بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

بینات

 
 

شئیرز کی خریدوفروخت کا طریقہ

شئیرز کی خریدوفروخت کا طریقہ

 

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
1- اگر میں شئیرز خرید کر فوراً بیچ دوں تو یہ خریدوفروخت میرے لیے جائز ہے یا ناجائز؟
2- اگر میں نے شئیرز خریدے اور اس کے فوراً بعد میرے پاس ایک میسج (SMS)آگیا کہ آپ نے ۵۰۰ شئیرز خریدے ہیں، اس کے بعد وہی شئیرز میں بیچ دوں؟ یا اس کے لیے مجھے رسید لینا ضروری ہوگی؟ تو کس صورت میں بیچ سکتا ہوں یا کونسی صورت میرے لیے جائز ہوگی؟         مستفتی: فیاض احمد خان

الجواب حامدًا ومصلیًا

واضح رہے کہ شیئرز کی خرید وفروخت کے جائز ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا ہونا ضروری ہے‎:
۱- جس کمپنی یا ادارہ کے حصص (شیئرز) کی خرید وفروخت کی جارہی ہو واقعۃً وہ کمپنی یا ادارہ موجود ہو، یعنی اس کے ماتحت کوئی جائیداد، کارخانہ، مل، فیکٹری یا کوئی اور چلتا کاروبار موجود ہو، اور اگر کمپنی یا ادارہ کے تحت مذکورہ اشیاء نہ ہوں یا کمپنی یا ادارہ سرے سے موجود ہی نہ ہو ، صرف اس کا نام ہو اور اس کے شیئرز بازار میں اس لیے چھوڑے گئے ہوں کہ اس پر پہلے سے زیادہ رقم حاصل کی جائے اور منافع حاصل کیے جائیں تو ایسی کمپنی کے شیئرز کی خرید و فروخت جائز نہیں، کیوں کہ ہر شیئر کے مقابل میں جمع شدہ روپے کی رسید ہے، کوئی جائیداد یا ایسا مال نہیں جس پر منافع لے کر فروخت کیا جاسکے۔
۲- کمپنی کا سرمایہ جائز اور حلال ہو۔
الف : یعنی جس موجود کمپنی ، کاروبار یا کارخانہ کے حصص (شیئرز) خریدوفروخت کیے جارہے ہوں اس کا سرمایہ جائز اور حلال ہو، رشوت،چوری،غصب، خیانت،سود، جوئےاور سٹہ پر حاصل شدہ رقم نہ ہو ، لہٰذا سودی ادارے جیسے بینک یا انشورنس کمپنی وغیرہ کے شیئرز کی خرید وفرخت جائز نہیں ہے۔
ب : کمپنی کے شرکاء میں سودی کاروبار کرنے والے یا کسی اور ناجائز اور حرام کاروبار کرنے والے اداروں یا افراد کی رقم شامل نہ ہو۔
۳- کمپنی یا ادارہ کا کاروبار جائز اور حلال ہو ۔
الف : یعنی کمپنی یا ادارہ کے کاروبار کے طریقہ کے درست ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ کمپنی یا ادارہ کا کاروبار بھی جائز ہو، مثلاً: شرعی شراکت اور شرعی مضاربت کی بنیاد پر کاروبار ہو، اگر کاروبار ناجائز ہو گا تو اس کمپنی کے شیئرز کی خرید وفروخت جائز نہیں ہوگی۔
‎ب : اور کمپنی کا کاوربار حلال اور جائز اشیاء کا ہو ، مثلاً شراب، جاندار کی تصاویر ، ٹی وی، وی سی آر اور ویڈیو فلم، سینما وغیرہ کے کاروبار والی کمپنیوں کے شیئرز کی خرید وفرخت بھی ناجائز ہے۔
۴- شیئرز کی خرید وفرخت میں شرائطِ بیع کی پابندی کرنا۔
یعنی مذکورہ کمپنی یا ادارہ کے شیئرز کی خریدوفروخت بیع وتجارت کے شرعی اصولوں کے مطابق ہو، مثلاً آدمی جن شئیرز کو خرید کر بیچنا چاہتا ہے اس پر شرعی طریقہ سے قابض ہو اور دوسروں کو تسلیم اور حوالہ کرنے پر بھی قادر ہو۔
واضح رہے کہ شیئرز میں قبضہ کا حکم ثابت ہونے کے لیے صرف زبانی وعدہ کافی نہیں ہے، نام رجسٹرڈ یا الاٹ ہونا ضروری ہے، اس سے پہلے صرف زبانی وعدہ یا غیر رجسٹرڈ شیئرز کی خرید وفروخت باقاعدہ فزیکلی طور پر ڈیلیوری ملنے سے پہلے ناجائز ہے، البتہ یہ درست ہے کہ شیئرز پہلے بائع کے نام رجسٹرڈ ہوں اور بائع اس کی قیمت بھی ادا کردے اور اس کے پاس ڈیلیوری آجائے، اس کے بعد اس کی خریدوفروخت جائز ہوگی، یا شیئرز وصول کرلیے ہیں، لیکن ابھی تک قیمت ادا نہیں کی تو اس صورت میں بھی مذکورہ شیئرز کو فروخت کرکے نفع لینا جائز ہے، کیوں کہ مبیع پر قبضہ ثابت ہے۔
۵- منافع کی کل رقم کو تمام حصہ داروں کے درمیان شیئرز کے مطابق تقسیم کرنا، مثلاً کمپنی میں جو منافع ہوا ہے اسے تمام حصہ داروں میں ان کے شیئرز کے مطابق تقسیم کردیا جائے، لیکن اگر کوئی کمپنی مستقبل کے ممکنہ خطرہ سے نمٹنے کے لیے منافع میں سے مثلا%۲۰ فیصد اپنے لیے مخصوص کرتی ہے اور ۸۰ فیصد منافع کو حصہ داروں میں تقسیم کرتی ہے تو اس کمپنی کے شیئرز کی خریدوفروخت ناجائز اور حرام ہے ، کیوں کہ یہ کمپنی شرعی شراکت کے خلاف ناجا ئز کاروبار کرتی ہے۔  (‎ماخوذ از جواہر الفتاویٰ، م: مفتی عبد السلام چاٹگامی صاحب، ۳/۲۵۸، ط: اسلامی کتب خانہ‎)
1 ، 2 -  مذکورہ تفصیل کی رو سے صورت ِ مسئولہ میں سائل کے لیے شیئرز کو فروخت کرنا اس صورت میں جائز ہوگا جب سائل کو خریدے گئے شیئرز کی باقاعدہ ڈیلیوری مل جائے، یعنی جس کمپنی کے حصص بیچے گئے ہیں، اس کمپنی کے ریکارڈ میں سی ڈی سی (C.D.C) کے ذریعے ان حصص کی منتقلی سائل (خریدار) کے نام ہوجائے، لہٰذا سی ڈی سی اکاؤنٹ میں سائل کے نام پر شئیرز منتقل ہونے سے پہلے شیئرز کو آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہوگا۔
حدیث مبارکہ میں ہے‎:
’’حدثنا علي بن عبد اللہ، حدثنا سفيان، قال: الذي حفظناہ من عمرو بن دينار، سمع طاؤسا، يقول: سمعت ابن عباس رضي اللہ عنہما، يقول: أما الذي نہی عنہ النبي صلی اللہ عليہ وسلم فہو الطعام أن يباع حتی يقبض ، قال ابن عباسؓ: ولا أحسب کل شيء إلا مثلہ۔‘‘ (صحیح البخاري، ۱ / ۲۸۶، باب بیع الطعام قبل أن یقبض، ط: سعید‎)
’’البحر الرائق‘‘ میں ہے:
’’قبض کل شيء وتسليمہ يکون بحسب ما يليق بہ۔‘‘ (۵ / ۲۴۸، کتاب الوقف، ط: سعید‎)
’’بدائع الصنائع‘‘ میں ہے:
’’(‎ومنہا) القبض في بيع المشتري المنقول فلا يصح بيعہ قبل القبض؛ لما روي أن النبي -  صلی اللہ عليہ وسلم -  ’’نہی عن بيع ما لم يقبض‘‘ ، والنہي يوجب فساد المنہي؛ ولأنہ بيع فيہ غرر الانفساخ بہلاک المعقود عليہ؛ لأنہ إذا ہلک المعقود عليہ قبل القبض يبطل البيع الأول فينفسخ الثاني؛ لأنہ بناہ علی الأول، وقد ’’نہی رسول اللہ - صلی اللہ عليہ وسلم - عن بيع فيہ غرر‎۔‘‘ (۵ / ۱۸۰، کتاب البیوع، ط: سعید‎)

  ــــ فقط واللہ اعلم
فتویٰ نمبر : 1123-1438ھ                    دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین