(آٹھویں قسط)
رضاعت سے وہ تمام رشتے حرام ہوجاتے ہیں جونسب یا مصاہرت کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں، مگر یہ کہ شریعت نے کسی رشتے کو مستثنیٰ کیا ہو،جیسے رضاعی بھائی کی نسبی بہن سے نکاح جائز ہے۔
رضاعت کے سبب رضیع پر درج ذیل رشتے حرام ہوں گے:
(۱) مرضعہ جس کا دودھ پیا ہے۔
الف:مرضعہ کے نسبی اور رضاعی اُصول
ب:مرضعہ کے نسبی اور رضاعی فروع
فروع میں مزید تفصیل یہ ہے کہ مرضعہ کی اولاد خواہ نسبی ہو یا رضاعی اور خواہ اس شوہر سے ہو جس کی صحبت سے مرضعہ کودودھ اُترا ہے،یاکسی دوسرے شوہر سے ہو۔مرضعہ نے انہیں رضیع سے پہلے دودھ پلایا ہو۔مرضعہ نے انہیں رضیع کے بعددودھ پلایا ہو۔مرضعہ نے کسی اور بچے کو دودھ پلایا ہو۔
(۲) مرضعہ کا شوہر جس کی وطی کے سبب مرضعہ کادودھ اُترا ہے، وہ رضیع کا باپ کہلائے گا، اور اس کے درج ذیل رشتہ دار رضیع پر حرام ہوں گے:
الف: نسبی اور رضاعی اُصول
ب: نسبی اور رضاعی فروع
ج: اولاد، خواہ وطی نکاحِ صحیح کے ذریعے ہویا فاسد کے ذریعے ۔
(۳) مرضعہ کے شوہر کی اولادخواہ، مرضعہ سے ہو، مرضعہ کے علاوہ کسی اور سے ہو، مرضعہ نے انہیں رضیع سے پہلے دودھ پلایا ہویا بعد میں پلایا ہو، شوہر کی نسبی اولاد ہو یا رضاعی اولاد ہو۔ سب رضیع مذکور کے بہن بھائی ہوں گے۔ بنا برایں ان کی اولاد رضیع مذکور کی بھائی بہن کی اولاد ہوگی، مرضعہ کے شوہر کا بھائی رضیع مذکور کا چچا کہلائے گا اور مرضعہ کے شوہر کی بہن رضیع کی پھوپھی ہوگی، مرضعہ کا بھائی رضیع کا ماموں ہوگا، مرضعہ کی بہن رضیع کی خالہ ہوگی۔ ایسے ہی دادا دادی، نانا نانی میں سمجھنا چاہیے۔
توضیح:۱- رضاعی باپ جس کی وطی کے سبب مرضعہ کا دودھ اُترا ہے خواہ وطی نکاحِ صحیح کے سبب ہو یا فاسد کے، البتہ اگر وطی بالشبہہ ہو توآمدہ دفعہ کے احکام لاگو ہوں گے۔
توضیح :۲-دفعہ ہذا اِن دو اُصولوں پر بنا ہے کہ :
۱۔ عورت کی جانب سے اصل یہ ہے کہ بچے نے اس کا دودھ پیا ہو، خواہ کسی زمانے میں پیا ہو اور اس دودھ کا سبب خواہ اس کا موجودہ یا سابقہ شوہر ہو یا زانی ہویا واطی بالشبہۃ ہو۔
۲۔ مرد کی جانب سے اصل یہ ہے کہ اس کی اولاد ہو یا دودھ اس کی وطی کے سبب ہو۔
مزنیہ نے جس کو دودھ پلایا وہ رضیع، زانی اور اس کے اُصول وفروع پر حرام ہوگا۔
توضیح :دوسرا قول یہ ہے کہ حرمت صر ف مزنیہ سے ثابت ہوگی، یعنی رضیع کا صرف مرضعہ کے ساتھ رشتۂ رضاعت قائم ہوگا، زانی سے نہیں ، مگر راجح اور قوی پہلا قول ہے۔ خود زانی پر رضیعہ بالاتفاق حرام ہوگی، کیونکہ وہ مزنیہ کی اولاد ہے اور مزنیہ کے فروع زانی پر حرام ہوتے ہیں۔
قانون ثبوتِ نسب کے احکام کے تحت جہاں مرد سے ثبوتِ نسب ہوگا، وہاں رضیع اور مرد کے درمیان رضاعت کا رشتہ بھی قائم ہوگا اور جہاں مرد سے ثبوتِ نسب نہ ہو، وہاں صرف عورت سے رشتۂ رضاعت قائم ہوگا۔
تمثیل: زید نے ہندہ سے وطی بالشبہہ کی اورہندہ کو حمل ٹھہرگیا اور بچہ متولد ہوگیا، پھر ہندہ نے بکر سے نکاح کیا اور ایک لڑکی فاطمہ کو دودھ پلادیا تو فاطمہ زید کی رضاعی بیٹی ہوگی، نہ کہ بکر کی اور بکر کے لیے حلال ہوگی،کیونکہ ہندہ کا دودھ زید کی صحبت کی وجہ سے اُترا ہے، مگر شرط یہ ہے کہ قانونِ نسب کے قواعد کے تحت زید سے فاطمہ کا نسب ثابت ہو ،اگر نسب ثابت نہ ہو تو زید کے ساتھ اس بچی کا رشتۂ رضاعت ثابت نہ ہوگا۔
جب مطلقہ، جس کا شوہر سے دودھ بھی ہے،بعد از انقضاء عدت کسی اور شخص سے نکاح کرے، تو اگر:
(۱) شوہرِ ثانی سے بچہ مولود ہوا تو بالاجماع دودھ شوہر اول سے منقطع سمجھا جائے گا۔
(۲) اگر شوہرِ ثانی سے حاملہ ہی نہیں ہوئی تو بالاتفاق دودھ شوہر اول سے سمجھا جائے گا۔
(۳)اگر شوہرِ ثانی سے صرف حاملہ ہوئی،بچہ پیدا نہیں ہوا تو بھی دودھ صرف شوہرِ اول سے سمجھا جائے گا،خواہ حمل کے سبب دودھ زیادہ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔
جن بچوں نے کسی ایک ہی عورت کا دودھ پیا ہو، خواہ:
ایک وقت میں یا مختلف اوقات میں، اورعورت کادودھ ایک ہی شوہر سے ہو یا دو سے ہو یا شوہر سے نہ ہو، ایسے بچے:
(۱) رضاعی بھائی بہن ہوں گے،اگر ایک لڑکااور دوسری لڑکی ہو۔
(۲) دونوں رضاعی بھائی ہوں گے ،اگر دونوں لڑکے ہوں۔
(۳) دونوں رضاعی بہنیں ہوں گی، اگر دونوں لڑکیا ں ہوں۔
بنابرایں:
الف۔ دونوں کاآپس میں نکاح ناجائز ہوگا۔
ب۔ ایک دوسرے کی اولاد سے نکاح ناجائز ہوگا، کیونکہ وہ ماموں اور بھانجی یا بھتیجے اور پھوپھی کا نکاح ہوگا۔
ج۔ مرضعہ کی ماں سے رضیع کا نکاح ناجائز ہوگا، کیونکہ نانی اور نواسے کا رشتہ قائم ہوگا۔
د۔ مرضعہ کے باپ سے نکاح ناجائز ہوگا، کیونکہ نواسی اور نانا کا نکاح ہوگا۔
ح۔ رضیع کی اولاد اور اولاد در اولاد کے لیے بھی مرضعہ سے نکاح حرام ہوگا، جیساکہ نسب میں حرام ہوتا ہے۔
و۔ مرضعہ کے بھائی اور بہنوں سے رضیع کا نکاح حرام ہوگا، کیونکہ وہ بالترتیب ماموں اور خالائیں ہوں گی۔ البتہ مرضعہ کے بھائی بہنوں کی اولادسے رضیع کا نکاح جائز ہوگا، کیونکہ وہ رضیع کی ماموں زاد یا پھوپھی زاد ہوں گی اور ان سے نسب میں بھی نکاح جائز ہے۔
توضیح: اجنبیہ سے مراد اس دفعہ کے تحت وہ عورت ہے جو ان بچوں میں سے کسی کی سگی ماں نہ ہو۔
باکرہ کو دخول سے قبل طلاق دی تو اس کی رضاعی بیٹی سے نکاح کرسکتاہے اور اگر بعد ازدخول طلاق دی تو نہیں کرسکتاہے۔
توضیح:باکرہ سے مرادوہ عورت جس سے جائز یا ناجائز طورپر کسی نے صحبت نہ کی ہو، اگر چہ اس کی بکارت بوجہ کھیل کود یامرض کے زائل ہوچکی ہو۔ قبل از دخول بایں وجہ طلاق دہندہ شوہر نکاح کرسکتا ہے کہ دودھ اس کی وطی کے سبب نہیں اور بعدازدخول نکاح کی حرمت بایں وجہ ہے کہ وہ لڑکی اس کی ربیبہ ہے۔ (جاری ہے)