سفرِ معراج میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اولاً بیت المقدس لے جایا گیا جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرات انبیاءo کی امامت فرمائی، پھر آسمان کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے۔ (شرح مشکل الآثار: ۵۳۸/۱۲)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفرِ معراج سے واپس تشریف لائے اور آپ کے سفر کی بابت کفارِ مکہ کو معلوم ہوا تو انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیت المقدس سے متعلق حالات، دروازے اور کھڑکیوں کی تعداد سے متعلق سوالات کیے تو بطور معجزہ یکدم سارے حجابات درمیان سے مرتفع ہوگئے اور بیت المقدس کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کردیا گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے دیکھ کر سارے جوابات ارشاد فرمائے۔ (مستفاد : صحیح البخاري، ت: تقي الدین ندوي: ۳/۳۸۸ ، رقم الحدیث: ۳۸۸۶)
سن ۶ھ میں صلح حدیبیہ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب شاہانِ عالم کی طرف دعوتِ اسلام کے خطوط روانہ کرنا شروع کیے تو ان میں ایک خط آپ نے قیصر روم کو بھی ارسال فرمایا، قیصر روم اس وقت ایلیا یعنی بیت المقدس میں تھا، اس نے عرب کے کسی باشندے کو طلب کیا، اتفاق سے حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ سفر تجارت پر شام گئے ہوئے تھے اور اس وقت آپ غزہ میں مقیم تھے، تو اس کے حواریوں نے آپؓ کو اس کے روبرو پیش کیا، پھر اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حضرت ابو سفیانؓ سے مکالمہ کیا، جس کے بعد حضرت ابو سفیانؓ وغیرہ پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیبت و اہمیت طاری ہوگئی۔ (مستفاد از سیرتِ مصطفی: ۳۶۶/۲)
حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے ساتھ وادیِ تیہ میں تھے، اچانک ایک دن آپ کے پاس ملک الموت تشریف لائے، حضرت نے انہیں ایک چپت رسید کی، جس سے ان کی آنکھ پھوٹ گئی، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی بینائی دوبارہ لوٹائی اور انہیں دوبارہ حضرت کے پاس بھیجا، انہوں نے آکر اللہ تعالیٰ کا حکم آپ کو سنایا کہ اگر آپ رہنا چاہتے ہیں تو فلاں بیل کی پشت پر ہاتھ پھیریں تو اس کے بال کے بقدر آپ کی عمر میں اضافہ کردیا جائے گا، اس موقع پر حضرت نے اللہ تعالیٰ سے بیت المقدس (فلسطین) کے قریب دفن کی خواہش ظاہر فرمائی۔ (مستفاد: صحیح البخاري ، ت: تقي الدین ندوي: ۱/۶۳۹، رقم الحدیث: ۱۳۳۹)
فائدہ: ملک الموت انسانی روپ میں آئے تھے، اور بلا اجازت و اطلاع آئے تھے تو آپ علیہ السلام نے سرزنش کے طور پہ ضرب لگائی۔ (مستفاد از انعام الباری: ۵۰۷/۴، نجاح القاری: ۳۶۴/۸)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارضِ مقدسہ میں خلافت کے قائم ہونے پر فتنوں کی پیش گوئی فرمائی ہے، نیز اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی علامت بھی قرار دیا ہے، اکثر شارحین کی رائے یہ ہے کہ اس سے مراد سرزمینِ شام ہے اور خلافت سے مراد خلافتِ بنو اُمیہ ہے۔ (أبو داود مع بذل المجھود: ۹/۱۰۳، رقم الحدیث: ۲۵۳۵)
حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کو ایک مرتبہ پانچ باتوں کا حکم فرمایا، معاً بنی اسرائیل کو ان باتوں کی طرف دعوت کا بھی حکم دیا تو آپ علیہ السلام بیت المقدس تشریف لے گئے اور بنی اسرائیل کو اس میں جمع فرماکر ارشادِ ربانی سے انہیں آشنا کیا۔ (مستفاد: سنن الترمذي قدیم، کتاب الأمثال: ۲/۵۷۶)
دجال کے خروج کے بعد اس کی شر انگیزی اور دسترس سے کوئی چیز بچ نہ سکے گی، بے شمار استدراجات اس کے ہاتھ پر ظاہر ہوں گے، اس کے ایک ہاتھ میں جنت اور دوسرے میں دوزخ ہوگی، اہلِ ایمان شدید ابتلاء و آزمائش سے دو چار ہوں گے، دجال کی ریشہ دوانی کسی ایک خطہ تک محدود نہ ہوگی کہ لوگ کسی محفوظ خطہ کی طرف منتقل ہوجائیں، بلکہ چند دنوں میں پورے عالم کا وہ چکر لگا لے گا، البتہ بنصِ حدیث مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، مسجدِ اقصیٰ اور طور اس کے قدم پرفتن سے محفوظ ہوں گے۔(مسند الإمام أحمد: ۳۸/۱۸۰)
جب اہلِ شام میں بگاڑ آجائے گا تو خیر وہاں سے اُٹھالی جائے گی، عند البعض اس سے مراد بنو امیہ کا دور ہے، اسی طرح جب جب وہاں بگاڑ ہوگا تو خیر سلب کرلی جائے گی، تاہم قیامت تک ایک جماعت حق پر قائم رہے گی اور بلا خوف لومۃ لائم اپنی ذمہ داری ادا کرتی رہے گی۔ (مستفاد من تحفۃ الألمعي: ۵۷۱/۵)
اہلِ شام کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی دعائیں اور بشارتیں رہی ہیں، انہیں میں سے ایک مژدہ جانفزا یہ بھی ہے کہ ملائکہ خداوندِ قدوس اہلِ شام پر اپنا پر پھیلائے ہوئے ہیں، مراد اس سے کفر، مہلکات و موذیات سے تحفظ اور خصوصی برکات ہے۔ حافظ سیوطیؒ فرماتے ہیں کہ: طوبیٰ سے مراد یہ دعا ہے کہ: ’’اللّٰھم طیبھا بکثرۃ المؤمنين و الخواص من أمتي لکثرۃ الأنبياء بھا۔‘‘ (سنن الترمذي: ۷۱۴/۲)
ملک شام کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ حضر موت جوکہ عدن کے قریب واقع ہے جب اس میں آگ بھڑک اُٹھے گی یا عند البعض جب وہاں سے فتنے رونما ہوں گے تو اہلِ ایمان کو اپنا تحفظ اور متاعِ ایمان کی حفاظت کے لیے شام کا رخ اختیار کرنا چاہیے، کیونکہ ملک شام اس وقت اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت گاہ بنا ہوا ہوگا۔ (سنن الترمذي: ۲/۴۹۲)
قربِ قیامت میں جب شورش و فتنے ہر جانب سے رونما ہوں گے، ناگفتہ بہ حالات ہوں گے، پر فتن حوادث وقع پذیر ہوں گے تو اس پر آشوب دور میں اہلِ ایمان اپنے متاعِ دین و اسلام کے تحفظ کے لیے ہجرت پر آمادہ ہوں گے، نیز انہیں ہجرت کے لیے حضرت ابراہیم m کے دار الہجرت یعنی شام کا ہی رُخ کرنا ہوگا، تاکہ حفظ و امان میسر آئے۔ (أبوداؤد مع البذل: ۱۷/۹ ، رقم الحدیث: ۲۴۸۲)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ خواب دکھلایا گیا کہ فتنوں کے زمانے میں دین و ایمان کا تحفظ شام میں ہوگا، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربِ قیامت میں فتنوں کے وقوع پذیر ہونے کے بعد شام کی طرف ہجرت کا حکم صادر فرمایا۔ (مستفاد: فتح القریب المجیب شرح الترغیب و الترھیب: ۳۸۲/۱۲)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شام کے لیے برکت کی دعائیں مانگی ہیں:
’’عن ابن عمرؓ قال: ذکر النبي ﷺ: اللّٰہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِيْ شَامِنَا اللّٰہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِيْ يَمَنِنَا۔‘‘ (صحیح البخاري، ت :تقي الدین: ۶/۲۰۹، رقم الحدیث: ۷۰۹۴)