آج کے یہودی یا نام نہاد بنی اسرائیل کچھ بے بنیاد دعوے کی بنا پر فلسطین پر قبضہ کرچکے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ فلسطین کے اصلی حقدار ہیں۔ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو فلسطین کی زمین کا وعدہ کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین کی سرزمین کو یہودی لوگ ’’ارضِ موعود‘‘ اور انگریزی زبان میں (The Promised Land) یعنی ’’وہ زمین جس کا وعدہ کیا گیا‘‘ کہتے ہیں، پھر وہ اپنی تاریخ کو ارضِ فلسطین سے اس طرح جوڑتے ہیں کہ ان کے جدّ امجد سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو یہ زمین عنایت کی گئی تھی۔ ایک زمانے میں یہودی اس سرزمین پر پائے جاتے تھے، اس سرزمین پر ایک مدت تک اُن کے آباء واجداد نے حکومت کی، اسی سرزمین پر ان کا ہیکل تعمیر ہوا تھا، اسی سرزمین پر حضرت داؤد علیہ السلام کی قبر ہے، اسی سرزمین پر مسجد اقصیٰ کے مغرب میں ان کا مقدس ’’دیوارِ گریہ‘‘ ہے، ان کا اس سرزمین سے روحانی تعلق ہے اور وہ سرزمین ان کے لیے مقدس ہے، وغیرہ وغیرہ۔ آج کی دنیا میں جس طرح بہت سے دوسرے افکار و نظریات اور تہذیب و تمدن کے پیروکاروں کو اپنے افکار و نظریات اور عقائد کو بیان کرنے کی کھلی آزادی ہے، اسی طرح یہودیوں کو بھی اپنے افکار و نظریات اور عقائد بیان کرنے کا پورا حق اور آزادی ہے، مگر انھیں یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے افکار و نظریات دوسروں پر تھوپیں اور ان کا دوسروں کو پابند کریں۔ کسی بھی دین اور ملت کے ماننے والے اور اسی طرح یہودیوں کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنے افکار اور عقائد کی بنیاد پر کسی قوم کو ان کے گھروں سے نکال دیں، ان کی عبادت گاہوں پر قبضہ کرلیں، ان کی موروثی زمین کو ہڑپ کرلیں، ان کے مکان و دکان کو غصب کرلیں اور وہاں مکانات تعمیر کرکے اپنے دین و عقائد کے ماننے والوں کے حوالے کردیں۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو یہ اخلاقی، سماجی اور قانونی طور پر جرم ہے۔
یہودیوں کا یہ ماننا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو فلسطین کی زمین کا وعدہ کیا تھا، اس کی بنیاد یہ اقوال ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام سے کہا تھا کہ اپنے وطن، اپنے لوگ اور والد کے خاندان کو چھوڑدو اور اس جگہ جاؤ جو میں تمھیں دکھاؤں گا۔‘‘ (Genesis:۱۲:۱)
نیز یہ کہ :
’’اللہ تعالیٰ سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر ظاہر ہوئے اور کہا: میں یہ ملک تیری اولاد کو دوں گا۔ ‘‘ (Genesis:۱۲:۷)
ان عبارتوں کے علاوہ بھی تورات میں پائے جانے والی چند دوسری عبارتوں کے سہارے یہودی فلسطین کو ’’ارضِ موعود‘‘ کہتے ہیں اور اس پر اپنا حق جتاتے ہیں۔ ارضِ موعود کی حقیقت کے حوالے سے عیسائیوں کے پوپِ اعظم کا یہ نظریہ ہے کہ وہ وعدہ نہایت ہی مشکوک ہے۔ عیسائی اسکالرز کا ماننا ہے کہ بائبل میں جو وعدہ ہے، وہ بہت سی شرطوں کے ساتھ مشروط ہے، مگر یہودیوں نےاللہ کی نافرمانی کی،ان شرطوں کو پورا نہیں کیا اور اس سرزمین پر بداعمالیاں شروع کردیں؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کو سزا دی؛ لہٰذا اب اس وعدے کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے: القدس قضیۃ کل مسلم للدکتور یوسف القرضاوي، ص: ۷۶ -۸۰)
اس میں کوئی شک نہیں کہ بنی اسرائیل اَڑیل، سرکش، مجرم اور بدبخت لوگ تھے۔ انھوں نے نہ صرف سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے بعد، بلکہ ان کی زندگی میں بھی ان کی نافرمانی کی اور احکامِ خداوندی کو ماننے سے انکار کیا۔ بنی اسرائیل کے لیے مصر میں حالات سازگار نہیں تھے۔ مصر کے حکمراں فرعون نے ان کو غلام بنا رکھا تھا۔ انھوں نے مصر میں چار سو تیس سال کی مدت بڑی کسمپرسی میں گزاری، پھر ایک وقت آیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے لشکر کو غرق کردیا اور بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ وہ فلسطین میں جاکر آباد ہوجائیں، جو اُن کے لیے مقدر کردی گئی ہے۔ (مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فلسطین کو ہمیشہ کے لیے بنی اسرائیل کے لیے ’’ارضِ موعود‘‘ بنایا ہے اور وہ ہمیشہ فلسطین میں رہیں گے، جیسا کہ یہودیوں کا ماننا ہے۔ ) اس وقت فلسطین پر جس قوم کا قبضہ تھا، وہ عمالقہ سے جانی جاتی تھی اور وہ کافر تھی، چنانچہ بنی اسرائیل کو ان سے جہاد کرنا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا تھا کہ جہاد میں بنی اسرائیل کو فتح ہوگی۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام اس حکم کے مطابق فلسطین کے لیے روانہ ہوئے۔ جب یہ لوگ فلسطین کے قریب پہنچے تو پتہ چلا کہ عمالقہ بڑے ڈیل ڈول کے مالک اور طاقتور لوگ ہیں، چنانچہ بنی اسرائیل کو شکست کا خدشہ ہوا اور یہ فراموش کرگئے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو فتح کا وعدہ کیا ہے اور اللہ کا وعدہ پورا ہوکر رہے گا؛ چنانچہ بنی اسرائیل نے فلسطین میں داخل ہونے سے انکار کردیا اور اس پر اُن کو سزا دی گئی۔ جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو فلسطین کی طرف چلنے کو کہا؛ تو بنی اسرائیل نے ان کو جو جواب دیا:
’’قَالُوْا يٰمُوْسٰیٓ إِنَّا لَنْ نَّدْخُلَہَا أَبَدًا مَّا دَامُوْا فِيْہَا فَاذْہَبْ أَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَآ إِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوْنَ‘‘ (المائدہ: ۲۴)
ترجمہ: ’’ کہنے لگے کہ: اے موسیٰ ہم تو ہرگز کبھی بھی وہاں قدم نہ رکھیں گے جب تک وہ لوگ وہاں موجود ہیں تو آپ اور آپ کے اللہ میاں چلے جائیے اور دونوں لڑبھڑ لیجیے، ہم تو یہاں سے سرکتے نہیں۔ ‘‘
بنی اسرئیل کے اس بھونڈے جواب اور نافرمانی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو سزا دی۔ سزا یہ تھی کہ چالیس سال تک فلسطین میں ان کا داخلہ بند کردیا گیا۔ یہ لوگ صحرائے سینا کے ایک چھوٹے سے علاقے یعنی میدانِ تیہ میں بھٹکتے رہے، نہ آگے بڑھنے کا راستہ ملتا تھا، نہ پیچھے مصر واپس جاتے، وہ دن بھر چلتے، جب شام ہوتی تو پھر وہ اسی مقام پر پہنچ جاتے، جہاں سے صبح چلے تھے۔ قرآن کریم میں ہے:
’’قَالَ فَإِنَّہَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَيْہِمْ أَرْبَعِيْنَ سَنَۃً يَتِيْہُوْنَ فِي الْأَرْضِ فَلَا تَأْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفٰسِقِيْنَ‘‘ (المائدہ: ۲۶)
ترجمہ: ’’ ارشاد ہوا تو یہ ملک ان کے ہاتھ چالیس برس تک نہ لگے گا، یوں ہی زمین میں سر مارتے پھرتے رہیں گے ، سو آپ اس بےحکم قوم پر غم نہ کیجیے۔‘‘
قرآن کریم نے فلسطین میں بنی اسرائیل کے داخل ہونے سے انکار، ان کی نافرمانی اور اس پر ان کو دی جانے والی سزا کو ان دو مذکورہ آیتوں میں بیان کیا ہے۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت کے وقت سے لے کر، سیدنا اسحاق علیہ السلام کا زمانہ، پھر یعقوب علیہ السلام کا زمانہ، پھر ان کا اپنے کنبہ کے ساتھ مصر ہجرت کرنا، پھر بنی اسرائیل کا چار سو تیس سال بعد فلسطین کے لیے لوٹنا اور سزا کے طور پر چالیس سالوں تک صحرائے سینا کے میدانِ تیہ میں بھٹکنا، یہ تقریباً ’’سات سو سال‘‘ کا لمبا عرصہ ہے۔ تورات کی وضاحت کے مطابق اس مدت میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اولاد اور بنی اسرائیل فلسطین کی زمین کے ایک بالشت کے بھی مالک نہیں تھے۔ یہ ایک اہم سوال ہے کہ اگر فلسطین بنی اسرائیل کے لیے ’’ارضِ موعود‘‘ ہے؛ تو پھر اتنے لمبے عرصے تک وہ فلسطین کی زمین کے ایک بالشت کے بھی مالک کیوں نہیں بن سکے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مسافر اور اجنبی بن کر آتے جاتے رہے اور بوقتِ ضرورت وہ فلسطین میں پناہ لیتے رہے۔ اس بات سے ہر شخص واقف ہے کہ مسافر جس مقام کا سفر کرتا ہے یا پناہ گزیں جس مقام پر پناہ لیتا ہے، وہ اس جگہ کا مالک نہیں بن جاتا۔ (القدس قضیۃ کل مسلم، ص:۵۰ -۵۱)
فلسطین کی سرزمین پر یہودیوں کا حق نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سرزمین بنی اسرائیل کو اس وقت دی گئی تھی؛ جب کہ انھوں نے اللہ کے نبیوں اور رسولوں (علیہم السلام) کی قیادت میں اللہ کی وحدانیت کا جھنڈا بلند کیا اور توحید ورسالت پر استقامت کے ساتھ ڈٹے رہے۔ جب وہ توحید ورسالت کے پیغام سے منحرف ہوگئے، پیغامِ خداوندی کو بدل دیا، متعدد انبیاء علیہم السلام کا قتل کیا اور زمین میں فساد مچایا؛ تو ان کی ذلت وپستی شروع ہوئی۔ ان کو فلسطین سے ذلیل کرکے نکالا گیا۔ ان کواس وقت کے کچھ حکمرانوں نے غلام بنایا اور بیت المقدس سے باہر نکال دیا۔ یہ ایک طرح کی سزا تھی جو بنی اسرائیل کو اس زمانے میں دی گئی، پھر فلسطین پر یہودیوں کا کوئی حق نہیں رہا۔
سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ورسالت کے بعد مسلمان اللہ کی وحدانیت کے سچے علم بردار اور انبیائی میراث کے حقیقی وارث ہیں۔ مسلمان وہ واحد امت ہے جو اللہ کی وحدانیت پر یقین رکھتی ہے اور انبیاء ورسل علیہم السلام کی دعوت وتعلیمات لوگوں تک پہنچا رہی ہے۔ اسلام کی دعوت در حقیقت سیدنا ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب، موسیٰ، یوشع، داؤد، سلیمان، عیسیٰ اور دوسرے انبیاء علیہم السلام کی دعوت کا استمرار و امتداد ہے، چنانچہ بنی اسرائیل کا ان انبیاء کرام (o) کی دعوت سے منحرف ہوجانے کے بعد اب ان کی میراث کے سب سے زیادہ مستحق مسلمان ہیں۔ یہ اہم نکتہ ہے کہ فلسطین کی سرزمین بنی اسرائیل کو کسی خاص نسل سے تعلق رکھنے کی وجہ سے نہیں دی گئی؛ چنانچہ فلسطین کی سرزمین پر حق جتانے کا مسئلہ رنگ ونسل سے متعلق نہیں ہے، بلکہ یہ مسئلہ ان انبیاء کرام (o) کے منہج اور طریقہ کار کی پیروی سے متعلق ہے؛ چنانچہ مسلمانوں کا یہ ماننا ہے کہ ان انبیاء (o) کا سرمایہ مسلمانوں کا سرمایہ ہے، ان کا دعوتی کام مسلمانوں کا دعوتی کام ہے، ان کی تاریخ مسلمانوں کی تاریخ ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس مقدس سرزمین پر حکمرانی کا جو موقع ابراہیم علیہ السلام کی اولاد اور ان کے پیروکاروں کو دیا، اب مسلمان اس سرزمین پر حکمرانی کے زیادہ مستحق ہیں؛ کیوں کہ آج سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے اصل پیروکار مسلمان ہیں۔ جو لوگ آج اپنے آپ کو یہودی کہتے ہیں، وہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے متبعین نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’مَا کَانَ إِبْرٰہِيْمُ يَہُوْدِيًّا وَّلَا نَصْرَانِيًّا وَّ لٰکِنْ کَانَ حَنِيْفًا مُّسْلِمًا وَ مَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِيْنَ إِنَّ أَوْلَی النَّاسِ بِإِبْرٰہِيْمَ لَلَّذِيْنَ اتَّبَعُوْہُ وَہٰذَا النَّبِيُّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاللہُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِيْنَ‘‘ (آلِ عمران: ۶۷-۶۸)
ترجمہ: ’’ ابراہیم (علیہ السلام) نہ تو یہودی تھے اور نہ نصرانی تھے، و لیکن (البتہ) طریق مستقیم والے (یعنی) صاحب اسلام تھے۔ اور مشرکین میں سے (بھی) نہ تھے۔ بلاشبہ سب آدمیوں میں زیادہ خصوصیات رکھنے والے (حضرت) ابراہیم کے ساتھ البتہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ان کا اتباع کیا تھا اور یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور یہ ایمان والے اور اللہ تعالیٰ حامی ہیں ایمان والوں کے۔‘‘
اس آیتِ کریمہ کی تفسیر یہ ہے کہ: ’’یہودی کہتے تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام یہودی تھے؛ اس لیے ہم یہودیت کو نہیں چھوڑ سکتے، عیسائی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو عیسائی قرار دیتے تھے، یہ دونوں باتیں صریحاً عقل کے اور مسلمہ تاریخی حقائق کے خلاف تھیں؛ کیوں کہ یہودیت اور عیسائیت کا تو وجود ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صدیوں بعد ہوا ہے، قرآن کریم نے یہاں اس نادانی پر متنبہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ اصولی بات یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام توحید کے علمبردار اور شرک سے متنفر اور بیزار تھے۔ اگر تم واقعی اُسوۂ ابراہیمی کو اختیار کرنا چاہتے ہو؛ تو اس دینِ توحید کا دامن تھام لو، جس کی دعوت محمد رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) دے رہے ہیں۔‘‘ (آسان تفسیر قرآن، حصہ اول، ص: ۲۴۷)
قرآن کریم کی ایک دوسری آیت ملاحظہ فرمائیں اور دیکھیں کہ سیدنا ابراہیم اور یعقوبn نے اپنی اولاد کو کیا وصیت کی تھی اور کیا آج کے یہودی اس وصیت پر عمل کر رہے ہیں؟! قرآن مجید میں ہے:
’’وَوَصّٰی بِہَا إِبْرٰہِيْمُ بَنِيْہِ وَيَعْقُوْبُ يٰبَنِيَّ إِنَّ اللہَ اصْطَفٰی لَکُمُ الدِّيْنَ فَلَا تَمُوْتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ‘‘ (البقرہ: ۱۳۲)
ترجمہ: ’’ اور اسی کا حکم کر گئے ہیں ابراہیم (علیہ السلام) اپنے بیٹوں کو اور (اسی طرح) یعقوب (علیہ السلام) بھی۔ میرے بیٹو! اللہ تعالیٰ نے اس دین (اسلام) کو تمہارے لیے منتخب فرمایا ہے، سو تم بجز اسلام کے اور کسی حالت پر جان مت دینا۔ ‘‘
قرآن کریم کی مزید ایک آیتِ کریمہ کی تلاوت کیجیے اور ذرا غور کیجیے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی امامت وقیادت اور میراث کا مستحق ہونے کے لیے صرف ان کی نسل سے ہونا کافی ہے یا اُن کی پیروی کرنا ضروری ہے؟ قرآن کریم میں ہے:
’’وَإِذِ ابْتَلٰٓی اِبْرٰہِيْمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ قَالَ إِنِّيْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِيْ قَالَ لَا يَنَالُ عَہْدِي الظّٰلِمِيْنَ‘‘ (البقرہ: ۱۲۴)
ترجمہ: ’’ اور جس وقت امتحان کیا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ان کے پروردگار نے چند باتوں میں اور ان کو پورے طور پر بجالائے (اس وقت) حق تعالیٰ نے (ان سے) فرمایا: میں تم کو لوگوں کا مقتدا بناؤں گا۔ انھوں نے عرض کیا: اور میری اولاد میں سے بھی کسی کسی کو (نبوت دیجیے) ۔ ‘‘
آیتِ مذکورہ بالا کی تفسیر میں درج ہے: ’’دوسری بات یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹے تھے، حضرت اسحاق اور حضرت اسماعیل (علیہما السلام)۔ حضرت اسحاق علیہ السلام ہی کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام تھے جن کا دوسرا نام اسرائیل تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے نبوت کا سلسلہ انہی کی اولاد یعنی بنی اسرائیل میں چلا آرہا تھا، جس کی بنا پر وہ یہ سمجھتے تھے کہ دنیا بھر کی پیشوائی کا حق صرف انہی کو حاصل ہے۔ کسی اور نسل میں کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو ان کے لیے واجب الاتباع ہو۔ قرآن کریم نے یہاں یہ غلط فہمی دور کرتے ہوئے یہ واضح فرمایا ہے کہ دینی پیشوائی کا منصب کسی خاندان کی لازمی میراث نہیں ہے، اور یہ بات خود حضرت ابراہیم علیہ السلام سے صریح لفظوں میں کہہ دی گئی تھی۔ انھیں جب اللہ تعالیٰ نے مختلف طریقوں سے آزمالیا اور یہ ثابت ہو گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم پر بڑی سے بڑی قربانی کے لیے ہمیشہ تیار رہے، انھیں توحید کے عقیدے کی پاداش میں آگ میں ڈالا گیا، انھیں وطن چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا، انھیں اپنی بیوی اور نوزائیدہ بچے کو مکہ کی خشک وادی میں تنہا چھوڑنے کا حکم ملا اور وہ بلاتأمل یہ ساری قربانیاں دیتے چلے گئے، تب اللہ تعالیٰ نے انھیں دنیا بھر کی پیشوائی کا منصب دینے کا اعلان فرمایا۔ اسی موقع پر جب انھوں نے اپنی اولاد کے بارے میں پوچھا تو صاف طور پر بتلا دیا گیا کہ ان میں جو لوگ ظالم ہوں گے یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کر کے اپنی جانوں پر ظلم کریں گے، وہ اس منصب کے حق دار نہیں ہوں گے۔ بنی اسرائیل کو صدیوں آزمانے کے بعد ثابت یہ ہوا ہے کہ وہ اس لائق نہیں ہیں کہ قیامت تک پوری انسانیت کی دینی پیشوائی ان کو دی جائے، اس لیے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم اب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے صاحبزادے یعنی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں بھیجے جارہے ہیں، جن کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دُعا کی تھی کہ وہ اہلِ مکہ میں سے بھیجے جائیں ۔ اب چونکہ دینی پیشوائی منتقل کی جارہی ہے، اس لیے اب قبلہ بھی اس بیت اللہ کو بنایا جانے والا ہے، جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا۔ ‘‘ (آسان ترجمۂ قرآن تشریحات کے ساتھ، ج: ۱، ص: ۹۴)
اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو یہ اطلاع دی کہ ’’امامت و قیادت‘‘ ان کی نسل اور کنبے میں سے ظالموں اور نافرمانوں کو نہیں دی جائے گی۔ آج جو خود کو بنی اسرائیل میں سے کہتے ہیں، وہ خدائی فرمان کے نافرمان ہیں؛ جب کہ مسلمان اللہ کے فرمان پر عمل کرنے والی اُمت ہے؛ لہٰذا ان کی امامت وقیادت کا حقدار مسلمان ہوگا۔
اگر بالفرض مان لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے جو وعدہ کیا، وہ ان کی نسل سے متعلق لوگوں کے لیے ہے؛ تو پھر تو بنی اسرائیل کے لیے یہ درست نہیں ہے کہ وہ اسے اپنی ذات تک محدود رکھیں؛ کیوں کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے ایک لڑکے سیدنا اسماعیل علیہ السلام بھی تھے۔ اس مفروضے کی بنیاد پر سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی نسل بھی اس وعدے کی مستحق ہوئی جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو کیا گیا۔ پھر وہ سارے عرب بھی اس وعدے کے مستحق ہوئے جو اپنے جدِ اکبر عدنان کے واسطے سے اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے ہیں۔ اسی عدنانی خاندان سے قریش ہے اور اسی قبیلۂ قریش سے سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہیں اور آج کے مسلمان محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہیں۔ یہ بات بھی بڑی دلچسپ ہے کہ اس سرزمین فلسطین کا وعدہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اس وقت کیا گیا تھا، جس وقت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں صرف حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش ہوئی تھی اور ان کو یہ وعدہ اسماعیل علیہ السلام کی طہارت وپاکیزگی کے وقت کیا گیا تھا، اور ان کی پیدائش کے چودہ سال بعد، سیدنا اسحاق علیہ السلام کی پیدائش ہوئی تھی؛ چنانچہ اس اعتبار سے بھی عرب اس وعدے کے زیادہ مستحق ہیں؛ کیوں کہ اسماعیل علیہ السلام کے واسطے سے سیدنا ابراہیم علیہ السلام عربوں کے بھی جد امجد ہیں، یہی نہیں بلکہ قرآن کریم نے تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو سارے مسلمانوں کے باپ کے طور پر پیش کیا ہے:
’’ہُوَ اجْتَبٰکُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْکُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّۃَ أَبِيْکُمْ اِبْرٰہِيْمَ ہُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِيْنَ مِنْ قَبْلُ وَفِيْ ہٰذَا‘‘ (الحج: ۷۸)
ترجمہ: ’’ اس نے تم کو ( اور امتوں سے) ممتاز فرمایا ہے اور (اس نے) تم پر دین (کے احکام) میں کسی قسم کی تنگی نہیں کی، تم اپنے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی (اس) ملت پر (ہمیشہ) قائم رہو۔ اس اللہ نے تمہارا لقب مسلمان رکھا ہے (نزول قرآن سے) پہلے ہی اور اس (قرآن) میں بھی ۔ ‘‘
جہاں تک فلسطین کی سرزمین پر حکمرانی کا تعلق ہے؛ تو بنی اسرائیل کی حکومت فلسطین میں ایک معمولی مدت کے لیے رہی ہے اور اس میں اہم مدت سیدنا سلیمان علیہ السلام کے اقتدار کی مدت ہے۔ اب رہی بات فلسطین پر مسلمانوں کے اقتدار کی؛ تو وہ زمانۂ خلافت عمری یعنی سن ۶۳۶ عیسوی سے تقریباً ۱۹۱۷ء عیسوی تک رہی۔ اس طویل مدت میں، ۸۸ سال تک صلیبیوں کی حکومت رہی۔ اس ۸۸ سالہ مدت کو نکالنے کے بعد مسلمانوں نے فلسطین پر تقریباً بارہ صدیوں تک حکومت کی ہے۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ یہودیوں کی بڑی تعداد فلسطین سے سن ۱۳۵ عیسوی میں ہجرت کرگئی۔ جس وقت فلسطین مسلمانوں کے زیرِ تسلط آیا، اس وقت وہاں کوئی یہودی نہیں تھا۔ اس طرح تقریباً اٹھارہ صدیوں تک فلسطین سے یہودیوں کا کوئی تعلق نہیں رہا؛ جب کہ عرب فلسطینی یہودیوں سے پہلے ان کے ساتھ، پھر ان کے بعد بھی فلسطین کے باشندے رہے اور اب بھی ہیں۔ بیسویں صدی کے اوائل میں حکومت برطانیہ کے فلسطین پر مینڈیٹ کی مدت میں ایک سازش کے تحت یہودیوں کو دوسرے ممالک سے لاکر فلسطین میں بسایا جانے لگا۔ عرب لوگ تقریباً ساڑھے چار ہزار سال سے فلسطین میں رہتے آرہے ہیں اور انھوں نے اس سرزمین کو چھوڑ کر کسی مقام کی طرف ہجرت نہیں کی؛ چنانچہ عرب فلسطین کے اصل باشندے ہیں۔ جب سن ۱۹۴۸ء میں، غاصب قابض صہیونی ریاست کے قیام کا وقت آیا؛ تو صہیونیوں نے ظلم و جبر کی ساری حدیں پار کردیں اور فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد کو ہجرت کے لیے مجبور کیا۔ صہیونیوں نے جن فلسطینیوں کو سن ۱۹۴۸ عیسوی میں مجبور کرکے فلسطین سے بھگایا، وہ آج بھی اپنے حق سے دست بردار نہیں ہوئے ہیں؛ بلکہ وہ منتظر ہیں کہ انھیں موقع ملے اور وہ اپنے وطن فلسطین واپس آئیں۔
تاریخی اعتبار سے ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا آج کے یہودی وہی بنی اسرائیل ہیں جن کے جد امجد سیدنا ابراہیم علیہ السلام ہیں؟ اس سوال کا مختصر جواب ہے: ’’نہیں‘‘، یہ اس لیے کہ بعض یہودی محققین و مؤرخین کی تحقیق یہ ہے کہ آج کے اسّی فیصد سے زیادہ یہودیوں کا بنی اسرائیل یا فلسطین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان میں ایک آرتھر کوسٹلر جیسے یہودی مؤرخ بھی ہیں، انھوں نے ایک کتاب: (The Thirteenth Tribe : The Khazar Empire & Its Heritage) یعنی ’’تیرہواں قبیلہ: خزر سلطنت اور اس کا ورثہ‘‘ لکھی ہے۔ یہ کتاب سن ۱۹۷۶ عیسوی میں شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب کے مصنف کوسٹلر نے یہ ثابت کیا ہے کہ اشکنازی یہودی کا نسب خزر قوم سے ہے۔ اس کتاب میں یہ نکتہ واضح کیا گیا ہے کہ ’’اشکنازی یہودی‘‘ قدیم زمانے کے بنی اسرائیل سے نہیں ہیں؛ بلکہ ان کا تعلق خزر قوم سے ہے، جو ایک قدیم تاتاری ترکی قوم ہے۔ کوسٹلر کی یہ تحقیق ہے کہ خزر قوم نے آٹھویں صدی عیسوی میں یہودیت قبول کی۔ جب بارہویں اور تیرہویں صدی عیسوی میں خزر سلطنت کا خاتمہ ہو رہا تھا تو یہ لوگ جنوبی روس اور مشرقی یورپ کی طرف ہجرت کر گئے، چنانچہ اگر انھیں اپنے وطن اصلی کی تلاش ہے؛ تو ان کو جنوبی روس جانا چاہیے۔ (القضيۃ الفلسطينيۃ خلفياتہا التاريخيۃ وتطوراتہا المعاصرۃ للدکتور محسن محمد صالح، ص: ۲۷)
اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ یہودیوں کا یہ دعویٰ کہ فلسطین ارض موعود ہے، عیسائی اسکالرز کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ بنی اسرائیل سرکش اور نافرمان لوگ تھے، انھوں نے اللہ اور اس کے نبیوں اور رسولوں کی نافرمانی کی اور اللہ نے ان کو سزا دی۔ اللہ تعالیٰ نے فلسطین کی سرزمین بنی اسرائیل کو اس وقت دی؛ جب انھوں نے انبیاء ورسل (o) کی قیادت میں توحید کا جھنڈا بلند کیا اور جب انھوں نے اللہ کی نافرمانی کی تو وہ اس سرزمین کے مستحق نہیں رہے۔ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے بعد مسلمان اللہ کی وحدانیت کے سچے علم بردار ہیں؛ چنانچہ وہ انبیائی میراث اور سرزمینِ فلسطین کے حقیقی وارث ہیں۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی امامت وقیادت اور میراث کا مستحق ہونے کے لیے ان کی نسل سے ہونا ضروری نہیں ہے؛ بلکہ ان کی پیروی کرنا ضروری ہے۔ جس طرح سیدنا ابراہیم علیہ السلام بنی اسرائیل کے جدِ امجد ہیں، اسی طرح ان عربوں کے بھی جد امجد ہیں جو اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے ہیں۔ فلسطین پر بنی اسرائیل نے ایک مختصر مدت کے لیے حکومت کی؛ جب کہ مسلمانوں نے تقریباً بارہ صدیوں تک حکومت کی۔ آج جو لوگ خود کو یہودی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، ان میں اسّی فیصد سے زیادہ لوگ بنی اسرائیل سے نہیں ہیں؛ بلکہ ان کا تعلق ’’خزر‘‘ قوم سے ہے جو ایک قدیم تاتاری ترکی قوم تھی، جس نے آٹھویں صدی عیسوی میں یہودیت قبول کی۔ کنعانیوں کی اولاد یعنی عرب فلسطین کے حقیقی باشندے اور اصل حقدار ہیں؛ کیوں کہ وہ ساڑھے چار ہزار سال سے فلسطین میں رہتے آرہے ہیں۔