بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

بینات

 
 

سفر میں سنتوں کے پڑھنے کا حکم / سنتوں میں قصر ہے یا نہیں؟

سفر میں سنتوں کے پڑھنے کا حکم / سنتوں میں قصر ہے یا نہیں؟

 

سوال

سفر میں قصر نماز واجب ہے تو کیا سنتیں بھی واجب ہیں؟ مجھ پر کسی نے اشکال کیا کہ سفر میں فرض آدھے ہوجاتے ہیں، تم سنتیں پڑھ رہے ہو؟ اس کا کیا جواب ہے؟

جواب

واضح رہے کہ سفر کی حالت ہو یا حضر (اقامت) کی حالت، بہر صورت سنتوں کا حکم یہی ہے کہ وہ سنتیں ہیں، یعنی فرض یا واجب نماز کی طرح لازم نہیں ہیں، اور حالتِ سفر میں قصر کا حکم صرف چار رکعات والی فرض نمازوں میں ہے، اس کے علاوہ نمازوں میں قصر نہیں ہے، یعنی سنن ونوافل جب سفر میں پڑھے جائیں تو پورے پڑھے جائیں گے، البتہ سفر میں سنتیں پڑھنے کے حوالے سے حکم کی تفصیل یہ ہے کہ اگر سفر جاری ہو اور جلدی ہو یا گاڑی نکلنے کا اندیشہ ہو، یا ساتھیوں کو پریشانی ہورہی ہو، یا خوف ہو تو پھر صرف فرائض کی ادائیگی کافی ہے، اور فجر کی سنتوں کے علاوہ باقی سنتوں کو چھوڑنا جائز ہے، البتہ فجر کی سنتوں کی تاکید چوں کہ زیادہ ہے، اس  لیے فجر کے فرائض کے ساتھ وہ بھی پڑھی جائیں گی۔ اور اگر سفر جاری ہو اور کسی مقام پر نماز کے لیے ہی رکے ہوں اور جلدی نہ ہو اور امن ہو تو سنتوں کا پڑھنا بہتر اور افضل ہے۔ بہرحال اس صورت میں بھی سنت کا حکم وجوب کا نہیں ہے، بلکہ پڑھنا افضل ہے۔ اسی طرح اگر مسافر کسی شہر یا بستی میں ٹھہرا ہو، چاہے پندرہ دن سے کم ہی قیام ہو تو راجح قول کے مطابق سنتیں پڑھنی چاہئیں، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے سفر میں سنتیں پڑھنا ثابت ہے۔
’’البحر الرائق‘‘ (2/ 141):
’’وقيد بالفرض؛ لأنہ لا قصر في الوتر والسنن واختلفوا في ترک السنن في السفر، فقيل: الأفضل ہو الترک ترخيصاً، وقيل: الفعل تقرباً، وقال الہندواني: الفعل حال النزول والترک حال السير، وقيل: يصلي سنۃ الفجر خاصۃً، وقيل: سنۃ المغرب أيضاً، وفي التجنيس: والمختار أنہ إن کان حال أمن وقرار يأتي بہا؛ لأنہا شرعت مکملات والمسافر إليہ محتاج، وإن کان حال خوف لايأتي بہا؛ لأنہ ترک بعذر اہـ۔‘‘           فقط واللہ اعلم 
فتویٰ نمبر : 144010200043

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین