فلسطین پر اسرائیلی درندگی و جارحیت کا ایک سال
الحمد للہ وسلامٌ علٰی عبادہ الذین اصطفٰی
۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ ء سے شروع ہونے والی فلسطینیوں پر صہیونی اور ان کے ہم نواؤں کی درندگی و جارحیت کو ایک سال مکمل ہوچکا ہے، جس میں چالیس ہزار سے زائد شہید ہوچکے ہیں، جن میں زیادہ تر تعداد معصوم بچوں اور خواتین کی ہے، اور ایک لاکھ سے زائد زخمی اور بے گھر ہو چکے ہیں، مکانات کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا اور ہزاروں معصوم جانیں ملبے کے نیچے دبی ہوئی ہیں۔ ٹھیک ایک سال قبل اسرائیلی مظالم سےستائے ہوئے فلسطینیوں کی نمائندہ تنظیم حماس نے ظالم و جابر اور قابض و غاصب ملک اسرائیل کے خلاف جہادی کارروائیوں کا آغاز اس وقت کیا تھا ‘ جب عالمِ کفر سمیت عالمِ اسلام میں سے کچھ مسلمان ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا اور کئی اہم اسلامی ممالک کی جانب سے ناجائز ریاست اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بازگشت سنائی دینے لگی تھی، لیکن حماس کے جرأت و بہادری سے سرشار ان حملوں نے تمام دنیا کو سوچنے پر مجبور کر دیا، اور آج ایک سال بعد پوری دنیا اسرائیلی ظلم و ستم کی عینی شاہد و گواہ بن چکی ہے۔ اور اسلامی ممالک نے بھی اسرائیل کو اس وقت تک تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے، جب تک کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔
طوفان الاقصیٰ کے نام سے۷ ؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کو جب حماس کی قیادت میں فلسطینی مجاہدین نے غزہ کی پٹی سے اسرائیل کے خلاف بڑے پیمانے پر حملے کا آغاز کیااور مجاہدین اسرائیلی رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے غزہ کی سرحدی گزرگاہوں کے ذریعے قریبی اسرائیلی بستیوں میں داخل ہو ئے تو یہ ۱۹۴۸ ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل کی حدود میں پہلا براہِ راست حملہ تھا۔
فلسطینی جدوجہد کے لیے حماس قیادت نے بھی اپنے گھرانوں کی قربانیاں پیش کی ہیں، چنانچہ حماس سربراہ اور فلسطین کے سابق وزیراعظم اسماعیل ہنیہ شہیدؒ کے بیٹوں اور بہن سمیت خاندان کے ۷۹ افراد اسرائیلی حملوں میں جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں، شہادت تک اسماعیل ہنیہؒ اپنے موقف پر چٹان کی طرح ڈٹ کر کھڑے رہے تھے۔ تہران میں شہید ہونے والے اسماعیل ہنیہؒ کےحوصلے ہمیشہ بلند رہے، اپنی شہادت سے قبل اپنے بیٹوں اور پوتے سمیت فیملی کے دیگر افراد کی شہادت پر بھی فلسطینی رہنما صیہونی جارحیت کے سامنے ڈٹے رہے اور کبھی ان کا حوصلہ پست نہ ہوا۔ غزہ جنگ کے دوران اسماعیل ہنیہؒ کے خاندان کے درجنوں جنازے اُٹھے، مگر وہ حق کی جنگ لڑتے رہے۔ اسرائیلی حکام نے اسماعیل ہنیہؒ کوزک اور تکلیف پہنچانے کی غرض سے عید پر بھی غزہ کی پٹی میں فضائی حملہ کرکے ان کے تین بیٹے اور پوتے شہید کردیے تھے۔بیٹوں کی شہادت پر اسماعیل ہنیہؒ نے ردِعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ: شہادتوں سے ہمیں آزادی کی اُمید ملتی ہے، پیچھے نہیں ہٹیں گے، چاہے بچے شہید اور گھر تباہ کردیے جائیں۔ غزہ کے الشاطی کیمپ میں اسرائیلی فوج کے فضائی حملے میں حماس سربراہ کی بہن اور دیگر رشتے دار شہید ہوگئے تھے۔ ترجمان حماس خالد قدومی کے مطابق اسماعیل ہنیہؒ کے بیٹوں سمیت خاندان کے اُناسی افراد شہید ہوچکے ہیں۔
اسرائیل اس جنگ میں بری طرح پھنس چکا ہے، اس لیے وہ باہر نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے، اسی بدحواسی میں اب اسرائیلی فضائیہ نے لبنان کے سرحدی قصبے شعبہ پر حملہ کیا‘ جس میں ایک ہی خاندان کے نو افراد شہید ہوگئے۔ جب کہ اب تک لبنان میں اسرائیلی حملوں سے تقریباً ۷۰۰ افراد لقمۂ اَجل بن چکے ہیں۔ اسرائیل حزب اللہ کی فوجی صلاحیتوں اور سینئر حزب اللہ کمانڈروں کو نشانہ بنا رہا ہے، اسرائیل کے اعلیٰ حکام نے دھمکی دی ہے کہ اگر حزب اللہ کی فائرنگ جاری رہی تو لبنان میں بھی غزہ کی طرح تباہی دہرائی جائے گی۔ حزب اللہ نے حماس کی حمایت میں شمالی اسرائیل پر جب سے راکٹ داغنے شروع کیے ہیں، اس کے بعد سے اسرائیلی جوابی حملوں کے نتیجے میں لبنان میں ہزاروں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ نیز اسرائیل کے لبنان پر پیجر حملوں سے واکی ٹاکی پھٹنے سے ۲۰؍افراد جاں بحق جبکہ ۴۵۰سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔کئی پیجرز پھٹنے سے دو بچوں سمیت ۱۲؍افراد شہید اور تقریباً ڈھائی ہزار زخمی ہوئے۔پیجر پھٹنے کے واقعات میں اکثر لوگوں کو چہرے، ہاتھ یا پیٹ پر چوٹیں آئی ہیں۔
۲۸؍ ستمبر ۲۰۲۴ء کو اقوامِ متحدہ کے سالانہ اجلاس میں پاکستانی وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف نے اسرائیلی جارحیت کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ آزاد فلسطینی ریاست جس کا دارالحکومت القدس ہو، کو اقوام متحدہ کا رکن بنایا جائے۔ نیز اسرائیلی وزیر اعظم کی تقریر کے دوران پاکستان اور ایران سمت کئی ممالک نے احتجاجاً واک آئوٹ کیا اور اسرائیل کو باور کرایا کہ وہ خطے میں تنہا ہوتا جارہا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم کی تقریر کےدوران شور شرابا ہوا اور موجود اراکین نے بھی اسرائیل کے خلاف غم و غصے کا اظہار کیا، مگر اسرائیل نے اپنے وزیر اعظم کی تقریر کے عین دوران لبنان میں اسرائیل کے خلاف برسرِپیکار تنظیم حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کو نشانہ بنایا اور اپنے راستے سے ہٹانے میں کامیاب ہوگیا۔
اس سب کے باوجود مجاہدینِ القدس کے حوصلے پست نہیں ہوئے ہیں اور وہ ارشادِ نبوی :
’’لَاتَزَالُ طَائِفَۃٌ مِنْ اُمَّتِیْ یُقَاتِلُوْنَ عَلَی الْحَقِّ ظَاہِرِیْنَ عَلیٰ مَنْ نَاوَاہُمْ حَتّٰی یُقَاتِلَ آخِرُہُمُ الْمَسِیْحَ الدَّجَّالَ۔‘‘ (ابودائود:۱، ص:۲۸۸، ۲۸۹)
’’میری اُمت کی ایک جماعت حق پر جہاد کرتی رہے گی، دشمنی کرنے والوں پر غالب رہے گی، حتیٰ کہ ان کے آخری افراد مسیح دجال کے ساتھ لڑیں گے۔‘‘
کا مصداق و پیکر بنے، صبر و استقلال اور عزیمت و شہادت کی راہ پر چلتے ہوئے اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہیں اور دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد اور ظالم و جابر اسرائیل انہیں جادئہ مستقیمہ سے روگرداں نہ کرسکا۔ اللہ تعالیٰ ان کی قربانیوں کو قبول فرمائے، شہداء کے درجات بلند فرمائے اور اُمتِ مسلمہ کو ان کے لیے دامے، درمے، قدمے، سخنے کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!