بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

بینات

 
 

صفر المظفر سے متعلق اہم مسائل


صفر المظفر سے متعلق اہم مسائل


صفر کے آخری بدھ میں بیماری سے بچاؤ کے لیے خاص عمل کرنے کا حکم

سوال

میرے دادا جان صفر کے مہینے کے آخری بدھ چند مرتبہ یاسین شریف اور درود شریف پڑھ کر رات بھر عبادت کرکے صبح بواسیر کے مریضوں کو پانی دیا کرتے تھے۔ اب ان کے انتقال کے بعد یہ ذمہ داری مجھ پر آگئی ہے تو میں جاننا چاہتا ہوں کیا ان کا یہ عمل صحیح تھا یا نہیں؟ اور مجھے یہ عمل کرنا چاہیے یا نہیں؟ اور جو لوگ پانی لے جاتے ہیں، ان کا کہنا یہ ہے کہ ہم کو الحمدللہ اللہ تعالیٰ اس پانی کے ذریعے سے شفا دیتا ہے۔ 
برائے کرم مفتی صاحب اب بدھ کو چند ہی دن باقی ہیں تو میں جاننا چاہتا ہوں کہ اس کی حقیقت کیا ہے؟ تاکہ میں گھر والوں کے سامنے اُسے بیان کر سکوں!

جواب

واضح رہے کہ ماہِ صفر کے آخری بدھ کے حوالے سے عوام الناس میں یہ مشہور ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس روز مرض سے صحت پائی تھی، لوگ اس خوشی میں کھانا، شیرینی وغیرہ بھی تقسیم کرتے ہیں، اس حوالے سے جامعہ کے سابقہ فتاویٰ میں ہے:
’’ماہِ صفر کے آخری بدھ کے بارے میں لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اس روز آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  مرض سے صحت یاب ہوگئے تھے، اس لیے عید کی طرح خوشیاں مناتے ہیں، خصوصًا مزدور طبقہ مالکان سے چھٹی مانگتا ہے، مٹھائی کے پیسے اور عیدی طلب کرتاہے، یہ محض بے اصل اور بدعت ہے، کھانے پینے کی غرض سے لوگوں نے اس کو ایجاد کیاہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ صفر کے آخری بدھ کو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے مرضِ وفات کی ابتدا ہوئی تھی۔ دیکھیے: تاریخ ابن اثیر، تاریخِ طبری، البدایہ و النہایہ۔ لہٰذا جن لوگوں میں یہ رواج جاری ہے، ان کو چاہیے کہ اس بدعت کو چھوڑ دیں، شریعتِ اسلامیہ کے اَحکام کی پیروی کریں۔
شریعتِ اسلامیہ کے نزدیک ماہِ صفر بھی دوسرے مہینوں کی طرح ایک مہینہ ہے، ایامِ جاہلیت میں اس ماہ صفر کے بارے میں جو تصور تھا کہ یہ نحوست کا مہینہ ہے، اسلام نے اس کو رد کیا ہے، جیساکہ بخاری و مسلم اور دوسری کتب میں واضح الفاظ میں: ’’ لا صفر و لاطیرۃ‘‘ وغیرہ سے ایامِ جاہلیت کے عقائدِ فاسدہ کی سختی کے ساتھ تردید کی گئی ہے؛ اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ اس بدعتِ قبیحہ کو ترک کردیں، اور ایسے عقائدِ فاسدہ سے توبہ کریں۔                                            فقط واللہ اعلم
کتبہ: محمد عبدالسلام عفااللہ عنہ (صفر ۱۴۰۸ھ)                               الجواب صحیح: ولی حسن ٹونکی‘‘
فتاویٰ محمودیہ میں ہے:
’’ماہِ صفر کے آخری چار شنبہ کو خوشی کی تقریب منانا، مٹھائی وغیرہ تقسیم کرنا شرعاً بے دلیل ہے، اس تاریخ میں غسلِ صحت ثابت نہیں، البتہ شدتِ مرض کی روایت ’’مدارج النبوۃ‘‘ میں ہے۔ یہود کو آں حضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کے شدتِ مرض سے خوشی ہونا بالکل ظاہر ہے، اور ان کی عداوت و شقاوت کا تقاضا ہے۔‘‘ (فتاویٰ محمودیہ، کتاب العقائد، باب البدعات و الرسوم، مخصوص ایام کی مروج بدعات کا بیان، (۳/۲۷۹،۲۸۰)، ط: جامعہ فاروقیہ، کراچی)
لہٰذا اگر ماہِ صفر کے آخری بدھ اس نظریے کے تحت شفا یابی کے لیے کوئی عمل کیا جاتاہے تو یہ بے اَصل ہونے کے ساتھ قابلِ ترک ہے، اگر یہ عمل کرنے والے کا یہ نظریہ نہیں ہے، لیکن لوگوں کے ذہن میں یہ پہلو غالب ہے اور اس کی اصلاح مشکل ہے تو بھی اس سے اجتناب کیا جائے، بواسیر سے شفا کے لیے یہی عمل کسی اور دن (دن کو لازم سمجھے بغیر) کرلیا جائے۔ البتہ اگر عمل کرنے والے شخص کا نظریہ بھی یہ نہ ہو اور عرف میں بھی ماہِ صفر کے آخری بدھ کے حوالے سے رسم یا شفایابی کا نظریہ نہ ہو، بلکہ بطورِ تجربہ اس دن مخصوص اذکار پڑھ کر دم کرنے کے نتیجے میں لوگوں کو شفا ہورہی ہو اور اسے لازم بھی نہ سمجھا جائے اور اس عمل کے لیے اس دن کو مؤثر نہ سمجھا جائے تو آپ کے داداجان کا بواسیر بیماری سے بچاؤ کے لیے یہ عمل ان کے مجربات میں سے ہے، اور ایسے مجربات جو قرآنی تعلیمات کے خلاف نا ہوں ازروئے شرع ان کا کرنا درست ہے، لہٰذا اس صورت میں مذکورہ عمل کرکے پانی پر دم کرکے بطور علاج استعمال کرنا اور لوگوں کو دینا درست ہوگا۔ ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ میں ہے:
’’وَأما الرقي فحقيقتہا التَّمَسُّک بِکَلِمَات لَہَا تحقق فِي الْمثل وَأثر، وَالْقَوَاعِد المليۃ لَا تدفعہا مَا لم يکن فِيہَا شرک لَا سِيمَا إِذا کَانَ من الْقُرْآن اَو السّنۃ اَو مِمَّا يشبہہما من التضرعات إِلَی اللہ۔‘‘ (اللباس والزينۃ والأواني وغيرہا، ج:۲، ص:۳۰۰، ط:دارالجيل، بيروت)
’’الموسوعۃ الفقہيۃ‘‘ میں ہے:
’’اَجْمَعَ الْفُقَہَاءُ عَلَی جَوَازِ التَّدَاوِيْ بِالرُّقٰی عِنْدَ اجْتِمَاعِ ثَلاَثَۃِ شُرُوْطٍ: اَنْ يَّکُوْنَ بِکَلاَمِ اللہِ تَعَالٰی اَوْ بِاَسْمَائِہٖ وَصِفَاتِہٖ، وَبِاللِّسَانِ الْعَرَبِيِّ اَوْ بِمَا يُعْرَفُ مَعْنَاہُ مِنْ غَيْرِہِ، وَاَنْ يَّعْتَقِدَ اَنَّ الرُّقْيَۃَ لاَ تُؤثِّرُ بِذَاتِہَا بَل بِإِذْنِ اللہِ تَعَالٰی. فَعَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَال: کُنَّا نَرْقِيْ فِي الْجَاہِلِيَّۃِ فَقُلْنَا: يَا رَسُوْلَ اللہِ! کَيْفَ تَرٰی فِيْ ذٰلِکَ؟ فَقَال: اعْرِضُوْا عَلَيَّ رُقَاکُمْ، لاَ بَأْسَ بِالرُّقٰی مَا لَمْ يَکُنْ فِيْہِ شِرْکٌ وَمَا لاَ يُعْقَل مَعْنَاہُ لاَ يُوْمَنُ اَنْ يُّؤدِّيَ إِلَی الشِّرْکِ فَيُمْنَعُ احْتِيَاطًا۔‘‘  (باب التداوي بالرقی والتمائم، ج:۱۱، ص:۱۲۳، ط:دارالسلاسل)
                                                              فقط واللہ اعلم
فتویٰ نمبر :  144202200764                 دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

صفر کے مہینے میں مصیبتوں کا اُترنا

سوال
 

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے کے صفر کے مہینے میں ساری آفتیں اور مصیبتیں زمین پر اُترتی ہیں، اس لیےان سب سے حفاظت کے لیے ہر نماز کے بعد ۱۱ مرتبہ یَا بَاسِطُ یَا حَفِیْظُ   کا ورد کریں، کیا یہ حدیث صحیح ہے؟

جواب

ذخیرۂ احادیث میں یہ روایت نہیں مل سکی، لہٰذا کسی معتبر سند کے بغیر ایسی بات کرنے سے گریز کیا جائے۔ واضح رہے کہ صفر کے مہینے کو مصیبتوں اور آفتوں کا مہینہ قرار دینا شرکیہ نظریات میں سے ہے، مشرکین ماہِ صفر کو تکلیفوں اور پریشانیوں کا مہینہ سمجھتے تھے، جب کہ اسلام میں اس کی کوئی حقیقت نہیں،نہ قرآن کریم میں ایسی کوئی چیز موجود ہے، نہ ہی حدیث مبارک میں، اور نہ ہی اللہ تعالیٰ نے مصیبتوں کو مہینوں اور دنوں کے ساتھ خاص کیا ہے، بلکہ صحیح احادیث مبارکہ میں اس کی نفی وارد ہوئی ہے، چناں چہ بخاری اور مسلم کی روایت ہے:
’’أن أبا ہريرۃ رضي اللہ عنہ، قال: إن رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم قال: لا عدوی ولا صفر ولا ہامۃ۔‘‘ (صحيح البخاري، کتاب الطب، باب الصفر، وہو داء یأخذ  البطن، الرقم: ۵۷۱۷، ۷: ۱۲۸، دار طوق النجاۃ، ط: الأولی، ۱۴۲۲ھ ۔ صحيح مسلم، باب لا عدوی، ولا طيرۃ، ولا ہامۃ...، الرقم: ۲۲۲۰، ۴: ۱۷۴۲، دار إحياء التراث العربي)
شارحينِ حدیث نے ’’لاصفر‘‘ کے مختلف معانی و مطالب ذکر کیے ہیں، ان میں سے ایک مطلب امام ابو داؤدؒ نے سند کے ساتھ نقل کیا ہے:
’’قال - محمد بن راشد-: سمعت أن أہل الجاہليۃ يستشئمون بصفر، فقال النبي صلی اللہ عليہ وسلم: لا صفر۔‘‘
’’محمد بن راشد فرماتے ہیں کہ میں نے سنا ہے : جاہلیت کے لوگ صفر کے مہینے کو منحوس سمجھتے تھے، تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’لا صفر‘‘، یعنی صفر کے مہینے میں کوئی نحوست نہیں۔‘‘ (سنن أبي داود، کتاب الطب، باب في الطيرۃ، ۳۹۱۵، ۴: ۱۸، المکتبۃ العصريۃ)
نیز ایسی باتیں سننے، اور آگے پھیلانے سے بھی گریز کرنا چاہیے۔ فقط واللہ اعلم
فتویٰ نمبر : 144202200161                   دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

کیا صفر کے مہینہ میں شادی کرسکتے ہیں؟

سوال

کیا صفر کے مہینے میں شادی کرنا دینی لحاظ سے ٹھیک ہے یا نہیں؟ کیوں کہ ہماری جگہ کا مسئلہ درپیش ہے، اس وجہ سے ماہ صفر میں شادی کرنا مجبوری ہے۔

جواب

ماہِ صفر میں شادی کرنے میں شرعاً کوئی ممانعت نہیں، ماہِ صفر کے حوالہ سے عوام الناس میں مشہور باتوں کا تعلق محض توہمات سے ہے، جس کی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے سختی سے تردید فرمائی ہے، لہٰذا ان توہمات کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں۔ سیرت کی بعض روایات کے مطابق حضرت فاطمہ  رضی اللہ عنہا  کا نکاح صفر کے مہینے میں ہوا تھا۔ صحیح مسلم میں ہے:
’’حَدَّثَنِيْ اَبُو الطَّاہِرِ، وَحَرْمَلَۃُ بْنُ يَحْيَی - وَاللَّفْظُ لِأبِي الطَّاہِرِ - قَالَا: اَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ، اَخْبَرَنِيْ يُوْنُسُ، قَالَ: ابْنُ شِہَابٍ: فَحَدَّثَنِيْ اَبُوْ سَلَمَۃَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، عَنْ اَبِيْ ہُرَيْرَۃَ، حِيْنَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ: ’’لَا عَدْوٰی وَلَا صَفَرَ وَلَا ہَامَۃَ‘‘، فَقَالَ اَعْرَابِيٌّ: يَا رَسُوْلَ اللہِ! فَمَا بَالُ الْإِبِلِ تَکُوْنُ فِي الرَّمْلِ کَاَنَّہَا الظِّبَاءُ، فَيَجِيْءُ الْبَعِيْرُ الْاَجْرَبُ فَيَدْخُلُ فِيْہَا فَيُجْرِبُہَا کُلَّہَا؟ قَالَ: ’’فَمَنْ اَعْدَی الْأوَّلَ؟۔‘‘ (صحیح مسلم، ’’ بَابُ لَا عَدْوٰی، وَلَا طِيَرَۃَ، وَلَا ہَامَۃَ، وَلَا صَفَرَ، وَلَا نَوْءَ، وَلَاغولَ، وَلَا يُورِدُ مُمْرِضٌ عَلَی مُصِحٍّ۔‘‘، ۴ / ۱۷۴۲، رقم الحديث: ۲۲۲۰، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)
                                                           فقط واللہ اعلم
فتویٰ نمبر : 144112201447                   دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین