بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 شوال 1446ھ 07 اپریل 2025 ء

بینات

 
 

عربی زبان وادب کے اصولِ تدریس وضوابط تأثرات، گزارشات (دوسری قسط)

عربی زبان وادب کے اصولِ تدریس وضوابط

تأثرات، گزارشات

(دوسری قسط)

 

الطریقۃ العصريۃ کا طریقۂ تدریس

سبق کی تیاری

1- الطریقۃ العصریۃ پڑھانےوالا استاذعربی زبان کی تعلیم کےلیے مروجہ بیشتر کتب اپنے مطالعہ میں رکھے؛ تاکہ اس کی معلومات اور ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ ہوتارہے، اس موضوع پرروزمرہ جملوں اورتعبیرات کےلیے اہم حوارات، اور جدید مفردات جاننے کےلیے استاذ مکرم حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ’’القاموس الصغیر‘‘،اسی طرح ’’القاموس المصور‘‘ وغیرہ مطالعہ میں رکھیں۔
2- استاذ صاحب پہلے سےسبق کا گہرا مطالعہ کرے، اور اس کے نئے کلمات کو حفظ کرلے۔
3-استاذ جدید کلمات کے معانی جاننے کے لیے معاجم و قوامیس کا استعمال ضرورکرے، اور عربی سے اردو کےلیے ’’القاموس الوحید، القاموس الجدید‘‘ جبکہ عربی سے عربی جاننے کےلیے ’’المعجم الوسیط‘‘ سے استفادہ کرے اور انٹر نیٹ میں المعاني کے نام سے عربی سے عربی، اور عربی سے اردو جاننے کے لیے دیکھنامفید ہے۔
4- روزِ اول سےعربی میں سبق پڑھانے کی کوشش کرے، اگر طالب علم شروع میں پورے جملے نہ سمجھ سکے تو کوئی حرج نہیں، اس کی وجہ سے عربی میں گفتگو ترک نہ کی جائے، رفتہ رفتہ تمام طلبہ عربی جملوں کے عادی بنیں گے اور رکاوٹ ختم ہوگی۔

سبق کے مراحل

۱- ہر سبق کے ’’معانی الکلمات‘‘ سبق سے ایک دن پہلے طلبہ کو گھر میں یا د کرنے کےلیے دیے جائیں۔
۲- اگلے دن سب سے پہلے ’’معانی الکلمات‘‘ تمام طلبہ سے سنے جائیں، اس کے بعد گزشتہ دن کی تمرین سنی جائے۔
۳- استاذ صاحب مشکل یا نئے جملوں کا ترجمہ مفردات کی صورت میں کرے، پورے پورے جملوں کا ترجمہ نہ بتائے، تاکہ وہ خود سمجھنے کی کوشش کریں، اس کے لیے بہتر صورت یہ ہے کہ حوار میں آنے والے جدید الفاظ جو معانی الکلمات میں نہ ہوں، وہ اس میں قلم سے لکھوائیں اور ان کے معانی بھی کتاب کے معاني الکلمات کے ساتھ یاد کرا ئے جائیں، تاکہ حوار سمجھنے میں رکاوٹ نہ ہو۔
۴-کتا ب میں دیا ہوا حوار تین بار طلبہ کو پڑھایا جائے، اس طور پر کہ استاذ پڑھے اور طلبہ اس کے ساتھ پڑھتے رہیں، اس کے بعد پانچ منٹ کے لیے دو دو طالب علموں کی جوڑیاں بنائیں، تاکہ سب حوار ایک دوسرے کے ساتھ دہرائیں، حوار میں آئے ہوئے مشکل یا جدید کلمات کو اشارے سے یا پھر مفردات کے ترجمہ سے سمجھا دئیے جائیں۔ 
۵- اس کے بعد سبق سے متعلق بیان کردہ قاعدہ سمجھایا جائے، پھر تمرینات پڑھائے جائیں، اور اس کا ترجمہ طلبہ سے نکلوانے کی کوشش کی جائے۔
۶- کتاب کی تمرینات حل کرنے کے لیے ہر طالب علم سے کاپی بنوائی جائے اوراستاذ روزانہ کے اعتبار سے تمام طلبہ کی کاپیوں کی تصحیح سرخ قلم سے کیا کریں، اگر طلبہ کی تعداد زیادہ ہوتو اجمالی طور پر تمام طلبہ کی کاپیاں دیکھ لیں، تاکہ معلوم ہوکہ ان میں سےکس نے تحریری تمرین حل کی اور کس نےنہیں کی، اور کاپیوں کی تفصیلی تصحیح کے لیے طلبہ کو تقسیم کریں۔ روزانہ غیر معین طورپر مخصوص تعداد میں طلبہ کی کا پیاں چیک کیا کریں؛ تاکہ ہر ایک کی کاپی چیک ہوسکے، ذہین طلبہ سے بھی باقیوں کی کاپی چیک کرواسکتے ہیں۔
۷- ہر سبق کی تمرین اپنے سامنے حل کروائیں، تمرین اور مشکل الفاظ پر زیادہ محنت ہو، اردو سے عربی اور عربی سے اردو تمرین پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔
۸- عربی کو عربی رسم الخط میں لکھنا سکھائیں، املائی غلطیوں کی اصلاح کریں، جو لفظ غلط لکھاہوا ہو اس کو ۱۰- ۱۵ بار لکھوایا جائے، تاکہ دوبارہ یہ غلطی نہ ہو ۔
۹- عربی عبارت کو صحیح پڑھنے اور عربی الفاظ کے صحیح تلفظ کا بھر پور اہتمام کریں، عموماً تلفظ کی تصحیح پر توجہ کم یا نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے، جس کی وجہ سے طالب علم عربی لہجہ نہیں سیکھ سکتا۔
۱۰- استاذ کلاس میں روزمرہ کی زندگی سے متعلق جملوں کا استعمال کرے، اس کے لیے مختلف کتب (لغۃ المسلم وغیرہ) مطالعہ میں رکھے۔
۱۱- ہر طالب علم واجب المنزل کے طورپر فارغ اوقات میں دو کام کر ے:
الف- اگلے سبق کے معاني الکلمات یاد کرنے ہیں۔ 
ب- گزشتہ سبق کی تمرین مکمل لکھ کر یاد کرنی ہے۔
۱۲- وقتاً فوقتاً طلبہ کے درمیان حوار اور مکالمہ کرایا جائے اوراستاذ خود زبانی تصحیح کرائے، کچھ اہم جملے بورڈ پر لکھواکر ان کا تلفظ بار بار کرایا جائے۔

القراءۃ الراشدۃکا طریقۂ تدریس

عربی زبان سیکھنے کےلیے چار چیزوں میں مہارت پیدا کرنا ضروری ہے، جوکہ المہارات الأربع کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک چیز عربی عبارت اور عربی زبان کو صحیح تلفظ اور اچھے لب ولہجے کے ساتھ پڑھنے پر قادر ہونا ہے، جسے عرب کے لوگ ’’القراءۃ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں، قراءت پر کامل دسترس کے بغیر عربی زبان سیکھنا محال نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
قراءت سکھانے کےلیے علماء عرب نے بے شمار کتابیں لکھی ہیں، جو ان کے حالات اور ماحول کو دیکھ کر لکھی گئی ہیں۔ ہمارے ہاں بر صغیر میں ایک زمانے میں عرب کی کتابیں اس غرض کےلیے پڑھائی جاتی تھی، مگر وہ یہاں کے ماحول اور حالات سے مختلف تھی، جس سے قراءت کا فائدہ تو ہوسکتا تھا، لیکن قراءت سے ہٹ کر برِصغیر کے تمدنی فوائد اس سے حاصل نہیں ہوتے تھے، چنانچہ علماء ہندوستان نے اس پر غور وخوض کیا اور انہیں یہ معلوم ہوا کہ آسان اور سلیس عربی میں یہاں کے حالات کو دیکھ کر ایک کتاب لکھی جائے، جس میں قراءت کے ساتھ ساتھ مذہبی رنگ غالب ہو اور طلبہ کی تربیت میں مفید بھی۔ سب سے پہلے حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ نے بڑی محنت اور عرق ریزی سے القراءۃ الراشدۃ  تالیف فرمائی۔
زمانہ گزرنے کے ساتھ اس کتاب کا مقصد اساتذہ کی نظروں سے اوجھل ہو گیا، جس سے طریقۂ تدریس میں خرابیاں پیدا ہوئیں، نتیجہ یہ ہوا کہ جس فائدہ کے حصول کی خاطر کتاب تالیف کی گئی تھی، وہ فوت ہوکر رہ گیا، اور یہ کتاب محض ایک ترجمہ کی کتاب رہ گئی، اسی صورت حال کو دیکھتے ہوئے تذکیر کے طور پر یہاں ’’القراءۃ الراشدۃ‘‘ کا طریقۂ تدریس تحریر کیا جاتا ہے۔
 

کتاب کے اہداف و مقاصد

1- اس کتاب کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ طالب علم کو روانی کے ساتھ صحیح تلفظ کے ساتھ عربی عبارت پڑھنا آجائے۔
2- اس سے عربی تعبیرات اور عبارات کا فہم حاصل ہوسکے۔
3- اس کے ذریعہ عبارت روانی کے ساتھ پڑھنے کی ایسی عادت پڑے کہ اعرابی غلطیاں مکمل طور پر ختم ہوجائیں۔
4- اس کتاب سے جدید اسماء وافعال اور تعبیرات کا استعمال سیکھنا، اور مختلف اَسالیب کلام کو اپنی ضرورت کے جملوں میں ڈھال کر لکھنا اور بولنا آنا چاہیے۔
5- طالب علم میں اتنی استعداد پیدا ہو کہ وہ پورے نص کو پڑھ کر اس کا خلاصہ عربی میں اپنے الفاظ میں بیان کرنے پر قادر ہوجائے۔
 

سبق کی تیاری کا مرحلہ

۱- استاذ پہلے سبق کے پورے نص کا تفصیلی مطالعہ کرے، قوامیس کی مدد سے جدید الفاظ کا حل  نکالے، عبارت میں صرفی نحوی غلطی سے بچنے کی بھر پور کوشش کرے۔
۲- پورے سبق کا مفہوم اور خلاصہ ذہن میں محفوظ کریں۔
۳- تمام افعال کے ابواب صحیح طور پر جاننے کی پوری کوشش کریں، خصوصاً ثلاثی مجرد کے ابواب اور اُن کے مصادر، تاکہ طلبہ کو کسی فعل کا غلط باب نہ بتائیں۔
۴- ہر سبق کے آخر میں دیے ہوئے سوالات کے جوابات عربی میں خود حل کریں اور طلبہ سے بھی عربی میں ہی حل کرانے کی کوشش کی جائے۔
۵- نئی تعبیرات کا استعمال ذہن میں رکھیں، اور کتاب سے ہٹ کر بھی اپنی طرف سے دو تین عام جملوں میں اسے استعمال کریں۔

سبق پڑھانے کے مراحل 

1- یہ کتاب بھی امکان کی حد تک تدریس کی زبان عربی ہو، اگر ضرورت ہو تو اردو سے مدد لی جاسکتی ہے۔
2- پہلے تمام طلبہ سے باری باری بغیر ترجمہ کے عبارت پڑھوائی جائے، اگر تعداد زیادہ ہو تو ہر طالب علم سے دو تین سطریں پڑھوائیں، اس میں تلفظ اور لہجہ کا انہیں پابند بنائے۔
3- اس کے بعد ترجمہ کرادے، ترجمہ میں یہ یاد رکھیں کہ سارا ترجمہ خود بالکل نہ کرائے، بلکہ طلبہ سے ہی ترجمہ کرانے کی کوشش کیا کرے۔ ترجمہ میں کوشش یہ ہو کہ بالکل سلیس ترجمہ کرایا جائے اور اس کا طریقہ بھی بتلادیا جائے۔
4- کتاب میں مذکور نظموں کے ترجمہ پر خصوصی توجہ رہنی چاہیے، اس کے ساتھ ساتھ اس کی نحوی تراکیب بھی بتادینی چاہئیں، تاہم یاد رہے کہ نحوی ترکیب میں زیادہ وقت صرف نہ کیا جائے، تاکہ کتاب کا مقصودِ اصلی فوت نہ ہوجائے۔
5- کتاب کی نظمیں زبانی یاد کرادی جائیں تو بہتر ہے، تاکہ اس سے لغت میں فائدہ ہو اورعربی ذوق کی ترقی ہوسکے۔
6- سبق کا ترجمہ کرانے کے بعد پہلے ان کو سبق میں آنے والے نئے کلمات کی نشاندہی کیجیے، اگر مفرد اسم ہو تواس کی جمع، جمع ہوتو اس کا مفرد بتادیا جا ئے یا قاموس سے نکلوایا جائے، اسی طرح اگر کوئی نیا فعل سبق میں آجائے تو اس کا باب اور مصدر ضرور بتادیا جائے۔
7- ترجمہ اور جدید کلمات نکلوانے کے بعد سبق میں آئی ہوئی جدید تعبیرات متعین کریں، پھر اس کے طرز پر طلبہ کو دو تین مثالیں بتادیں، پھر ان سے اس جیسی مثالیں کہلوائیں اور اس کے بعداسے کاپیوں میں لکھوانے کا کہہ دیں، اس سے طلبہ کی تحریری صلاحیت اُجاگر ہوگی، اور اس سے اُنسیت پیدا ہوگی، روزانہ کے سبق میں چند تعبیرات ضرور نکلوایا کریں، یہاں اس کی چند مثالیں لکھ دی جاتی ہیں :
1- لمَّـا بَلغتُ السابعۃَ من عُمري(جب میں اپنی عمر کے ساتویں سال کو پہنچا)
اس تعبیر میں تغیر وتبدل کرکے اس طرح کے کئی جملے بولے جاسکتے ہیں، جیسے:
أ- لمَّـا بلغ أخي التاسعۃَ من عمرِہ التحق بالمدرسۃ
جب ميرا بھائی نو سال کی عمر کو پہنچا تو مدرسہ میں داخل ہوا۔ 
ب- حفظتُ القرآن حين بلغت الحاديۃ عشرۃ
جب میں گیارہ سال کا ہوا تو میں نے قرآن حفظ کرلیا۔ 
ج. لمَّـا بَلَغَ الولدُ العشرين من عمرہٖ بدأ يشتغل بالتجارۃ
جب لڑکا بیس سا ل کا ہواتو تجارت میں مصروف ہوگیا۔
2-أریدأن اشتريَ شیئًا من الفواکہ:( میں کچھ پھل خریدنا چاہتاہوں)
اس تعبیر کی طرز پر بھی متنوع جملے بن سکتے ہیں، ملاحظہ کیجیے:
أ- أريد أن أذہب إلی المکتبۃ التجاريۃ: میں تجارتی کتب خانہ جانا چاہتاہوں۔
ب- أردتُ البارحۃ أن أنام مبکرا ولکن لم أستطع: کل رات میں نے چاہا کہ جلدی سوجاؤں، لیکن نہ سو سکا۔
ج- أريد أن أتعلم قيادۃ السيارۃ: میں ڈرائیونگ سیکھنا چاہتا ہوں۔ 
3- تَعَلَّمنَا السباحۃَ ونحنُ صغارٌ:( ہم نے تیراکی سیکھی، جبکہ ہم چھوٹے تھے)
اس تعبیر میں پہلا جملہ فعلیہ ہے، دوسرا جملہ اسمیہ ہے، جوکہ پہلے جملہ سے حال بن رہاہے، اور درمیان میں واؤ حالیہ ہے، اس طرز کی تعبیرات کا استعمال ہوتا ہے۔ 
أ- سَافرتُ إلٰی لاہور بالحافلۃ وأنا نائم:میں نے بس میں سوتے ہوئے لاہور کا سفر کیا۔
ب- تَعلَّمْنَا العربيۃَ ونحن صغارٌ:ہم نے عربی سیکھی، جبکہ ہم چھوٹے تھے۔
ج- نُقِلَ المريضُ إلی المستشفی وہو مُغمًی علیہ: بیمار ہسپتال منتقل کیا گیا اس حال میں کہ وہ بے ہوش تھا۔  
4- يَسُرُّني أن اُسَاعِدَکَ:( مجھے اس سے خوشی ہوتی ہے کہ آپ کی مدد کروں)۔
اس فعل کا فاعل عموماً مصدر مؤول کی صورت میں آتاہے، جیسے: يَسُرُّني أن أسَاعِدَکَ۔ اس کی اصل یوں ہے: يَسُرُّني مُساعَدَتُکَ۔
أ- يَسُرُّني أن اَخدِمَ الأساتذۃَ:
مجھے اس سے خوشی ہوتی ہے کہ اساتذہ کی خدمت کروں۔
ب- سَرَّني أنَّکَ تَخَرَّجْتَ في الجامعۃ:
 آپ کی جامعہ سے فراغت پر مجھے خوشی ہوئی۔
ج- يَسُرُّني أن اَزُورَ الأقاربَ:
مجھے رشتہ داروں کی ملاقات سے خوشی ہوتی ہے۔
اس فعل کو زیادہ مجہول بھی استعمال کیا جاتاہے، جیسے: 
أ- سُرِرتُ بأنَّکَ أخذتَ مرتبۃَ الشرَف في الامتحان:
مجھے اس سے خوشی ہوئی کہ آپ نے امتحان میں پوزیشن لی۔     
ب- سُرَّ الوالدُ بأنَّ الأولادَ صالحون:
والدکو اس سے خوشی ہوئی کہ لڑکے نیک ہیں۔ 
ج: سُرَّ التلاميذُ بأنَّ العطلۃَ قريبۃ:
طلبہ اس سے خوش ہوئے کہ چھٹی قریب ہے۔ 
8- ثلاثی مجرد کے ابواب اور ان کے مصادر سماعی ہیں، چنانچہ ہر باب کا الگ مصدر آتاہے، اسے ضبط کرنا اور صحیح باب اور مصدر یاد رکھنا ایک مشکل امر ہے، لہٰذا شروع دن سے طلبہ کو ثلاثی مجرد کے ابواب اور ان کے مصادر یاد کرائے جائیں۔                                            (جاری ہے)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین