بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

بینات

 
 

فلسطینی ریاست تسلیم کیے جانے کا خیر مقدم!


فلسطینی ریاست تسلیم کیے جانے کا خیر مقدم!

الحمد للہ وسلامٌ علٰی عبادہ الذین اصطفٰی

اسرائیل کے ناجائز قبضہ اور تسلط کے خلاف ۸؍اکتوبر ۲۰۲۳ء سے حماس کی جانب سے شروع کیے جانے والا ’’طوفان الاقصیٰ‘‘ دھیرے دھیرے فلسطین کی آزادی اور خود مختاری کی جانب گامزن ہے۔ قضیۂ فلسطین جس کو عالمی برادری تقریباً بھول چکی تھی یا اس کو جان بوجھ کر طاقِ نسیان کی نذر کر چکی تھی، ’’طوفان الاقصیٰ‘‘ نے اس کو اپنی تابناک اور لازوال قربانیوں کی بدولت پھر سے نہ صرف یہ کہ زندہ کیا، بلکہ دنیا بھر کے ممالک کے عوام کو بھی آزادیِ فلسطین کی تحریک کا پشتیبان بنادیا۔ اب دنیا بھر کے عوام اہلِ فلسطین کے خلاف اسرائیلی کارروائیوں کی ظالمانہ اور مجرمانہ نوعیت کو سمجھنے لگے ہیں۔ غزہ کے مسلمانوں کی عظیم قربانیوں کے ساتھ ساتھ اُن کی خود داری، حریتِ فکر اور ثابت قدمی نے مغربی دنیا میں افکار ونظریات اور سوچ وبچار کے اعتبار سے جو تحریک اور ہلچل برپا کی ہے، اس کے اثرات امریکا اور یورپ کی جامعات کے طلبہ تک بھی پہنچ چکے ہیں، پُر تشدُّد گرفتاریوں اور اخراج کے باوجود امریکی جامعات کے طلبہ کی اہلِ غزہ سے یکجہتی کی تحریک جاری ہے۔ اکثر اداروں میں احتجاجی کیمپ اُکھاڑ دیے گئے اور کئی جگہوں پر پولیس کی نگرانی میں اسرائیل نواز عناصر کی غنڈہ گردی عروج پر رہی، اس سب کے باوجود اس تحریک کو دبایا نہیں جاسکا۔ امریکا، یورپ اور دوسرے مغربی ممالک کے کالجز اور یونیورسٹیوں کے طلبہ اور طالبات کے فلسطین کے حق میں مظاہرے اور گرفتاریوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فلسطین میں چلنے والی آزادی کی تحریک کو سفید فام اقوام کے نوجوان طلبہ اور طالبات کی حمایت مل چکی ہے، جس کی بنا پر وہ اپنی ڈگریوں اور مستقبل کی پرواہ کیے بغیر فلسطین کی آزادی اور اہلِ غزہ پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم کے خلاف سراپا احتجاج بن چکے ہیں، جس کے اثرات بہت جلد ان ممالک کے ایوانوں میں بیٹھنے والے حکمرانوں کے دل اور دماغ کو دستک دیں گے اور وہ اس مقاومتی اور مزاحمتی تحریک کے مقابلہ کی تاب نہ لاتے ہوئے فلسطین کے بارے میں اپنی پالیسیاں بدلنے پر مجبور ہوںگے، جیساکہ یورپ کے تین ممالک: ناروے، اسپین اور آئرلینڈ نے اپنے عوام اور قوم کی سوچ اور فکر کی صحیح ترجمانی کرتے ہوئے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق یورپ کے تین ممالک اسپین، ناروے اور آئرلینڈ نے فلسطین کو ریاست تسلیم کرلیا ہے، ان ممالک کے اس فیصلے کا اطلاق ۲۸؍ مئی ۲۰۲۴ء سے ہوجائے گا۔ تینوں ممالک یورپی یونین کے رکن ہیں، ان ممالک کے اس فیصلے سے یورپی یونین کے دوسرے ممالک کی سوچ کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ اسی طرح ایک اور یورپی ملک سلوینیا نے بھی فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف نے ان ممالک کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے اور ناروے کے وزیر اعظم سے فون پر رابطہ کرکے ناروے کے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے فیصلے کو سراہا ہے اور اُمید ظاہر کی ہے کہ ناروے کا یہ اصولی فیصلہ ان بہادر فلسطینی عوام کے لیے اُمید اور یکجہتی کا مؤثر پیغام ثابت ہوگا، جو ۷۵ سال سے اسرائیل کے ظلم اور جبر کو برداشت کررہے ہیں۔
عالمی میڈیا کے حوالہ سے ملکی میڈیا نے بتایاہے کہ سعودی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ تینوں ممالک کے قابلِ ستائش اقدام سے بین الاقوامی اتفاقِ رائے کی تصدیق ہوتی ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ فلسطینی عوام کو حقِ خودارادیت کا موروثی حق حاصل ہے۔ دیگر ممالک کو بھی چاہیے کہ جلد از جلد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا موقف اختیار کریں۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ایران کے سپریم کمانڈر آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ: دریا سے لے کر سمندر تک فلسطینی ریاست کے قیام کو تسلیم کیا جائے گا۔ ناروے کے وزیر اعظم جوناس گہرسٹور نے کہا کہ اگر فلسطینی ریاست کو تسلیم نہ کیاگیا تو مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہوسکتا، اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ناروے ۲۸؍مئی ۲۰۲۴ء تک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا۔ ناروے کے وزیر خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ فلسطینیوں کی نسل کشی پر عالمی عدالتِ انصاف نے اسرائیلی وزیر اعظم اور وزیرِ دفاع کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تو ناروے دونوں کو گرفتار کرلے گا ۔ اردن نے آئرلینڈ، ناروے اور اسپین کی طرف سے فلسطین کی ریاست تسلیم کرنے کے ایک مربوط اقدام کو فلسطینی ریاست کی جانب ایک اہم اور ضروری قدم قرار دیتے ہوئے اس کی تعریف کی اور کہا کہ ہم اس فیصلے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
اسی طرح حماس کے مجاہدین اور اہلِ غزہ کی قربانیوں نے اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک پر بھی اپنے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں، جہاں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ۱۰؍ مئی ۲۰۲۴ء کو عرب ممالک کی جانب سے متحدہ عرب امارات کی جانب سے پیش کردہ قرار داد دو تہائی اکثریت سے منظور کرلی، جس میں سلامتی کونسل سے فلسطین کی مکمل رکنیت پر مثبت غور کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ تحریک کے حق میں ۱۵۳ ؍ووٹ آئے۔ امریکہ، آسٹریلیا اور اسرائیل سمیت دس ممالک نے مخالفت میں ہاتھ بلند کیے، ۲۳؍ ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ اگرچہ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان جنہیں ویٹو پاور حاصل ہے، ان پر اس قرار داد کا بظاہر کوئی خاطر خواہ اثر نہیں ہوگا، تاہم عالمی برادری کی ایک سوچ اور زاویۂ نگاہ تو دنیا پر واضح ہوگیا کہ عالمی برادری کی اکثریت فلسطین کو ایک آزاد خود مختار ریاست دیکھنا چاہتی ہے۔ 
سوچنے کی بات ہے کہ ۸؍اکتوبر ۲۰۲۳ء سے جاری اسرائیلی وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں فلسطینی شہداء کی تعداد ۳۵؍ہزار سے زائد ہوگئی ہے، جب کہ زخمیوں کی تعداد ۸۰ ؍ہزار سے زائد ہے، ۲۰؍ لاکھ بےگھر ہوچکے ہیں، ان شہداء میں پچاس فی صد چھوٹے بچے اور خواتین ہیں۔ انسانی حقوق کے علم برداروں کو ان فلسطینی شہداء اور زخمیوں کی تعداد کیوں نظر نہیں آتی کہ اس پر اسرائیل کے خلاف اپنی آواز بلند کریں۔ ادھر امریکہ اور برطانیہ بجائے اس کے کہ اسرائیل کی ان وحشیانہ کارروائیوں کی مذمت کریں اور ان ظالمانہ کارروائیوں سے اُسے روکیں، اُلٹا وہ برابر اسے اپنا اسلحہ سپلائی کر رہے ہیں اور بین الاقوامی برادری کے سامنے ڈھونگ رچایا جارہا ہے کہ اسرائیل کے رفح پر حملہ کی بنا پر اس کے لیے اسلحہ کی سپلائی امریکہ نے روک دی ہے۔ حالانکہ تجزیہ نگار کہہ رہے ہیں کہ اس نے اسرائیل کو اتنا اسلحہ پہنچا دیا ہے کہ اب اس کے پاس اسلحہ رکھنے کی جگہ نہیں ہے، لیکن باور یہ کرایا جارہا ہے کہ امریکہ اسلحہ روک رہا ہے، بلکہ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ خفیہ طور پر اب بھی روزانہ اسلحے سے لدے تین جہاز اسرائیل کے پورٹ پر لنگر انداز ہو رہے ہیں۔
ادھر عالمی عدالتِ انصاف میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور اس کے وزیر دفاع کو جنگی مجرم قرار دینے اور سزا دینے کے کچھ آثار نمودار ہونے لگے، تو امریکہ نے عدالتِ انصاف پر دباؤ ڈالنے کے لیے اس کے پراسکیوٹر کے ذریعہ حماس کے تین راہنماؤں کے نام ڈالنے کے لیے درخواست عدالتِ انصاف میں جمع کرا دی، تاکہ انہیں بھی اس جنگ میں مجرم ثابت کیا جائے، تاکہ عالمی برادری کے انصاف پسند عوام کو پتا نہ چلے کہ اس جنگ میں ظالم کون ہے اور مظلوم کون ہے۔ ان حالات میں مسلم ممالک کو چاہیے کہ وہ اپنے اتحاد کا مظاہرہ کریں۔ فلسطینی مجاہدین کے پشتیبان بن کر فلسطین کو آزاد کرانے کی سنجیدہ کوششیں شروع کریں، مگر المیہ یہ ہے کہ اُمتِ مسلمہ کے حکمران اپنی روایات، تاریخ اور عقیدے ونظریے سے بہت دور ہو چکے ہیں۔ ان حکمرانوں کو تو اللہ تبارک تعالیٰ کے بعد فلسطینی مجاہدین کا شکر گزار ہونا چاہیے تھا کہ انہوں نے ان حالات میں بھی جہاں ان کے اپنے عرب ممالک اور مسلم امہ بھی بظاہر اغیار کی صفوں میں کھڑے نظر آتے ہیں، اپنی بے مثال مزاحمت اور شاندار مقاومت کے ذریعے اسرائیل کے ناقابلِ تسخیر ہونے کے مصنوعی تأثر کو توڑ کر رکھ دیا ہے۔ بہرحال عالمی برادری بھی اپنا فرض ادا کرے اور عالمِ اسلام بھی خوابِ غفلت سے بیدار ہوکر اپنے فلسطینی بھائیوں کی مخلصانہ مدد کرنے کے لیے کمربستہ ہوجائے تو ان شاء اللہ! ارضِ فلسطین کی آزادی کی منزل دور نہیں رہے گی۔

و ما توفیقي إلا باللہ، علیہ توکلت و إلیہ أنیب
وصلی اللہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد و علٰی آلہٖ و صحبہٖ أجمعین

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین