یہ ایک شخص کو دیکھ سکتی ہیں ، پھر آنکھوں  پر پٹی لگا دی جائے گی۔‘‘ آپ جانتے ہیں  کہ میری ان پھوپھی نے کس شخصیت کا انتخاب کیا؟ اپنے باپ کا انتخاب نہیں  کیا، بلکہ کہا: ’’میں  اپنے شوہر کو دیکھنا چاہتی ہوں ‘‘!سال ڈیڑھ سال میں  کتنا حسنِ سلوک کیا ہوگا کہ اپنے باپ کو چھوڑ کر انہوں  نے کہا: ’’میں  اپنے شوہر کو دیکھنا چاہتی ہوں !‘‘ اپنے شوہر کو دیکھا، پھر گھر آگئیں ، اور اس کے بعد بےاحتیاطی ہوگئی اور آنکھیں  دوبارہ چلی گئیں ۔ میں  ان کے حالاتِ زندگی پڑھ رہا تھا، مولانا محمد انور بدخشانی  رحمۃ اللہ علیہ  نے لکھا ہے کہ ان کا انتقال بھی عفت اور پاک دامنی کی وجہ سے ہوا، ولادت کے موقع پر گھر پر ہی رہنے کافیصلہ کیا، اور اپنی زندگی عفت اور پاک دامنی کی نذر کردی۔ 
مولانا محمد انور بدخشانی  رحمۃ اللہ علیہ  کا حضرت بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  کے ساتھ عقیدت کا یہ سچا پکا تعلق تھا! چراغ سے چراغ جلتا ہے! آپ کو اپنے آپ کو جھکا کر کسی شخصیت کے ساتھ وابستہ ہونا پڑتا ہے، تب شخصیت کے اندر وہ روشنیاں  اور چمک پیدا ہوتی ہیں ، جو ان اکابر کے نام نامی سے پیدا ہو رہی ہیں ، آج کتنے علم کے حلقے ہیں  جو خود کو مولانا بدخشانی کے ساتھ وابستہ پاتے ہیں ۔ یہ تذکرہ ہے، جو اَب ساری زندگی چلتا رہے گا، ان کے احوال، ان کے واقعات، ان کی شخصیت، ان کا قرآنی ذوق، اب اللہ ہمارے نصیب میں  یہی کردے کہ ہم ان اکابر کا تذکرہ کرتے رہیں ، تو ہمارے سرمائے کے لیے بہت ہوگا۔

وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین!

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین