بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

بینات

 
 

سلسلۂ مکاتیب حضرت بنوریؒ مکاتیب حضرت مولانا احمد رضا بجنوری   رحمۃ اللہ علیہ  بنام حضرت بنوری  رحمۃ اللہ علیہ 

سلسلۂ مکاتیب حضرت بنوریؒ

مکاتیب حضرت مولانا احمد رضا بجنوری   رحمۃ اللہ علیہ  بنام حضرت بنوری  رحمۃ اللہ علیہ 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مکرم ومخلصم، سیدي المحترم، صدیقي المعظم دامت معالیکم، دُمتم بالسلامۃ والکرامۃ لخدمۃ العلم والدین والوطن‎!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‎! ‎

کرم نامہ اگرچہ بڑی مدت واشتیاقِ بے پایاں کے بعد ملا، مگر احادیثِ لطف ومحبت، اخلاص وکرم نے ماسبق سب تلخیاں دور کردیں، جزاکم اللہ تعالٰی، ورضي عنکم، وأرضاکم! دل کی آواز باوجود ایک سال سے زیادہ انقطاعِ مکاتبت کے یہی تھی کہ آں محترم بھلائیں گے نہیں، چنانچہ ایسا ہی ہوا، والحمد للہ علٰی ذٰلک‎!
اب باتیں بہت کرنی ہیں، اور آپ کی مصروفیات کا خیال مانع ہے۔ خیر! مختصر یہ کہ ’’معارف السنن‘‘ کا ایک جزء دیکھا، دل باغ باغ ہوگیا، خدا کرے جلد پوری کتاب کی طباعت کا سلسلہ شروع ہو، بہت دیر کردی ہے۔ حضرت الشیخ (مولانا محمد انور) شاہ صاحبؒ بھی منتظر ہوں گے۔ جس طرح خواب میں میرے کام کے بارے میں فرمایا کہ: ’’اس نے دیر کردی۔‘‘ حالانکہ میں کیا اور میرا کام کیا! خصوصاً آپ کے تحقیقی کام کے مقابلے میں! بڑی تمنا ہے کہ آپ کی تالیف جلد سے جلد شائع ہو، اور اگرچہ اس کے مجلس (علمی) سے شائع نہ ہونے کا افسوس ہے، مگر اس (کام) کو مختصر کرنے کے میں بھی خلاف تھا۔۔۔جو ہونا تھا ہوا۔۔۔۔ کمرِ ہمت باندھ کر قسط وار ہی طباعت کا سلسلہ شروع کرادیں۔ جس نہج پر آپ کا کام ہے وہ کسی نے نہیں کیا، اور نہ آئندہ توقع ہے؛ کیونکہ یہ سب حضرت شاہ صاحبؒ کے طفیل ہے، اب کام کرنے سے اندازہ ہو رہا ہے کہ سب جگہ ڈھونگ ہی ہے،  ۔۔۔ اور میں نے کئی جگہ کھل کر تنقید کی ہے، وہ سب آپ کے سامنے آئے گی۔ آپ کو اس لیے بھی لکھ رہا ہوں کہ اس قسم کی چیزوں پر آپ اپنی خصوصی رائے مجھے فوراً لکھ دیا کریں، اگر کوئی غلطی ہوگی تو اس کی تلافی اگلی جلدوں میں ہوتی رہے گی۔ یہ کام آپ کے سوا دوسرا نہیں کرسکتا۔
یوں میں حضرت شاہ صاحبؒ کی مراد متعین کرکے اس کو عیني (عمدۃ القاري)، فتح الباري وغیرہ کے ذریعہ اچھی طرح پختہ کردیتا ہوں، کل ہی جو بحث ونظر لکھی ہے وہ امام بخاریؒ کے ’’باب العلم قبل القول والعمل‘‘ پر ہے۔ مولانا موصوف (مولانا فخر الدین مراد آبادی) نے ’’إیضاح البخاري‘‘ جلد پنجم میں ۵ ؍صفحات اس امر کے اثبات میں لکھے ہیں کہ علم بغیر عمل کے بھی فضیلت وشرف رکھتا ہے، اور امام بخاریؒ کا مقصد یہی بتلایا ہے کہ ان لوگوں کی تردید کر رہے ہیں جو علم کو بغیر عمل کے بے سود بتاتے ہیں، پھر تمام آیات وآثار ذکر کردہ امام بخاریؒ (میں سے) ہر ایک پر لکھا کہ اس میں صرف علم کا ذکر ہے، عمل کا نہیں ہے۔ میں نے کئی صفحات میں اس نظریہ کے خلاف مواد پیش کیا ہے، اور حضرت شاہ صاحبؒ کی چیزیں بھی نمایاں کی ہیں۔
