بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

بینات

 
 

طبی اخلاقیات  دائرہ کار، ضوابط، اخلاقی قدریں تعلیماتِ نبوی کی روشنی میں  (دوسری اور آخری قسط)


طبی اخلاقیات 

دائرہ کار، ضوابط، اخلاقی قدریں

تعلیماتِ نبوی کی روشنی میں  (دوسری اور آخری قسط)

 

9- خوش گفتاری

خوش گفتاری یعنی اچھے طریقے سے بات کرنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی عظیم سنت ہے۔ طبیب کے لیے اس کی اہمیت اس پہلو سے زیادہ ہے کہ دکھوں اور کرب میں مبتلا لوگ توقعات لے کر اس کے پاس آتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کی چاہت ہوتی ہے کہ اس کی تکلیف جلد دور ہوجائے۔ دوسری طرف طبیب اکیلا ہوتا ہے جس کے لیے بیک وقت ان سب کو دیکھنا اور مطمئن کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ایسے وقت میں مزاج میں چڑچڑاپن پیدا ہوجاتا ہے اور غصہ بھی آتا ہے۔ اس موقع پر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے مندرجہ ذیل ارشادات رہنمائی فرماتے ہیں:
’’عن عبداللہ بن عمر رضي اللہ عنہما، قال: لم يکنِ النبيُّ صلی اللہ عليہ وسلم فاحشا ولا متفحِّشا وکان يقول: إنَّ من خِيارِکم أحسنَکم أخلاقا۔‘‘  (صحیح البخاري، کتاب المناقب، باب صفۃ النبي صلی اللہ علیہ وسلم   ، رقم: ۳۵۵۹)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  بدزبان اور لڑنے جھگڑنے والے نہیں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے تھے کہ: تم میں زیادہ بہتر وہ شخص ہے جس کے اخلاق زیادہ اچھے ہیں۔‘‘

10- صبر

طبیب کو چاہیے کہ مریض کا علاج کرتے ہوئے جو ناگواریاں پیش آئیں، ان پر صبر وحوصلہ سے کام لے، یہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ اس سے یہ خدمت کروا رہے ہیں، مثلاً مریض اور اس کے متعلقین کی سخت کلامی پر صبر کرے۔ ایسے ہی علاج کرتے ہوئے بسا اوقات مریض کو زیادہ وقت دینا پڑ جاتا ہے، اس وقت بھی حوصلہ سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ البتہ اگر دیگر مریضوں کا حرج ہو رہا ہو تو خوش اسلوبی کے ساتھ نمٹانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ احادیث میں صبر کے فضائل بیان کیے گئے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
’’عَنْ اَبِيْ سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ: إِنَّ نَاسًا مِنَ الْاَنْصَارِ سَألُوْا رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ، فَاَعْطَاہُمْ، ثُمَّ سَاَلُوْہُ، فَاَعْطَاہُمْ، ثُمَّ سَاَلُوْہُ، فَاَعْطَاہُمْ حَتَّی نَفِدَ مَا عِنْدَہٗ، فَقَالَ: مَا يَکُوْنُ عِنْدِيْ مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ اَدَّخِرَہٗ عَنْکُمْ، وَمَنْ يَّسْتَعْفِفْ يُعِفَّہُ اللہُ، وَمَنْ يَسْتَغْنِ يُغْنِہِ اللہُ وَمَنْ يَتَصَبَّرْ يُصَبِّرْہُ اللہُ، وَمَا اُعْطِيَ اَحَدٌ عَطَاءً خَيْرًا وَاَوْسَعَ مِنَ الصَّبْرِ۔‘‘(صحیح البخاري، باب الاستعفاف عن المسألۃ، حدیث نمبر:۱۴۶۹)
ترجمہ: ’’حضرت ابو سعید خدری  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ انصار میں سے کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے کچھ طلب کیا، تو آپ نے انہیں دیا، ان لوگوں نے پھر سوال کیا، تو آپ نے انہیں پھر دیا، یہاں تک کہ آپ کے پاس جو کچھ تھا ختم ہو گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا‎: ’’‎میرے پاس جو ہوگا اسے میں ذخیرہ بنا کر نہیں رکھوں گا، اور جو پاک دامن بننا چاہے گا اللہ تعالیٰ اسے پاک دامن بنا دے گا، جو شخص صبر کرنے کی کوشش کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے صبر کرنے کی توفیق عطا فرماتے ہیں اور کسی کو صبر سے بڑھ کر کوئی خیر عطا نہیں کی گئی۔‘‘
’’عَنْ صُہَيْبٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ: عَجَبًا لِاَمْرِ الْمُـؤمِنِ إِنَّ اَمْرَہٗ کُلَّہٗ خَيْرٌ وَلَيْسَ ذَاکَ لِاَحَدٍ إِلَّا لِلْمُـؤمِنِ إِنْ اَصَابَتْہُ سَرَّاءُ شَکَرَ فَکَانَ خَيْرًا لَہٗ وَإِنْ اَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَکَانَ خَيْرًا لَہٗ۔‘‘ (‎صحیح مسلم، باب المؤمن أمرہٗ کلہ خیر، حدیث نمبر:۲۹۹۹‎)
ترجمہ: ’’حضرت صہیب رومی  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: مومن کا معاملہ بہت تعجب خیز ہے، کیونکہ اس کا ہر کام خیر ہی خیر ہے اور یہ (خوبی) ایمان والوں کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں۔ اگر اس کو خوشی ملے تو اس پر شکر ادا کرتا ہے تو یہ اس کے لیے باعثِ خیر ہے اور اگر اسے مصیبت (پریشانی وغیرہ) آئے تو اس پر صبر کرتا ہے تو یہ بھی اس کے لیے باعثِ خیر ہے ۔ ‘‘

11- غصہ پر قابو

یہ بھی درحقیقت صبر ہی کا ایک شعبہ ہے۔ مریض یا اس کے متعلقین کی باتوں سے بسا اوقات طبیعت پر بوجھ پڑتا ہے اور غصہ آتا ہے۔ اگر آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کا مندرجہ ذیل ارشاد سامنے رہے تو غصہ پر قابو پانا آسان ہوجاتا ہے:
’’عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ: ’’مَا تَجَرَّعَ عَبْدٌ جَرْعَۃً اَفْضَلَ عِنْدَ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ جَرْعَۃِ غَيْظٍ، يَکْظِمُہَا ابْتِغَاءَ وَجْہِ اللہِ تَعَالٰی ۔‘‘         (مسند أحمد، مسند عبداللہ بن عمرؓ، رقم:۶۱۱۴، الرسالۃ)
’’رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: اللہ کے نزدیک غصہ کے اس گھونٹ سے زیادہ افضل گھونٹ کسی بندے نے کبھی نہ پیا ہو گا جو وہ اللہ کی رضاحاصل کرنے کے لیے پیتا ہے۔ ‘‘

12- مریض کو تسلی دینا

تکلیف میں مبتلا شخص کو تسلی دینا، اس کی ہمت بندھانا اور اس کا حوصلہ مضبوط کرنا، طبیب کی اہم ذمہ داری ہے۔ معالج کو چاہیے کہ مریض کے سامنے ایسے الفاظ کہے جس سے وہ پر اُمید رہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  جب کسی کی عیادت کرنے جاتے تو اسے تسلی کے کلمات ارشاد فرماتے۔ ملاحظہ فرمائیں: 
’’حدثنا معلی بن أسد، حدثنا عبد العزيز بن مختار، حدثنا خالد، عن عکرمۃ، عن ابن عباس رضي اللہ عنہما: أن النبي صلی اللہ عليہ وسلم دخل علٰی أعرابي يعودہٗ، قال: وکان النبي صلی اللہ عليہ وسلم إذا دخل علٰی مريض يعودہٗ، قال: لا بأس، طہور إن شاء اللہ فقال لہٗ: لا بأس طہور إن شاء اللہ قال: قلت: طہور؟ کلا، بل ہي حمی تفور، أو تثور، علٰی شيخ کبير، تزيرہ القبور، فقال النبي صلی اللہ عليہ وسلم: فنعم إذا۔‘‘ (صحیح البخاري، باب علاماۃ النبوۃ، رقم: ۳۶۱۶)
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  ایک دیہاتی کے پاس اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ راوی نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کسی کی عیادت کو تشریف لے جاتے تو مریض سے فرماتے: ’’ لا بأس طہور إن شاء اللہ‘‘ کوئی فکر کی بات نہیں، ان شاءاللہ! یہ مرض گناہوں سے پاک کرنے والا ہے۔‘‘ ‎لیکن اس دیہاتی نے آپ کے ان مبارک کلمات کے جواب میں کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ یہ پاک کرنے والا ہے، ہرگز نہیں، بلکہ یہ بخار ایک بوڑھے پر غالب آ گیا ہے اور اسے قبر تک پہنچا کے رہے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: پھر ایسا ہی ہوگا۔ ‘‘
ایک جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس بات کی تعلیم دی کہ مریض کے پاس جانے والا اس کا حوصلہ بڑھائے: 
’’إذا دخلتم علی المريض فنفسوا لہ في أجلہٖ، فإن ذٰلک لا يرد شيئا، ويطيب بنفسہٖ۔‘‘  (جامع الترمذي، أبواب الطب، رقم: ۲۰۸۷
’’جب تم مریض کے پاس جا ؤ، تو اس کی زندگی کے بارے میں اس کا غم دور کرو (یعنی تسلی و تشفی دلاؤ کہ فکر و غم نہ کرو، تم جلد ہی صحت یاب ہوجاؤ گے اور تمہاری عمر دراز ہوگی) اس لیے کہ (یہ تسلی و تشفی اگرچہ) کسی چیز کو (یعنی مقدر کے لکھے کو) ٹال نہیں سکتی، (مگر) مریض کا دل (ضرور)خوش ہوتا ہے۔ ‘‘
معالج اگر مریض کے پاس جاتے ہوئے عیادت کی نیت کرلے تو اس کا مریض کو دیکھنا اور تسلی دینا سب عبادت ہے، جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث سے معلوم ہوتا ہے:
’’عَنْ ثَوْبَانَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّ الْمُـسْلِمَ إِذَا عَادَ اَخَاہُ الْمُسْلِمَ لَمْ يَزَلْ فِي خُرْفَۃِ الْجَنَّۃِ حَتّٰی يَرْجِعَ۔‘‘ (صحیح مسلم، أبواب البر والصلۃ والآداب، باب عیادۃ المریض، رقم: ۲۵۶۸)
’’نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے کہ مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو واپسی تک جنت کے پھل چنتا رہتا ہے ۔‘‘
’’عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ -صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ- يَقُولُ: ’’مَنْ اَتٰی اَخَاہُ الْمُـسْلِمَ عَائِدًا، مَشٰی فِيْ خَرَافَۃِ الْجَنَّۃِ حَتّٰی يَجْلِسَ، فَإِذَا جَلَسَ غَمَرَتْہُ الرَّحْمَۃُ، فَإِنْ کَانَ غُدْوَۃً صَلّٰی عَلَيْہِ سَبْعُوْنَ اَلْفَ مَلَکٍ حَتَّی يُمْسِيَ، وَإِنْ کَانَ مَسَاءً صَلّٰی عَلَيْہِ سَبْعُوْنَ اَلْفَ مَلَکٍ حَتّٰی يُصْبِحَ۔‘‘(سنن ابن ماجۃ، باب ما جاء في ثواب من عاد مریضا، رقم: ۱۴۳۸)
’’حضرت علی  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے سنا کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے پاس عیادت کے لیے آتا ہے تو وہ مریض کے پاس آکر بیٹھنے تک جنت کے پھل چنتا آتا ہے۔ جب وہ بیٹھ جاتا ہے تو اس پر رحمت سایہ فگن ہو جاتی ہے۔ اگر (عیادت) صبح کے وقت ہو تو شام تک ستر ہزار فرشتے اسے دعائیں دیتے رہتے ہیں اور اگر شام کا وقت ہو تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اسے دعائیں دیتے رہتے ہیں۔‘‘

13- مریض کے ساتھ خیر خواہی

حضرت جریربن عبداللہ  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں‎: 
’’بَایَعْتُ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی إِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَإِیْتَاءِ الزَّکٰوۃِ وَالنُّصْحِ لِکُلِّ مُسْلِمٍ، متفق علیہ۔‘‘( مشکاۃ المصابیح، کتاب الآداب، باب الرحمۃ والشفقۃ علی الخلق، رقم:۴۹۶۷)
ترجمہ: ’’میں نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات پربیعت کی کہ پابندی کے ساتھ نماز پڑھوں گا، زکوٰۃ ادا کروں گا، اور ہر مسلمان کے حق میں خیرخواہی کروں گا۔ ‎‘‘
نماز اور زکوٰۃ اسلام کے اہم ترین ارکان میں سے ہیں، اُن کاتعلق حقوق اللہ سے ہے، اور ’’خیرخواہی‘‘ کے ضمن میں بندوں کے تمام حقوق آجاتے ہیں۔ حضرت تمیم داری  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے‎: 
’’اَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: الدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ، قُلْنَا لِمَنْ؟ قَالَ : لِلہِ وَلِکِتَابِہٖ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلأِئِمَّۃِ الْمُـسْلِمِیْنَ وَعَامَّتِہِمْ۔‘‘  (صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب بیان أن الدین النصیحۃ، رقم:۵۵)‎ 
ترجمہ: ’’رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: دین خیرخواہی کانام ہے (یعنی نصیحت اور خیر خواہی اعمالِ دین میں سے افضل ترین عمل ہے یا نصیحت اور خیر خواہی دین کا ایک مہتم بالشان نصب العین ہے) ہم نے ( یعنی صحابہؓ نے) پوچھا کہ یہ نصیحت اور خیر خواہی کس کے حق میں کرنی چاہیے؟ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: اللہ کے لیے، اللہ کی کتاب کے لیے، اللہ کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے ائمہ کے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے۔‘‘
تمام مسلمانوں کے حق میں خیر خواہی کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں دین ودنیا کا فائدہ پہنچانے کی کوشش کرے۔ اسی کا ایک پہلو یہ ہے کہ معالج مریض کے لیے وہ علاج تجویز کرے جو اس کے لیے مفید ہو۔ مریض چاہے بھی تو اسے مضر علاج تجویز نہ کرے۔ قتلِ رحمت‎ Mercy ‎killing ‎ میں مریض کی خواہش پر جو اس کی جان ختم کی جاتی ہے، یہ ناجائز اور گناہِ کبیرہ ہے۔ معالج اور ہسپتالوں میں کام کرنے والے عملے کو اس قسم کی باتوں سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے۔ 

14- نگاہوں کی حفاظت

طبیب کو بکثرت نامحرم خواتین سے بھی واسطہ رہتا ہے ۔ نیز مرد وں کا معائنہ کرتے ہوئے بھی ان اعضاء کو دیکھنا پڑجاتا ہے جن کا چھپانا فرض ہے۔ اسی طرح خواتین اطباء (لیڈی ڈاکٹرز) اور نرسوں کو مرد مریضوں کو بھی دیکھنا پڑ جاتا ہے۔ ایسی صورت حال میں اپنے خیالات کے ساتھ نگاہوں کی حفاظت کرنا ایک شرعی تقاضا ہے۔ طبیب کو چاہیے کہ جتنے عضو کا دیکھنا مرض کو سمجھ کر علاج کرنے کے لیے ضروری ہے، فقط اتنی جگہ کو دیکھے۔ مریض کی مجبوری سے فائدہ اُٹھا کر بدنگاہی کا مرتکب نہ ہو۔ ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ کی عظمت کا استحضار کرے اور اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے علم کو پریشان حال کی تکلیف کو دور کرنے کی نیت سے معائنہ کرے۔ خواتین معالجین ناگزیر صورت حال میں مردوں کا علاج کریں تو ممکنہ حد تک اپنے پردے کا بھی اہتمام کریں۔ سورۂ نور میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:‎ ‎
’’قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ ۭ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَہُمْ ۭ اِنَّ اللّٰہَ خَبِيْرٌۢ بِمَا يَصْنَعُوْنَ وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْـہَا۔‘‘   (النور: ۳۰)
ترجمہ: ’’آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے زیادہ صفائی کی بات ہے، بے شک اللہ تعالیٰ کو سب خبر ہے جو کچھ لوگ کیا کرتے ہیں۔ اور ایمان والی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں، مگر جو جگہیں اس میں سے کھلی رہتی ہیں۔‘‘
’’عَنْ اَبِيْ اُمَامَۃَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا مِنْ مُّسْلِمٍ يَنْظُرُ إِلٰی مَحَاسِنِ امْرَاَۃٍ اَوَّلَ مَرَّۃٍ، ثُمَّ يَغُضُّ بَصَرَہٗ إِلَّا اَحْدَثَ اللہُ لَہٗ عِبَادَۃً يَجِدُ حَلَاوَتَہَا۔‘‘ (مشکاۃ المصابیح، کتاب النکاح، باب النظر، رقم:۳۱۲۴)
یعنی ’’حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: کوئی مسلمان اگر کسی عورت کے محاسن پر اول مرتبہ نظر پڑتے ہی اپنی نظر نیچی کرلے تو اللہ تعالیٰ اسے ایک ایسی عبادت کی توفیق عطا فرماتے ہیں جس کی حلاوت اسے محسوس ہوتی ہے۔‘‘
’’وَعَنْ بُرَيْدَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ لِعَلِيٍّ: یَا عَلِيُّ! لَا تُتْبِعِ النَّظْرَۃَ النَّظْرَۃَ، فَإِنَّ لَکَ الْأوْلٰی وَلَيْسَتْ لَکَ الْآخِرَۃُ۔‘‘  (مشکاۃ المصابیح، کتاب النکاح، باب النظر، رقم:۳۱۱۰)
یعنی ’’آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت علی  رضی اللہ عنہ  سے فرمایا کہ: اے علی! پہلی نظر جو دفعۃً کسی عورت پر پڑجائے وہ تو معاف ہے اور اگر تم نے نظر کو جمائے رکھا یا دوبارہ نظر ڈالی تو اس کا وبال قیامت میں تم پر ہوگا۔‘‘ 

15- طب کے متعلق شرعی احکام جاننا

طبیب کے لیے اپنے شعبے کے متعلق شرعی احکامات کا علم حاصل کرنا فرض ہے، اس لیے کہ یہ علم اسے بتائے گا کہ کیا چیز حلال ہے اور کیا حرام؟ کیا درست ہے اور کیا غلط؟ کس موقع پر اسے کیا کرنا چاہیے اور کس چیز سے بچنا چاہیے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کی سمجھ حاصل کرنا آدمی کی سعادت ہے، چنانچہ ایک جگہ ارشاد فرمایا:
’’مَنْ يُّرِدِ اللہُ بِہٖ خَيْرًا يُّفَقِّہْہُ فِي الدِّينِ۔‘‘  (صحیح البخاري، کتاب العلم، باب مَنْ يُّرِدِ اللہُ بِہٖ خَيْرًا يُّفَقِّہْہُ فِي الدِّينِ، رقم:۷۱)
’’ ‎جس سے اللہ تعالیٰ بھلائی کاا رادہ فرماتا ہے اسے اپنے دین کی سمجھ دیتا ہے۔ ‘‘
دین کے کسی شعبے کے مسائل کا جاننا عظیم اجروثواب کا باعث ہے، لہٰذا طبیب کے لیے اپنے شعبے کے متعلق شرعی احکامات کا علم ایک عظیم عبادت بھی ہے۔ اس حوالے سے آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت ابوذر  رضی اللہ عنہ  کو نصیحت ملاحظہ فرمائیں:
’’عَنْ اَبِيْ ذَرٍّ قَالَ: قَالَ لِيْ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ: يَا اَبَا ذَرٍّ! لَأنْ تَغْدُوَ فَتَعَلَّمَ آيَۃً مِّنْ کِتَابِ اللہِ، خَيْرٌ لَکَ مِنْ اَنْ تُصَلِّيَ مِائَۃَ رَکْعَۃٍ، وَلَأنْ تَغْدُوَ فَتَعَلَّمَ بَابًا مِّنَ الْعِلْمِ، عُمِلَ بِہٖ اَوْ لَمْ يُعْمَلْ، خَيْرٌ مِنْ اَنْ تُصَلِّيَ اَلْفَ رَکْعَۃٍ۔‘‘  (سنن ابن ماجۃ، باب فضل من تعلم القرآن وعلمہ، رقم: ۲۱۹)
’’رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: اے ابوذر! اگر تم صبح کو جاکر قرآنِ کریم کی ایک آیت سیکھ لو تو یہ تمہارے لیے سو رکعات (نوافل ) پڑھنے سے بہتر ہے اور اگر علم کا ایک باب سیکھ لو، چاہے اس پر عمل کیا جائے یا نہیں تو ہزار رکعات(نوافل) سے بہتر ہے۔ ‘‘
صحیح علم کی روشنی میں معالج جائز دوا اور جائز علاج تجویز کرے گا۔ ایک جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے حرام دوا کے استعمال سے منع فرمایا ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب آدمی اہلِ علم سے رابطہ کرکے دوا کے متعلق علم حاصل کرے۔ مندرجہ ذیل حدیث سے اس بات کی تاکید معلوم ہوتی ہے:
’’عَنْ اَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللہَ اَنْزَلَ الدَّاءَ وَالدَّوَاءَ، وَجَعَلَ لِکُلِّ دَاءٍ دَوَاءً فَتَدَاوَوْا وَلَا تَدَاوَوْا بِحَرَام۔‘‘ ( سنن أبي داود، کتاب الطب، باب في الأدویۃ المکروھۃ، رقم:۳۸۷۴)
’’اللہ تعالیٰ نے بیماری اور شفاء دونوں کو نازل فرمایا، لہٰذا علاج کرواؤ، البتہ حرام سے علاج مت کرو۔‘‘
 اس حدیثِ پاک نے حلال سے علاج کو جائز رکھا ہے اور حرام سے ممنوع قرار دے دیا۔ مؤثر علاج کی عدم موجودگی میں حرام کے استعمال کی ایک الگ بحث ہے۔ طبیب کے لیے اس کا علم ہونا ضروری ہے، تاکہ وہ علاج کرتے ہوئے حرام کا مرتکب نہ ہو۔ 
طب کے میدان میں بطور خاص جدید تحقیقات کے ساتھ ایسے مسائل پیدا ہوگئے ہیں جن کا حل واضح طور پر کتاب وسنت میں موجود نہیں، مثلاً اعضاء کی پیوندکاری، آپریشن کی مختلف صورتیں، طبیب کی غلطی کی صورتیں، وغیرہ۔ ان مسائل کے شرعی حل کوجاننے کے لیے ماہرینِ فقہ نے کتاب وسنت کی ہدایات کی روشنی میں ہی ایک حل مقرر کیا ہے۔ طبی میدان میں کام کرنے والوں کو ان مسائل سے واقفیت بھی ضروری ہے۔ 

16- توکل

معالج کو اپنے اندر توکل کی صفت پیدا کرنی ضروری ہے۔ توکل درحقیقت توحید کا پھل ہے۔ جتنا اللہ تعالیٰ کو معبودِ برحق اور تنِ تنہا مشکل کشا اور حاجت روا مانا جائے گا، اتنا ہی توکل کا اعلیٰ درجہ حاصل ہوگا۔ توکل کا آسان مطلب یہ ہے کہ سبب اختیار کرتے ہوئے نظر سبب کو پیدا کرنے والے پر ہو۔ دوا اور علاج کرتے ہوئے معالج کو دل سے اس بات پر یقین ہو کہ اس دوا کو مؤثر بنانے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے۔ میرے علم کے مطابق یہ دوا اس مرض کو دور کرنے میں مفید ہے، لیکن اس کا فائدہ اور نقصان اکیلے اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور میری تمام تدابیر محض ایک ذریعہ ہیں۔ اس حوالے سے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کا مندرجہ ذیل ارشاد ملاحظہ فرمائیں:
’’عن حَنَشٍ الصَّنْعَانِيِّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍؓ قَالَ: کُنْتُ خَلْفَ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ يَوْمًا، فَقَالَ: يَا غُلَامُ! إِنِّيْ اُعَلِّمُکَ کَلِمَاتٍ، احْفَظِ اللہَ يَحْفَظْکَ، احْفَظِ اللہَ تَجِدْہُ تُجَاہَکَ، إِذَا سَاَلْتَ فَاسْاَلِ اللہَ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللہِ، وَاعْلَمْ اَنَّ الْأمَّۃَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلٰی اَنْ يَّنْفَعُوْکَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوْکَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللہُ لَکَ، وَلَوِ اجْتَمَعُوْا عَلٰی اَنْ يَّضُرُّوْکَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوْکَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللہُ عَلَيْکَ، رُفِعَتِ الْأقْلَامُ وَجَفَّتِ الصُّحُفُ۔‘‘ (سنن الترمذي، أبواب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، حدیث: ۲۵۱۶)
’’حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ ایک دن میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ ایک ہی سواری پر آپ کے پیچھے سوار تھا کہ آپ نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے لڑکے! تو اللہ تعالیٰ کا خیال رکھ (یعنی اس کے احکام کی تعمیل اور اس کے حقوق کی ادائیگی سے غافل نہ ہو) اللہ تعالیٰ تیرا خیال فرمائے گا، اور دنیا و آخرت کی آفات و بلیات سے تیری حفاظت کرے گا، تو اللہ کو یاد رکھ، جیسا کہ یاد رکھنا چاہیے، اس کو تو اپنے سامنے پائے گا، اور جب تو کسی چیز کو مانگنا چاہے تو بس اللہ سے مانگ، اور جب کسی ضرورت اور مہم میں تو مدد کا محتاج اور طالب ہو تو اللہ ہی سے امداد و اعانت طلب کر، اور اس بات کو دل میں بٹھا لے کہ اگر ساری انسانی برادری بھی باہم متفق ہو کر اور جڑ کر چاہے کہ تجھ کو کسی چیز سے نفع پہنچائے تو صرف اسی چیز سے تجھ کو نفع پہنچا سکے گی جو اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے مقدر کر دی ہے، اس کے سوا کسی چیز سے نہیں اور اسی طرح اگر ساری انسانی دنیا تجھ کو کسی چیز سے نقصان پہنچانا چاہے تو صرف اسی چیز سے نقصان پہنچا سکے گی، جس سے نقصان پہنچنا اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی تیرے لیے مقدر کر دیا ہے، اس کے سوا کسی چیز سے تجھے کوئی نقصان نہیں پہنچایا جا سکے گا، اُٹھ چکے قلم اور خشک بھی ہو چکے صحیفے۔ ‘‘

17- رجوع الی اللہ کا اہتمام

معالج (ڈاکٹر) کو اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے رہنے کی عادت اپنانی چاہیے۔ علاج شروع کرنے سے پہلے، علاج کے درمیان اور علاج کے بعد بھی اللہ تعالیٰ سے مدد اور مریض کے لیے شفا طلب کرنی چاہیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کی دعائیں اس حوالے سے بہترین رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ دوا اور علاج شروع کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ سے بھلائی اور خیر دل میں ڈالے جانے کی دعا کرلینی چاہیے، مثلاً مندرجہ ذیل مسنون دعائیں توجہ کے ساتھ پڑھنے سے اللہ تعالیٰ کی ذات سے اُمید ہے کہ درست بات کی طرف رہنمائی ہوجائے گی:
’’اللّٰہُمَّ اَلْہِمْنِيْ رُشْدِيْ، وَاَعِذْنِيْ مِنْ شَرِّ نَفْسِيْ‘‘ (سنن الترمذي، أبواب الدعوات، رقم: ۳۴۸۳)
’’اے اللہ! مجھے میری بھلائی سجھا دیجیے اور مجھے میرے نفس کے شر سے پناہ میں رکھیے۔ ‘‘
سیدنا ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  جب بھی کسی کام کا ارادہ فرماتے تو یہ دعا پڑھ لیتے:
’’اللّٰہُمَّ خِرْ لِيْ وَاخْتَرْ ليْ۔‘‘  (أیضا، رقم: ۳۵۱۶)
’’اے اللہ! میرے لیے بہتر کا انتخاب فرما اور میرے لیے بہتر پسند فرما۔‘‘
اسی طرح علاج و دوا کے بعد بھی شافیِ حقیقی سےاپنے مریضوں کی شفایابی کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین