بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

بینات

 
 

سپریم کورٹ میں مبارک احمد ثانی (قادیانی) کیس کی سماعت‎! ‎ ۔۔۔۔ آنکھوں دیکھا حال‎

سپریم کورٹ میں مبارک احمد ثانی (قادیانی) کیس کی سماعت‎!

‎آنکھوں دیکھا حال‎


1- اتفاق کی بات ہے ۲۹؍مئی ۱۹۷۴ء کو دوہزار قادیانی جنونی نوجوانوں نے قادیانی چیف گروہ مرزا طاہر کی قیادت میں چناب نگر ریلوے اسٹیشن پر مسلمان طلباء کو مارا پیٹا، زخمی کیا، ان کی ہڈی پسلی، ہنسلی ایک کردی، جس کے ردِعمل میں تحریکِ ختمِ نبوت۱۹۷۴ء چلی اور قادیانی قومی اسمبلی سے متفقہ طور پر غیر مسلم اقلیت قرار پائے۔
2- ٹھیک پچاس سال بعد ۲۹؍مئی ۲۰۲۴ء کو سپریم کورٹ کے بینچ نمبر:۱ میں قادیانی ملزم مبارک ثانی کی ضمانت کے فیصلہ پر نظر ثانی کے کیس کی سماعت ہوئی۔
3- سماعت تین رکنی سپریم کورٹ کے بینچ نے کی، جس کے سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان جناب عزت مآب قاضی فائز عیسیٰ تھے۔ اراکین جناب جسٹس عرفان سعادت خان اورجناب جسٹس نعیم اختر افغان تھے۔
4- اس کیس کا کازلسٹ میں چھٹا نمبر تھا، اپنے نمبر پر کیس کی سماعت کا آغاز ہوا۔
5- سپریم کورٹ کا عدالت نمبر:۱ کا پورا ہال وکلاء، علماء اور مختلف مسالک کے قائدین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ بعض حضرات جگہ نہ ملنے کے باعث ہال میں کھڑے رہے۔ عدالتی کارروائی کے دوران پورا دن یہ کیفیت آخر تک برقرار رہی۔
6- ملی یکجہتی کونسل کے ڈاکٹر ابوالخیر محمد زبیر، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، مولانا سید حسین الدین شاہ مہتمم جامعہ نعیمیہ، مجلس ختمِ نبوت کے خادم فقیر راقم (اللہ وسایا)، سندھ اہلِ سنت کے نمائندہ، جناب مفتی محمد حنیف قریشی، مولانا عزیز کوکب، کرسیوں کی پہلی رو میں تھے۔ مولانا مفتی عبدالسلام، مولانا محمد طیب فاروقی، مولانا مفتی عبدالرشید، مولانا قاضی ہارون الرشید، مولانا عبدالوحید قاسمی، جناب ڈاکٹر عمار خان ناصر، جمعیت اہلِ حدیث کے حافظ مقصود، قاری تنویر احمد احرار اور دیگر تمام مسالک وجماعتوں کے رہنمائوں کی بھی بھرپور نمائندگی موجود تھی۔ مہمانوں اور نامی گرامی وکلاء سے کمرۂ عدالت بھرا ہوا تھا۔
مقدمہ کے مدعی جناب حسن معاویہ اپنے وکلاء کی ٹیم کے ہمراہ ، جماعتِ اسلامی کے وکیل جناب شوکت عزیز صدیقی، جمعیت علماء اسلام کے وکیل جناب کامران مرتضیٰ، سینیٹر وسینئر قانون دان جناب چوہدری غلام مصطفیٰ ایڈووکیٹ، جناب فضل الرحمٰن خان، جناب سیف اللہ گوندل ایڈووکیٹ، جناب سعید بھٹہ ایڈووکیٹ، جناب طارق صاحب ایڈووکیٹ تلہ گنگ کے علاوہ درجنوں وکلاء موجود تھے۔ سپریم کورٹ میں داخلے کے لیے محدود پاس جاری کیے گئے۔ باقی بچ جانے والے پورا دن باہر رہے، ان کا بھی خاصا رش رہا۔
7- چھٹے نمبر پر کیس کی سماعت کے آغاز پر جناب چیف جسٹس صاحب نے فرمایا کہ سب سے پہلے جو اجتماعی پانچ اداروں کی رائے ہے اسے زیرِ سماعت لائیںگے۔ پھر دوسرے ادارے جن سے رائے مانگی گئی ان کو سنیں گے۔ ترتیب لگانے کے لیے فائل عدالتی عملہ کے ذمہ لگا دی گئی اور دوسرے کیسوں کی سماعت شروع کردی گئی۔ عدالتی وقفہ کے بعد پھر اس کیس کی باری آئی۔ مجموعی طور پر تسلسل کے ساتھ چار گھنٹے کے لگ بھگ اس کیس کی سماعت ہوئی۔
8- وفاق المدارس العربیہ کے سربراہ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہم نے عدالتی حکم پر نظر ثانی کے کیس پر ایک جامع رائے کئی صفحات پر لکھی، دارالعلوم کراچی کے حضرت مولانا محمد تقی عثمانی، جامعہ نعیمیہ کراچی کے حضرت مولانا مفتی منیب الرحمٰن، جامعہ سلفیہ فیصل آباد کے حضرت مولانا محمد یٰسین، جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد، قرآن اکیڈمی (قائم کردہ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم) ان پانچ اداروں نے متفقہ طور پر مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کی رائے پر دستخط کردئیے تھے۔ اسلامی نظریاتی کونسل، عروۃ الوثقیٰ لاہور، جامعہ المنتظر لاہور، جامعہ محمدیہ بھیرہ نے اپنی اپنی آراء علیحدہ علیحدہ ارسال کیں۔
9- سپریم کورٹ نے جن دس اداروں سے اس کیس کی رائے طلب کی تھی۔ دس میں سے ۹ ادارے اس رائے پر متفق تھے کہ چیف جسٹس کا قادیانی مبارک ثانی کیس کی ضمانت کا فیصلہ درست نہیں، تصحیح طلب اور حک واضافہ کے قابل ہے، گورنمنٹ پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل، مدعی کے وکلاء اور دیگر تیس کے لگ بھگ ادارے یا شخصیات جو نظرثانی میں فریق تھے، سب تحریری وتقریری طور پر متفق تھے کہ عدالتی فیصلہ درست نہیں، اس کے صحیح ہونے پر ایک بھی رائے نہ آئی۔
10- چنانچہ خود چیف جسٹس صاحب آف پاکستان نے سماعت کے دوران آبزرویشن دی کہ ’’اس فیصلہ میں سپریم کورٹ نے ممکن ہے کہ اختیارات کے حدود سے تجاوز کیا ہو۔‎ ‘‘‎
11- سپریم کورٹ نے جن دس اداروں سے رائے مانگی، ان اداروں نے فیصلہ کو غیر درست قرار دیا۔ البتہ ایک ادارہ جناب غامدی کا قائم کردہ المورد نے اقرار کیا کہ یہ ادارہ کوئی دارالافتاء نہیں، چند مختلف الخیال افراد اس میں شامل ہیں۔ البتہ انہوں نے اپنے جواب میں جناب مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اور جناب امین احسن اصلاحی کی تحریرات لگائیں، حالانکہ ان کا کیس سے قطعاً کوئی تعلق نہ تھا اور ان تحریرات کو لف کرنا بددیانتی اور دجل پر مبنی قرار دئیے بغیر چارہ نہیں۔ البتہ جناب غامدی صاحب اور عمار خان ناصر صاحب کی کتب ومضامین کے صفحات کے فوٹو ساتھ لگائے گئے۔ جناب غامدی صاحب کی انفرادی رائے جو اُمت کے متفقہ اور اجماعی موقف کے یکسر خلاف اور قادیانیت کی سہولت کاری پر مشتمل ہے، مثلاً غامدی صاحب قادیانیوں کو غیر مسلم نہیں کہتے، وہ قراردادِ مقاصد کے آئین کا حصہ بننے کے خلاف ہیں، وہ پاکستان کے نام کے ساتھ ’’اسلامی مملکت‘‘ کے الفاظ لکھنے کے خلاف ہیں کہ سٹیٹ کا مذہب سے تعلق نہیں۔ یہ چیزیں غامدی صاحب کی اپنی رائے ہیں جو دستوری وقانونی لحاظ اور اُمت کے اِجماعی موقف سے بظاہر متصادم ہیں، اس لیے ان سے رائے لینے پر کئی سوال اُٹھتے ہیں کہ ملک کے آئین سے اتفاق نہ کرنے والوں سے رائے لینا’’ چہ معنی دارد‎!‘‘
12- دورانِ سماعت ڈاکٹر فرید پراچہ روسٹرم پر آئے اور بیان دیا: مولانا مودودی صاحب قادیانیوں کو غیر مسلم مانتے تھے، ان کی تحریرات کو ادارہ المورد کا اپنے موقف کے ساتھ شامل کرنا بددیانتی ودجل اور بانیِ جماعت کو بدنام کرنے کی گھنائونی سازش ہے، جس کی میں پرزور مذمت کرتا ہوں۔ اس سے المورد کا قادیانیوں کی سہولت کاری میں گھنائونا عمل ڈاکٹر فرید پراچہ نے پارہ پارہ کرکے رکھ دیا۔
13- دورانِ سماعت جسٹس عرفان سعادت خان نے بلند آواز میں کلمۂ توحید اور کلمۂ شہادت پڑھ کر ریمارکس دئیے کہ بینچ میں شامل تمام ججز حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی ختمِ نبوت پر مکمل ایمان رکھتے ہیں۔ اس بات کی چیف جسٹس آف پاکستان اور جناب جسٹس سعادت خان نے تائید کی اور دہرایا بھی۔ اس وقت سپریم کورٹ کا ایوان ختمِ نبوت کے اقرار کی برکات کا محل نظر آتا تھا۔ یہ انہوں نے اپنے جذبۂ ایمانی اور اسلامی حمیت سے فرمایا، کسی نے ان سے مطالبہ نہ کیا تھا۔ انگریزی اخبارات نے رپورٹنگ میں غلط بیانی سے کام لیا ہے۔‎ ‎
14- چیف جسٹس نے سورۂ احزاب کی آیت کا حوالہ دے کر آبزرویشن دی کہ بات ختم، اس آیت کا جو منکر ہے وہ مسلمان نہیں، نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے خاتم النّبیین ہونے میں دو رائے نہیں ہوسکتی، نہ اس سے زیادہ بات ہوسکتی ہے اور نہ اس قرآنی آیت کی کوئی اور تشریح ہوسکتی ہے۔ جناب چیف جسٹس صاحب کی اس آبزرویشن پر پورے ایوان میں بشاشت پھیل گئی۔
15- ایک موقع پر ملزم مبارک احمد ثانی کے وکیل نے الزام لگایا کہ ایک خاص کمیونٹی کے خلاف کام کرنا اور مقدمے درج کرانا مدعیِ مقدمہ کا پیشہ ہے، جس پر عدالت نے وکیل کو جواب دیا اور جسٹس عرفان سعادت خان نے ریمارکس دئیے کہ ہوسکتا ہے کہ وہ یہ کام تحفظِ ناموسِ رسالت ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے کررہا ہو۔ جسٹس عرفان سعادت خان کے ریمارکس پر کمرۂ عدالت تالیوں سے گونج اُٹھا۔‎ ‎
16- شمالی وزیرستان میں لڑکیوں کے سکول کو جلانے کا معاملہ بھی عدالت میں اُٹھایا گیا اور کہا گیا کہ علماء کرام اس کی مذمت کیوں نہیں کرتے؟ روسٹرم پر موجود علماء کرام نے ایک آواز میں کہا کہ ایسا کرنا ظلم ہے اور ہم اس کی مذمت کرتے ہیں، اس میں کوئی دو رائے نہیں، اسے ہمارے سر نہ لگایا جائے، اس پر عدالت نے خوشی سے سکوت اختیار کرلیا۔
17- دورانِ سماعت جب زیرِ بحث کیس کے فیصلہ کو چیف جسٹس صاحب کا فیصلہ کہا گیا تو انہوں نے اپنی طرف اس فیصلہ کے انتساب کی بجائے عدالت کا فیصلہ کہنے کا فرمایا۔‎ ‎
18- پنجاب حکومت کے وکیل نے عدالتی فیصلے کے پیرا گراف نمبر:۸ تا ۱۰ پر نظر ثانی کی استدعا کی اور موقف اختیار کیا کہ تفسیر صغیر میں قرآن کریم کی تحریف کی گئی ہے، مذکور کتاب تفسیر نہیں، بلکہ تحریف قرآن ہے۔
19- مدعیِ مقدمہ کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ آئین کے آرٹیکل ۲۰ اور ۲۲ کا اطلاق‘ قادیانیت، جماعتِ احمدیہ اور لاہوری گروپ پر نہیں ہوتا، کیونکہ یہ اسلام کا لبادہ پہن کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور قانون کے تحت ان پر علی الاعلان عوامی مقامات پر اپنے عقائد کی ترویج وتبلیغ کی پابندی ہے۔ قادیانی مبارک احمد کے قادیانی وکیل نے بتایا کہ جب ۲۰۱۹ء میں تفسیر صغیر کی تقسیم کا واقعہ پیش آیا، اس وقت قانون کے تحت یہ جرم نہیں تھا، تفسیر صغیر پر پابندی ۲۰۲۱ء میں لگی۔ اس پر سرکاری وکیل نے کہا کہ ۲۰۱۱ء میں بھی قرآن مجید کی تحریف پر مبنی اشاعت جرم تھی۔ عدالت نے اس سے اتفاق کیا تو قادیانی وکیل کی کیفیت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔
20- کیس کی سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے کہا کہ دارالعلوم کراچی، جامعہ نعیمیہ کراچی، قرآن اکیڈمی لاہور، جامعہ سلفیہ، جامعہ امدادیہ فیصل آباد پانچ اداروں نے مشترکہ جواب جمع کیا ہے۔ پہلے اسے اور اس کے بعد باقی مذہبی مکتبۂ فکر کے اداروں کا جواب سنیں گے۔ مذکورہ اداروں کے مشترکہ جواب کو جامعہ نعیمیہ کے نمائندے مولانا پیر سید حسنین شاہ صاحب کے صاحبزادہ مولانا مفتی حبیب الحق نے پڑھ کر سنایا، جس میں عدالتی فیصلے کے پیرا گراف نمبر آٹھ سے دس تک پر نظر ثانی کی استدعا کی گئی تھی اور موقف اختیار کیا گیا تھا کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں جن قرآنی آیات کا حوالہ دیا ہے، اس کا اس مقدمے سے کوئی تعلق نہیں۔ مشترکہ جواب میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ملزم کا معاملہ ٹرائل کورٹ پر چھوڑ دیا جائے اور سپریم کورٹ کے کسی آبزرویشن سے متاثر ہوئے بغیر ٹرائل کورٹ کو قانون اور حقائق کے مطابق فیصلہ کرنے دیا جائے۔
21- جب متفقہ بیان پڑھا جارہا تھا کہ ’’قرآنی آیت حذف کردی جائے‘‘ تو چیف جسٹس نے کہا کہ: ’’قرآنی آیت حذف کردی جائے؟‘‘ تو بیان پڑھنے والے نے کہا کہ: ’’اس فیصلہ میں غیر محل بے موقع جو آیت درج ہے، وہ اس فیصلہ سے حذف کردی جائے۔‘‘ تو معاملہ صاف ہوگیا۔
22- ہر شخص پرواضح ہوا کہ پانچ اداروں کی متفقہ رائے نے اس خدشہ کا راستہ بند کردیا ہے کہ مختلف اداروں کے اختلافِ رائے سے غیر درست فیصلہ کے لیے کوئی راستہ نکالا جائے گا۔
23- اسلامی نظریاتی کونسل نے عدالت میں اپنی رائے پر مشتمل بیان جمع کرایا ہوا تھا۔ اس کو پڑھنے اور پیروی کے لیے مفتی انعام اللہ، مفتی غلام ماجد اور ڈاکٹر عمیر صدیقی صاحب روسٹرم پر آئے۔ مؤخرالذکر اب نظریاتی کونسل کے رکن نہیں، مگر ان کو متفقہ طور پر اسلامی نظریاتی کونسل کا بیان پڑھنے کے لیے کہا گیا۔ ‎چیف جسٹس نے اعتراض کیا اور آبزرویشن دی کہ اسلامی نظریاتی کونسل قرآن وسنت کی روشنی میں معاملے پر بات کرے، قانونی پہلو دیکھنے کے لیے عدالت اور وکلاء موجود ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا: ہم ایک دوسرے کی حدود وقیود سے آگاہ ہیں، اسلامی نظریاتی کونسل کا کام شرعی پہلو کو دیکھنا ہے، جب کہ قانون کی تشریح عدالت کا کام ہے۔
24- نظریاتی کونسل کے نمائندہ نے اپنے بیان میں قانون کا حوالہ دیا تو چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ پھر قانون کی بات کرتے ہو؟ اس پر پیچھے سے ایک وکیل نے کہا کہ کیا عدالت یا وکیل کے علاوہ کوئی قانون کا حوالہ بھی نہیں دے سکتا؟ تو اس پر خاموشی ہوگئی۔ لیکن تھوڑی دیر بعد اسی نظریاتی کونسل کے نمائندہ سے عدالت نے آئین وقانون کی مختلف دفعات پڑھنے کا حکم دیا اور انہوں نے بڑے اعتماد سے پڑھیں، اس پر پھر کسی نے پیچھے سے کہا کہ اب عدالت ووکیل کے علاوہ قانون سے استدلال کرنا اوروں کے لیے جائز ہوگیاہے؟
 25-اس کے بعد عدالت نے عروۃ الوثقیٰ کا موقف پڑھنے کے لیے کہا تو ان کا نمائند موجود نہ تھا۔ یہ بھی ہوا کہ عروۃ الوثقیٰ کا نام چیف جسٹس کی زبان پر نہ چڑھا، تو انہیں پوچھنا پڑا کہ کیا نام ہے؟ اس سے ثابت ہوا کہ وہ اس ادارہ کو ذاتی طور پر نہیں جانتے۔ مختلف اداروں کی فہرست جس شخصیت نے چیف جسٹس کو مہیا کی، اسی نے المورد کو ذاتی پسند کی بنا پر شامل کرکے اختلافِ رائے سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی اور وہ مبیّنہ عدالت کے مشیر ڈاکٹر مشتاق کہلاتے ہیں۔ ان کا یہ عمل عدالتِ عظمیٰ کے چیف جسٹس صاحب کی توجہ کا متقاضی ہے کہ وہ عدالت کی کس قسم کی خدمت کررہے ہیں؟
26- عروۃ الوثقیٰ کا نمائندہ موجود نہ ہونے پر ڈاکٹر عمیر صدیقی صاحب نے پیشکش کی کہ عدالتِ عظمیٰ اگر اجازت دے تو میں پڑھ دیتا ہوں، جس پر بڑی بشاشت سے چیف جسٹس صاحب نے اجازت دی اور ڈاکٹر عمیر صدیقی نے عروۃ الوثقیٰ والوں کے بیان کے بعض حصے پڑھ کر سنائے۔
27- اسلامی نظریاتی کونسل کے نمائندے اور سابق ممبر نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل ۱۹، ۲۰ اور ۲۲ کا اطلاق قادیانیت پر نہیں ہوتا، یہ مذہب نہیں جھوٹا لبادہ ہے، عدالت فیصلے میں موجود جملے حذف کرے۔
28- عروۃ الوثقیٰ کے بعد جامعہ محمدیہ بھیرہ کا عدالتِ عظمیٰ کے زیرِ سماعت کیس میں جمع شدہ بیان پڑھنے کے لیے مولانا مفتی محمدشیر خان تشریف لائے۔ وقت کم تھا، انہوں نے تجویز دی کہ تحریری بیان ہمارے ادارہ کا جمع ہے، میں چند باتیں اس کے علاوہ کہتا ہوں۔ مفتی شیر محمد نے عدالت کو بتایا کہ عوامی مقامات پر تبلیغ وترویج کی اجازت نہیں، ایسا کرنا قانوناً جرم ہے، مذہب کی تبلیغ وترویج کے بارے عدالتی آبزرویشن واپس لینے پر سب مکتبۂ فکر کے ادارے اور علماء متفق ہیں۔
۱- ‎قادیانی پرائیویٹ طور پر اپنی چاردیواری یا عبادت گاہ یا گھر میں بھی اسلامی اصطلاحات یا اسلامی اعمال استعمال نہیں کرسکتے، جس سے ان کا مسلمان ہونا سمجھا جائے۔ یہ آئین کے خلاف ہوگا وہ گھر پر اپنے کفر کو اسلام کے نام پر پیش کریں۔ جب پتہ چلے تو قانون ان کے خلافِ قانون وخلافِ اسلام راستہ کو روکے۔
۲- ‎مسجد ضرار منافقین کی پرائیویٹ جگہ اور پراپرٹی تھی، علیحدہ چاردیواری تھی، وہ اپنے کفر ونفاق کو اسلام کے نام پر وہاں علیحدہ چاردیواری میں استعمال کرتے تھے، مگر قرآن مجید نے ان کی اس ساری جدوجہد کو بیخ وبن سے محو کردیا۔
۳-  ‎مسیلمہ کذاب کا گروہ اپنے حلقہ میں پرائیویٹ طور پر اپنے ہاں اذان، نماز، ذبیحہ، کلمہ، قرآن کا استعمال کرتا تھا، مگر سیدنا صدیق اکبرؓ نے ان کی سازشوں کا قلع قمع کیا۔
۴- ‎کیا کوئی پرائیویٹ طور پر خفیہ اپنا رزق کمانے کے نام پر ہیروئن رکھ سکتاہے؟ 
۵-  کیا کوئی پرائیویٹ خفیہ اپنے گھر میں بدکاری کا اڈہ چلا سکتاہے؟ 
۶- کیا کوئی خفیہ اپنے گھر میں خلاف قانون اسلحہ اسٹور کر سکتا ہے؟ نہیں! تو پھر خلافِ قانون اسلامی اصطلاحات واسلامی شعائر اپنے گھر میں بھی قادیانی استعمال نہیں کرسکتے، جیسے: قربانی، وغیرہ۔‎
29- ڈاکٹر عمار خان ناصر اپنا موقف پیش کرنے کے لیے روسٹرم پر آئے تو وکلاء و علماء نے ان پر اعتراض کیا، ان کے پاس ادارہ کا اتھارٹی لیٹر نہیں، کمرۂ عدالت میں موجود وکلاء وعلماء کے اعتراض کرنے کی وجہ سے عدالت نے ڈاکٹر عمار خان ناصر کو شرفِ سماعت فراہم نہیں کیا۔
30- پنجاب حکومت کے وکیل نے بتایا کہ تفسیر صغیر پر تعزیراتِ پاکستان کے دفعہ ۲۹۵ بی کا اطلاق ہوتا ہے۔ عدالت کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ ملزم مبارک احمد ثانی کا نام ابتدائی ایف آئی آر میں نہیں تھا، بعد میں سپلمنٹری بیان کے ذریعے شامل کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ملزم نے الزامات کو رد نہیںکیا، خود کو مسلمان ظاہر کرکے قرآن کی تحریف پر مشتمل کتاب کی تقسیم پر تعزیراتِ پاکستان کے دفعہ ۲۹۵سی کا اطلاق ہوتا ہے۔
31- اسی موقع پر مدعی مقدمہ حسن معاویہ روسٹرم پر آئے اور کہا کہ ابتدائی ایف آئی آر میں اسکول کے پرنسپل کو نامزد کیا گیا تھا۔ پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ ملزم نے اعترافِ جرم کیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے پنجاب حکومت کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا: کیا آپ اعترافِ جرم پر جارہے ہیں؟ پھر ہم تمام فوجداری قوانین رد کردیں؟۔ (سماعت مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔‎)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین