بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 شوال 1446ھ 07 اپریل 2025 ء

بینات

 
 

غلط خبریں پھیلانے کی وبا!

غلط خبریں پھیلانے کی وبا!


سوشل میڈیا نے جہاں رابطوں کو عام، تعلقات کے دائرے کو وسیع اور مسافت کے پیمانے کو بدل کر ہر شخص کو کہنے، لکھنے کا موقع فراہم کیا ہے، وہاں جھوٹ، الزام تراشی اور غلط خبریں پھیلانے کی وبا بھی انتہائی عام اور آسان ہوگئی ہے۔ اس سے قبل تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔ دنیا کے کسی بھی گوشے میں ہونے والا واقعہ سوشل میڈیا کے ذریعے سیکنڈوں میں دوسری جگہ پہنچ جاتا ہے۔ خطر ناک اور افسوسناک بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر کسی بھی خبر یا افواہ کو تحقیق سے بھی پہلے پوری دنیا میں نشر کیا جاتا ہے۔ معلومات درست ہوں یا غلط، کوئی اس جھنجھٹ میں پڑتا ہی نہیں۔ 
اردو میں مشہور ضرب المثل ہے کہ ’’جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے‘‘ مگر اب سوشل میڈیا کے ذریعے اس کے ایسے پر نکل آئے ہیں، جس نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔ ہمارے ماحول میں زندگی کا کوئی گوشہ اس سے خالی نہیں رہا: چھوٹے بھی، بڑے بھی، امیر بھی، فقیر بھی، رئیس بھی، مزدور بھی، خوش حال بھی، مفلس بھی، عالم بھی، جاہل بھی، نامور بھی، گمنام بھی، تعلق دار بھی، رعایا بھی، مجسٹریٹ بھی اور چپڑاسی بھی، مذہبی اور سیاسی اختلاف رکھنے والے بھی نیچے سے اوپر تک اس وبا کا شکار نظر آتے ہیں۔ کھلا جھوٹ تو ایسی چیز ہے جسے ہر شخص برا سمجھتا ہے، اس میں مسلمان اور کافر کی بھی قید نہیں، ان سے بھی اگر پوچھا جائے کہ جھوٹ بولنا کیسا ہے ؟ تو یقیناً ان کا جواب بھی یہی ہوگا کہ بہت برا ہے، لہٰذا ایسے لوگوں کو جب کبھی اپنے کردار کی درستگی کا خیال آئے گا تو وہ جھوٹ سے بھی توبہ کر لیں گے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ دورِ حاضر میں جھوٹ کی بہت سی ایسی صورتیں تیزی سے وجود میں آگئی ہیں، جنہیں بہت سے لوگ جھوٹ سمجھتے ہی نہیں، لہٰذا انہیں یہ خیال ہی نہیں آتا کہ ان سے کوئی غلط کام سرزد ہورہا ہے ، حالانکہ اسلام نے توان چور دروازوں کی بھی نشاندہی فرمائی ہے جہاں سے انسان کی نفسانی خواہشات حیلے بہانے تلاش کرسکتی ہیں۔ 
نفسِ انسانی کی ایک فطرت یہ ہے کہ جس برائی کا الزام وہ براہِ راست اپنے سر نہیں لینا چاہتا، اسے کسی اور شخص کے کندھے پر رکھ کر انجام دینے کی کوشش کرتا ہے، تاکہ مقصد بھی حاصل ہوجائے اور اپنے اوپر حرف بھی نہ آئے۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جھوٹ کے سلسلے میں انسان کی اس نفسانی کیفیت کو نہایت لطیف اور بلیغ پیرائے میں بیان فرمایا ہے۔ حضرت امام غزالی  رحمۃ اللہ علیہ  نے ’’إحیاء العلوم‘‘ میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ ارشاد ان الفاظ میں نقل فرمایا ہے: ’’بِئس مطیّۃ الکذب زَعَمُوا‘‘ جھوٹ کی بدترین سواری یہ فقرہ ہے کہ ’’لوگ یوں کہتے ہیں۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ براہِ راست جھوٹ بولنے سے کتراتے ہیں، وہ بے بنیاد اور بے تحقیق باتیں لوگوں کے سر پر رکھ کر کہہ دیتے ہیںکہ: ’’لوگ تو یوں کہتے ہیں: ’’لوگوں میں یہ بات مشہور ہے ‘‘، ’’لوگوں کا کہنا تو یہ ہے۔‘‘ یہ وہ جملے اور فقرے ہیں جو جھوٹ کے الزام سے بچنے کے لیے ایک ڈھال کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں ۔ جھوٹ جو اپنے پاؤں چل کر نہیں پھیل سکتا، اس قسم کے فقروں پر سوار ہو کر پھیل جاتا ہے ، اسی لیے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس فقرے کو ’’جھوٹ کی سواری‘‘ قرار دیا۔ 
یہ تو ایک لطیف اور استعاراتی پیرائے کا بیان تھا جو حقائق پر نگاہ رکھنے والوں کے لیے بڑا مؤثر اور دل میں اُتر جانے والا ہے، لیکن اسی بات کو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک اور حدیث میں بالکل سادہ اور عام فہم الفاظ میں بھی ارشاد فرمایا جسے ہر شخص ہی سمجھ جائے، فرمایا: ’’کفٰی بِالمرءِ کَذِباً أن یُحدِّثَ بکُلّ ما سَمِعَ‘‘ ، ’’انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنی بات ہی کافی ہے کہ وہ ہر وہ بات دوسروں کو سنانے لگے جو اس نے کہیں سے بھی سن لی ہو۔ ‘‘
دونوں ارشادات کا منشا اور مقصد درحقیقت یہ بتانا ہے کہ ایک سچے مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ہر کچی پکی بات جو کہیں سے اُڑتی ہوئی ہاتھ آگئی، اسے آگے چلا دے ۔ یاد رکھیے! اس سے افواہیں جنم لیتی ہیں، جھوٹی باتیں معاشرے میں پھیلتی ہیں اور متضاد افواہوں کے گرد وغبار میں حقیقت کا چہرہ مسخ ہوکر رہ جاتا ہے ۔
قرآن کریم نے بھی ایسی بےتحقیق افواہیں پھیلانے کی پر زور مذمت کی ہے۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہدمبارک میں یہ منافقین کا وطیرہ تھا کہ وہ مسلمانوں کے درمیان ایسی افواہیں پھیلاتے رہتے تھے جن سے لوگوں میں بے چینی اور تشویش پیدا ہوتی تھی اور دشمنوں کو فائدہ پہنچتا تھا۔ قرآن کریم نے ان کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : 
’’وَاِذَا جَاۗءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِہٖ ۝۰ۭ وَلَوْ رَدُّوْہُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِی الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْۢبِطُوْنَہٗ مِنْھُمْ ۝۰ۭ‘‘       ( سورۃ النساء: ۸۳) 
’’جب بھی امن یا خوف (جنگ) کے بارے میں انہیں کوئی بات پہنچتی ہے، وہ اسے پھیلانے میں لگ جاتے ہیں، اگر وہ اسے (پھیلانے ) کے بجائے پیغمبر تک اور ذمہ دار لوگوں تک پہنچاتے تو وہ لوگ اس کی حقیقت جان لیتے جو اس کی کھود کر (تحقیق) کر سکتے ہیں ۔ ‘‘
قرآن و سنت کے ان ارشادات سے اسلام کا جو مجموعی مزاج سامنے آتا ہے، وہ یہ ہے کہ جب تک کسی بات کی مناسب تحقیق نہ ہوجائے، اس وقت تک اسے دوسروں کے سامنے بیان کرنا یا پھیلانا جائز نہیں ۔ اگر کوئی شخص اس قسم کی بے تحقیق بات کو پورے وثوق اور یقین سے بیان کرے تب تو ظاہر ہے کہ وہ خلافِ واقعہ اور غلط بیانی کے ذیل میں آتا ہے، لیکن اگر بالفرض وثوق کے ساتھ بیان کرنے کے بجائے ’’لوگ کہتے ہیں ‘‘ جیسے فقرے کا پردہ اور آڑ لے کر بیان کرے، لیکن مقصد یہی ہے کہ سننے والے اسے سچ باور کرلیں، تب بھی مذکورہ بالا احادیث کی روشنی میں ایسا کرنا جائز نہیں ۔
دراصل اسلام کا مقصد یہ ہے کہ ہر مسلمان معاشرے کا ایک ذمہ دار فرد بن کر زندگی گزارے۔ اس کے منہ سے جو بات نکلے، وہ کھری اور سچی بات ہو اور وہ اپنے کسی قول و فعل سے غیر ذمہ داری کا ثبوت نہ دے ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ‘‘ (سورۂ ق :۱۸)
انسان جو بات بھی زبان سے نکالتا ہے، اسے محفوظ رکھنے کے لیے ایک نگہبان ہر وقت تیار ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انسان یہ نہ سمجھے کہ جو بات وہ زبان سے نکال رہا ہے، وہ فضا میں تحلیل ہو کر ختم ہوجاتی ہے، بلکہ منہ سے نکلی ہوئی ہر بات کہیں ریکارڈہورہی ہے، اور آخرت میں اس سارے ریکارڈ کا ہر شخص کو جواب دینا ہوگا ۔
ان تمام تر اسلامی تعلیمات اور تاکیدات کے باوجود ہم اتنے بے قابو ہوچکے ہیں کہ ہمیں ذمہ داری کا ذرہ برابر احساس ہی نہ رہا۔ اور ہماری حالت یہ ہوگئی ہے کہ کہیں سے بھی کوئی اُڑتی ہوئی بات ہاتھ آگئی، اسے تحقیق کے بغیر دوسروں تک پھیلانے اور پہنچانے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے، اور بے دھڑک ایک دوسرے کو اس طرح کی باتیں بھیج دیتے ہیں، جس کی وجہ سے فضا میں ہر وقت افواہوں کا ایک طوفان اور سیلاب برپا رہتا ہے۔
 ابھی حال ہی میں سوشل میڈیا پر صحافیوں کی ایک فہرست جاری ہوئی اور واٹس اپ کے مختلف گروپوں میں نشر ہوتی رہی، بغیر ثبوت اور تحقیق کے ان صحافیوں کے متعلق اس میں کہا گیا تھا کہ: ’’یہ سب قادیانی ہیں ۔‘‘ کئی حضرات سادگی میں اسے کارِ خیر سمجھ کر عام کرتے رہے، جبکہ ان ناموں میں کئی حضرات ایسے تھے جنہوں نے خود قادیانیت کے خلاف کام کیا ہے ۔ اس سلسلے میں سیاسی اختلاف رکھنے والے کارکنوں کی حالت ناقابلِ بیان ہے۔ 
کچھ دن پہلے سوشل میڈیا کے ایک نیٹ ورک میں ایک عالم کے متعلق یہ کہا گیا کہ انہوں نے پینتالیس لاکھ کی لسی نوش فرمائی ہے، کئی لوگ اسے سچ مچ سمجھ کر تبرا کر رہے تھے ۔ یوں تو ہر قسم کی خبر میں احتیاط اور ذمہ داری کی ضرورت ہے، لیکن جس چیز کے نتیجے میں کسی دوسرے پر کوئی الزام لگتاہو، اس میں تو احتیاط کی ضرورت اور بھی زیادہ ہے، کیونکہ اس سے کسی دوسرے انسان کی عزت و آبرو کا مسئلہ وابستہ ہے۔
اور بلا تحقیق افواہوں کی بنیاد پر کسی انسان کی عزت کو مجروح کرنا صرف جھوٹ ہی نہیں، بہتان بھی ہے، اور حقوق العباد میں سے ہونے کی وجہ سے زیادہ خطرناک اور سنگین جرم ہے، لیکن ہمارے موجودہ ماحول میں کسی شخص پر کوئی الزام عائد کرنا ایک کھیل بن کر رہ گیا ہے، جس میں کسی تحقیق اور ذمہ داری کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی۔ بالخصوص اگر کسی شخص سے ذاتی، جماعتی یا سیاسی اختلاف ہو تو اس کی غیبت کرنا، اس پر بہتان باندھنا اور اسے طرح طرح سے بے آبرو کرنا بالکل جائز اور حلال سمجھ لیا گیا ہے۔
جھوٹ کی اس وبا نے غلط بیانی اور بہتان طرازی کی برائی دلوں سے نکال دی ہے، اور ہر غیر ذمہ دار شخص کو یہ حوصلہ ہوگیا ہے کہ وہ بے بنیاد سے بے بنیاد بات بے دھڑک معاشرے میں پھیلا دے۔ 
نیز اس صورت حال میں ایک انتہائی خطرناک بات یہ بھی ہے کہ غلط الزامات کے سیلاب میں حقیقی مجرموں کو فی الجملہ پناہ مل گئی ہے، یعنی جو لوگ واقعی خطا کار اور بد عنوان ہیں، انہیں بدنامی کا زیادہ خطرہ باقی نہیں، اس لیے وہ یہ سوچتے ہیں کہ اگر کوئی خبر ہماری بد عنوانی کے بارے میں اُڑی تو وہ اسی طرح مشکوک سمجھی جائے گی، جیسے اور بہت سی بے تحقیق باتوں کو سنجیدہ لوگ مشکوک سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں، چنانچہ بد عنوان افراد آرام سے بد عنوانیوں میں ملوث رہتے ہیں اور بہت سے بے گناہوں کے دامن پر داغ لگ جاتا ہے ۔ 
یہ ٹھیک ہے کہ ہمارے معاشرے میں غیر ذمہ دارانہ باتیں بے حد پھیل گئی ہیں، لیکن مسئلہ اس صورت حال کی مذمت کرتے رہنے سے حل نہیں ہوسکتا، جب تک ہم میں سے ہر شخص اپنی اپنی جگہ پر اسے تبدیل کرنے کا پختہ عزم نہ کرے ۔ دوسروں پر نہ سہی، لیکن ہر شخص کو اپنے آپ پر مکمل اختیار حاصل ہے، جسے کام میں لائے بغیر یہ صورت حال تبدیل نہ ہوگی ۔ 
( نوٹ : واضح رہے کہ اس مضمون میں حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی کتاب ذکر و فکر سے استفادہ کیا گیا ہے ۔ ) 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین