بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

بینات

 
 

علمِ الٰہی کاشرف اور امتیازی شان 


علمِ الٰہی کاشرف اور امتیازی شان 

 

بتاریخ ۲۵؍ربیع الثانی ۱۴۴۶ھ مطابق ۲۹ ؍اکتوبر ۲۰۲۴ء بروز منگل جماعتِ دعوت وتبلیغ انڈیا کے بزرگ حضرت مولانا ابراہیم دیولا صاحب مدظلہم جامعہ بنوری ٹاؤن میں تشریف لائے، اس موقع پر جامعہ کے دارالحدیث میں اساتذہ اور طلبہ کرام کے مجمع میں خطاب فرمایا،اور اجازتِ حدیث دی، ’’علمِ الٰہی کاشرف اور امتیازی شان‘‘ کے موضوع پر قیمتی خطاب فرمایا، جسے جامعہ کے تخصصِ علومِ فقہ کے طالب علم مولوی عبداللہ طفیل نے قلم بند کیا۔ ادارہ بینات عنوانات وغیرہ کے اضافے کے بعد اس خطاب کو اِفادۂ عام کی غرض سے شائع کررہا ہے۔                                               (ادارہ)

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علیٰ سید المرسلین وعلی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین

آپ حضرات کے لیے بہت بڑا شرف اور ایک امتیازی شان ہے، وہ کیسے؟ حدیثِ پاک میں ہے: ’’ساری دنیا لعنت کے نیچے ہے۔‘‘
’’الدنيا ‌ملعونۃ، ملعون ما فيہا، إلا ذکر اللہ وما والاہ وعالم أو متعلم‎۔‘‘  (سنن ترمذی، سنن ابن ماجہ)
’’ساری دنیا لعنت کے نیچے ہے، رحمت سے دور ہے، اس کے بالمقابل یہ ماحول اور یہ طرزِ زندگی گویا اللہ تعالیٰ کی رحمتوں میں ہے، ایک امتیازی شان دی گئی ہے کہ ساری دنیا کی حکومتیں، تجارتیں، جائیدادیں جو بھی ہوں، وہ اللہ کی رحمت سے بعید ہے، بجز اللہ کے ذکر اور علم کے۔‘‘

علم اور ذکر رحمتوں کے لینے کا ذریعہ ہے‎

علم اور ذکر یہ رحمتوں کے لینے کا ذریعہ ہے، ذکر کی غایت اطاعت ہے: ’’‎کل مطيع ذاکر‎‘‘ کہ اللہ کا ذاکر وہی ہوسکتا ہے جو اللہ کا مطیع ہو، جو اللہ کا مطیع ہو وہ اللہ کا ذاکر ہے، تو ذکر کی غایت‘ اللہ کی اطاعت ہے، اور علم‘ اطاعت کے لیے رہبری کرنے والاہے، اطاعت کا صحیح معیار جو قائم ہوگا وہ علم سے ہوگا، علم نہیں ہے تو اطاعت ہی نہیں ہے، صحیح علم نہیں ہے تو اطاعت بھی صحیح رخ پر نہیں ہے۔

انبیاءِ کرام علیہم السلام کی بعثت کا مقصد‎ 

انبیاءِ کرام  علیہم السلام  کی جو بعثت ہوئی ہے، وہ اطاعت قائم کرانے کے لیے ہوئی ہے:
’’وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ إِلَّا ‌لِيُطَاعَ ‌بِاِذْنِ اللہِ‘‘ (سورۃ النساء:۶۴ )
جب کبھی کسی نبی کی بعثت ہوئی دنیا میں وہ اس مقصد کے لیے کہ ان کی بعثت کے ذریعے سے اللہ کے بندوں میں اللہ کی اطاعت قائم کرائی جائے، نبی اطاعت قائم کرانے کے لیے دو ہی چیزیں لاتا تھا: ایک ایمان، دوسرا علم، ایمان کی دعوت ہوتی تھی، علم کی تعلیم ہوتی تھی؛کیوں کہ ایمان کا تقاضا ہے اطاعت کرنا، اور اطاعت بغیر علم کے ہوتی نہیں ہے۔ اطاعت کے حدود قیود وہ علم ہی بتاوے گا کہ اطاعت کہاں تک صحیح ہے! کہاں تک غیر صحیح ہے! تو اطاعت مقصود ہے، اس لیے اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ علم دیا ہے۔

علمِ الٰہی مشترک سرمایہ ہے‎

پھر علم کو اللہ نے ایک مشترک سرمایہ قرار دیا ہے، یہ سب کے لیے آیا ہے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے علم کی مثال بارش کے پانی سے دی:
’’إِنَّ مَثَلَ مَا بَعَثَنِيَ اللہُ بِہٖ عَزَّ وَجَلَّ مِنَ الْہُدٰی وَالْعِلْمِ کَمَثَلِ غَيْثٍ ۔۔‘‘ (متفق علیہ)
بارش کے پانی کی خاصیت یہ ہےکہ اس میں سب کی حیات ہے:
’’وَجَعَلْنا ‌مِنَ ‌الْمآءِ کُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ‘‘ (سورۃ الانبیاء :۳۰)
بارش کے پانی میں سب کی حیات کا سامان ہے، اگر بارش کا پانی بند ہوجائے تو زمین کی مخلوق زندہ نہیں رہ سکتی، وہ ہلاک ہوجائے گی، پانی میں زمین کی مخلوق کی حیات ہے، حیوان ہو، انسان ہو، نباتات ہو، اس لیے اللہ تعالیٰ پانی ہر سال برساتے ہیں، پانی برسا کر بنجر زمینوں کو آباد کرتے ہیں، یہ اللہ کی ایک ترتیب ہے، ایسے ہی انسانوں کی زندگی کو آباد کرنے کے لیے اللہ کی طرف سے انبیاء  علیہم السلام  کے ذریعے علم کا فیضان ہوتا ہے، دو بڑی چیزیں انہیں کے ذریعے ملی ہیں: ایک ایمان ملا ہے، دوسرا علم ملا ہے۔ ایمان‘ یہ تو اللہ کا حق ہے کہ اللہ پر ایمان لاناہے، اور ایمان کاتقاضا اطاعت ہوتاہے کہ اللہ پرایمان لا کر اللہ کی اطاعت کرو، انبیاء کرام علیہم السلام  اطاعت قائم کرانے کے لیے ہی بھیجے جاتے تھے:
’’وَمآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ الَّا ‌لِيُطاعَ ‌بِاِذْنِ اللہِ‘‘(سورۃ النساء :۶۴)
کہ وہ اطاعت کروانے کے لیے بھیجےجاتے ہیں کہ اپنی جان سے، اپنے مال سے، اپنی نیت سے، اپنے عمل سے، اپنی ہر چیز سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی جائے۔

اطاعت ہدایت کادروازہ ہے‎

اطاعت جو ہے وہ ہدایت کا دروازہ ہے:
’’وَإِنْ ‌تُطِيْعُوْہُ ‌تَہْتَدُوْا‘‘(سورۃ النور: ۵۴)
اطاعت کرو گے ہدایت پاؤگے، جس طرح معصیت گمراہی کی راہ ہے، ایسے ہی اطاعت ہدایت کا دروازہ ہے کہ جب اطاعت کا دروازہ کھلے گا تب صحیح رستے پر زندگی پڑےگی، اس لیے انبیاء کرام علیہم السلام  آکر اپنی اور اللہ کریم کی اطاعت کی دعوت دیا کرتے تھے کہ اللہ سے ڈرو، ہماری اطاعت کرو، اللہ کی نافرمانی سے بچو، ہماری اطاعت کرو، کیوں کہ نبی کی اطاعت اور اللہ کی اطاعت ایک ہی چیز ہے:
’’مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطاعَ اللہَ‎  ‘‘(سورۃ النساء۸۰)
کہ جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی، تو رسول کی اطاعت اوراللہ کی اطاعت میں کوئی فرق نہیں، دونوں ایک ہی ہیں، اس لیے زندگیوں کی بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ زندگیوں میں اطاعت آوے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اطاعت کو صحیح کرنے کے لیے علم اُتارا ہے، تا کہ علم کی روشنی میں اللہ کی اطاعت کی جاوے، پھر اطاعت کے درجے ہوتے ہیں، فرائض بھی ہوتے ہیں، واجبات بھی ہوتے ہیں، جو آپ کو معلوم ہیں، اس کے درجات ہوتے ہیں ، جس وقت جس قسم کی اطاعت مطلوب ہو وہ ادا کی جاوے، اس لیے یہ علم ہے، تا کہ اطاعت صحیح طریقہ سے ادا ہوجائے۔

اطاعت کا کمال‎

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس اطاعت کو صحیح طریقہ سے لیا، کہ ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہاتھ میں ہاتھ دےکر یہ قول و قرار کیا کہ آپ کی بات مانیں گے، آپ کی اطاعت کریں گے، کس حالت میں؟ ہر حالت میں:
’’بَايَعْنَا رَسُوْلَ اللہِ صلی اللہ عليہ وسلم عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِي الْعُسْرِ وَالْيُسْرِ، وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ، ‌وَعَلٰی ‌اَثَرَۃٍ ‌عَلَيْنَا۔‘‘   (صحیح مسلم)
پانچ چیزیں بتائی ہیں کہ ہم آپ کی اطاعت کریں گے: عسر میں بھی یعنی غریبی ہے، تنگی ہے، تو بھی بات مانیں گے، اور تنگی نہیں ہے، آسودگی ہے تو بھی آپ کی بات مانیں گے، یہ اندر کی کیفیتیں ہوتی ہیں، بعض مرتبہ جی چاہتا ہے، بعض مرتبہ جی نہیں چاہتا، تو ان کیفیتوں میں بھی کہ جی چاہے تو بھی آپ کی بات مانیں گے، جی نہیں چاہے تو بھی مانیں گے۔

اطاعت میں مشکل چیز‎

پانچویں چیز‎ ’’وَعَلٰی ‌اَثَرَۃٍ ‌عَلَيْنَا‘‘ یہ مشکل ہے، لیکن وہ حضرات تو اس کو بھی پار کر گئے کہ ہم پر دوسرے کو ترجیح دی جاوے تب بھی ہم بات مانیں گے، اعتراض نہیں کریں گے، ’’أثرۃ‘‘ آپ جانتے ہیں ’’أثرۃ‘‘ کیا چیز ہے، ’’ھو الاختصاص بالمشترک‘‘ ، ’’أثرۃ‘‘ کسی مشترک چیز میں اپنے لیے خصوصیت  رکھنا، ایسی چیز جو سب کے لیے ہو اُسے اپنے لیے مخصوص کرے، اس کو ’’أثرۃ‘‘ کہتے ہیں، یہ بات برداشت نہیں ہوتی، لوگوں کے شعور اس میں بہت تیز ہوتے ہیں، لیکن صحابۂ کرامؓ کی اطاعت کامل ہوئی، اس لیے کہا‎: ’’‎وَعَلٰی ‌اَثَرَۃٍ ‌عَلَيْنَا‘‘ کہ ہم پر کسی کو ترجیح دی جاوے بلااستحقاق کے، تب بھی ہم اطاعت کریں گے، تو یہ اُن کی اطاعت کی حد بتادی: ’’فِي الْعُسْرِ وَالْيُسْرِ، وَالْمَـنْشَطِ وَالْمَـکْرَہِ، ‌وَعَلٰی ‌اَثَرَۃٍ ‌عَلَيْنَا۔‘‘

اِطاعت کا جمال‎

اطاعت کا یہ کمال ہے، پھر اطاعت کا جمال یہ ہے کہ عظمت‘ ادب کے ساتھ ہو، یہ اس کا جمال ہے، تو حضراتِ صحابہؓ میں یہ دونوں باتیں تھیں، ان کی اطاعت میں جمال بھی تھا، یعنی عظمت وادب بھی، ابن مسعود  رضی اللہ عنہ  دروازے سے داخل ہورہے تھے، جناب صلی اللہ علیہ وسلم  منبر پر تھے، منبر پر بیٹھ کر فرمایا: ’’اجلسوا‘‘ تو ابنِ مسعودؓ وہیں بیٹھ گئے، آگے نہیں بڑھے، کیوں کہ ’’اجلسوا‘‘ کا امر پہنچ گیا، تو آگے بڑھنے کی گنجائش اب نہیں رہی، اطاعت عظمت و اَدب کے ساتھ ہو، عبداللہ ابن رواحہؓ قریب کے محلے میں تھے، بنو غنم کا محلہ تھا، آپ نے کسی موقع پر فرمایا: ’’اجلسوا‘‘ تو وہ وہیں بیٹھ گئے، حالاں کہ وہاں بیٹھنے کا حکم دینا مراد نہیں تھا، پھر بھی بیٹھ گئے، تو یہ اطاعت کا جمال ہوا کہ عظمت کے ساتھ، اَدب کے ساتھ کسی بھی وقت پر ہو، اللہ کا امر آرہا ہے، رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا امر آرہا ہے، اس کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا، یہی اطاعت ہے، یہ ان حضرات کا کمال تھا کہ اپنی زندگیاں اطاعت والی بنائیں، نبی کی دعوت سے، اور نبی کی تعلیم سے اِطاعت ہی مقصود ہوتی ہے کہ زندگی میں اطاعت آجائے، اللہ کی طرف رجحان ہوجائے، نبی کے طریقوں پر قائم رہنا ہوجاوے، نیتوں میں اخلاص آوے، یہ چیزیں اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرماوے، یہی مقصود ہے اس علم سے اور اس علم کے حاصل ہونے سے کہ اس علم کےذریعے سے اللہ کی اطاعت ہوجاوے، اطاعت کی دعوت انبیاء کرام علیہم السلام  دیتے تھے اللہ کے بندوں کو کہ وہ اطاعت کریں اللہ کی جان سے، مال سے۔ اور دوسری طرف اس کی حدود وقیود ہیں جو اس علم میں ہیں، تاکہ اِفراط تفریط نہ ہوجاوے، اعتدال آجاوے اطاعت کے اندر، اس لیے اللہ تعالیٰ نے علم دیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کو جو علم ملا ہے وہ تو علیٰ وجہ الکمال ملا ہے؛ کیوں کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں، اور آپ کو علم کے راستے کی ساری چیزیں دی گئیں اور وہ علیٰ وجہ الکمال دی گئیں۔

علمِ الٰہی طلب پرملاکرتاہے‎

اور یہ علم غیر منسوخ ہے، یہ باقی رہے گا، اس کو اللہ محفوظ رکھیں گے، اس علم کی اللہ حفاظت کریں گے، یہ منسوخ بھی نہیں ہوگا،یہ ضائع بھی نہیں ہوگا، بلکہ یہ باقی رہےگا، اللہ تعالیٰ اس کو باقی رکھیں گے، جب جب لوگوں میں طلب آئےگی اُن کو یہ دیاجائے گا، جب جب طلب آوے گی یہ اُن کو ملے گا، ہاں! یہ الگ بات ہے کہ طلب ہی نہیں ہے، طبیعت پر تقاضا ہی نہیں ہے؛ اس لیے کہ علم بغیر طلب کے نہیں ملتا، لیکن جب لوگوں میں طلب آوے گی اس کے تقاضے پیدا ہوں گے، تو اللہ تعالیٰ ان کو علم عطا کرے گا،صحابہ کرامؓ اپنے شاگردوں سے یہی کہتے تھے، جب کسی استاذ کا انتقال ہوتا طالب علم روتا، استاذ پوچھتے کیوں رورہا ہے؟ (جواب دیتے)کہ آ پ جارہے ہیں، آپ سے جو فیض مل رہا تھا وہ منقطع ہو رہا ہے۔استاذ کہتے: ڈرنے کی بات نہیں ہے، رونے کی بات نہیں ہے، اللہ اس علم کو باقی رکھیں گے، اس کی حفاظت کریں گے، جب جب اس کے طلب گار پیدا ہوں گے، ان کو دیں گے، ابھی پچھلے دنوں ہم امریکہ، کینیڈا میں تھے، الحمدللہ میرا بارہا آناجاناہوا، میں نے ایک سال لگایا ہے امریکہ میں ۸۰ء میں، جب کہ وہاں کچھ نہیں تھا، مساجد بھی نہیں تھیں، اسلامک سینٹر ہوتے تھے، اس میں ہم لوگوں کا پڑاؤ ہوتا تھا، اب جو جانا ہوا تو اللہ کا شکر ہے کہ مساجد بھی ہیں، مدارس بھی ہیں، معاہد بھی ہیں، اور قرآن، حدیث اوربخاری شریف وغیرہ کے دروس ہورہے ہیں، اور اہلِ علم کی الحمدللہ بڑی تعداد ہے، بڑی طلب کے ساتھ بڑی رغبت کے ساتھ، تو یہ علم کی بات ہےکہ جب جس زمانہ میں علم کی طلب آئےگی اللہ اُنہیں دے دیں گے، یہ مشاہدہ ہوا کہ گویاجب بھی طلب آئےگی اللہ انہیں علم دیں گے، اس لیے طلب کے ساتھ اس کو لیا جاوے۔

علمِ الٰہی کی طلب اللہ سےمانگنامسنون ہے‎

اور اللہ سے اس کی طلب مانگی جاوے، یہ بھی مسنون ہے؛کیو ں کہ کسی طلب کا پیدا ہوجانا ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے تو دعا مانگی:
’’اللّٰہم ‌فاجعل ‌رغبتي ‌إليک الخ‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ)
کہ اللہ میری رغبت تیری طرف کردے، مسنون دعاؤں میں ہے کہ رغبت پیدا کرادے، طلب پیدا کرادے، اورطلب کے ساتھ بندوں تک پہنچنا ہوجاوے کہ بندوں تک پہنچ جاوے، تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔

علمِ الٰہی سے حقوق کی معرفت ہوتی ہے‎

تو میں نے (شروع میں) عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ شانہ نے آپ حضرات کو بڑا شرف بخشا ہے علمِ  دین کا، کیوں کہ اس علم کی وجہ سے آپس کے اور اللہ کے حقوق کی معرفت ہوتی ہے؛ اور یہ بڑی بات ہے کہ اس علم کی غایت ہی یہی ہے کہ علم کو اللہ نے اس لیے نازل کیا ہے کہ دنیا کو اللہ نے دارالحقوق قرار دیا ہے، جس طرح آخرت کو اللہ نے دارالأجور قرار دیاہے، اورحقوق کی معرفت ضروری ہے؛ کیوں کہ حقوق کی معرفت نہیں ہوگی تو حقوق کیسے ادا کرےگا؟ اس لیے اس علم میں حقوق کی معرفت دی جارہی ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم  حضرت معاذ  رضی اللہ عنہ  سے پوچھ رہے ہیں:
’’یامعاذ! ہل تدري ما حق اللہ علی عبادہٖ؟‘‘ (صحیح بخاری)
’’معاذ! آپ کو معلوم ہے کہ اللہ کا کیا حق ہے؟‘‘ تو یہ مزاج ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  حقوق کی طرف رہبری کررہے ہیں، چوں کہ اللہ بڑے ہیں، اللہ سے کوئی بڑا نہیں ہے، اس لیے پہلے اس کے حق کو بتایا کہ اللہ سب سے بڑا ہے، اس سے بڑا کوئی نہیں ہے، تو اس کا کیا حق ہے؟ تو اس کے حق کی طرف راہ نمائی فرمائی کہ اللہ کا کیا حق ہے، اللہ کا یہ حق ہے کہ اسی کی عبادت کی جائے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے، یہ اللہ کا حق ہے، تو یہ ہے بات کہ اس علم کے اندر حقوق اورحقوق کی معرفت اور اس کے ادا کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔

علمِ الٰہی کے آنے سے زمانےکافسادختم ہوجاتاہے‎

اس لیے جوں جوں یہ علم پھیلے گا زمانہ کا فساد ختم ہوگا، جیسے جاہلیت میں فساد تھا؛کیوں کہ کسی کو خبر ہی نہیں کہ اللہ کا کیا حق ہے؟ وہ زمانہ فساد سے بھرا ہوا تھا، جناب کی تشریف آوری کے بعد آپ نے تعلیم دی کہ اللہ کا کیا حق ہے؟ رسول کا کیا حق ہے؟

جتنےتعلقات اتنےحقوق‎

جتنے تعلقات اتنے حقوق، یہ ہمارے دین میں ہے، ورنہ تعلق کا کیا مطلب؟ اس لیے ہم کو ان تمام چیزوں کی تعلیم دی ہے کہ جن سے تمہارا تعلق ان پر تمہارا حق، یہاں تک کہ جانوروں کے حقوق کی طرف بھی رہبری کی، یہ جانورہے، پالتےہیں، یہ گونگے ہیں، تم ان کا خیال کرو، کام لاتے ہو تو ان کو اُن کاحق بھی دو، جس طرح غلام اورباندیوں کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی آخری وصیت تھی، کیوں؟کیوں کہ وہ بھی تمہارےتابع ہیں، وہ بھی اللہ کے بندے ہیں، لیکن اللہ نے ان کو تمہارے تابع کیا ہے، تو ان کے حقوق کا خیال رکھنا، وغیرہ۔
 دنیا دارالحقوق ہے اور اللہ تعالیٰ نے آخرت کو دار الأجورکہا ہے، تو اس کی رہبری کے لیےاللہ تعالیٰ نے یہ علم بھیجا ہے، اس علم کی وجہ سے حقوق کی معرفت حاصل ہوگی، اورحقوق ادا ہوں گے، حقوق ادا ہوں گے تو زمانہ کا فساد ختم ہوجائے گا، ہر ایک حق دار کو حق مل جائےگا، حق دار کو حق ملے اس لیےحقوق کا علم دیا، اورحقوق قائم کرنے کے لیے انصاف کا حکم دیا:
’’‌وَاُمِرْتُ ‌لِاَعْدِلَ بَيْنَکُمْ‘‘ (سورۃ الشوری :۱۵)
مجھے حکم ہے کہ میں تمہارے درمیان عدل وانصاف قائم کروں، جس طرح آپ مامور بالتبلیغ ہیں، اسی طرح آپ مامور بالعدل بھی ہیں؛ کیوں کہ عدل کی وجہ سے اعتدال پیدا ہوتاہے کہ حق دار کو اس کے موافق حق مل جاوے، اس لیے انصاف ہر وقت فرض ہے، اور ظلم جو انصاف کی نقیض ہے ہر وقت حرام ہے، اس لیے آپ کو انصاف کا حکم دیا کہ آپ انصاف کریں، علم بھی دیں اور انصاف بھی دیں، تو اس کی وجہ سے عالَم میں پھر فساد ختم ہوجائے گا، چناں چہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تشریف آوری سےفساد ختم ہوگیا، لوگوں میں دوصفتیں پیدا ہوئیں کہ آپس کے بھائی ہوگئے، اور خدا کے بندے ہوگئے، یہ تعلیم دی تھی آپ نے کہ اللہ کے بندے رہو، آپس کے بھائی رہو:
’’کُوْنُوْا عِبَادَ اللہِ إِخْوَانًا‘‘ (متفق علیہ)
کہ اللہ کے بندے رہو، آپس میں بھائی رہو، جو اپنے لیے پسند کرو وہ دوسروں کے لیے پسند کرو، جو اپنے لیے ناپسند کرو دوسروں کے لیے ناپسندکرو، یہ انصاف ہوا، انصاف کا یہی تقاضا ہوا، ایک پلڑے میں آپ، ایک پلڑے میں دوسرا، تو اس سے انصاف قائم ہوگا، اس لیے انصاف ہر وقت فرض ہے۔

مہاجرین صحابہؓ اورانصارِ مدینہ  رضی اللہ عنہم  کاامتیاز‎

انصاف سے آگے احسان ہے، اور احسان سے آگے ایثار ہے،یہ تعلیم ہے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی، انصارِ مدینہ اپنی نصرت کو ایثار تک لے گئے، ان کے ذمہ نصرت تھی، وہ اپنی نصرت کو ایثار تک لے گئے، وہ آخری درجہ ہے، اور مہاجرین اپنی ہجرت کو فقر تک لے گئے، یہ دو طبقے ہیں مہاجرین کے اور انصار کے، ان کی اطاعت میں یہ دو امتیاز ہیں، مہاجرین نے اس طرح ہجرت کی کہ وہ فقیر ہوگئے، اپنے مال کے مالک نہیں رہے، جیسے آپ حضرات نے اُصولِ فقہ میں پڑھاہے، ہجرت کا معنی ہے چھوڑنا تو انھوں نے اپنی دنیا کو ایسا چھوڑا کہ وہ خود فقیر ہوکے رہ گئے، اور انصار نے نصرت ایسی کی کہ وہ اپنی نصرت میں ایثار تک پہنچ گئے، تو یہ فقر تک پہنچ گئے اور یہ ایثار تک پہنچ گئے، یہ دونوں میں اپنا اپنا کمال ہے، اس لیے یہ پہلا طبقہ ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا ساتھ دینے والا، مہاجرین آگے ہیں، اس کے بعد انصار ہیں، پوری اُمت کو ان کی اتباع اور ان کے پیچھے چلنے کی تعلیم دی گئی ہے:
’’يٰاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ‌اتَّقُوا ‌اللہَ ‌وَکُوْنُوْا ‌مَعَ ‌الصَّادِقِيْنَ‘‘ (سورۃ التوبۃ :۱۱۹)
صادقین کے ساتھ رہو، صادقین میں سب سے پہلے یہ دو ہیں، مہاجرین اور انصار، ان کو اللہ نے سچا کہا ہے، ان کے ساتھ رہو، مہاجرین کے ساتھ رہو، انصار کے ساتھ رہو، یہی ہماری تعلیم ہے، یہی ہماری ترتیب ہے، اللہ تعالیٰ ہم کو ان کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرماوے، اللہ تعالیٰ مجھے بھی توفیق دے اور آپ لوگوں کو بھی۔(‎اس کے بعد حضرت کے سامنے دورہ حدیث کے ایک طالب علم نے آخری حدیث کی تلاوت کی، پھر حضرت نے اجازتِ حدیث مرحمت فرمائی‎)

حضرت مدنی  رحمۃ اللہ علیہ  کے شاگرد کااجازتِ حدیث دینا‎

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، الحمد للہ رب العالمین، جب ہماری (۱۹۵۴ء میں) بخاری شریف ختم ہوئی تھی، اُس زمانہ میں طلبہ زیادہ نہیں تھے، ڈیڑھ سو کے قریب ہم لوگ تھے، بخاری شریف کے ختم پر حضرت (شیخ الاسلام حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ  متوفی: ۱۹۵۷ء) نے کھڑے ہو کر کے ہم کو اس کی اجازت دی تھی، چوکی پر پڑھاتے تھے، چوکی پر ہی کھڑے ہوگئے تھے، اور چوکی پر کھڑے ہو کر کے ہم کو یعنی ہماری جماعت کو بخاری شریف کی اجازت دی تھی، تو جس طر ح میرے حضرت نے ہم کو اجازت دی ہے، میں بھی اُن کی برکت سے آپ حضرات کو اس کی اجازت دیتا ہوں۔
(اس کے بعد حضرت نے رقت آمیز دعا فرمائی)۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین