بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

بینات

 
 

علوم وفنون کے شناور استاذِ محترم حضرت مولانا محمد انور بدخشانی رحمۃ اللہ علیہ 

علوم وفنون کے شناور

استاذِ محترم حضرت مولانا محمد انور بدخشانی رحمۃ اللہ علیہ 


الحمد للہ وسلامٌ علٰی عبادہ الذین اصطفٰی

 

انسان کی زندگی کی تعمیر میں دیگر عوامل کے ساتھ کچھ شخصیات خضرِ راہ کا کردار ادا کرتی ہیں ، میری زندگی میں بھی بعض شخصیات نے مختلف مراحل میں رہبر ورہنما کا کردار نبھایا ہے۔ 
استاذِ محترم حضرت مولانا محمد انور بدخشانی  رحمۃ اللہ علیہ  بھی میری زندگی کی ان مشفق اور محسن ہستیوں میں سے تھے، جنہوں نے حضرت والد ماجد  رحمۃ اللہ علیہ  کی نسبت ومحبت کا حق ادا کرنے میں انتہا کردی۔ ابتدائی طلب علمی سے وفات تک جس تسلسل و تواتر کے ساتھ ہر موقع پر میری سرپرستی اور راہنمائی فرماتے رہے، اسے ایک مشفق والد کی پشتی بانی اور دست گیری سے تعبیر کرنا بے جا نہ ہوگا۔ انہوں نے تربیت و تعلیم سے لے کر عملی و انتظامی ذمہ داریوں تک، ہر موقع پر رہبری فرمائی، اوائلِ عمر سے علمی نشوونما کی نگاہ داشت کی، درسِ نظامی کے دوران مطالعہ ودیگر تعلیمی اُمور کے ساتھ جزوی مسائل میں بھی رہبری کرتے رہے، اور جامعہ میں میری انتظامی ذمہ داریوں کی تجویز اور انہیں قبول کرنے پر آمادگی کا ذریعہ بھی بنے۔ استاذِ محترم ان شخصیات میں سرِفہرست تھے، جن کی جہدِ مسلسل نے ادارے کو حضرت بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  کی فکر وذوق سے جوڑے رکھا۔ نصاب ونظامِ تعلیم اور اسالیبِ تدریس و تصنیف و تالیف پر تو انہیں دست گاہ حاصل تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی توفیق سے انہیں راست فکری، اور شرحِ صدر کے ساتھ بروقت درست فیصلہ تک رسائی کی صلاحیت عطا فرمائی تھی۔‎  ‎
حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحب  رحمۃ اللہ علیہ   کی وفات کے بعد مجلسِ شوریٰ کی صدارت اور جامعہ کے اہتمام کے لیے استاذِ محترم مولانا بدخشانی  رحمۃ اللہ علیہ   کا خیال پختہ تھا، لیکن انہوں نے یہ عزم کیا ہوا تھا کہ اپنی زندگی میں یہ ذمہ داری حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ   کے وارثین کے حوالے کردوں ، اور بندہ اور عزیزم مولانا سید احمد بنوری کے ناتواں کندھوں پر اس ذمہ داری کا بوجھ ڈال کر گویا وہ خود کو اپنی ذمہ داری سے فارغ اور سرخرو سمجھ رہے تھے، لیکن ہم نے ہمیشہ انہی کو بڑا سمجھا، مجلسِ شوریٰ کی صدارت درحقیقت انہی کی ہوتی تھی، اور زندگی کے آخری لمحات تک وہی ہمارے سرپرست رہے، اس لیے ان کی وفات کے موقع پر ایک بار پھر یتیمی کا احساس ہو رہا ہے، ان کی وفات ذاتی طور پر ہمارے لیے بھی  بڑا سانحہ ہے، اور جامعہ کے لیے بھی۔‎ ‎
اہتمام وانصرام کے اس طویل دورانیے میں انتظامی نوعیت کے بہت سے اُمور کے حوالہ سے ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ حضرت بنوری  رحمۃ اللہ علیہ   کی نسبت کی بنا پر میری معروضات کی لاج رکھتے رہے، وہ نسبتوں کے امین تھے اور نسبتوں کی رعایت بھی رکھتے تھے۔
اُستاذِ محترم گوناگوں علمی وعملی اوصاف وکمالات کے حامل تھے۔ جامعہ میں دورہ حدیث اور تخصص کے درجات میں طویل عرصہ نہایت دلجمعی سے اہم کتابوں  کی تدریس فرماتے رہے، بلکہ ان کی تدریس کا دائرہ اس سے بھی وسیع رہا، اللہ تعالیٰ نے انہیں  حرمین شریفین کی زیارت اور وہاں  قیام کا ذوق وشوق عطا فرمایا تھا، ان کی آرزو تھی کہ زندگی کے آخری ماہ وسال حرمین میں  حدیثی اشتغال کے ساتھ گزریں ، اور ہر سال حرمین میں  حاضر ہوتے اور بعض سالوں  میں  کئی کئی ماہ قیام پذیرہے، اس دوران مدینہ طیبہ کی ایک مسجد میں  ان سے استفادہ کے لیے درسِ حدیث کی مجلسیں  قائم ہوتیں  اور ان مجالس میں  عرب وعجم کے اہلِ علم شریک ہوتے رہے، ان مجالس میں  صحیح بخاری ودیگر کتبِ حدیث کے دروس جاری رہے، اہلِ علم ان سے مستفید ہوتے رہے اور استاذِ محترم کا تدریسی فیض عالمِ اسلام میں  پھیلتا رہا، مزید براں  تحقیق وتالیف کی سرگرمیوں  کے ساتھ جامعہ میں  جاری تحقیق کاموں  کی سرپرستی فرماتے رہے۔ کشف النقاب عما یقولہ الترمذي: وفي الباب، الإتحاف لمذہب الأحناف، حضرت بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  کے افاداتِ بخاری اور دیگر کاموں  میں  ان کی سرپرستی، توجہات، اور قیمتی آراء وتجاویز ہمیشہ شاملِ حال رہیں ، بلکہ میری انتظامی ذمہ داریوں  کے ابتدائی دنوں  میں  وہی جامعہ میں  تحقیقی کاموں  کے احیاء کے محرک رہے۔‎ 
نیز ان کی تالیفات سے پاک وہند اور دیگر بہت سے ملکوں  کے اہلِ علم و طلبہ علم مستفید ہو رہے ہیں ، بعض کتابیں  مختلف مدارس وجامعات کے نصاب میں  شامل ہیں ، ان کا فارسی ترجمہ قرآن ’’مجمع الملک فہد‘‘ (سعودی عرب) سے شائع ہوکر ہر سال ہزاروں  حجاج کرام وزائرین میں  تقسیم ہوتا ہے اور انہیں  فیضاب کررہا ہے۔ فارسی زبان میں  تفسیر بھی مکمل کرچکے تھے، ان شاء اللہ وہ بھی عنقریب شائع ہوگی۔ نیز وسطی ایشیاء کی مختلف ریاستوں  اور دیگر ممالک کی جانب ان کے اسفار بھی بار بار ہوتے رہے۔ ان ممالک کے عوام وخواص میں  ان کا فیض عام ہوتا رہا۔ غرض تعلیم وتربیت، تصنیف وتالیف اور اصلاح وارشاد سبھی شعبے ان کی خدمات کا دائرہ کار رہے۔ ان کے متنوع کاموں  اور ذمہ داریوں  کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیا ایک انسان اتنی خدمات سرانجام دے سکتا ہے؟‎!
استاذِ محترم نے نہایت سادہ وجفاکش زندگی گزاری، شہر کے ایک پوش علاقہ میں  رہائش پذیر تھے، لیکن دوسری اہلیہ محترمہ کی وفات کے بعد جامعہ میں  قیام کو ترجیح دیتے ہوئے اساتذہ کرام کی رہائشی عمارت میں  منتقل ہوگئے۔ صاحب زادے عزیزم مولانا عمر انور بدخشانی نے اپنی رہائش گاہ میں  ان کے لیے مستقل حصہ مختص کردیا تھا اور بارہا درخواست کرتے رہے کہ آپ اس مکان میں  منتقل ہوجائیں ، لیکن انہوں  نے جامعہ میں  ہی رہائش اختیار فرمائی، اور تادمِ آخر یہیں  رہائش پذیر رہے۔ چاہتے تو اپنے اور اپنی اولاد کے لیے بہت کچھ بناسکتے تھے، لیکن ہمیشہ ’’اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی اللہِ‘‘ کا مصداق بن کر زندگی گزاری، خود بھی علمی وتالیفی کاموں  میں  مشغول رہے اور اولاد کو بھی اسی رُخ پر ڈال گئے، مولانا عمر انور اور مولانا انس انور ان کے نقشِ قدم پر گامزن ہیں  اور چھوٹے صاحب زادے احمد انور بھی تعلیمی سلسلے جاری رکھے ہوئے ہیں ، اللہ تعالیٰ انہیں  بھی حضرت کا علمی وارث بنائے اور اُمید ہے کہ ان شاء اللہ! ساری اولاد اُن کے لیے ذخیرۂ آخرت ہوگی۔
استاذِ محترم فنا فی العلم تھے، ان کی تمام زندگی علمی سرگرمیوں  میں  بسر ہوئی، ہمیشہ صحت اچھی رہی، زندگی کے آخری عرصے میں  اگرچہ ظاہری اعتبار سے مختلف بیماریوں  اور جسمانی کمزوری کا شکار ہوگئے تھے، لیکن اس کے باوجود ذہن وحافظہ تروتازہ رہا، اور آخر تک قابلِ رشک علمی استحضار حاصل رہا۔ عزیزم مولانا عمر انور راوی ہیں  کہ: 
’’آخری دنوں  میں  اس مسئلہ پر تحقیق کررہے تھے کہ انسان کی وفات کے بعد روح کا مستقرّ کیا ہوگا؟! فرمانے لگے کہ: میں  نے اس مسئلہ کی بہت تحقیق کی اور غور وفکر کے بعد معارف القرآن میں  مفتی محمد شفیع  رحمۃ اللہ علیہ  کی ذکر کردہ علیّین اور سجّین کی تحقیق سے مجھے اطمینان ہوا ہے۔‎‘‘
استاذِ محترم کے داماد ، جامعہ کے استاذ اور میرے ہم درس ساتھی مولانا فیصل خلیل زید مجدہٗ کی روایت ہے کہ: ’’وفات سے تین روز پہلے حاضر ہوا، تو دریافت فرمایا: اس سال کونسی کتابیں  زیرِ تدریس ہیں ؟ دیگر کتابوں  کے ساتھ ’’توضیح‘‘ کا ذکر آیا اور میں  نے بتایا کہ وفاق المدارس نے اب ’’تلویح‘‘ کو نصاب سے خارج کرکے مکمل ’’توضیح‘‘ کو داخلِ نصاب کردیا ہے۔ اس فیصلے پر خوشی ومسرت کا اظہار کیا، اور خوش آئند قرار دیا، اور اصولِ فقہ میں  ’’توضیح‘‘ کو اہم کتاب قرار دیا۔ اور علامہ تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ  اور ’’تلویح‘‘ کے حوالے سے اسی طرح پرمغز تبصرہ فرمایا، جیسے اپنے تروتازگی کے دور میں  فرمایا کرتے تھے، اس نوعیت کے دسیوں  واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ تادمِ واپسیں  ان کو علمی استحضار حاصل رہا، اور کچھ کہنے کی سکت کم ہونے کے باوجود علمی گفتگو میں  مشغول رہتے تھے۔
استاذِ محترم  ؒگزشتہ کئی سال سے علیل تھے، اس دوران صاحب زادوں  ، صاحب زادیوں ، دامادوں   مفتی یحییٰ عاصم صاحب اور مولانا فیصل خلیل صاحب کو اُن کی خدمت کا خوب موقع ملا، اور انہوں  نے علاج ودوا میں  ہر ممکن کوشش کی۔ آخری ایام میں  بعض ایسے واقعات اور کیفیات بھی پیش آئیں  جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں  اپنے سفرِ آخرت کا اندازہ ہوگیا تھا، اور وہ اس کے لیے پوری طرح تیار تھے۔ اور پھر وقتِ موعود پر اللہ تعالیٰ کے دربار میں  حاضر ہوگئے۔ ان کی وفات کے موقع پر ذہن میں  یہ روایت گردش کر رہی ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے وصال کے بعد صحابہ کرام s جب نمازِ جنازہ ادا کرنے آتے تو یوں  کہتے جاتے: ’’آپ نے امانت کی ادائیگی، امتِ مسلمہ سے خیرخواہی ، اور راہِ خدا میں  جہاد کا حق ادا کردیا۔‘‘ استاذِ محترم کی طویل اور بھرپور متحرک حیاتِ مستعار اور کارناموں  پر نگاہ ڈالتے ہوئے یہ گواہی بے جا نہ ہوگی کہ انہوں  نے بھی اپنے اکابر خصوصاً حضرت بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  سے حاصل کردہ امانتوں  کا حق ادا کردیا، اپنے شیخ کی یادگار جامعہ کے خصوصاً اور اُمتِ مسلمہ کے عموماً ہمیشہ خیرخواہ رہے، اور اپنی علمی وعملی اور تالیفی تدریسی سرگرمیوں  کے ذریعے راہِ خدا میں  ساعی وکوشاں  رہے، جزاہ اللہ عنا وعن الأمۃ الإسلامیۃ خیر مایجزي عبادَہ الصالحین‎!
استاذِ محترم کے پس ماندگان میں  ان کی اولاد کے ساتھ لگ بھگ پچاس سال کے طویل تدریسی دورانیے میں  ان سے مستفید ہونے والے ہزاروں  شاگرد اور علم سے تعلق رکھنے والے تمام طبقات ہیں ، استاذِ محترم کا سانحۂ ارتحال محض ایک عالم کی وفات نہیں ، بلکہ حدیثِ نبوی کے مطابق اس دنیا سے علوم اُٹھنے کا مصداق ہے، یہ سانحہ محض اولاد و اقرباء اور جامعہ کے لیے صدمہ نہیں  ہے، بلکہ علومِ اسلامیہ سے وابستہ ہر فرد و ادارہ کا صدمہ ہے، آپ کے جانے سے علمی میدان میں  جو خلا پیدا ہوا ہے، گرد وپیش کے احوال کو دیکھتے ہوئے ظاہری اسباب میں  اس کا پُر ہونا دشوار محسوس ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اُن کی کامل مغفرت فرمائے، اُن کے علمی فیوض کو عام فرمائے، اور ہمیں  اُن کے نقوش وآثار پر گامزن رہنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین‎!

وصلی اللہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد و علٰی آلہٖ و صحبہٖ أجمعین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین