الحمد للہ وسلامٌ علٰی عبادہ الذین اصطفٰی
ایمان، اخلاص، اتحاد اور استقامت ایسے اَساسی اور بنیادی اصول واوصاف ہیں کہ جن پر عمل پیرا ہونے میں کسی بھی قوم اور کسی بھی خطہ کی آزادی اور کامیابی و کامرانی جلد یا بدیر ضرور اُن کا مقدر بن جاتی ہے، چاہے حالات اس قوم اور خطہ کے موافق ہوں یا ناموافق۔
اہلِ فلسطین‘ اسرائیل کے غاصبانہ قبضے اور تسلط کے دن ہی سے جبر، ظلم اور فسطائیت کی چکی میں پستے آرہے ہیں۔ ۷ ؍ اکتوبر ۲۰۲۳ ء کو فلسطینی دفاع کار حماس نے اپنے دفاع کا حق بھرپور استعمال کیا اور ایک مؤثر جوابی اقدام کیا، جس کے نتیجے میں اسرائیل کے نوے سے زیادہ فوجی اور غیر فوجی لوگوں کو اس لیے حماس نے یرغمال بنایا، تاکہ فلسطینی جن میں مرد، عورت اور بچے شامل ہیں، بغیر کسی قصور اور گناہ کے اسرائیل کی قید میں ہیں، اُن کو رہا کرایا جائے۔ بجائے اس کے کہ اسرائیل ۷؍ اکتوبر کے اس راست اقدام کے متصل بعد ہی اس مطالبہ کو مان لیتا، اُلٹا اس نے مظلوم فلسطینی عوام پر بم اور بارود کی آگ برسانا شروع کر دی، جس میں محتاط اندازے کے مطابق سینتالیس ہزار سے زیادہ افراد شہید، ایک لاکھ سے زیادہ زخمی اور لاکھوں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ غزہ کی پوری آبادی کے گھروں اور بلڈنگوں پر بمباری کر کے اور بارود برسا کر کھنڈرات میں تبدیل اور تباہ و برباد کر دیا، لیکن یہ تمام مصائب حماس کے مجاہدین اور عوام کے حوصلے اور عزم کو پست کرکے شکست نہیں دے سکے، وہ دہشت گرد اسرائیل جو حماس کو ختم کرنے کی اور غزہ کو فتح کرنے کی باتیں کر رہا تھا، اس کو اپنے مذموم مقاصد میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور اسی حماس سے اُن کی شرائط پر مذاکرات اور معاہدہ کرنا پڑا جو غزہ کے مظلوم عوام کی استقامت اور لازوال قربانیوں کی عظیم فتح ہے۔
حالانکہ ایک وقت تھا کہ اسرائیل کے وزراء اور حکومتی عہدیداروں نے غزہ کو مکمل طور پر مٹانے، اس کے تمام باشندوں کو جِلاوطن کرنے،اہلِ غزہ پر ایٹم بم گرانے، یہودیوں کو غزہ میں آباد کرنے جیسے اقدامات کی سرتوڑ کوشش کی، نیز غزہ میں فوجی حکومت قائم کرنے، غزہ کے کچھ قبائل اور خاندانوں کو مقامی انتظامیہ تشکیل دینے پر آمادہ کرنے کی ترغیب و تحریض، غزہ میں امدادی سامان کے ٹرکوں پر منظم حملےکرا کراندرونی افراتفری اور انتشار پھیلانے کی لاحاصل سعی کی، شمالی غزہ کو فوجی زون قرار دینے اور باقی ماندہ آبادی کو جنوب کی طرف منتقل کرنے، اور ہر قسم کی انسانی امداد کی ترسیل روک کر انہیں بھوکا مارنے جیسے منصوبے بنائے گئے۔ اسرائیلی فوج نے غزہ میں عوامی سیکورٹی اداروں، داخلی سیکورٹی فورسز، ایمرجنسی کمیٹیوں اور پولیس کو بطور خاص ہدف بنایا، لیکن ’’ جسے اللہ رکھے، اُسے کون چکھے ‘‘ کے مصداق اسرائیل کے تمام منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے ۔
اِدھر حماس نے ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ ء کے حملے میں جو نتائج، مقاصد اور فوائد حاصل کیے، وہ درج ذیل ہیں:
1: فلسطینی دفاع کار حماس نے اس حملہ سے یہ ثابت کیا کہ اسرائیل جو اپنےآپ کو ناقابلِ شکست گردانتا تھا، اسے اللہ تعالیٰ پر توکل، اعتماد،ایمانی قوت، صبر اور قربانی سے شکست دی جا سکتی ہے ۔
2 : حما س نے دنیا کو پیغام دیا کہ ظلم کے خلاف ڈٹ جانے والے ہمیشہ سرخرو ہوتے ہیں اور ظالم رسوا وناکام رہتا ہے ۔
3 : حماس نے اس حملے کے ذریعے دنیا بھر کے سامنے فلسطینی عوام پر ہونے والے جبر و ظلم کو بےنقاب کیا اور دنیا کو بتایا کہ غزہ کے مظلوم عوام اپنے حقوق، اپنی سرزمین اور قبلہ اول سے دستبردار ہونے کے لیے قطعاً تیار نہیں ۔
4 : حماس نے اسرائیل کے دفاعی نظام اور فوجی منصوبہ بندی کو ناکام کر کے پیغام دیا کہ حماس عملی میدان میں نہ صرف یہ کہ ایک مضبوط اور ناقابلِ شکست طاقت بن چکا ہے، بلکہ وہ کسی بھی وقت اسرائیل کو ناکوں چنے چبوا سکتا ہے۔
5 : حماس کے اس حملے سے عالمِ اسلام متحد ہوا، بلکہ دنیا بھر کو اہلِ غزہ کی مظلومیت کا احساس دلایا، جس سے عالمی برادری میں ہمدردی اور حمایت حاصل ہوئی، دنیا کے کئی ممالک اور عوام نے فلسطینی عوام کے حق میں آواز بلند کی اور اسرائیل کی ظالمانہ پالیسیوں کی مذمت کی ۔
6 : اسرائیل کا سب سے بڑا مقصد حماس کی مزاحمت کو مکمل طور پرختم کرنا تھا، لیکن حماس پہلے سے زیادہ مضبوط اور منظم ہو کر اُبھری۔
7: غزہ کے لوگ اپنی زمین اور آزادی کے لیے پہلے سے زیادہ پر عزم ہیں۔ اسرائیل نے پوری کوشش کی کہ دنیا کو اپنے حق میں کرے، لیکن اس کے ظلم اور جوروجفا نے اُسے عالمی سطح پر تنقید اور مذمت کا نشانہ بنایا۔ اسرائیل اب نہ صرف یہ کہ سیاسی بلکہ اخلاقی طور پر بھی شکست خوردہ بن گیا ہے۔
8: اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے ۲۰۲۳ء میں جو کہا تھا کہ ہم حماس کو ختم کردیں گے، ۲۰۲۵ء میں وہی نیتن یاہو کہہ رہا ہے کہ ہم اس معاہدے کو تسلیم کرتے ہیں اور ہم حماس کے جواب کے منتظر ہیں۔ آپ اندازہ لگائیں کہ اس جنگ میں کون جیتا اور کون ہارا !
دنیا بھر کے عوامی مظاہروں، اسرائیلی عوام کے اپنی ہی حکومت کے خلاف احتجاج اور عالمی برادری کے دبائو کے نتیجے میں اقوامِ متحدہ اور امریکانے مصر اور قطر کو شامل کرکے حماس اور اسرائیل کے مابین معاہدہ کی نہ صرف یہ کہ تجویز پیش کی، بلکہ اس معاہدے کے گارنٹر بھی بنے اور اس پر عمل در آمد بھی ہوا۔ یہ ابتدائی جنگ بندی معاہدہ ۴۲ دن پر مشتمل ہوگا، جس میں حماس نے درج ذیل شرائط عائد کیں کہ:
1: امدادی سامان کو غزہ میں داخل ہونے دیا جائے گا جو روزانہ ۶۰۰ گاڑیوں پر مشتمل ہوگا۔ 2:حماس فی الحال ۳۰؍ اسرائیلی آزاد کرے گا اور ہر ایک اسرائیلی کے آزاد کرنے پر اسرائیل ۵۰؍ فلسطینی آزاد کرے گا۔ 3: شمالی غزہ کے افراد بغیر کسی تلاشی اور بغیر کسی چیک پوسٹ پر رکاوٹ کے اپنے گھروں میں واپس آئیں گے۔ 4:اسرائیل غزہ سے مکمل انخلا کرے گا۔
حماس نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ: جنگ بندی معاہدے کے اعلان اور غزہ کی پٹی پر جارحیت پر جنگ بندی معاہدہ ہمارے عظیم فلسطینی عوام کی شاندار ثابت قدمی اور غزہ کی پٹی میں ۱۵؍ ماہ سے زائد عرصے سے جاری ہماری بہادرانہ مزاحمت کا ثمر ہے۔ غزہ پر جارحیت روکنے کا معاہدہ ہمارے عوام، ہماری مزاحمت، ہماری قوم اور دنیا کے آزاد لوگوں کے لیے ایک کامیابی ہے۔ یہ ہمارے لوگوں کی آزادی اور واپسی کے اہداف کو حاصل کرنے کے راستے پر دشمن کے ساتھ تصادم کا ایک اہم موڑ ہے۔ یہ معاہدہ غزہ کی پٹی میں ہمارے ثابت قدم اور صابر عوام کے تئیں ہماری ذمہ داری سے آیا ہے کہ وہ ان کے خلاف صیہونی جارحیت کو روکیں اور اس خونریزی، قتلِ عام اور تباہی کی جنگ کا خاتمہ کریں، جس کا انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہم غزہ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے والے، ہمارے ساتھ کھڑے ہونے اور قبضے کو بے نقاب کرنے اور جارحیت کو روکنے میں تعاون کرنے والے، عرب، اسلامی، بین الاقوامی، اور ثالث بھائیوں کا خصوصی شکریہ ادا کرتے ہیں، جنہوں نے اس معاہدے تک پہنچنے کے لیے بھرپور کوششیں کیں۔
القسام بریگیڈ کے ترجمان ابو عبیدہ نے اپنی ایک جاری کی گئی تقریر میں کہا کہ: ہمارے عوام کی عظیم قربانیاں اور خون رائیگاں نہیں جائے گا، ہمارے لوگوں نے ۴۷۱ دنوں میں اپنی آزادی اور مقدس مقامات کے لیے بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ ’’طوفان الاقصیٰ‘‘ غزہ کے مضافات سے شروع ہوا، لیکن اس نے خطے کا چہرہ بدل کر رکھ دیا اور اسرائیل کے ساتھ تنازع میں نئی مساواتیں متعارف کرائیں۔ ’’طوفان الاقصیٰ‘‘ نے نئے جنگی محاذ کھولے اور اسرائیل کو اس کی حمایت کے لیے بین الاقوامی افواج کا سہارا لینے پر مجبور کیا۔ ’’طوفان الاقصیٰ‘‘ نے دنیا کو پیغام دیا کہ (اسرائیل کا) یہ قبضہ ایک بہت بڑا جھوٹ ہے اور اس کے خطے پر بڑے اور بُرے اثرات مرتب ہوں گے۔ ہم نے تمام مزاحمتی دھڑوں کے ساتھ غزہ کی پٹی میں ہر جگہ ایک صف کی طرح لڑا اور دشمن کو مہلک ضربیں لگائیں۔ ہمارے فوجی جنگ کے آخری لمحات تک بڑی بہادری اور حوصلے کے ساتھ لڑے اور ہم ایسے حالات میں لڑ رہے ہیں جو ناممکن نظر آتے ہیں۔ ہمیں ایک غیر مساوی تصادم کا سامنا تھا، جنگی صلاحیتوں کے لحاظ سے بھی اور جنگی اخلاقیات کے لحاظ سےبھی۔ جب ہم اپنے حملوں کا رخ صرف دشمن قوتوں پر کر رہے تھے، انہوں نے ہمارے لوگوں کے خلاف بربریت اور مظالم کے نئے گھناؤنے طریقوں کا ارتکاب کیا۔ اس جنگ کی عظمت اس کے قائدین کی شہداء کے قافلوں میں پیش رفت سے ظاہر ہوتی ہے، جن کی سربراہی ہنیہ، العروری اور سنوار کر رہے تھے۔ یہ مجرمانہ دشمن اس خطے میں لعنت کی جڑ ہے۔ تمام کوششوں اور منصوبوں کو اس بات پر مرکوز ہونا چاہیے کہ اسے کیسے روکا جائے؟ اس ہستی کو خطے میں ضم کرنے کی تمام کوششوں کا مقابلہ بیداری کے سیلاب اور آزاد لوگوں کی مزاحمت سے کیا جائے گا۔ آج مغربی کنارے میں ہمارے لوگوں پر ذمہ داری بڑھ رہی ہے اور بہادری اور استقامت میں غزہ کی روح کی بہن جینین کو خصوصی سلام۔ اپنے عوام کے خلاف صیہونی جارحیت کو روکنے کے لیے ایک معاہدے تک پہنچنا، جارحیت کے آغاز ہی سے کئی مہینوں سے ہمارا ہدف رہا ہے۔
اس معاہدے کے نتیجے میں حماس نےتین یرغمالی عورتوں کو ریڈکراس کے حوالے کیا اور دوسری طرف اسرائیل نے نوے قیدی فلسطینیوںکو آزاد کیا۔ اس معاہدہ کے بعد کئی اسرائیلی وزراء نے استعفیٰ دے دیا اور اس معاہدہ کی توثیق کے وقت کئی صیہونی وزراء کو روتے ہوئے بھی دکھایا گیا، یہاں تک کہ ایک خبر یہ بھی آئی ہے کہ اسرائیل کے آرمی چیف نے حماس کے مقابلے میں اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا ہے۔ گویا اسرائیل کے لوگ بھی مان رہے ہیں کہ یہ معاہدہ ہماری شکست کے مترادف ہے، جیسا کہ اخباری اطلاعات کے مطابق موساد سربراہ نے کہا کہ: میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ نہایت ہی کڑوا گھونٹ ہے، مگر اسرائیل اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ اب اسے پیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔
بہرحال! پندرہ ماہ سے جاری جنگ میں وقفہ آگیا۔ مستقبل میں بھی اللہ تعالیٰ ہمارے فلسطینی بھائیوں اور فلسطینی دفاع کار حماس کے مجاہدین کی حفاظت اور مدد و نصرت فرمائے۔ تمام عالم اسلام اس عظیم فتح اور اس انعامِ خداوندی پر شکرانہ کے نوافل ادا کرے اور اس معاہدہ کی تکمیل کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔ اہلِ ثروت احباب جس طرح پہلے اہلِ غزہ اور فلسطینی مظلوم بھائیوں کی مدد و نصرت کر رہے تھے، ان کی مسمار گھروں کو واپسی، تباہ شدہ غزہ کی بحالی، بے گھر اور بے سر و سامان افراد کے لیے ضروریاتِ زندگی کی فراہمی ایک بنیادی اور اہم مرحلہ ہے، اس مرحلہ میں بھی پہلے سے زیادہ بھرپور کوشش کر کے اس جہاد میں عملی حصہ ڈال کر اُن کی مدد و نصرت اور تعاون میں اضافہ کیا جائے، جس سے یقیناً اللہ تعالیٰ خوش ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ دنیا بھر کے مظلومین کی مدد فرمائے، ان کی مشکلات کو دور فرمائے۔ اہلِ کشمیر کو بھی اللہ تعالیٰ آزادی نصیب فرمائے اور ہماے ملک پاکستان کو بھی ہر اعتبار سے استحکام نصیب فرمائے، آمین بجاہ سیدالأنبیاء والمرسلین!
وصلی اللہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد و علٰی آلہٖ و صحبہٖ أجمعین