بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

بینات

 
 

سنت بحیثیت مستقل مصدر صحابہ کرام ( رضی اللہ عنہم )کی نظر میں


سنت بحیثیت مستقل مصدر صحابہ کرام ( رضی اللہ عنہم )کی نظر میں

 

شرعی احکامات کے لیے قرآنِ کریم کے بعد ’’سنتِ نبویہ ( علٰی صاحبہا الصلٰوۃ والسلام )‘‘ ماخذِ ثانی کے طور پر جانی جاتی ہے، لیکن یہ ثانوی حیثیت اس کی علمی، ثبوتی اور قطعی پہلوسے ہے، جبکہ اپنے وجود، تعامل اور عمل کے اعتبار سے سنت‘ اسلامی احکامات کا ماخذِ اول ہے، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا قول وفعل چاہے اس کا صدور جس حال میں بھی ہوا ہو، غصے میں ہو، یا خوشی کے عالم میں، نرمی کی صورت میں ہو، یا سخت لب و لہجہ کے ساتھ، گھر میں نجی طور پر ہو، یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کے ساتھ کھلے معاشرے میں، غیرمسلموں کے ساتھ معاہداتی تعلقات ہوں، یا دشمنانِ اسلام کے ساتھ میدانِ جہاد میں شمشیر زنی کا معاملہ، حتیٰ کہ نیند کی حالت میں وارد خواب بھی وحی کے زمرے میں آتے ہیں۔ ابتدا ہی سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی حیاتِ طیبہ سے شرعی احکامات کی تعلیم لیتے، اور عمل کرتے تھے، بعد ازاں قرآن کریم کا نزول اس عملی زندگی میں یا تو نئے احکامات کے اجراء کے لیے ہوتا تھا، یا گزشتہ جاری شدہ سنت کی توثیق اور دائمی طور پر عمل پيرا رہنے کا عندیہ دینے کےلیے، چنانچہ ایسے بہت سے شرعی احکامات ہیں جن پر عمل پہلے ہوا، اور مسلسل کافی عرصہ تک ہوتا رہا، اس کے بعد قرآن کریم کی کسی آیت میں وہ حکم توثیق کے لیے بیان کیا گیا، جیسے: آیت ِوضو سورۃ المائدہ میں ہے، اور یہ سورت‘ نزول کے اعتبار سے آخری سورتوں میں سے ہے، جبکہ وضو کا عمل نماز کی فرضیت کی ابتدا سے سنت طریقہ کے مطابق چلا آرہا تھا، یہ اس کے ماخذِ اول ہونے کی حیثیت ہے۔(۱)
سنتِ نبویہ جس طرح اپنے وجود اور عمل کے اعتبار سے ماخذِ اول ہے، اسی طرح وہ شرعی احکامات اور اسلامی تعلیمات کےلیے مستقل مصدر اور ماخذ کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔ مستقل مصدر سے مراد یہ ہے کہ بہت سی دینی تعلیمات اوراحکامات ایسے بھی ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں بظاہر صراحتاً کہیں بھی نہیں ہے۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  (متوفی:۲۰۴ھ) نے اپنی کتاب’’ الرسالۃ‘‘ میں سنت کی تین قسمیں ذکر کی ہیں:
’’1-جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اُتارا، وہی حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بیان فرمایا۔
2-اللہ تعالیٰ نے کسی چیز کو مجمل بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کی تفصیل فرمادی۔
3-آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایسی سنت بیان فرمائی جس کے متعلق قرآن میں کوئی نص موجود نہیں۔‘‘(۲)
اسی طرح حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ  (۷۵۱ھ) نے ’’إعلام الموقعین‘‘ میں سنت کا کتاب اللہ کے ساتھ تین قسم کا تعلق اور ربط بیان کیا ہے:
’’1-سنت مکمل طور پر قرآن کے موافق ہو۔
2-سنت‘ قرآن کریم کے لیے بطور ِ تفسیر ہو۔
3-سنت ایسے حکم کو ثابت کرے جس کے متعلق قرآن ساکت ہے، یا ایسی چیز کی ممانعت کرے جس کا قرآن میں کوئی تذکرہ نہیں۔‘‘ (۳)
اس سے کسی کے ذہن میں یہ خیال نہ آئے کہ سنت کو مستقل مصدر ماننے سے اسے قرآن پر مقدم کرنااور برتری دینا لازم آتا ہے، اس کی وضاحت ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ  کی زبانی ملاحظہ فرمائیے:
’’مذکورہ صورتوں میں سے کوئی صور ت‘ قرآن کریم کے مخالف نہیں۔ جو احکامات‘ قرآن سے زائد ہیں، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی جانب سے مشروع کر دہ ہیں، ان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اطاعت کرنا واجب، اور نافرمانی حرام ہے۔ یہ سنت کو قرآن پر مقدم کرنے کے زمرے میں نہیں آتا، بلکہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی فرمانبرداری ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ اگر اس قسم کے احکامات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اطاعت واجب نہ ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اطاعت کا کوئی معنی نہیں رہ جاتا، اور خصوصی اطاعت ختم ہو جاتی ہے۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی اطاعت صرف ان احکامات میں منحصر ہو جائے جو قرآن کریم کے موافق ہیں اور جو زائد احکام ہیں ان میں اطاعت واجب نہ ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خاص فرمانبرداری نہیں ہو سکتی، جبکہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’’مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ‘‘ (النساء: ۸۰) کہ ’’جس نے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کی، بلاشبہ اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔‘‘ 
بعد ازاں علامہ موصوف نے بیسیوں مسائل ایسے شمار کروائے ہیں، جن کا تذکرہ قرآنِ کریم میں نہیں ہے، اور احادیثِ مبارکہ کی بنا پر ان پر تعامل جاری ہے، جیسے: نکاح میں عورت اور اس کی خالہ یا پھوپھی کو جمع کرنے کی ممانعت، رضاعت سے حرمت کا ثبوت، خیارِ شرط کا مسئلہ اور شفعہ کے مسائل وغیرہ۔(۴)
سنت کے مستقل مصدر کا دوسرا مطلب یہ بھی ہےکہ سنت کواصل بنا کر اس سے مسائل مستنبط کیے جاسکتے ہیں۔ فقہاء کرام رحمۃ اللہ علیہم  کا منہج اس کی کھلی اور روشن دلیل ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کےآخری دور میں ایسی ذہنیت کے کچھ لوگ پیدا ہو گئے تھے، جن کا خیال تھاکہ شرعی حکم کا ماخذ صرف اور صرف قرآن کریم ہے، اوروہ سنت کو اس کے شایانِ شان مقام و مرتبہ دینے سے گریز کرتے، اور مستقل ماخذ ہونے پر شاکی تھے، یا کم فہمی کی وجہ سے وہ ایسا سمجھ بیٹھے تھے۔ کتبِ احادیث میں ایسے لوگوں کی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کے ساتھ گفتگو اور سوال و جواب منقول ہیں، جن میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  انہیں بڑی عقلمندی اور دانشمندی پر مبنی جوابات دیتے ہیں، ان مکالمات میں ایک بڑا مکالمہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ  کا ہے، جو بصرہ کی جامع مسجد میں ہوا۔

حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ  کا مکالمہ
 

   حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ  کا مکالمہ کئی محدثین کرام نے مختلف سندوں کے ساتھ اپنی اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے اور یہ مکالمہ الفاظ کے جزوی اختلاف کے ساتھ منتشرٹکڑوں میں بکھرا ہوا ہے۔ محدثین کی عام عادت رہی ہے کہ وہ بعض مقامات پر اختصار کی غرض سے طویل احادیث بیان کرنے کی بجائے مقصودی بات بیان کردیتے ہیں، اور باقی کی طرف اشارہ فرمادیتے ہیں۔ یہاں پر بھی یہی مقصدان محدثین کے پیشِ نظر رہا۔ امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ  نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں، امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ  نے ’’دلائل النبوۃ‘‘میں، اور امام مزی رحمۃ اللہ علیہ  نے ’’تہذیب الکمال‘‘ میں اپنی سندِ عالی کے ساتھ قدرے تفصیل سے بیان فرمایا ہے، یہاں ’’المعجم الکبیر‘‘کی عبارت سامنے رکھ کر ترجمہ پیش کیا جاتا ہے:
’’حبيب بن فضالہ مالکی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ: جب (بصرہ کی) یہ جامع مسجد تعمیر ہوئی، تو حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ  تشریف فرما تھے، اور (اِردگرد بیٹھے لوگ) شفاعت کا ذکر کر رہے تھے، ان میں سے ایک شخص نے کہا: اے ابو نجید! آپ ( صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ) ایسی احادیث بیان کرتے ہو جن کی اصل ہم قرآنِ کریم میں نہیں پاتے، حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ  نے ناراضی کا اظہار فرمایا، اور اس سے دریافت کیا: کیا تم نے قرآن پڑھا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: کیا تم نے اس میں پا یا کہ مغرب کی تین رکعات، عشاء کی چار رکعات، فجر کی دو رکعات، ظہر اور عصر کی چار رکعات ہیں؟ اس نے کہا: نہیں۔
آپؓ نے فرمایا: تو تم نے یہ چیزیں کس سے لیں؟ کیا ہم سے نہیں لیں؟ اور بلاشبہ ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  سے لی ہیں، اور کیا تمہاری نظر سے قرآنِ پاک میں یہ بات گزری کہ چالیس درہم میں ایک درہم (زکوٰۃ) واجب ہے؟ اور اتنی بکریوں پر اتنی بکریاں واجب ہوتی ہیں؟ اور اتنے اونٹوں پر اتنے اونٹ کی زکوٰۃ ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ آپؓ نے فرمایا: تو تم نے یہ چیزیں کس سے لیں؟ کیا ہم سے نہیں لیں؟ اور یقیناً ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  سے لی ہیں۔
اور تم نے قرآنِ کریم میں یہ تو پڑھا: ’’وَلْيَطَّوَّفُوْا بِالْبَيْتِ الْعَتِيْقِ‘‘ (الحج:۲۹) کہ بیت اللہ کا طواف کرو! تو کیا یہ کہیں پڑھا ہے کہ سات چکر طواف کرو، اور مقامِ ابرہیم کے پیچھے نماز ادا کرو؟ آپ نے فرمایا: تو تم نے یہ چیزیں کس سے لیں؟ کیا ہم سے نہیں لیں؟ اور یقیناً ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  سے لی ہیں۔ کیا تم نے قرآن میں پایا کہ ’’ لَا جَلَبَ، وَ لَا جَنَبَ، وَ لَا شِغَارَ فِي الْإِسْلَامِ‘‘؟ اس نے کہا: نہیں۔ آپؓ نے ارشاد فرمایا : میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  سے سنا ہے: ’’لَا جَلَبَ، وَ لَا جَنَبَ، وَ لَا شِغَارَ فِي الْإِسْلَامِ‘‘ کہ اسلام میں جلب( یعنی زکوٰۃ لینے والا شخص ایک مخصوص جگہ بنالے، اور زکوٰۃ دینے والوں کو اپنی طرف بلائے، جس سے انہیں اپنے مویشی وہاں لانے میں تکلیف ہو، یا دو گھوڑوں کی دوڑ اور مقابلہ کے درمیان دوسرا گھوڑاشامل کرنا، تاکہ مقابلہ میں شریک گھوڑے کو جوش دلایا جائے) اور جنب ( یہ جلب کے ہم معنیٰ بھی استعمال ہوتا ہے، ایک قول یہ ہے کہ زکاۃ دینے والا آدمی اپنے مویشی لے کر کہیں دور دراز علاقے میں چلا جائے، تاکہ مصدق یعنی زکوٰۃ لینے والے کو تکلیف ہو)، اور شغار(وہ نکاح جودو مرد ایک دوسرے کے قریبی رشتہ داروں سے کریں، اس شرط پر کہ ان میں سے کوئی مہر نہیں دے گا، بلکہ یہ تبادلہ ہی مہر شمار کیا جائے گا) کی اسلام میں گنجائش نہیں۔ (۵) پھر فرمایا: کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد سنا ہے؟: 
’’مَا سَلَکَکُمْ فِيْ سَقَرَ قَالُوْا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّيْنَ وَ لَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِيْنَ وَکُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَآئِضِيْنَ وَکُنَّا نُکَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّيْنِ حَتّٰٓی اَتَانَا الْيَقِيْنُ فَمَا تَنْفَعُہُمْ شَفَاعَۃُ الشَّافِعِيْنَ‘‘    (المدثر:۴۲ تا ۴۸)
’’ کہ تم کو دوزخ میں کس بات نے داخل کیا؟ وہ کہیں گے: ہم نہ تو نماز پڑھا کرتے تھے اور نہ غریب کو (جس کا حقِ واجب تھا) کھانا کھلایا کرتے تھے، اور قیامت کے دن کو جھٹلایا کرتے تھے، یہاں تک کہ (اسی حالت میں) ہم کو موت آگئی، سو (اس حالتِ مذکورہ میں) ان کو سفارش کرنے والوں کی سفارش نفع نہ دے گی۔‘‘
 حبیب بن فضالہ رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں: میں نے عمران بن حصین  رضی اللہ عنہ  کو شفاعت کے موضوع پر گفتگو فرماتے ہوئے سنا۔ دوسری روایات میں صفا مروہ کی سعی، وقوفِ عرفہ، شیطان کو کنکر مارنا، چوری کی سزا میں ہاتھ کاٹنے کی حد وغیرہ جیسی چیزوں کا بھی ذکر ہے۔

سوال کرنے والے شخص کی حالت
 

    حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی جامع گفتگو کے بعد سائل نےآپؓ کو دعادیتے ہوئے کہا: ’’اَحْيَيْتَنِيْ اَحْيَاکَ اللہُ‘‘ آپ نے مجھے علمی و روحانی زندگی عطا کی، اللہ تعالیٰ آپ کو حیات ِ جاودانی سے نوازے، حسن بصریؒ فرماتے ہیں:
’’فَمَا مَاتَ ذٰلِکَ الرَّجُلُ حَتّٰی صَارَ مِنْ فُقَہَاءِ الْمُـسْلِمِيْنَ۔‘‘(۶)
’’ وہ شخص دنیا سے رخصت نہیں ہوا، یہاں تک کہ وہ مسلمانوں کے فقہاء میں سے شمار ہونے لگا۔‘‘
 اس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کے اخلاص اوردعوت کی تاثیر کا اندازہ ہوتا ہے۔

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  کامکالمہ

یہ کوئی باقاعدہ مکالمہ نہیں ہے، لیکن ایک خاتون نے ایسا سوال کیا، جس سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  کو لگا کہ یہ بھی خوارج میں سے ہے، جو حدیث مبارک سے ثابت شدہ حکم ماننے سے انکار کرتے ہیں:
’’حَدَّثَتْنِيْ مُعَاذَۃُ اَنَّ امْرَاَۃً قَالَتْ لِعَائِشَۃَ: اَتَجْزِيْ إِحْدَانَا صَلَاتَہَا إِذَا طَہُرَتْ؟ فَقَالَتْ: اَحَرُوْرِيَّۃٌ اَنْتِ؟ کُنَّا نَحِيْضُ مَعَ النَّبِيِّ فَلَا يَأمُرُنَا بِہٖ اَوْ قَالَتْ: فَلَا نَفْعَلُہٗ۔‘‘ (۷)
یعنی ’’معاذہ ؒ (فقہائے تابعیات میں شمار ہوتی ہیں) فرماتی ہیں کہ: ایک خاتون نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  سے دریافت کیا کہ ہم میں سے ( کوئی حائض عورت) پاکی کے بعد رہ جانی والی نمازوں کی قضاء کرے گی؟ آپ رضی اللہ عنہا  نے فرمایا: کیا تم حروریہ ہو؟ [حرورا، کوفہ سے دو میل کی مسافت پر ایک جگہ کا نام ہے، جہاں بکثرت خوارج پائے جاتے تھے، جن کا نظریہ تھا کہ قرآن میں جوحکم ہے وہ مانا جائے گا، اور جو احکام سنت سے ثابت ہیں، وہ واجب العمل نہیں۔ (فتح الباری)] حقیقت یہ ہے کہ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ماہواری کے ایام کی نمازوں کے متعلق قضاء کا حکم نہیں فرماتے تھے۔‘‘
ماہواری کے ایام میں رہ جانے والی نماز وں کے حکم کے متعلق قرآن کریم کی نصوص خاموش ہیں، سنت و حدیث میں بیان ہوا ہے کہ ان کی قضا نہیں، چنانچہ اس خاتون کے سوال سےام المومنین رضی اللہ عنہا  کو محسوس ہوا کہ شاید وہ بھی خوارج کی طرح یہ حکم تسلیم نہیں کرتی، اسی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہا  نے ایسا جواب دیا، جس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ قرآن کریم کی طرح سنت و حدیث بھی ایک مستقل مصدرِ شریعت ہے۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  کا ایک خاتون سے مکالمہ

’’عَنْ عَلْقَمَۃَ، عَنْ عَبْدِاللہِ، قَالَ: لَعَنَ اللہُ الْوَاشِمَاتِ وَ الْمُوْتَشِمَاتِ، وَ الْمُـتَنَمِّصَاتِ وَ الْمُـتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ، الْمُـغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللہِ، فَبَلَغَ ذٰلِکَ امْرَاَۃً مِنْ بَنِيْ اَسَدٍ يُقَالُ لَہَا اُمُّ يَعْقُوْبَ، فَجَاءَتْ، فَقَالَتْ: إِنَّہٗ بَلَغَنِيْ عَنْکَ اَنَّکَ لَعَنْتَ کَيْتَ وَکَيْتَ، فَقَالَ: وَ مَا لِيْ، اَلْعَنُ مَنْ لَعَنَ رَسُوْلُ اللہِ وَ مَنْ ہُوَ فِيْ کِتَابِ اللہِ، فَقَالَتْ: لَقَدْ قَرَاْتُ مَا بَيْنَ اللَّوْحَيْنِ، فَمَا وَجَدْتُّ فِيْہِ مَا تَقُوْلُ، قَالَ: لَئِنْ کُنْتِ قَرَاْتِیْہٖ لَقَدْ وَجَدْتِّيْہِ، اَمَا قَرَاْتِ: ’’وَ مَا اٰتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَ مَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا‘‘ (الحشر:۷)؟ قَالَتْ: بَلٰی، قَالَ: فَإِنَّہٗ قَدْ نَہٰی عَنْہَا الخ۔‘‘ (۸)
یعنی ’’حضرت علقمہ  رحمۃ اللہ علیہ  حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  سے روایت کرتے ہیں: آپؓ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ لعنت فرماتے ہیں ٹیٹو بنانے والی عورتوں، ٹیٹو بنوانے والیوں، بھووں کے بال تراشنے والیوں، حسن کے لیے دانتوں کے درمیان خلاء کرنے والیوں اور اللہ کی خلقت میں تبدیلی کرنے والیوں پر، یہ بات بنو اسد کی ایک خاتون کو پہنچی، جو امِ یعقوب کے لقب سے مشہور تھی، اس نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  کی مجلس میں حاضر ہو کر کہا : مجھے خبر ملی ہے کہ آپ فلاں فلاں کو لعنت بھیجتے ہیں؟ آپؓ نے فرمایا : میں اس پر لعنت کیوں نہ کروں؟ جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے لعنت فرمائی ہے، اور جو حکم قرآن میں ہے، خاتون نے کہا : میں دو تختیوں کے درمیان جتنا قرآن محفوظ ہے وہ پڑھ چکی ہو ں، مجھے تو نہیں ملا جو آپ کہہ رہے ہیں، آپؓ نے فرمایا: اگر تم غور سے پڑھتی، تو تمہیں ضرور مل جاتا، کیا تم نے یہ نہیں پڑھا: ’’وَ مَا اٰتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَ مَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا‘‘ (الحشر:۷) کہ جو کچھ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے تمہیں دیا اسے تھام لو، اور جس سے روکا، اس سے رک جاؤ؟ اس نے کہا: جی ہاں! (یہ تو پڑھا ہے)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: (اسی وجہ سے لعنت کرر ہا ہوں) کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کاموں سے منع فرمایا ہے۔‘‘
اس کا مقصد یہ ہے کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  حدیث مبارک اور سنتِ رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو شرعی حکم کے لیے بحیثیت مستقل مصدر پیش فرمانا چاہتے ہیں، اور اس کے لیے آیتِ کریمہ بطورِ استدلال پیش فرماتے ہیں۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ  کا مکالمہ

’’عَنْ اُمَيَّۃَ بْنِ عَبْدِاللہِ بْنِ خَالِدٍ اَنَّہٗ قَالَ: لِعَبْدِاللہِ بْنِ عُمَرَ: إِنَّا نَجِدُ صَلَاۃَ الْحَضَرِ، وَ صَلَاۃَ الْخَوْفِ فِي الْقُرْاٰنِ، وَ لَانَجِدُ صَلَاۃَ السَّفَرِ فِي الْقُرْاٰنِ، فَقَالَ لَہُ ابْنُ عُمَرَ: ابْنَ اَخِيْ! إِنَّ اللہَ بَعَثَ إِلَيْنَا مُحَمَّدًا وَ لَانَعْلَمُ شَيْئًا فَإِنَّمَا نَفْعَلُ کَمَا رَاَيْنَا مُحَمَّدًا يَفْعَلُ۔‘‘ (۹)
یعنی ’’اُمیہ بن عبد اللہ بن خالد رضی اللہ عنہ  نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ  سے دریافت کیا کہ ہم حالتِ اقامت کی نماز، اور صلوٰۃ الخوف کا تذکرہ تو قرآن میں پاتے ہیں، لیکن سفر کی نماز کاتذکرہ قرآن میں نہیں ملتا، ابن عمر رضی اللہ عنہ  نے فرمایا : اے بھتیجے! اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کو نبی بناکر بھیجا، ہمیں اور کچھ نہیں پتا، ہم تو ویسا ہی کرتے ہیں جیسے ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کو کرتے دیکھا۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ایک خصوصی وصف میں مشہور ومعروف ہیں کہ آپ ہر چھوٹی، بڑی چیز میں اتباعِ سنت کا لحاظ رکھتے تھے، حتیٰ کہ سفر کے دوران جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  قضائے حاجت کے لیے بیٹھے، آپ بھی وہاں ضرور بیٹھتے تھے، اگر چہ تقاضا نہ ہوتا۔ اس سوال کے جواب میں بھی آپ کا وہ وصف واضح طور پر جھلک رہا ہے کہ جواب میں کوئی حجت، دلیل یا منطق بیان نہیں فرمائی، بلکہ عاشقانہ جواب دیا کہ : ’’اے بھتیجے! ہمیں تو کچھ معلوم نہیں، ہم تو بس وہی کرتے ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کو کرتے دیکھا۔‘‘ اپنی طبعی عاشقا نہ فطرت میں اتنی اہم بات سادے سے لفظوں میں کہہ گئے۔ یقیناً ایک عاشقِ رسول مؤمن کے لیے حدیث مبارک پر عمل کرنے، اور سنت کو مستقل مصدر کی حیثیت سے ماننے کے لیے یہی ایک بات کافی ہے کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان اور سنت ہے۔
اسی طرح خلفائے راشدینؓ اور باقی تمام کبارو صغار صحابہ رضی اللہ عنہم  کا یہ عمل رہا ہے کہ جب کوئی مسئلہ قرآن سے حل نہ ہوتا تو فوراً سنت کی تلاش میں لگ جاتے، اور ایک دوسرے سے اس مسئلہ کے حکم کے متعلق نبوی ہدایات دریافت فرماتے تھے، ان کا یہ عمل سنت کے ماخذ اور مصدرہونے کی خود ایک مستقل دلیل ہے۔

واللہ أعلم بالصواب وعلمہٗ أکمل و أتمّ

حواشی و حوالہ جات

۱- محمد یوسف البنوري، معارف السنن، شرح حديث: ويل للأعقاب من النار: ۱/ ۲۵۱، مجلس الدعوۃ والتحقيق، و منتخب مباحثِ علم حدیث، بحث: احکامِ شرعیہ کا ماخذِ اول باعتبارِ وجود، ص: ۱۳۱، مکتبہ بینات جامعۃ العلوم الاسلامیہ۔
۲- الإمام محمد بن إدريس الشافعي، الرسالۃ، فقرۃ ۲۹۹۔۳۰۰، ص:۸۰، دار النفائس، ط: الثانيۃ:۱۴۳۱ھ
۳- ابن قيم الجوزيۃ (المتوفی: ۷۵۱ھ)، إعلام الموقعين عن رب العالمين، بحث زيادۃ السنۃ علی القرآن: ۲/ ۲۲۰، دار الکتب العلميۃ، بیروت، الأولٰی، ۱۴۱۱ھ - ۱۹۹۱م
۴- المصدر السابق: ۲۲۱/۲.
۵- أبوالسعادات المبارک بن محمد الجزري، النہايۃ في غريب الحديث والأثر، مادۃ جلب، جنب، شغر، ۷۸۴/۱، ۸۱۹/۱ … ۱۱۷۷/۲، المکتبۃ العلميۃ - بيروت، ۱۳۹۹ھ- ۱۹۷۹م.
٦- أبوالقاسم الطبراني (المتوفی:۳۶۰ھ)، المعجم الکبير: ۱۶۵/۱۸، مکتبۃ ابن تيميۃ – القاہرۃ، ط: الثانيۃ.
٧- الإمام البخاري، الجامع المسند الصحيح، کتاب الحيض، باب لا تقضي الحائض الصلاۃ: ۷۱/۱، الرقم:۳۲۱، دار طوق النجاۃ، ط: الأولٰی ۱۴۲۲ھ
۸- الإمام البخاري، الجامع المسند الصحيح، کتاب التفسیر: باب ’’وما اٰتاکم الرسول فخذوہ‘‘: ۱۴۷/۶، الرقم: ۴۸۸۶، دار طوق النجاۃ، ط: الأولی ۱۴۲۲ھ
٩- الإمام النسائي (المتوفی: ۳۰۳ھ)، السنن الکبری، کتاب قصر الصلاۃ في السفر، تقصير الصلاۃ في السفر، مؤسسۃ الرسالۃ – بيروت، ط: الأولی، ۱۴۲۱ھ - ۲۰۰۱م.

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین