بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

بینات

 
 

سیاست کی آڑ میں دین دشمنی کی تحریک

سیاست کی آڑ میں دین دشمنی کی تحریک

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الحمد للہ و سلامٌ علٰی عبادہ الذین اصطفٰی

گزشتہ چند ماہ سے پاکستان کی سیاست میں کافی ہلچل اور اُتار چڑھاؤ رہا، جس کے نتیجے میں کل کی حزبِ اختلاف آج کی حزبِ اقتدار بن گئی۔ اس تمام تر صورت حال کو قریب سے دیکھنے کے باوجود جان بوجھ کر اس پر کوئی تبصرہ یا تجزیہ ماہنامہ ’’بینات‘‘ کے صفحات پر شائع نہیں کیا گیا، صرف اس لیے کہ یہ آج کی مروجہ سیاست ہے، لیکن اسی اثنا میں چند ایسے واقعات اور شواہد سامنے آئے، جس سے یقین کی حد تک یوں محسوس ہوا کہ یہ صرف سیاست ہی نہیں، بلکہ سیاست کی آڑ میں دینِ اسلام، احکامِ اسلام اور قرآن کریم کا تمسخر اُڑایا جارہا ہے۔ دین بیزاری، دین اور اہلِ دین سے تنفُّر اور علمائے کرام سے بدظنی اور دوری کا درس دیا جارہا ہے، بلکہ شعائر اور مقاماتِ مقدسہ کی بے اکرامی اور توہین ایک سوچی سمجھی سازش اور پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کی گئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان اور آئینِ پاکستان کو بھی بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس لیے چند حقائق قارئینِ بینات کے سامنے لانا اور صحیح موقف قوم کے سامنے پیش کرنا از بس ضروری معلوم ہوتا ہے۔
پاکستان کی قومی اسمبلی میں پہلی بار ایک حکمران جماعت کو آئین کے تحت عدمِ اعتماد کے ذریعہ حکومت سے علیحدہ کیا گیا، وہ بھی اس طرح کہ حکمراں جماعت کی چند اتحادی جماعتوں نے حزبِ اقتدار سے علیحدگی اختیار کرکے حزبِ اختلاف کا ساتھ دیا تو حزبِ اختلاف اکثریت ملنے کی بناپر حزبِ اقتدار بن گئی۔
معزول وزیراعظم نے کہا کہ یہ حکومت کی تبدیلی ایک بیرونی سازش کے ذریعہ عمل میں آئی ہے اور اس کے ثبوت کے لیے میرے پاس ایک خط ہے۔ سیکورٹی پر مامور ہمارے اداروں نے ایک بار نہیں بلکہ دو بار اس پر اجلاس کیے اور انہوں نے پوری تحقیق وتفتیش کے بعد واضح کیا کہ کوئی بیرونی سازش نہیں ہوئی، مگر اس بے بنیاد دعویٰ کو بنیاد بنایا گیا اور اس پر ردِ عمل دینے کے لیے معزول جماعت سڑکوں پر نکل آئی اور پاکستانی سیاست کو ہیجانی میں مبتلا کرتے ہوئے اسلامیانِ پاکستان کو شدید قسم کے شرعی وسماجی مسائل میں مبتلا کردیا۔
۱: معزول وزیراعظم نے جلسوں کا اعلان کیا اور جلسوں کا عنوان رکھا ’’امر بالمعروف ونہی عن المنکر‘‘، یعنی نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا، گویا وہ باور کرانا چاہتے تھے کہ میں اور میری پارٹی امر بالمعروف کا مصداق اور میرے مخالف منکرات کے حامل ہیں اور باقاعدہ اپنے جلسوں میں اس آیت پر مشتمل بینرز آویزاں کیے جاتے، جن کے نیچے رقص وسرود اور ناچ گانا بھی کرایا جاتا۔ اندرون وبیرونِ ملک کسی بھی دارالافتاء اور کسی بھی دینی ادارے سے معلوم کیا جائے، کیا اس طرح کرنا قرآن کریم کی توہین نہیں؟ کیا اس عمل سے سچے پکے اہلِ ایمان اور اہلِ اسلام کی دل آزاری نہیں ہوئی؟ ہر باشعور اور صاحبِ عقل آدمی اس کو قرآن کریم کی توہین ہی قرار دے گا اورکوئی بھی مسلمان جس کے ہوش وحواس سلامت ہوں، اس کو بالکل برداشت نہیں کرے گا۔
۲: اسی جماعت کا ایک جلوس صوبہ خیبرپختون خوا کے ایک شہر تیمرگرہ میں مسجد کے قریب سے گزرا تو جلوس میں شامل چند افراد نے مسجد میں گھس کر قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے ایک عالم دین پر تشدد کیا اور اس کی داڑھی کے بال کاٹ دیئے۔ اب بتایا جائے کہ یہ کون سا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے؟ یہ تو قرآن کریم کی زبان میں ’’اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَالْمُنٰفِقٰتُ بَعْضُهُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ ۘ يَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْكَرِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ‘‘ یعنی ’’منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک طرح کے ہیں کہ بری باتیں (یعنی کفر و مخالفتِ اسلام) کی تعلیم دیتے ہیں اور اچھی بات (یعنی ایمان و اتباعِ نبوی) سے منع کرتے ہیں ۔‘‘ کا پورا پورا مصداق ہے۔ اور سچ فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے:
’’عن أبي ہريرۃؓ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: سیأتي علی الناس سنوات خدعات یصدق فیھا الکاذب ویکذب فیھا الصادق ویؤتمن فیھا الخائن ویخون فیھا الأمین وینطق فیھا الرویبضۃ، قیل: وما الرویبضۃ؟ قال: الرجل التافہ في أمر العامۃ۔‘‘ (سنن ابن ماجہ، باب الصبر علی البلاء، حدیث:۴۰۳۶)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں پر مکروفریب والے سال آئیں گے، ان میں جھوٹے کو سچا سمجھا جائے گا اور سچے کو جھوٹا سمجھا جائے گا، خیانت کرنے والے کو امانت دار اور امانت دار کو خائن قرار دیا جائے گا اور اس زمانہ میں ’’رویبضہ‘‘ بات کریں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ : ’’رویبضہ‘‘کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حقیر اور کمینے آدمی جو لوگوں کے (دینی، سیاسی، معاشی) امورِ عامہ میں بات کریں گے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی تقریباً حرف بہ حرف پوری ہورہی ہے۔ آج کی سیاست کے علم بردار سوشل میڈیا، ٹاک شوز اور وی لاگ وغیرہ کرنے والے مردوزن کے درمیان اس حدیث کا مصداق نظر آتے ہیں۔
۳: اسی جماعت کا ایک سابق وزیر اور کے پی کے کا سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک صاحب اپنے ایک بیان میں کہتا ہے کہ: ’’جو علماء کرام منبر پر بیٹھ کر سیاست کی بات کریں، ان کو منبر سے اُتار کر مسجد سے باہر پھینک دیں۔‘‘ اب آپ بتائیے کہ! یہ کون سا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے جس کا درس یہ شخص دے رہا ہے؟ یہ تو سراسر اپنے کارکنوں کو اشتعال پر اُکسارہا ہے اورمحلہ محلہ اور قریہ قریہ فتنہ وفساد برپا کرنے کے ساتھ ساتھ علمائے کرام کے ساتھ بغض وعداوت اور ان کے خلاف نفرت انگیزی کا عملی سبق پڑھا رہا ہے۔ خود سوچیے! کیا ایک مسلمان یہ بات منبر ومحراب سے وابستہ علمائے کرام کے بارہ میں کرسکتا ہے؟ علمائے دین کے بارہ میں ایسا خبث اور بغض رکھنے والے کو کون باور کرائے کہ سیاست کرنا دراصل کام ہی علمائے کرام کا ہے، کیونکہ صحیح بخاری میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
’’عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: کَانَتْ بَنُوْ إِسْرَائِيلَ تَسُوْسُہُمْ الْأنْبِيَاءُ، کُلَّمَا ہَلَکَ نَبِيٌّ خَلَفَہٗ نَبِيٌّ وَإِنَّہٗ لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ وَسَيَکُوْنُ خُلَفَاءُ فَيَکْثُرُوْنَ۔‘‘(صحیح البخاري، بَاب مَا ذُکِرَ عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، رقم الحدیث: ۳۴۵۵)
’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل کے انبیاء ان کی سیاسی رہنمائی بھی کیا کرتے تھے، جب بھی ان کا کوئی نبی فوت ہو جاتا تو دوسرے اُن کی جگہ آ موجود ہوتے، لیکن یاد رکھو! میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ ہاں! میرے نائب ہوں گے اور بہت ہوں گے۔‘‘
اور علمائے کرام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے وارث ہیں، جیسا کہ ارشادِ نبوی ہے:
’’إِنَّ العُلَمَاءَ وَرَثَۃُ الأنْبِيَاءِ۔‘‘ (سنن الترمذی، باب ماجاء في فضل الفقہ علی العبادۃ)
’’ یقیناً علماء‘ انبیاء ( علیہم السلام ) کے وارث ہیں۔‘‘
علمائے کرام جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مصلّٰی اور منبرومحراب کے وارث ہیں، جو کہ امامتِ صغریٰ کہلاتی ہے، اسی طرح زمامِ حکومت سنبھالنے میں بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدینؓ کے نائب ہیں، جو کہ امامتِ کبریٰ کہلاتی ہے۔ اگر ہر مسلک اور ہر مکتب سے وابستہ علمائے کرام اس بات کو سمجھ جائیں اور فروعی اختلاف کو بالائے طاق رکھ کر عوام الناس کو اس بات کا بھرپورشعور اور آگاہی دیں کہ جو لوگ قرآن کریم اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا علم رکھتے ہیں، وہ عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاقیات جو کہ سب کے سب حقوق اللہ اور حقوق العباد کے زمرہ میں آتے ہیں، وہ اس کو بھی خوب جانتے ہیں۔ اسی طرح سیاستِ مدنیہ جس میں مسلم اور غیر مسلم سب شامل ہوتے ہیں، ان سب کے حقوق کا زیادہ علم رکھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کو زیادہ جانتے ہیں۔ الحمد للہ! ماضی وحال سب اس پر گواہ ہے کہ جب بھی اور جہاں بھی علمائے کرام اور دین شناس لوگ برسرِاقتدار آئے ہیں، اقلیتیں اپنے آپ کو ان کے دور میں زیادہ محفوظ سمجھتی رہی ہیں۔ 
۴:اس جماعت کے جلوسوں میں شامل گاڑیوں پر ایسے اسٹیکر لگے ہوئے دیکھے گئے ہیں جو نعوذ باللہ! ایک مسلمان نہ تو یہ سوچ سکتا ہے اور نہ ہی نعوذ باللہ! ایسا کام کرسکتا ہے، ضرور ان جلوسوں میں قادیانی اور دین دشمن لوگ ہی ایسا کام کررہے ہیں، وہ اسٹیکر اس طرح کہ جناب عمران احمد خان کی تصویر کے ساتھ لکھا ہوا ہے: Peace Be Upon Him (صلی اللہ علیہ وسلم) نعوذ باللہ من ذٰلک۔
اور ایسے ٹویٹ کیے جارہے ہیں جن پر لکھا ہے:
۱: ’’مجھے تو لگتا ہے ہمارا خدا بھی چوروں کے ساتھ مل گیا ہے، کہاں ہے خدا کی مدد؟ کیوں نہیں حق پر چلنے والوں کا ساتھ دے رہا؟ حق اور باطل کی جنگ میں باطل کو سزا کیوں نہیں ہورہی؟!‘‘
۲: ’’شکریہ عمران خان، ٹیم کو واپس اپنے پاؤں پر کھڑا کردیا اور تم عمران کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤگے؟‘‘
۳: ’’اس جنگ میں خاندان اور شخصیت تو کیا ہم اسلام بھی چھوڑدیں گے، اگر عمران خان حکم دے کہ اسلام چھوڑدو، ہم چھوڑدیں گے۔‘‘
۴: ’’اگر اس دور میں نبوت ہوتی تو خدا کی قسم! عمران خان اس وقت کا پیغمبر ہوتا۔‘‘
نعوذ باللہ من ذٰلک! اب آپ خود سوچیں! جن لوگوں کا یہ ذہن بنادیا گیا ہو، وہ اہلِ کفر اور اہلِ فتن کے کتنا قریب ہوچکے ہیں اور اسلام دشمنوں کے لیے کتنا زمین ہموار ہوچکی ہے۔
۵:اسی جماعت کی سابقہ وفاقی وزیر شیریں مزاری صاحبہ نے ۲؍ مئی ۲۰۲۲ء کو اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی سربراہ کو خط لکھا ہے اور اس میں علانیہ طور پر عالمی ادارے سے ملک میں مداخلت کی درخواست کی ہے اور کہا ہے کہ: ’’پاکستان کی موجودہ حکومت توہینِ مذہب کے قوانین کو سیاسی جبر اور مخالفین کو کچلنے کے لیے استعمال کررہی ہے، جو کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔ ‘‘
آپ خود سوچیے کہ! مغربی ممالک پہلے ہی اس قانون کو ختم کرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں، جب پاکستان میں موجود ایسے لوگ سیاست کی آڑ میں اُن کو خطوط لکھیں گے، وہ اس قانون کو ختم کرنے کا مطالبہ کیوں نہیں کریں گے؟ وہ تو پہلے سے ہی یہی چاہتے ہیں، حالانکہ اسی قانون کی رو سے اقلیتی برادری کے عبادت خانے بھی محفوظ ہیں۔اگر یہ خط شیریں مزاری صاحبہ نے اپنی طرف سے لکھا ہے، تب بھی غلط ہے اور اگر پارٹی کی مرضی سے لکھا ہے، تب بھی غلط ہے۔ اس سے صرف اور صرف ہمارے ملک پاکستان کی بدنامی ہوگی، اس کے سوا اور کچھ نہ ہوگا۔ 
۶: بہرحال معزول حکمران جماعت نے حکومت میں ہوتے ہوئے بھی پاکستان کو خوشحال بنانے میں اپنا کوئی کردار ادا نہیں کیا، صرف مخالفین کو دھمکانے اور جیل بھجوانے کے لیے ہی تگ و تاز کرتے رہے اور یہ کہ فلاں چور ہے، فلاں چور ہے، اسی پر پورا وقت صرف کیا اور چور چور کی اتنا گردان کی کہ تحریک انصاف کے ورکرز بھی یہی کچھ کہنے لگے۔ کسی نے صحیح کہا کہ جناب عمران خان صاحب کے پاس اپنی حکومت کی کارکردگی بتانے کے لیے کچھ بھی نہیں، سوائے اس کے کہ دوسروں کی پگڑیاں اُچھالتے رہے۔ پاکستان تحریک انصاف اپنے حکومتی دور میں نام تو ریاستِ مدینہ کا لیتی رہی، لیکن ہر کام دین کے خلاف ہی کرتی رہی۔ اب چونکہ اتحادی حکومت نے میاں شہباز شریف کو وزیر اعظم منتخب کیا، یہ بات عمران خان کو پسند نہیں تھی، اس کی آڑ میں اندرون ملک تو یہ سب کام کر ہی رہے تھے، لیکن جب سعودی حکومت کے ولی عہد جناب محمد بن سلمان حفظہ اللہ نے میاں شہباز شریف اور اس کی کابینہ کے چند وزراء کو اپنے ہاں مدعو کیا تو ذرائع ابلاغ کے مطابق پہلے سے شیخ رشید نے کہا کہ دیکھنا حرمین میں عوام ان کا کیسے استقبال کرتے ہیں؟ پھر منصوبہ بندی کے تحت برطانیہ اور امریکا سے دو درجن سے زائد لوگ مسجد نبوی میں بھیجے گئے، جن میںا نیل مسرت قادیانی اور دوسرا جہانگیر عرف چیکو ان سب کی سرپرستی کر رہے تھے۔ رمضان مبارک کا مہینہ، شبِ قدر اور پھر مسجد نبوی کا حرم، اس میں ایسی ہلڑ بازی کی گئی کہ ادنیٰ مسلمان جس میں رتی بھر ایمان کی رمق اور غیرت ہو‘ وہ ایسا نہیں کرسکتا۔ میڈیا کے ذریعہ یہ روح فرسا مناظر پوری دنیا نے دیکھے اور اس پر تمام مسلمانوں کے قلوب مجروح ہوئے اور ان کی دل آزاری ہوئی۔ اس پر حضرت مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی جماعت نے تمام مسلمانوں کی طرف سے فرضِ کفایہ کے طور پر تقدسِ حرمِ نبوی (l) کے عنوان پر ۱۹؍ مئی ۲۰۲۲ء کو کراچی میں اور ۲۱؍ مئی ۲۰۲۲ء کو پشاور میں بڑے بڑے جلسے منعقدکیے، جس میں بلا مبالغہ لاکھوں لوگ شریک ہوئے، اس میں قائدِ ملتِ اسلامیہ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب نے اور باتوں کے علاوہ یہ بھی فرمایا:
’’میرے محترم دوستو! آپ کو یاد ہوگا جب مسجد اقصیٰ پر یہودی درندوں نے، صہیونی دہشت گردوں نے جارحیت کی تھی تو پاکستان میں کراچی کی سرزمین پر جمعیت علماء اسلام نے ایک بہت بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا، پاکستان میں ایک خاص لابی یہ درس دے رہی تھی کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا چاہیے، لیکن آپ کے اس ایک جلسے نے، آپ کی اس ایک آواز نے اس لابی کے نظریے کے مقابلے میں ان کی زبانیں ایسی خاموش کیں کہ پھر پاکستان کی سرزمین پر، کسی ایک فورم پر بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کرنے کی کوئی جرأت نہیں کرسکا۔ اللہ نے آپ کی آواز میں تاثیر رکھی ہے، آپ کی آواز میں اللہ تعالیٰ نے ایک رعب اور دبدبہ رکھا ہے۔
آج میرے حبیب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے حرمِ اقدس کی بے حرمتی اسی یہودی لابی کے ایجنٹوں نے کی، پہلا حق آپ کا تھا، اسی لیے آپ اسی میدان میں اکٹھے ہوئے اور ان قوتوں کو للکارا کہ آئندہ اگر تم نے حرم اقدس کی حرمت کی توہین کا ارتکاب کیا تو ہم تمہاری زبانوں کو کھینچ لیں گے اور تمہیں ایسا سبق سکھائیں گے کہ تم رہتی دنیا تک یاد رکھوگے۔ یہودیوں نے مدینے کی بے حرمتی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم صادر فرمایا: ’’أخرجوا الیہود من جزیرۃ العرب‘‘ کہ یہودیوں کو جزیرۃ العرب سے باہر نکال دو۔ا گر آج اس کے ایجنٹوں نے مدینے کی حرمت کو پامال کیا تو ایجنٹو! یاد رکھو تمہیں ہم نہیں چھوڑیں گے اور تمہیں کیفرِ کردار تک پہنچاکر دم لیں گے۔ 
مکہ والوں نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں کہا تھا کہ: یہ لاوارث ہے۔ لیکن قیامت تک کے لیے اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی اُمت عطا کی ہے کہ آج چودہ سو سال گزرنے کے بعد بھی ایک گیا گزرا گنہگار اُمتی بھی اپنے نبی اور رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی حرمت پر جان قربان کرنے کے لیے تیار کھڑا ہے۔ان ایجنٹوں نے مکہ والوں کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لاوارث سمجھا ہوا ہے، دنیا کی آبادی کا چھٹا حصہ اپنے پیغمبر( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ناموس پر قربان ہونے کے لیے تیار ہے۔ ایک ارب سے زیادہ آبادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس پر جان قربان کرنے کے لیے تیار ہے۔ تم ہوتے کون ہو؟! تم کس باغ کی مولی ہو؟! تمہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا، اگر تم نے آئندہ کے لیے اس طرح سوچا بھی تو۔ ہم تحمل اور برداشت کے لوگ ہیں، ہم نے ہر مشکل کو بڑے صبر، تحمل، برداشت کے ساتھ عبور کیا، لیکن یہی وہ مقام ہے، یہی وہ منزل ہے، یہی حرمتِ رسول کا وہ مقام ہے جہاں صبر کا بندھن ٹوٹ جاتا ہے، جہاں تحمل کا بندھن ٹوٹ جاتا ہے، جہاں برداشت نام کی کوئی چیز نہیں رہتی.... لیکن میں آپ کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ جہاں یہ نالائق اور ذہنی بیمار ہے، وہاں پر یہ فتنہ گر بھی ہے۔ ایسے پیروکار اس نے پیدا کرلیے ہیں کہ اگر وہ نعوذباللہ.. .اللہ ہونے کا دعویٰ کرے تو کہیں گے ہم پھر بھی ان کے ساتھ ہیں، خود کہتا ہے: اللہ نے جو پیغام پیغمبر کے پاس پہنچایا، اسے لوگوں تک پہنچایا، تم بھی میرا پیغام لوگوں تک پہنچائو۔ کبھی خود کو اللہ کے ساتھ برابری پر، کبھی خود کو پیغمبر کے ساتھ برابری پر۔ اور اس کے پیروکار کہتے ہیں کہ: ’’اگر وہ نبوت کا دعویٰ کرے، تب بھی ہم ان کے ساتھ ہیں۔‘‘ کبھی کہتا ہے: ’’اللہ نے پیغمبر کی تربیت کی، اس کو نبوت کے لیے بنایا، اب میری بھی تربیت کررہا ہے۔‘‘ اس فکر اور اس سوچ کا آدمی پاکستان میں سیاست کرے گا؟ اسے کہتے ہیں ’’دجل‘‘ دجل سے دجال .... دجال جب آئے گا تو اس کے ماتھے پر ’’ک ف ر‘‘ لکھا ہوگا، لیکن اس کے دَم سے بارش بھی ہوگی، مردے بھی زندہ ہوںگے، جہاں تھوک پھینکے گا وہاں سے سبزہ بھی اُگے گا، کرامات بھی دکھائے گا، لیکن ہوگا دجال‘ فتنہ، تو میں آپ کو اس فتنے سے بھی ڈرانا چاہتا ہوں اور متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہم خواہ مخواہ اس کے خلاف میدان میں نہیں آئے، اور آج ہماری طرح کے کچھ مذہبی رنگ والے لوگ، ان کے آگے پیچھے پھر رہے ہیں، ان کو یہ دین سکھائے گا، جو مولوی بے چارہ اس قدر یتیم ہو جائے کہ اسے عمران خان کے سایہ کی ضرورت ہو، اس کی یتیمی پہ رحم آتا ہے۔ یہ لوگوں کو دین سکھائے گا؟! ان شاء اللہ! ہم ایسی فکر، ایسے عقیدے، ایسے نظریئے اور ایسے فتنے کا خاتمہ کریں گے۔ اگر ہم قادیانی فتنے کے خلاف اس کے پیروکاروں کے خلاف جنگ لڑسکتے ہیں اور تاقیامت جنگ لڑنے کا عہد کیا ہے تو یہ کیا چھوٹی موٹی فتنیاں ہمارا مقابلہ کریں گی۔ ان کو تو ایک ضرب سے ہم نے ہٹایا ہے اور ایک ضرب سے ان کو دفن کریں گے، ان شاء اللہ۔
میرے محترم دوستو! ان کے جلسوں سے ڈرنا نہیں چاہیے، ان کے پیروکاروں سے بھی ڈرنا نہیں چاہیے۔ میری شرافت مجھے ان پر تبصرہ کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ (لوگوں سے) کہتا ہے: عمرے پر کیوں گئے؟ تمہیں میرے جلسوں میں میرے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے تھا۔ ناچ گانوں کی محفل میں تمہیں کھڑا ہونا چاہیے تھا۔ تمہیں عمرے پر جانے کی کیا ضرورت تھی؟!‘‘
میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ جنہوں نے زندگی بھر عمرہ نہیں کیا، جنہوں نے زندگی بھر مدینہ منورہ نہیں دیکھا، آج اس موقع پر آپ کے برطانیہ کے پی ٹی آئی کا صدر اور جہانگیر عرف چیکو پہلی مرتبہ کس پروگرام، کس سازش کے تحت مدینہ منورہ آئے تھے؟ شیخ رشید صاحب نے ایک دن پہلے کہہ دیا تھا کہ مدینہ میں ایسا ہوگا.... تم حرمِ نبوی کی توہین کرنے کی پلاننگ کرتے ہو۔ سیاست کرنی ہے پاکستان میں کرو۔ تمہاری طاقت ہے تو پاکستان میں آئو۔ پاکستان میں تو ہم نے تمہیں گردن سے اُٹھاکر پھینک دیا، اب باہر جاکر بدمعاشیاں اور شیطانی کرتے ہو۔ یہاں آئو! مقابلہ کرو، ہم تمہیں دکھائیں گے کہ تمہاری اوقات کیا ہے؟
میرے محترم دوستو! اس فتنے سے الگ ہو جائو، ہم ہمدردی کے ساتھ آپ سے بات کر رہے ہیں کہ کوئی مسلمان پاکستان کی تباہی میں اس کے ساتھ شریک نہ ہو۔ ملک کی تباہی میں اس کے ساتھ کوئی تیار نہیں ہونا چاہیے۔ ہاں! میں جانتا ہوں اور اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ملک کے اندر ایک ایلیٹ کلاس ہے (اشرافیہ)، ان کے گھروں میں آنٹیاں عمران کے جانے پہ آنسو بہارہی ہیں۔ بھائی! یہ صرف آنسو نہیں ہیں، پتہ چل رہا ہے کہ کون کون سے خاندان اور کون کون سے گھرانے ہیں جو اس بین الاقوامی نیٹ ورک کے ساتھ وابستہ رہے ہیں اور آج اُن کے گھر میں ماتم ہے۔ اس سے ہمیں پتہ چل رہا ہے کہ کس کس کی ماں مری ہے، اور ان شاء اللہ! ہم لڑیں گے، اس بات کو چھوڑیں گے نہیں۔ ورنہ لوگ تو کہتے ہیں کہ اب آپ کی حکومت آگئی ہے، اب آپ کو جلسہ کی کیا ضرورت ہے؟ ہم کہتے ہیں، قرآن کریم کا ارشاد ہے: ’’وَقَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَاتَکُوْنَ فِتْنَۃٌ‘‘ فتنے سے لڑنا ہے،جب تک فتنے کو دفن نہیں کریں گے، جب تک سمندر برد نہیں کریں گے،ان شاء اللہ! یہ نظریہ، یہ پرچم، یہ حق بلند رہے گا۔ دو سو سال سے انگریزوں کے خلاف سربلند یہ پرچم لہراتا لہراتا آج پاکستان کے نوجوان کے ہاتھ میں ہے اور ان شاء اللہ! منزل حاصل کرکے رہے گا۔ اللہ ہمارا مددگار ہو، اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو.....۔‘‘
بہرحال ماہنامہ ’’بینات‘‘ کے توسُّط سے ہم بطور خیر خواہی عرض کرنا چاہتے ہیں کہ جو لوگ اس دین بیزار جماعت کے سحر میں آئے ہوئے ہیں، انہیں چاہیے کہ اپنے دین، ایمان، خصوصاً حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو مقدم رکھیں، جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و حرمت اور آپ کی ناموس کا خیال نہ رکھے، جو سیاست کی آڑ میں دین دشمنی کی تحریک چلائے، وہ نہ دنیا میں رفاقت وحمایت کا مستحق ہے اور نہ ہی آخرت میں نجات پاسکتا ہے۔ پس قبل اس کے کہ یہ لوگ کسی فتنہ کی شکل اختیار کریں، آپ اپنے دین و ایمان اور اپنی نسلوں کے ایمان کی حفاظت کی خاطر ان کے ایسے تمام کاموں سے کنارہ کش ہوجائیں، تاکہ ہم سے اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) آخرت کے دن راضی رہیں۔ 

إن أرید إلا الإصلاح مااستطعت وما توفیقي إلا باللہ علیہ توکلت وإلیہ أنیب
وصلی اللہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد و علٰی آلہٖ و صحبہٖ أجمعین

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین