بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

بینات

 
 

عربی زبان سیکھنے کے اہم اصول وضوابط (دوسری اور آخری قسط)

عربی زبان سیکھنے کے اہم اصول وضوابط

(دوسری اور آخری قسط)

 

چوتھی ہدایت: املا اور تصحیحِ الفاظ کی اہمیت

کسی بھی زبان کو صحیح طورپرسیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اُس زبان کے الفاظ کو اس کے معروف اصولوں کے موافق لکھاجائے۔ عربی زبان میں املا کی بڑی اہمیت ہے، اگر اس کا خیا ل نہ رکھاجائے تو لفظ کچھ سے کچھ بن جاتاہے۔ بعض دفعہ یہ سمجھنا مشکل ہوجاتاہے کہ لفظ کس معنی میں مستعمل ہے؟ یعنی کاتب ایک لفظ کو اس کےاملا کے برخلاف لکھ کر قاری کو ایک طرح کی اُلجھن میں ڈال دیتا ہے، بلکہ اسے مجبور کرتاہے کہ وہ اسے اس لفظ کے علاوہ کوئی دوسرا لفظ پڑھ لے جو لکھنے والےکے ہاں مقصود نہیں ہوتا، اور یہ صورت حال اس وقت زیادہ پیش آسکتی ہے جب قاری قواعدِ املا اور رموزِ املا کا عادی ہو اور ان کے بغیر کسی لفظ کے صحیح نقوش کا جوڑ اس کے ذہن میں نہ بیٹھتاہو۔ املا، رموزِ املا اور علاماتِ ترقیم کا استعمال اِس وقت دنیا کی تمام قابلِ ذکر زبانوں میں بڑی پاپندی کے ساتھ ہونے لگاہے۔ قدیم زمانے میں رموزِ املا کی طرف زیادہ توجہ نہیں تھی، لیکن قواعد اور الفاظ کی صحیح کتابت کی تو ہر زمانے میں سخت پاپندی کی جاتی رہی ہے۔

اہلِ لغت کی موجودہ املا اور املائے قرآنی میں فرق

اللہ تعالیٰ نے عربی زبان کو ایک خاص سعادت بخشی ہےکہ اُس نے اپنی آخری اور دائمی کتاب عربی میں نازل کرکے اس زبان کی عظمت پر مہر لگادی اور قرآن پاک کی حفاظت کے ذیل میں عربی زبان کی حفاظت کا وعدہ کرلیا ہے، مسلمانوں نے نزولِ قرآن کے زمانہ سے لے کر اب تک قرآن مجید کے املا کی بھی حفاظت کی ہے، اور اس سے انحراف بالکل گوارا نہیں کیا۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ عربی زبان کا املا بطور خاص قابلِ لحاظ ہے، لہٰذا عربی کو جس طرح چاہیں لکھنا اور اس کے جس لفظ کی جو چاہیں من مانی صورت اختیار کرنا بہت ہی ناپسندیدہ فعل ہے، جس سے اس زبان کا کلچر اور اس میں نازل شدہ کتاب انکار کرتی ہے۔
اس تمہید کے بعد یہ جان لیجیے کہ علماء کرام نے قرآن پاک کے املا کو قرآن کے ساتھ خاص کیا ہے۔ اور اس سلسلے میں ان کا طریقہ کار یہ رہاہے کہ وہ اپنی عربی زبان کو بہت سی جگہوں میں قرآنی املا سے مختلف لکھتے رہے ہیں، تاکہ عام قاری کو پڑھنے اور سمجھنے میں آسانی ہو؛ چنانچہ لفظ جس طرح پڑھاجاتاہے اسی طرح لکھنے کی کوشش کی جائے،اس پر وہ کاربند رہے ہیں، مثلاً: قرآن کریم میں ’’الصَّلوٰۃ‘‘ واو پر کھڑے زبر کے ساتھ لکھاجائے گا، کیونکہ وحی لکھنے والوں نے اس لفظ کا املا اسی طرح کیا تھا ؛ لیکن قرآن کے علاوہ ہماری عربی میں یہ لفظ الف کے ساتھ ’’الصلاۃ‘‘ لکھاجائے گا؛ اس لیے کہ پڑھنے میں الف سے ہی پڑھاجاتاہے۔ اسی طرح ’’کِتٰب‘‘ کی لکھائی قرآن پاک میں ’’ت‘‘ پر کھڑے زبر کے ساتھ ہے، جب کہ ہم لوگ اپنی عربی میں اسے ’’کتاب‘‘ الف کے ساتھ لکھیں گے۔ اسی طرح ’’النَّفّٰثٰت‘‘ قرآن پاک میں ’’ف‘‘ اور ’’ث‘‘ پر کھڑے زبر کے ساتھ ہے، لیکن چونکہ یہ دونوں کھڑے زبر الف ہیں، اس لیے ہم لوگ اپنی زبان میں ’’النفّاثات‘‘ دونوں حرفوں کے بعد الف لگاکر لکھیں گے۔ اور ’’الَّیْل‘‘ قرآن پاک میں ایک’’ لام‘‘ کے ساتھ ہے، لیکن موجودہ عربی رسم الخط میں دو لاموں کے ساتھ ’’اللَّیْل‘‘ لکھاجاتاہے، اس کے بغیر املا غلط سمجھاجائے گا۔

پانچویں ہدایت: تلفظ کی درستگی اور صحتِ اداء
 

کسی بھی زبان کو سیکھنے کے لیے بالخصوص عربی زبان سیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ جو لفظ جس طرح زبان سے ادا ہونا چاہیے، اسی طرح ادا کیا جائے۔ عربی زبان میں اس کی شدید ضرورت ہے کہ تلفظ کی صحت کی پاپندی کی جائے ؛ کیونکہ اس زبان کا یہ امتیاز ہے کہ اس کے بولنے والے فطرتی طورپر تلفظ کی صحت وادا کے عادی ہوتےہیں ۔ اور قرآن پاک کو صحتِ ادا کے ساتھ پڑھنے اور تلاوت کرنے کے لیے تو علماء نے اتنی ساری کتابیں لکھی ہیں، حتیٰ کہ ان سے قدیم زمانے میں ہی ایک زبردست کتب خانہ تیار ہو چکاہے۔ علمِ تجوید وقراءت پربعض کتابیں کئی کئی ضخیم جلدوں میں لکھی گئی ہیں اور قرآن پاک کے ایک ایک لفظ، بلکہ ہرہر حرف کو درست طریقہ پر ادا کرنے کا طریقہ بتایا گیا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کی کسی زبان کو یہ اعزاز حاصل نہیں کہ اس کے الفاظ وحروف کی ادائیگی کی حد بندی کی گئی ہو، اس کے مخارج اورآواز کے سلسلے میں اس درجہ دقتِ نظر وعملی تطبیق سے کام لیا گیا ہو، اس کے حروف والفاظ کے ادا کرنے کی مدت، مقدار اورمعیار کا تعین کیا گیاہو۔
اس صورت حال کے پیشِ نظر اگر ہم ’’ض‘‘، ’’ذ‘‘، ’’ز‘‘، ’’ظ‘‘ وغیرہ کے فرق کا خیال نہ رکھیں، ’’ق‘‘ اور ’’ک‘‘ کا امتیاز ختم کردیں، ’’س‘‘ اور ’’ش‘‘ کے درمیان حدوں کو پھلانگ دیں ؛’’ س‘‘، ’’ص‘‘، ’’ث‘‘، ’’ت‘‘، ’’ط‘‘، ’’ع‘‘ کی مختلف شکلوں کو غیر ضروری سمجھ کر ان کے مخارج ایک کردیں اور سرکاری اسکولوں کے ماسٹروں کی طرح ایک لفظ کو دوسرے کے مخرج سے ادا کرنے میں کوئی باک محسوس نہ کریں، بلکہ عربی کو اردو میں پڑھیں؛ تو یہ بڑے ظلم کی بات ہوگی اور ہمارا رویہ نہایت غیر ذمہ دارانہ سمجھا جائے گا۔

چھٹی ہدایت: حسنِ تحریر

خط اور لکھائی صاف بنانے کے سلسلے میں بھی ہمارے ہاں غفلت عام ہورہی ہے۔ اگر آپ خطاط نہ بن سکیں نہ بنیں، کیونکہ یہ ہر شخص کے بس کی بات نہیں، لیکن اتنا اہتمام تو ہر کاتب کے لیے ضروری ہے کہ وہ جو کچھ لکھے وہ پڑھا جاسکے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ لکھے کچھ اور اس کی بد خطی کی وجہ سے اسے کچھ اور پڑھاجائے۔
پرانے علماء اور اہلِ قلم کی تحریر نہایت پاکیزہ اور پر کشش ہوتی تھی۔ ایک قاری کو خواہ مخواہ بھی اسے پڑھنے کا شوق ہوتاتھا اور جب پڑھتا تھا تو اسے فائدہ بھی ہوتا تھا۔ اب تو زمانہ ترقی کرچکا ہے، لوگ زیادہ تر لیپ ٹاپ اور موبائل وغیرہ سے ہی تحریر کا کام لیتے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کی بدخطی میں اضافہ ہوچکا ہے، چاہے مضمون نگاری ہو یا خطوط نویسی وغیر ہ سب کچھ جدید آلات سے لکھا جانے لگا ہے، لیکن اس کے باوجود ہاتھ سے لکھنے کی ضرورت بالکل ختم نہیں ہوسکتی ؛ کیونکہ ہر وقت اور ہر جگہ لیپ ٹاپ وغیرہ کا پایا جانا انتہائی ترقی کے دور میں بھی مشکل ہوگا۔
بہرحال ! خط اور لکھائی کی خوبصورتی زبان وادب کا ایک اہم حصہ ہے؛ اس لیے اس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا اور نہ کرنا چاہیے۔ کسی عربی شاعر نے راہِ ادب کے مسافر کو مخاطب کرتے ہوئے کہاہے:

تعلَّم قِوَامَ الخَطِّ يا ذا التأدُّب

فما الخطُّ إلا زينۃَ المتأدِّب
فإن کنتَ ذَا مالٍ فحَظُّک وَافِرٌ

وإن کنتَ محتاجًا فأفضل مَکْسَبٍ

ترجمہ:’’درست خط اور تحریر سیکھتے رہو اے ادب کے طلب گار! کیونکہ تحریر طالبِ ادب کی زینت ہے، اگر تومالدار ہے تو یہ تمہارے لیے بڑا حصہ ہے، اور اگر تو ضرورت مند ہے تو یہ بہترین کمائی ہے۔

ساتویں ہدایت: عبارت کی درستگی اور روانگی

عبارت کو نحو وصرف کے قواعد کی رو سے پڑھنے اور لکھنے کی مہارت پیدا کرنا بہت اہم مسئلہ ہے، جس میں طلبہ روز بروز کمزوری اور غفلت کا شکار ہورہے ہیں، درجہ اولیٰ کے شروع سے ہی طالب علم کو عبارت خوانی اور اس کی تصحیح کی محنت کرنی چاہیے؛ کیونکہ عبارت کی کمزوری انسان کو کئی چیزوں میں پیچھے چھوڑ دیتی ہے اور پھر دورہ حدیث اور اس سے فراغت کے بعد بھی آدمی جب تک اس کمزوری کو ختم نہ کرے قرآن وحدیث اور اس کے علوم کو کما حقہ سمجھنے سے قاصر رہتا ہے۔ پہلے زمانے میں اساتذہ کرام یہ کہاکرتے تھے کہ درجہ ثانیہ پڑھنے کے بعد صرفی ونحوی غلطی ایک ناقابلِ معافی جرم ہے، لیکن نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ جرم اتنا عام ہوچکا ہے کہ بہت کم ہی کوئی اس سے بچتا ہے۔
حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مد ظلہ نے نحومیر یا علم النحو کے طریقۂ تدریس کے ذیل میں تفصیل سے اس پر روشنی ڈالی ہے، جس کا ایک اقتباس ہم یہاں نقل کرتے ہیں:
’’اساتذہ کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ علومِ اسلامیہ کی تحصیل کےلیے ٹھیک ٹھیک فہم، اس کا مکمل اجراء اور اس کے قواعد کا صحیح استعمال ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، لہٰذا نحو کی تعلیم پر آنے والےہر علم وفن کی تحصیل موقوف ہے۔ اگر یہ بنیاد کمزور رہ جائےتو دورہ حدیث تک کی پوری تعلیم کمزور، بے اثر اوربے ثبات ہوجاتی ہے، اس لیے نحو کے استعمال کی ذمہ داری بہت بڑی ذمہ داری ہے اور اس سے کما حقہ عہدہ برآ ہونے کےلیے مندرجہ ذیل اُمور کی رعایت ناگزیر اور لازمی ہے۔
۱: نحو کی تعلیم میں اصل مقصد کتاب کی عبارت یاد کرانا نہیں، بلکہ اس میں بیان کردہ قواعد ومسائل کا طالب علم کو اس طرح ذہن نشین کرانا ہے کہ متعلقہ موقع پر طالب علم کو وہ قاعدہ یا مسئلہ یاد آجائے۔
۲: زیرِ درس کتاب میں عموماً کسی اصطلاح یا قاعدے کی تشریح کےلیے صرف ایک مثال پر اکتفا کیا گیا ہوتا ہے، لیکن استاذ کےلیے یہ لازمی ہے کہ وہ ہر اصطلاح اور قاعدے کی تشریح کےلیے طلبہ کے سامنےاز خود بہت سی مثالیں بیان کرے اور بہتر یہ ہے کہ یہ مثالیں عام گفتگو کے علاوہ قرآن کریم سے بھی اخذ کی جائیں، تاکہ قرآن کریم سے مناسبت پیدا ہوتی جائے۔ اس غرض کےلیے استاذ کو چاہیے کہ ’’مفتاح القرآن‘‘ کو مستقل مطالعہ میں رکھے۔
۳: خود بہت سی مثالیں دینے کے بعد طلبہ سے مثالیں بنوانا اور مختلف مثالیں بول کر طلبہ سے ان کے بارے میں سوال کرنا ضروری ہے۔ یہ کام زبانی بھی ہونا چاہیے اور تحریری بھی۔
۴: طالب علم جب بھی کوئی غلط جملہ بولےیا غلط پڑھے، اس کو فوراً ٹوک کر جملہ درست کرایا جائے، عام طور سے طلبہ میں مضاف پر الف لام داخل کرنے، موصوف صفت اور مبتدا خبر میں مطابقت نہ کرنے وغیرہ کی غلطیاں شروع سے جڑ پکڑجاتی ہیں، ان غلطیوں کوکسی بھی قیمت پرگوارا نہ کیا جائے، بلکہ طالب علم سے اصلاح کرائی جائے،تاکہ شروع ہی میں ان غلطیوں سے احتراز کی عادت پڑجائے۔
۵: طلبہ کو ہر روز یا کم از کم تیسرے دن کوئی نہ کوئی مشق ضرور دی جائے، اور مشقوں کا طریقہ وضع کرنے کے لیے استاذ کے لیے ضروری ہے کہ وہ ’’عربی کا معلم‘‘، ’’معلم الإنشاء‘‘ اور ’’النحو الواضح للابتدائیۃ‘‘ کو اپنے مطالعے میں رکھے، اور جو بحث پڑھائی گئی ہے، اس کے متعلق ان کتابوں میں دی گئی مشقوں میں سے طلبہ کی ذہنی سطح کا لحاظ رکھتے ہوئے مشقیں منتخب کرکے طلبہ کو ان کے تحریری جواب کا پابند بنائے۔ (درسِ نظامی کی کتابیں کیسے پڑھیں اور پڑھائیں؟، ص: ۱۱ تا ۱۴)
عبارت کی غلطیاں کیسے ختم کی جائیں؟
عبارت کو درست کرنے اور اسے صرفی نحوی غلطیوں سے پاک کرنے کے لیے اساتذہ کے ہاں مختلف طریقے رائج ہیں، ہر استاذ کا الگ اسلوب اور طریقہ کا ر ہے، یہاں ہم تین باتیں لکھتے ہیں، جنہیں اختیار کرنے سے عبارت میں فائدہ ہوگا، ان شاء اللہ۔
پہلی بات:شروع سے ہی صرف ونحو کو دقتِ نظر سے پڑھا اور پڑھایا جائے، اُنھیں زبانی اچھی طرح سمجھ کر یاد کرایا جائے، پھر ہرقاعدے کی عبارت میں عملی مشق کی جائے، جیسا کہ پچھلی سطور میں مفتی تقی صاحب کے حوالے سے تفصیلی بات ہوئی۔
دوسری بات: پڑھانے والے اساتذہ کرام صاحب دل اور شب زندہ ہوں، جس فن کو پڑھارہے ہوں اس میں انتہائی درجہ کی مہارت رکھتے ہوں، اور وہ اپنی خدا داد صلاحیتوں کی بنیاد پر طلبہ میں عربیت کا ذوق اور اس کی محبت پیدا کرنے والے ہوں، پہلے زمانے میں اساتذہ طلبہ کے دلوں میں کتابِ الٰہی، حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  اور اسلام کی قانونی زبان ہونے کے حوالے سے عربی زبان کی محبت اس درجہ جاگزیں کرتے تھے کہ اس کے قواعد کو یاد کرنے، اس کی صرف ونحو کو رٹنے، اس کو اپنے قلم سےلکھنے، اپنی زبان سےپڑھنے اور اس کو صحیح صحیح ادا کرنےمیں ایسا روحانی لطف ملتا تھا، ایسی ذہنی لذت ملتی تھی کہ اس کی بنا پر اس سلسلے کی تمام مشقتیں شیریں اور ساری محنتیں آسان معلوم ہوتی تھیں۔
افسوس ہے کہ یہ صورت حال اب ختم ہوگئی ہے۔ ہوسکتاہے کہ کچھ خدا کے بندوں کے ذہن میں عربی زبان کے حوالے سے یہی جذبات ہوں ؛ لیکن تجربے نے بتایا کہ اب لوگ عربی زبان کو ذریعۂ معاش کے طور پر ہی حاصل کرتے ہیں؛ اس لیے اس کے حصول کی کوششیں اب کیف آور ، لذت انگیز اور روح افزا نہیں رہیں۔
تیسری بات: طلبہ کا عربی عبارت سے جلد واقف ہونے میں اس بات کو بڑا دخل ہوتاہے کہ اساتذہ طلبہ کو صرف عربی ہی میں کوئی حاشیہ یا شرح دیکھنے کی اجازت دیں؛ اور ابتدا میں تو اردو شرح دیکھنے پر مکمل پابندی عائد کردی جائے، تاکہ انہیں عربی عبارات زیادہ سے زیادہ پڑھنے اور سمجھنے کی عادت بنتی رہے، حتیٰ کہ کمروں میں بھی کوئی طالب علم اردو شرح نہ دیکھ سکے؛ کیونکہ طالب علم کو اگر شروع سے ہی عربی عبارت کو اردو شرح کی مدد سے سمجھنے کی عادت پڑجائے تو پھر آگے جاکر کہیں بھی اردو ترجمہ کے بغیر کوئی بھی عبارت سمجھنے سے قاصر رہتاہے، اساتذہ اپنے ذوق کے مطابق مختلف عربی کتابوں سے وقتاً فوقتاً عبارات پڑھواتے رہیں، تاکہ مشکل مشکل عبارات سے اُنسیت پیدا ہوسکے۔

آٹھویں ہدایت: لہجے کی درستگی اور پابندی

یہ بات ضروری ہے کہ کسی زبان کو ممکن حد تک اسی طرح بولا اور پڑھاجائے اور آواز کے اُتار چڑھاؤ میں اسی طرز کو اپنایا جائے جو اہلِ زبان کے نزدیک رائج ہو۔ بعض اوقات ایسا ہوتاہے کہ برِ صغیر کا ایک باکمال مجود قاری بھی صحتِ ادا وتلفظ اور تمام قراءات وغیرہ پر عبور رکھنے کے باوجود اپنے قومی لہجے کی جکڑبندی یا عجمی رنگ سے اپنے آپ کو آزاد نہیں کرسکتا۔
اگر آپ اہلِ زبان نہیں ہیں توآپ کو کچھ عرصے تک اس زبان کے لہجے کی تکلف آمیز طورپر نقل اُتارنے کی ضرورت ہوگی۔ اگر وہ زبان عربی ہے تو اس کے ساتھ محبت کے بہت سارےطاقت ور محرکات اور عوامل کی وجہ سےاس تکلف اور بناوٹ میں بھی آپ کو لطف آئے گا۔ آپ کا یہ احساس کہ حبیب خدا  صلی اللہ علیہ وسلم  کے وطن کے لوگ جس طرح بولتے ہیں، اسی طرح عربی بولنی چاہیے، وہ کسی لفظ کو دباتے ہیں تو دبانا چاہیے، چباتے ہیں تو چبانا چاہیے، کھینچتے ہیں تو کھینچنا چاہیے، عجلت سے ادا کرتے ہیں تو اسی عجلت کی نقل کرنی چاہیے، کسی لفظ کو کسی خاص انداز سے بولتے ہیں تو اسی انداز کی تقلید کرنی چاہیے، آپ کا یہ مبارک احساس آپ کو اُن کی طرح عربی بولنے پر آمادہ کیے بغیر نہ رہ سکے گا۔

عربی لہجہ سیکھنے کا طریقہ

اصل میں عربی زبان کو عربی لہجے میں صحیح طورپر سیکھنے اور بولنے کے لیے تو عربوں سے اختلاط اور ان کے ساتھ ایک معتد بہ عرصہ گزارنا ضروری ہے، خصوصاً پڑھے لکھے عربوں کے درمیان؛ کیونکہ اس کے بغیر ان کے لہجے کی پیروی ناممکن سی بات معلوم ہوتی ہے، لیکن ظاہر ہے کہ یہ برصغیر کے اندر عربی سیکھنے والوں کے لیے ناممکن ہے کہ عرب جاکر کچھ عرصہ عربوں سے اُن کی زبان، اُن کے لہجے میں سیکھنے کا موقع مل جائے۔
البتہ ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ پابندی سے عالمِ عربی کا ریڈیو سناجائے؛ کیونکہ وہ خبریں، تقریریں اور شعری وادبی مضامین اکثر نشر کرتا ہے۔ خصوصاً آج کل عراق سے خبریں نشر کرنے والا رافدین اسٹیشن بہت اہم ہے اور اس کی زبان بڑی فصیح وبلیغ ہے، اسی طرح الجزائر کا ’’الجزیرۃ‘‘ نامی چینل بھی فصیح خبریں نشر کرتا ہے۔ مکہ مکرمہ سے بھی کوئی اسٹیشن عربی پروگرامات نشر کرتاہے ۔
اس وقت عالم عربی میں ادب، شعر، بچوں کے ادب، فقہ، حدیث اور تمام نصابی کتابوں کی کیسٹیں اچھے لب ولہجےمیں پڑھنے والوں سے پڑھواکر منگوا لی گئی ہیں۔ عبد الرحمٰن رافت الباشا کی مشہور ترین ادبی کتاب ’’صور من حیاۃ الصحابۃؓ‘‘ کافی پہلے کیسٹ کی صورت میں آچکی ہے۔ نیز شعلہ بیان مقررین، سحر انگیز واعظین، ایمان افروز مفکرین اور علماء ومبلغین کی تقریریں، بیانات ومحاضرات بھی کیسٹوں میں عربی ممالک میں میسر ہیں، بلکہ ابھی تو چھپی ہوئی کتابوں کے مکتبوں کی طرح کیسٹوں کے ’’المکتبات السمعیۃ‘‘ یا ’’المکتبات الصوتیۃ‘‘ کے نام سے بڑے بڑے مکتبے قائم ہوچکے ہیں۔ عالم عربی میں سالہا سال سےطلبۂ مدارس وجامعات کو ان چیزوں سے مستفید ہونے کا موقع، اعلیٰ پیمانہ پردستیاب ہےاور اس میں حالات وترقی کے ساتھ ساتھ مزید پیش قدمی ہورہی ہے۔
کیاہی اچھا ہو کہ ہمارے مدارس کے ذمہ داران، خصوصاً بڑے مدارس کے اربابِ حل وعقد ان چیزوں کو فراہم کریں، اپنی نگرانی میں باقاعدہ طور پرطلبہ عزیزکی اس سلسلے کی علمی وفکری پیاس بجھانے کا حوصلہ مندانہ اقدام کرکے مبارک باد کے مستحق بنیں۔
اس کے علاوہ ہمارے ملک پاکستان مملکتِ خدادا د میں اس وقت عربی زبان کی تعلیم کی بڑی چہل پہل ہے، ہر جگہ اس کا انتظام واہتمام ہونے لگا ہے، اور بعض اربابِ مدارس تو مختلف عربی ممالک سے عرب اساتذہ بلاکر اُن سے عربی کی تدریس کی خدمت لے رہے ہیں، جن میں سرفہرست شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان رحمہ اللہ کا قائم کردہ ادارہ جامعہ فاروقیہ کراچی، اسی طرح مدرسہ ابن عباسؓ کراچی، جو گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کی نسلِ نو کو عربی زبان سکھانے اور ملک کے طول وعرض میں پھیلانے میں مصروفِ عمل ہے۔ اسی طرح کراچی کی سرزمین پر اُگنے والا درخت ثمر بار جامعہ بیت السلام بھی بطور خاص قابلِ ذکر ہے، جہاں عربی زبان کی خدمت ہورہی ہے۔ دیگر بے شمار مدارس وجامعات ہیں جو عربی زبان اور لب ولہجہ کی تعلیم پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں، مگر اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔
آخری گزارش کے طورپر عرض ہے کہ جن حضرات کو عربی زبان ولہجہ مذکورہ بالا طریقہ سے سیکھنے کا موقع نہ ہو‘اُنہیں ضرورت ہے کہ کم از کم وہ تبلیغی جماعت کے ساتھ جڑ کر دعوت واصلاح کی نیت سے وقت لگائیں؛ کیونکہ وہاں عالم عرب سے بے شمار علماء دعوتی سفر کی نیت سے تشریف لاتے ہیں، انہیں ترجمان اور رہبر کی ضرورت بھی ہوتی ہے اور ان کے ساتھ رہنے والوں کو ان سے فائدہ بھی ہوتا ہے۔
 

وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین