شیخ اسماعیل ہنیہ شہیدؒ ، فلسطینی اتھارٹی کے سابق وزیر اعظم ، بورڈ آف ٹرسٹیز کے سیکریٹری ، فلسطینی مزاحمتی تنظیم کے سیاسی ونگ کے سربراہ اور اسلامی مزاحمتی رہنماؤں میں سے ایک تھے، جو فلسطین کو صہیونی قبضے سے آزاد کرانے کی تگ و دو میں رہتے تھے ، نیز شیخ احمد یاسین شہید ؒ کے دفتر کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں ۔ انہیں ۳۱؍ جولائی ۲۰۲۴ ء کو ایران کے دارالخلافہ تہران میں اس وقت شہید کیا گیا جب وہ ایران کے صدر مسعود زشکیان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے ایران آئے ہوئے تھے ،کہا جاتا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے ان کی اقامت گاہ کو نشانہ بنایا گیا ، جس میں وہ اپنے ایک محافظ سمیت شہید ہوگئے۔ انہیں بجا طور پر ’’فلسطینی مزاحمت کی علامت ‘‘ اور ’’ شہید ِقدس ‘‘ کا لقب دیا گیا ہے۔
شیخ ہنیہؒ کا تعلق غزہ شہر کے ساحل پر واقع پناہ گزین کیمپ سے تھا، جہاں وہ ایک پناہ گزین خاندان میں ۱۹۶۲ ء میں پیدا ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ کرلیا تھا۔ اسماعیل ہنیہؒ نے فلسطینی پناہ گزینوں کےلیے اقوام متحدہ کے ادارے اونروا کے زیر انتظام اسکولوں میں تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں اسماعیل ہنیہؒ نے غزہ شہر کی اسلامی یونیورسٹی میں عربی ادب کی تعلیم حاصل کی اور دورانِ طالب علمی اسلامی طلبہ تنظیم میں شامل ہوئے جو بعد میں حماس کی صورت میں سامنے آئی۔۱۹۸۷ء میں اسرائیلی قبضے کے خلاف پہلی انتفاضہ (انقلاب) کے دوران ہنیہؒ فلسطینی نوجوانوں کے احتجاج میں شامل رہے اور اسی دوران حماس کی بنیاد رکھی گئی۔ آپ نے ایک انٹر ویو میں اپنے بارے میں یوں روشنی ڈالی ہے :
’’ میرے والد صوفیا میں سے تھے ، وہ شیخ طریقت تھے ، ان کے پاس مشائخ آتے تھے اور وہ ذکر کی مجالس قائم کرتے تھے ۔ میں اسی ماحول میں پلا بڑھا ، ہمارے گھر کے قریب ہی خانقاہ ہوا کرتی تھی ، وہاں میرے والد صاحب مجالس قائم کرتے تھے ، میں ان مجالسِ ذکر کو دیکھا کرتا تھا ، تعزیتی مجلسیں ہوتی تھیں ، ان میں تین دن تک قرآن کریم پڑھا جاتا تھا ، میں بھی بعض مجالس میں قرآن کریم پڑھتا تھا ، تعزیتی مجلسوں میں شریک ہوتا تھا ، خاص طور پر اس وقت جب میں کچھ بڑا ہوگیا تھا ،ستر کی دہائی کے آغاز میں۔ نیز میرے والدمحترم مسجد کے مؤذن تھے ، مسجد ہمارے گھر سے قریب تھی ، وہ نمازِ فجر کی اذان کا اہتمام کرتے تھے ، میری عمر تقریباً چھ سال تھی ، وہ روزانہ مجھے جگاتے تھے ، میں ان کے لیے چراغ لے کر جاتا تھا ، کیونکہ اس وقت مسجد اور راستوں میں بجلی نہیں ہوتی تھی ، میں جا کر مسجد کے دروازے کھولتا ، وہ اذان دیتے پھر میں ان کے ساتھ نماز ادا کرتا ۔ میرے بننے میں ، میرے افکار تشکیل پانے میں ، میرے نفس کو دین اور شعائر اسلام کے قریب کرنے میں ، حتّٰی کہ صوفیت کے قریب کرنے میں یہ پہلی تربیت تھی جو مجھ پر بہت زیادہ اثر انداز ہوئی ۔‘‘
اسماعیل ہنیہ شہید ؒ کئی دفعہ اسرائیل کے توسط سے گرفتار ہوئے اور ۸۹ ۱۹ ء میں تین سال تک انہیں قید خانے میں رکھا گیا۔ ۱۹۹۲ء میں انہیں حماس اور تحریک ِجہاد اسلامی فلسطین کے کئی سرگرم کارکنوں کے ساتھ ایک سال کے لیے لبنان کے جنوب میں مَرْج الزُّہور نامی جگہ پر جلاوطن کیا گیا۔ اسماعیل ہنیہ شہید ؒ نے ۶ ؍مئی ۲۰۱۷ ء کو خالد مشعل کے بعد حماس کی سیاسی قیادت سنبھالی۔ اس سے پہلے وہ ۲۰۰۶ ء میں فلسطین کے عام انتخابات میں کامیاب ہو کر فلسطینی اتھارٹی کے وزیر اعظم منتخب ہوئے، تاہم جون ۲۰۰۷ ء میں فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے انہیں اس عہدے سے ہٹا دیا۔ ہنیہؒ کو امریکا نے ۲۰۱۸ ء میں دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا۔ اپنی عمر کے آخری سالوں میں وہ قطر میں زندگی بسر کرتےتھے۔ اسماعیل ہنیہ شہید ؒ اپنی جد و جہد اور سیاسی سرگرمیوں کے دوران مزاحمتی بلاک کے راہنماؤں کے ساتھ تعاون اور رابطے میں رہے۔
’’ ہم تسلیم نہیں کریں گے، ہم تسلیم نہیں کریں گے، ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے۔‘‘
’’ خدائے واحد کے حکم سے قلعے نہ گریں گے، نہ قلعے ٹوٹیں گے اور نہ عہدوں کو ہم سے چھین لیا جائے گا۔‘‘
’’ ہم وہ لوگ ہیں جو موت کو اسی طرح پسند کرتے ہیں جیسے ہمارے دشمن زندگی سے پیار کرتے ہیں۔‘‘
اسماعیل ہنیہؒکا قتل حماس کےلیے ایک بڑا نقصان ہے، لیکن اسرائیل کی جانب سے ماضی میں بھی حماس کے رہنماؤں کو قتل کیا جاتا رہا ہے ، جس نے فلسطینی مزاحمت کو کمزور کرنے کے بجائے مزید مضبوط کیا ہے۔ اسماعیل ہنیہؒ کی زندگی فلسطینیوں کے حقوق اور آزادی کی جدوجہد کےلیے وقف تھی اور ان کا نام فلسطینی تحریک کے اہم رہنماؤں میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ۶ ؍مئی ۲۰۱۷ ء کو اسماعیل ہنیہؒکو حماس کی شوریٰ نے سیاسی شعبے کا سربراہ منتخب کیا۔
اسماعیل ہنیہؒ نے سولہ سال کی عمر میں اپنی کزن امل ہانیہ سے شادی کی، اور ان کے ۱۳ بچے تھے ، جن میں آٹھ بیٹے اور پانچ بیٹیاں شامل ہیں۔ان کے آٹھ بیٹوں میں سے تین بیٹے اور چار پوتے، پوتیاں ۱۰ ؍اپریل ۲۰۲۴ ء کو غزہ کی پٹی پر عید کے دن ہونے والے ایک اسرائیلی فضائی حملے میں شہید ہوئے تھے۔ حماس سے منسلک میڈیا کے مطابق اسماعیل ہنیہؒ کے بیٹے ایک گاڑی میں سفر کر رہے تھے، جب غزہ کی پٹی میں ایک کیمپ کے قریب انھیں نشانہ بنایا گیا۔اسماعیل ہنیہؒ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ : اس واقعے سے حماس کے مطالبات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
ان کی شہادت پر دنیا کے مختلف سیاسی اور مذہبی راہنماؤں اور تنظیموں کا ردِّ عمل سامنے آیا اور مختلف اسلامی ممالک میں ان کے قتل کے خلاف مظاہرے کیےگئے۔ ان کی پہلی نمازِ جنازہ تہران میں ادا کی گئی ، جس میں کثیر تعداد نے شرکت کی۔ دوسرے روز ان کا جسد ِ خاکی قطر لے جایا گیا ، جہاں مسجد محمد بن عبدالوہاب میں ان کی دوسری نمازِ جنازہ کے بعد انہیں سپردِ خاک کیا گیا۔
جامعہ کے رئیس حضرت مولانا سیّد سلیمان یوسف بنوری ، نائب رئیس حضرت مولانا سیّد احمد یوسف بنوری ، ادارہ بینات، جامعہ کے اساتذہ اور طلبہ ، محترم جناب اسماعیل ہنیہ ؒ کی شہادت کو جہادِ فلسطین کے لیے ایک بہت بڑا سانحہ سمجھتے ہیں، اُن کے ورثاء اور لواحقین سے تعزیت کرتے ہیں، اور دعا گو ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی شہادت کی برکت سے ارضِ فلسطین کو آزادی نصیب فرمائے ، قبلۂ اوّل کو صہیونیوں کے قبضے سے آزاد فرمائے ، اور مجاہدینِ فلسطین کو کامیاب و کامران فرمائے ، آمین بجاہ سیّد المرسلین !