یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ فرنگی استعمار نے ہم مسلمانوں کے درمیان ایک ایسی جماعت تشکیل دی ہے جن کا مقصدِ شنیع‘ اسلام کو زوال وپستی کی جانب دھکیلنے کی ناپاک جسارت ہے، جن کے قلوب ’’أصابع الرحمٰن‘‘ کے بجائے ’’أصابع الشیطان‘‘ کا مصداق بنتے ہیں، وہ اپنے مخصوص ناپاک عزائم کے لیے اسلام کی غیر حقیقی اور مسخ شدہ تصویر پیش کرتے رہے، یہی وجہ ہے کہ موجودہ عالمِ اسلام کے اکثر زعماء و پیشوا جنہوں نے اعلیٰ مغربی درسگاہوں میں تعلیم پائی، اپنی ذہنی فکری آبیاری وہیں سے کرتے رہے۔ مزید بر آں ان کے ذہنوں میں اس قدر تعفُّن رچ بس گیا کہ اسلام کے ماضی کی طرف سے بدگمانی، حال کی طرف سے بیزاری اور مستقبل کی طرف سے مایوسی نے ان کو اصلاحِ مذہب پر مجبور کر دیا۔ ان تمام تر نامساعد سازشوں میں سے اور مختلف مقاصد میں سے ایک بنیادی مقصد یہ ہے کہ اسلام کو لوگوں کے سامنے اس انداز سے پیش کیا جائے کہ ان کی نگاہوں میں اسلام کی قدر و منزلت نہ رہے اور انسانی جدید تہذیب‘ ترقی میں اسلام کو مزاحم اور حاجب سمجھے اور مسلمانوں کو اپنے دین و اسلام کے متعلق اس قدر متنفر اور متردّد بنا دیا کہ اسلامی اخلاقی اقدار و روایات کو مغربی اقدار و تہذیب کے مقابل میں فروتر محسوس کرنے لگے اور ان کو اس بات پر آمادہ کیا کہ اسلامی اَساسی اصول و اَقدار کی یگانگی نے انہیں مغربی تہذیب و اَقدار اور عہدِ جدید کے تقاضوں سے بیگانہ کر دیا جو کہ تنگ نظری اور رجعت پسندی ہے۔
یہ فتنہ پرداز اور ناعاقبت اندیش جماعت روزِ اول سے اسلامی روایات و عقائد کے متعلق ایسے شکوک و شبہات اور ملال پیدا کرتے ہیں کہ جس سے ایک کمزور عقیدہ سادہ لوح مسلمان کے ایمان کا جنازہ نکل جائے، اس جماعت کو عام طور سے مستشرقین کہا جاتا ہے جو اپنے علمی تبحر و اُشغال سے گہری وابستگی کی بنا پر مغرب و مشرق کے علمی، سیاسی، سماجی حلقوں میں اِکرام و تعظیم کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ ان کے علم و تحقیق کو اور دلائل و شواہد کو قولِ فیصل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس استشراق کی تاریخ بہت پرانی ہے، وہ تیرہویں صدی کے اوائل سے اپنے مذموم عزائم کی ابتدا کرتے ہیں، جن محرکات میں سے دینی محرکات، سیاسی محرکات، سماجی محرکات پیش پیش ہیں، ان کا بڑا مقصد مذہبِ عیسوی کی اشاعت و ترویج ہے اور اسلام کو اس انداز سے پیش کرنا کہ مذہبِ مسیحیت کا تفوُّق خود بخود ثابت ہو جائے اور تعجب خیز امر یہ ہے کہ یہ ایک ایسی جماعت ہے کہ قرآن و حدیث، سیرتِ نبوی اور اَساسی فقہی اصول اور اسلامی روایات و اَقدار میں گہری نظر اور جامع معلومات رکھتے ہیں، اس کے باوجود اخلاقی روحانی فائدہ نہیں اُٹھاسکے، کیونکہ ان کے قلب و جاں پر کوئی انقلابی اثر ہی نہیں پڑا اور یہ بدیہی سی بات ہے کہ نتائج ہمیشہ مقاصد کے تابع ہوتے ہیں، اگر مقاصد میں حسنِ نیت اور خلوصِ نیت شامل ہو تو اچھے ثمرات مرتب ہوتے ہیں۔
یہ ناعاقبت اندیش جماعت اکثر ایک برائی بیان کرتے ہیں اور اس کو دماغوں میں بٹھانے کے لیے بڑی فیاضی کے ساتھ اپنے ممدوح کی دس خوبیاں بیان کرتے ہیں، تاکہ پڑھنے والے کا ذہن ان کے انصاف، وسعتِ قلبی، بے تعصبی سے مرعوب ہوکر ایک برائی کو قبول کرلے، ان کے ناپاک عزائم میں سے بنیادی مقصد اسلامی عقائد و نظریات پر طنز و تعریض ہے، مثلاً وہ وحی پر کلام کرتے ہوئے وحی کو اپنی عقل کے سانچے میں ڈھالنے کی ناپاک کوشش کرتے ہیں اور اس کو عقل سے ماوراء اور مستغرب سمجھتے ہیں اور وحی کو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی داخلی کیفیت سے تعبیر کرتے ہوئے نفس الامر خارج میں حسی نزولِ وحی کا انکار کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ اعجاز القرآن کی بھی لامحالہ نفی کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ تمام ذخیرۂ احادیث کو فرضی جعل سازی پر محمول کرتے ہیں۔
مستشرقین عالمِ اسلام کو جدید تقاضوں کی طرف بلاتے ہیں، مغربی تہذیب و اَقدار کو معیار بنا کر پیش کرتے ہیں اور اسلامی نظریات و عقائد کو فرسودہ خیالی، رجعت پسندی پر محمول کرتے ہیں۔
اس وقت موجودہ عالم اسلام کے زعماء وارباب اختیار حکمران عمومی طور سے مغرب کے زیرِ اثر ہیں، جو اسلام سے دستور اور شریعت کا عنصر نکالنے کے درپے ہیں۔ ماضی قریب میں مصطفیٰ کمال اتاترک جو کہ عالم اسلام کے زعماء طبقے کے معیار و آئیڈیل تھے، موصوف سرزمینِ ترک میں مغربی افکار و تہذیب کے امین اور مغربیت کے سب سے بڑے نقیب تھے۔ موصوف کے زعم میں ترقی اس وقت تک ممکن نہ تھی جب تک کہ اسلام کے اثر و نفوذ کو ختم نہ کیا جائے، ان کے زعم میں اسلامی روایات و اُصول‘ رجعت پسندی اور فرسودہ خیالی کا مظہر ہیں، جو کہ انسانی جدید ترقی کے لیے مانع ہیں، اس پر مستزاد یہ ہے کہ جدید سائنسی دور میں فنونِ لطیفہ کے حصول کے لیے اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈالنا اشد ضروری ہے۔
صد افسوس کہ موجودہ عالم اسلام کے زعماء، حکمران طبقہ، اربابِ اختیار‘ مغرب اور استشراق کے زیر اثر نہ رہتے تو مظلوم فلسطینی مسلمانوں کے درد سے ان کے سینے شعلہ زن ہوتے، کبھی پسپائی، ہزیمت و رسوائی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ دینی حمیت و غیرت‘ اسلام کی اشاعت اور اعلاء کلمۃ الحق کا جذبہ کبھی ماند نہ پڑ چکا ہوتا اور ان مغرب زدہ حکمرانانِ اسلام کا اسلامی روایات سے تجاہل اور اِغماض برتنا محض اقتدار، دنیا طلبی، کیف و سرور کی خاطر ہی ہے۔
کاش! حکمرانِ اسلام حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی شجاعت اور بہادری کو تاریخ کے اوراق میں سطحی نظر سے پڑھ لیتے، مردِ مجاہد اپنی والدہ کے ایما پر مظلوم کی آواز بن کر بغیر آلاتِ حرب کے ظالم جابر سفاک حجاج بن یوسف اور حصین کا بے خوف وخطر ڈٹ کر مقابلہ کیا، نہ اَفرادی قوت دیکھی، نہ آلاتِ حرب کو دیکھا، محض مظلوم کی آواز بن کر اہلِ حرم کا محافظ بن کر، دینی مجاہد بن کر اپنے اکابرین صحابہؓ اور پیغمبرانہ اسلوب کا امین بن کر، مردِ مجاہد سر بکف بن کر سرنگوں ہونے کے بجائے نظام باطل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ یہی وہ ثمرہ ہے کہ میرا قلم و قرطاس ان کی شجاعت و دلیری سے رطب اللسان ہے۔