میں نے ارادہ کرلیا ہے کہ جو بات جس کی غلط ہوگی، اس کو اچھی طرح صاف کردوں گا، خواہ کسی کو اچھی لگے یا بری۔ ۔۔۔۔ غرض آپ کا ہمارا وہی رنگ رہنا چاہیے جو ڈابھیل میں تھا۔ حق بات کہیں گے اور کسی کی پروا نہیں کریں گے ۔۔۔۔ ۔
بہرحال آپ مجھے اپنی رائے ہر معاملہ میں بڑی بے تکلفی سے لکھ دیا کریں، اور ’’صحبت نہ کند کرم فراموشی‘‘ پر نظر رکھیں۔ جلد سوم ابھی چھپ کر آئی ہے، اس لیے غیر مجلد ہی روانہ کر رہا ہوں مولانا طاسین صاحب کے نام دو نسخے (ایک ان کا ہے) اور ’’ذیول‘‘ (ذیول تذکرۃ الحفاظ) واپس کر رہا ہوں۔ ’’ذیول‘‘ مجھے اپنے لیے اب تک نہ مل سکی۔ اسی طرح ’’تاج التراجم‘‘ (از علامہ قاسم بن قطلوبغا رحمہ اللہ) کا بے حد اشتیاق ہے، آپ نے دیکھی ہوگی، کیسی ہے؟ رجالِ حنفیہ پر کچھ اور سامان ملے تو خیال رکھیں۔ ’’مقدمۃ کتاب التعلیم‘‘ بھی مولانا طاسین صاحب نے اب تک نہ بھیجا، نہایت منتظر ہوں۔ جلد سوم (انوار الباری) میں مولانا (ابوالوفا) افغانی اور مولانا ذاکر (مولانا ذاکر حسن صاحب پھلتی، بنگلور) کے مفصل تبصرے دیکھیں گے، ایسے تبصرے آپ کے ہونے چاہیے تھے، مگر غیر کر رہے ہیں (یعنی آپ کی بنسبت غیر، ورنہ ظاہر ہے وہ بھی اپنے ہی ہیں)۔ بہرحال آئندہ کے لیے مایوس نہیں ہوں: ’’شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدارا‎‘‘!‎
محترمی! اطلاعاً عرض ہے کہ چوتھی جلد دہلی میں زیرِ طبع ہے، اور پانچویں جلد لکھ رہا ہوں، کتابت بھی ۶۰ ؍صفحات تک پہنچ گئی ہے۔ اُمید ہے کہ تین ماہ کے اندر یہ دونوں جلدیں بھی آجائیں گی، اور اس کے بعد سہ ماہی پروگرام چلے گا، ان شاء اللہ‎!
غرض خصوصی توجہات اور مخصوص دعاؤں کا محتاج ہوں، اور آپ کی یادآوری خصوصاً حرمین شریفین زادھما اللہ شرفًا میں یاد رکھنے کا نہایت ممنون ہوں، وما ھو بأول منّۃٍ منکم‎!
                                                           والسلام ختام‎ ‎
                                                           احقر احمد رضا
                                                               بجنور
                                                        ۵؍ ‎جولائی سنہ ۱۹۶۳ء

 

مکرم ومخلصم حضرت مولانا  البنوري دامت فیوضُکم السامیۃ‎!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‎! ‎

مزاجِ گرامی! کل قبیل جمعہ ہدیۂ سَنِیّہ ’’معارف السنن‘‘ ملا، دلی مسرت کی انتہا نہ رہی؛ کیونکہ آپ نے کافی انتظار واشتیاق کے بعد اس کے دیدار سے مشرّف فرمایا، اس لیے وہ شکایت بھی شکریہ ہی میں مُدغم ہوگئی۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ایک مدت کی تمنا پوری ہوئی، اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے گراں قدر علمی حدیثی فیوض کو وقفِ عام وخاص کیا، ورنہ مجھے ڈر تھا کہ ’’مُدیرانہ‘‘ (انتظامی) مہمّات ومشاغل کہیں اس عظیم خدمت میں رکاوٹ نہ بن جائیں۔ دوسرے مرحوم ومغفور کی بے محل اُپج اور ناقابلِ عمل شرائط بھی مایوس کرتی تھیں، لیکن خدا کی عظیم قدرت کا کون اندازہ کرسکتا ہے کہ جس امیر وکبیر نے اپنی دولت وثروت سے محروم کرکے تین فقیروں کو بے یار ومددگار چھوڑ دیا تھا، ان میں سے ایک خوش نصیب (مولانا بدرعالم میرٹھی رحمہ اللہ) مدنی آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے قربِ خاص سے نوازا گیا، جو دنیا ودین کی انتہائی رفعتوں میں سے ہے، اور اس کے حدیثی فیوض بھی کسی نہ کسی طرح دنیا کے سامنے آہی گئے، وکفٰی بہٖ فخرًا ! دوسرا (والد ماجد حضرت علامہ بنوری رحمہ اللہ) اور بھی زیادہ خوش نصیب ہوا کہ اس کو علم ودین کی اعلیٰ خدمت انجام دینے کا موقع دیا گیا، اور اس کی علمی وحدیثی فیوض بھی آب وتاب کے ساتھ شائع ہوکر طالبانِ علم ودین کے لیے آبِ حیات بنے۔ تیسرا (مکتوب نگار مولانا احمد رضا بجنوریؒ) اگرچہ ان دونوں سے کم مرتبہ تھا، تاہم خدا نے اپنی رحمت سے اس کا آخری وقت بھی اپنے کسی مقبول کام میں صرف کرادیا، اور خلافِ توقع کچھ کام کرنے کا موقع دے دیا۔ غرض حق تعالیٰ نے ہم لوگوں کے استغناء کو اس حد تک مقبول یا کارآمد بنا دیا کہ اس کی توقع بظاہرِ حالات ہرگز نہ ہوسکتی تھی۔‎ ‎
جس وقت سے کتاب ملی ہے، برابر اسی کا مطالعہ کررہا ہوں، اگر پہلے سے ملتی تو میں گزشتہ مباحث میں بھی استفادہ کرتا۔ ’’مسحِ جوربین کی بحث‘‘ تین چار روز قبل ہی لکھی ہے، اور اس میں حافظ ابن قیمؒ کے مسلک پر رد بھی کیا ہے، جس کے لیے اشارہ حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ سے ۔۔۔۔  مل گیا۔ اور حافظ ابن تیمیہؒ بھی اسی طرف مائل تھے، غالباً ان ہی دونوں کے اثر سے مولانا مودودی نے عرصہ ہوا کہ ہر قسم کی جرابوں پر مسح کو جائز ثابت کیا تھا، اس لیے اُن پر بھی تنقید آگئی ہے۔ اور اس ضمن میں مولانا سعید احمد اکبر آبادی (فاضلِ دیوبند وحال ممبر دارالعلوم دیوبند) کا بھی ذکرِ خیر ہوا ہے، جنہوں نے یورپ وامریکہ کے مشینی ذبیحہ کو بغیر تسمیہ کے بھی حلال طیّب لکھا ہے، اور ایک سال تک کھاتے رہے ہیں۔ ’’البرہان‘‘ میں مضمون دیکھا ہوگا۔ یہی صاحب ہندوستان کو ’’دار المسلمین‘‘ بھی قرار دے چکے ہیں، وغیرہ۔‎ 
‎’’حدیث البول في الماء الراکد‘‘ کے ضمن میں حافظ ابن تیمیہؒ کے رجحان کی تردید اور ابن حزمؒ کے نظریہ کی اچھی طرح تردید کردی ہے؛ تاکہ ان کا صحیح مقام عام نظروں کے سامنے آجائے۔
’’‎تحفۃ الأحوذي‘‘ (شرح جامع الترمذي للشيخ محمد عبد الرحمٰن المبارکفوري رحمہ اللہ) اور ’’مرعاۃ‘‘ (مرعاۃ المفاتيح شرح مشکاۃ المصابيح للشيخ عبيد اللہ المبارکفوري رحمہ اللہ) کی خبر بھی لیتا رہتا ہوں۔ اُمید ہے کہ آپ بھی ان دونوں پر نظر رکھیں گے، اور ’’محلی‘‘ (ابن حزم رحمہ اللہ) کو بھی نظر انداز نہ کریں گے۔ اس وقت آپ کو لکھنا تو رسید وشکریہ اور ہدیۂ تبریک تھا، دوسری باتیں یوں ہی آگئیں۔
(‎معارف السننکی) دوسری جلد جب چھپ جائے تو ذرا جلد بھجوا دیجیے، اب آپ کی کتاب کے حوالے ’’انوار الباری‘‘ میں آتے رہیں گے ان شاء اللہ! آپ کا رسالہ اب تک نہیں آیا، بہت عرصہ ہوا مولانا طاسین صاحب نے لکھا تھا کہ آپ نے ارسال کرنے کی ہدایت کردی ہے، اس میں اگر ’’انوار الباری‘‘ کا اشتہار اور تبصرہ وغیرہ بھی کسی سے کرادیا کریں تو اچھا ہے۔‎ یہاں کے حالات سے بڑی مایوسی ہے، خصوصاً صحیح قیادت نہ ہونے کے باعث، دعا کریں کہ حالات بہتر ہوں۔ ’’انوار الباری‘‘ قسط پنجم مولانا طاسین صاحب کے ذریعے جاچکی ہے، ملاحظہ سے گزری ہوگی۔ عافیت وحالات سے مطلع کریں۔
                                                                 احقر احمد رضا‎ ‎
                                                                    بجنور‎ ‎
                                                             ۳۰؍جون سنہ۱۹۶۴ء
پس نوشت: ’’الکوکب الدّرّي‘‘ میں قُلّتین کے مسلک کو مسلکِ حنفیہ کے ساتھ مطابقت دی گئی ہے، اور ۶x۶ بالشت مربّع جگہ میں (مساوی قُلّتین) پانی پھیلا کر اسی کو ’’ماء کثیر‘‘ قرار دیا ہے۔ اور حنفیہ کے بعض دلائل پر بھی نقد ہے، ’’تحفۃ الأحوذي‘‘ وغیرہ میں اس سے اور اسی طرح مولانا عبد الحی صاحب (لکھنوی) کی عبارات سے فائدہ اُٹھایا ہے، اور ان کو نقل کیا ہے، اس لیے آپ اس پر بھی کچھ لکھتے تو بہتر تھا، یا آئندہ کسی مناسبت سے لکھیں۔ میں نے ۶x۶  بالشت والی تطبیق کو خلافِ مسلکِ حنفی ثابت کیا ہے، کیونکہ ۸x۸ ذراع سے ۱۰x۱۰ ذراع تک کے اقوال ہیں، کم سے کم والا قول بھی ۶x۶ بالشت سے بہت زیادہ ہے۔ اور مولانا عبد الحی صاحب کے بارے میں میں نے ’’تقدمۃ نصب الرايۃ‘‘ کی عبارت نقل کردی ہے؛ تاکہ ان کی ہر بات ہم پر حجت نہ سمجھی جائے۔ حسبِ ضرورت ’’کوکب‘‘ (الکوکب الدرّي علی جامع الترمذيمولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ)، ’’لامع‘‘ (لامع الدراري علی جامع البخاري از مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ) اور ’’إیضاح البخاري‘‘ (شرح اردو صحیح بخاری، افادات مولانا فخر الدین مراد آبادی رحمہ اللہ) پر بھی نقد آتا رہتا ہے۔ آپ اگر ایک نظر خواہ سرسری ہی ہو ’’أنوار الباري‘‘ پر ڈال کر مجھے اپنی رائے لکھ دیا کریں تو مجھے نہ صرف فائدہ ہو، بلکہ کتاب بھی زیادہ مفید ہوجائے، ولا يکون ہو بِأوّل منّۃٍ منکم يا رفيقي المحترم المکرّم، حفظکم اللہ ورعاکم‎!
کاش ’’تحفۃ الأحوذي‘‘ کی طرح ’’معارف السنن‘‘ بھی ’’ترمذی‘‘ کے ساتھ شائع ہوتی، اس سے اس کی شان اور بڑھ جاتی۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین