بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

بینات

 
 

عورتوں کا مسلمان یا غیرمسلم عورتوں سے پارلر سروسز لینا (ویکس کروانا، بال رنگوانا، مساج و مالش کروانا، وغیرہ)


عورتوں کا مسلمان یا غیرمسلم عورتوں سے پارلر سروسز لینا

(ویکس کروانا، بال رنگوانا، مساج و مالش کروانا، وغیرہ)

سوال:

1-آج کل جو عورتیں بالوں کو رنگ لگاتی ہیں یا ویکس کے ذریعہ جسم سے غیرضروری بال ہٹاتی ہیں، یا مالش کرتی ہیں، وہ عیسائی عورتیں ہوتی ہیں، کچھ عورتیں گھروں میں آنے والی عورتیں شریف ہوتی ہیں، ان کے گھروں میں شوہر بچے ہوتے ہیں، تو کیا اُن سے بال رنگواسکتے ہیں؟ یا ستر ڈھانک کر پاؤں کے گھٹنے سے نیچے یا بازؤوں سے یعنی ہاتھوں کے بال نکلواسکتے ہیں؟
2-جو عورتیں ہمارے گھروں میں خادمہ ہیں،جیسے ماسیاں، ان سے سخت پردہ یعنی ہر وقت ہی دوپٹہ سرپر ہو تو بہ ظاہر ممکن نہیں ہوتا، تو کیا اس کی اجازت ہے کہ ہم صحیح پردہ نہ بھی کریں تو ٹھیک ہے؟
3- اگر مسلمان عورت ہو تو کیا اس سے مالش کرواسکتے ہیں؟ عام دنوں میں اور خاص طور پر بچہ پیدا ہونے کے بعد ستر کو چھپالیں، مگر ہاتھ اندر کرکے وہ ستر والے حصوں کی مالش کردے بغیر کپڑا یا دستانہ کے؟
4-گدے پر یا بڑے قالین پر اگر پیشاب ہوجائے تو تین بار دھونا ہی ہوگا یا صرف کپڑے سے اچھی طرح صاف کرلیں اور سکادیں تو کافی ہوگا؟

الجواب باسم ملہم الصواب

 

1- خواتین کے لیے جسم کے غیر ضروری بالوں کو ویکس کے ذریعہ یا پاؤڈر وغیرہ سے صاف کرنا جائز ہے، البتہ ان بالوں کو نوچ کر نکالنا مناسب نہیں، کیوں کہ اس میں بلا وجہ اپنے جسم کو اذیت دینا ہے، البتہ اگر بلاتکلیف آسانی سے نوچ کر نکالے جاسکتے ہوں تو یہ زیادہ مناسب ہے۔ باقی عورت کا اعضاء مستورہ کے علاوہ غیر ضروری بالوں کو کسی دوسری مسلمان عورت سے صاف کروانا بھی جائز ہے، لیکن ستر والی جگہ کے غیر ضروری بالوں کو کسی دوسری عورت سے صاف کروانا جائز نہیں ہے ، خود صاف کرناضروری ہے۔
اور مرد و عورت دونوں کے لیے بالوں کو خالص سیاہ رنگ کے علاوہ دوسرے رنگوں سے رنگنا اور رنگوانا، جائز ہے۔ لیکن عیسائی، یہودی، مشرکہ عورتوں سے یہ دونوں کام کروانا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ مسلمان عورت کو ان سے پردہ کرنے کا حکم ہے، کافر عورتوں کے سامنے مسلمان عورت صرف چہرہ کھول سکتی ہے۔
2- عورت کے لیے نامحرم سے پردہ فرض ہے ، اور اس کا اہتمام ہر حال میں ضروری ہے۔
3- مسلمان عورت کے لیے دوسری مسلمان عورت سے ناف سے لے کر گھٹنوں سمیت حصہ کو چھپانا فرض ہے، لہٰذا اس حصہ کا کسی عورت سے بغیر ضرورتِ شرعیہ کے مالش کروانا جائز نہیں ہے ، خواہ یہ حصہ کھلا ہوا ہو، یا چھپا ہوا ہو، البتہ اس کے علاوہ حصے کی مالش کرواسکتی ہیں۔
4- گدایا قالین جس کو نچوڑنا مشکل ہو ، اگر ناپاک ہو جائے، تو اس کو پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک بار دھو کر رکھ لیا جائے ، جب قطرے ٹپکنے بند ہو جائیں ، تو دوبارہ دھویا جائے، پھر اسی طرح تیسری بار ، اور اگر نل کے نیچے رکھ کر اتنا دھویا جائے کہ اطمینان ہو جائے کہ نجاست نکل گئی ہو گی ، تب بھی پاک ہو جاتا ہے۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ گدا / قالین کو تین مرتبہ کسی پاک کپڑے سے اچھی طرح پونجھ لیا جائے اور ہر مرتبہ پونجھنے سے پہلے اس کپڑے کو صاف پاک پانی سے دھو لیا جائے ، تو تین مرتبہ اس طرح اچھی طرح پونجھ لینے سے وہ ناپاک حصہ پاک ہو جائے گا۔قرآن کریم میں ہے:
’’یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ ۝۰ۭ ذٰلِکَ اَدْنٰٓى اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ‘‘   (الاحزاب: ۵۹)
’’شعب الإیمان‘‘ میں ہے:
’’عن الحسن، قال: وبلغني أن رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم قال: ’’ لعن اللہ الناظر والمنظور إليہ۔‘‘(شعب الإیمان، فصل في الحمام : رقم:۷۳۹۹، ج:۱۰، ص:۲۱۴،  مکتبۃ الرشد)
’’سنن ابو داؤد‘‘ میں ہے:
’’عن ابن عباسؓ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم: يکون قوم يخضبون في آخر الزمان بالسواد کحواصل الحمام، لا يريحون رائحۃ الجنۃ۔‘‘ (أبوداؤد، باب ما جاء في خضاب السوار، ج:۴، ص: ۸۷،  الناشر: المکتبۃ العصريۃ، صيدا - بيروت)
’’فتاویٰ شامی‘‘ میں ہے: 
’’(والذميۃ کالرجل الأجنبي في الأصح، فلا تنظر إلی بدن المسلمۃ) (قولہ فلا تنظر إلخ) قال في غايۃ البيان وقولہ تعالی {اَوْ نِسَائِہِنَّ} [النور:۳۱] - أي الحرائر المسلمات، لأنہٗ ليس للمؤمنۃ أن تتجرد بين يدي مشرکۃ أو کتابيۃ اہـ ونقلہ في العنايۃ وغيرہا عن ابن عباسؓ، فہو تفسير مأثور وفي شرح الأستاذ عبد الغني النابلسي علی ہديۃ ابن العماد عن شرح والدہ الشيخ إسماعيل علی الدرر والقرر : لا يحل للمسلمۃ أن تنکشف بين يدي يہوديۃ أو نصرانيۃ أو مشرکۃ إلا أن تکون أمۃ لہا کما في السراج۔‘‘  (فصل في النظر و اللمس ،ج:۶ ، ص:۳۷۱، ط : سعيد)
’’فتاویٰ شامی‘‘ میں ہے:
’’(قولہ والنامصۃ إلخ) ذکرہ في الاختيار أيضا وفي المغرب: النمص: نتف الشعر ومنہ المنماص المنقاش اہـ ولعلہ محمول علی ما إذا فعلتہ لتتزين للأجانب، وإلا فلو کان في وجہہا شعر ينفر زوجہا عنہا بسببہ، ففي تحريم إزالتہ بعد، لأن الزينۃ للنساء مطلوبۃ للتحسين إلا أن يحمل علی ما لاضرورۃ إليہ لما في نتفہٖ بالمنماص من الإيذاء. وفي تبيين المحارم إزالۃ الشعر من الوجہ حرام إلا إذا نبت للمرأۃ لحيۃ أو شوارب، فلا تحرم إزالتہ بل تستحب۔ اہ۔‘‘  (فصل في النظر و اللمس  ،ج: ۶، ص:۳۷۳ : سعيد)
’’ہدایہ‘‘ میں ہے:
’’قال: وتنظر ’’المرأۃ من المرأۃ إلی ما يجوز للرجل أن ينظر إليہ من الرجل لوجود المجانسۃ وانعدام الشہوۃ غالبا۔‘‘  (الہدایۃ،  فصل في الوطء والنظر واللمس ، ج:۴ ، ص: ۳۷۰، ط: دار إحیاء التراث العربي)
’’درر الحکام شرح غرر الأحکام‘‘ میں ہے: 
’’(ينظر الرجل إلی الرجل إلا العورۃ) وہي من تحت سرتہ إلی تحت رکبتہ، فالرکبۃ عورۃ لا السرۃ، ثم حکم العورۃ في الرکبۃ أخف منہ في الفخذ، وفي الفخذ أخف منہ في السوأۃ، حتی يذکر عليہ في کشف الرکبۃ وفي الفخذ يعنف، وفي السوأۃ يضرب إن أصر (والمرأۃ للمرأۃ والرجل کالرجل للرجل) أي نظر المرأۃ إلی المرأۃ والرجل کنظر الرجل إلی الرجل حتی يجوز للمرأۃ أن تنظر منہما إلی ما يجوز للرجل أن ينظر إليہ من الرجل إذا أمنت الشہوۃ؛ لأن ما ليس بعورۃ لايختلف فيہ النساء والرجال۔‘‘  (فصل عورۃ الرجل والمرءۃ،ج:۳، ص:۳۱۳، ط: دار إحياء الکتب العربيۃ)
’’الاختیار لتعلیل المختار‘‘ میں ہے:
’’ولا بأس بأن يمس ما يجوز النظر إليہ إذا أمن الشہوۃ۔‘‘   (فصل النظر إلی العورۃ، ج:۴، ص:۱۵۵، ط: مطبعۃ الحلبي - القاہرۃ)
’’البحر الرائق شرح کنز الدقائق‘‘ میں ہے:
’’(قولہ: وغيرہ بالغسل ثلاثا وبالعصر في کل مرۃ) أي غير المرئي من النجاسۃ يطہر بثلاث غسلات وبالعصر في کل مرۃ۔‘‘  (باب الأنجاس،ج:۱، ص:۲۴۹، ط: دار الکتاب الإسلامي)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
’’وإن کانت غير مرئيۃ يغسلہا ثلاث مرات. کذا في المحيط ويشترط العصر في کل مرۃ فيما ينعصر ۔‘‘  (الفصل الأول في تطہير الأنجاس، ج:۱، ص:۴۲، ط: دار الفکر)
’’تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق‘‘ میں ہے: 
’’وبتثليث الجفاف فيما لا ينعصر) أي يطہر بالغسل ثلاث مرات وبالتجفيف في کل مرۃ فيما لا يمکن عصرہٗ کالخزف والآجر والخشب والحديد والجلد المدبوغ بالنجس؛ لأن للتجفيف أثرا في استخراج النجاسۃ وتفسير التخفيف أن يخليہ حتی ينقطع التقاطر ولا يشترط فيہ اليبس ۔‘‘  ( باب الأنجاس ، ج:۱، ص:۷۶، ط: المطبعۃ الکبری الأميريۃ - بولاق القاہرۃ)
’’حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح‘‘ میں ہے: 
’’أما إذا غمسہ في ماء جار حتی جری عليہ الماء أو صب عليہ ماء کثيرا بحيث يخرج ما أصابہ من الماء ويخلفہ غيرہ ثلاثا فقد طہر مطلقا بلا اشتراط عصر وتجفيف وتکرار غمس ہو المختار والمعتبر فيہ غلبۃ الظن ہو الصحيح، کما في السراج ولا فرق في ذلک بين بساط وغيرہ۔‘‘  (باب الأنجاس والطھارۃ منہا، ج:۱، ص:۱۶۲، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان)
البحر الرائقمیں ہے:
’’وفي المجتبی معزيا إلی صلاۃ البقالی أن الحصير تطہر بالمسح کالمرآۃ والحجر۔‘‘ (باب الأنجاس: النجس المرئي يطھر بزوال عینہ، ج:۱، ص: ۲۵۱، ط: دار الکتاب الإسلامي
درِ مختار میں ہے:
’’وغسل ومسح والجفاف مطہر۔‘‘ (کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس ، ج:۱، ص: ۳۱۵، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم 
فتویٰ نمبر : 1442-16233    

 دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین